اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
دس
رحمتیں نازل ہوں گی
رسول
الله صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشا دفرمایا:مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا یعنی جو مجھ پر ایک بار دُرُود پڑھے،اللہ پاک اس پر
دس رحمتیں نازل فرمائے گا ۔ (مسلم،ص172،حدیث:912)
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب صَلَّی
اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
نیک ،اچھے اور کامیاب لوگوں کی ایک خوبی یہ
بھی ہوتی ہے کہ وہ خود سے تعلق رکھنے والوں کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں ………
اُن کے دل جیتنے والے ہوتے ہیں ………
اُن کے دل و دماغ پر راج کرتے ہیں ……… آخر وہ کونسی سی خوبیان ہیں جن کو اپنا کر
انسان ہر دل عزیز بن سکتا ہے حتی کہ دنیا سے جانے کے بعد بھی لوگ اُس کے
دیوانے نظرآتے ہیں ……… اگر آپ نے ہردلعزیزی کا فن سیکھ لیا تو آپ
کے گھر،آفس،شاپ ،فیکٹری ،اسکول ،کالج و یونیورسٹی الغرض ہرجگہ کا ماحول خوشگوار
رہے گا ……… بلکہ
شاہراہِ زندگی پر کامیابی کا سفر محفوظ وآسان ہوجائے گا ………
یہاں تک کہ پھر لوگوں میں آپ کا
چرچا ہوگا ……… لوگ آپ کی
مثالیں دیں گے ……… آپ جیسا بننے کی کوشش کریں گے ……… آپ عوام
کے لیے آئیڈیل پرسنالٹی بن جائیں گے……… اور دنیا وآخرت میں آپ کا نام روشن ہوگا
……… یہاں اختصار کے ساتھ قرآن وسنت اور بزرگوں کی سیرت سے حاصل شدہ کچھ سنہرے
اصول بیان کیے جاتے ہیں جن کو اپنا کر آپ
بھی اپنے وابستگان کے دلوں کی دھڑکن بن سکتے ہیں :
پہلا اصول:نیت کی درستی:
لوگوں کو اپنا بنانے میں نیت اچھی رکھیں……… جہاں
تعلق مضبوط وگہرا ہوگا اور محبت دائمی ہوگی وہاں ثواب بھی حاصل ہوگا……… بُری نیت
کے ساتھ اگرکسی کواپنا بنا بھی لیا جائے تو وہ تعلق عارضی ثابت ہوتا ہے ……… ذہن یہ
ہونا چاہیے کہ فلاں رشتے دار/دوست/مسلمان بھائی کو اللہ کریم کی رضاکے لیے اپنے قریب کروں گا ……… اپنی
یا اس کی اصلاح کروں گا ……… باہمی تعلقات
مضبوط کروں گا ……… اُسے مدد کی حاجت ہوگی تو مدد کروں گا ……… عائد ہونے والے حقوق ادا کروں گا ……… پس جب یہ تعلق خلوص پر مبنی ہوگا تو ہردلعزیزی کو بھی
دوام حاصل ہوگا۔
دوسرا اصول: سلام کرنے
کی عادت:
بوقت ملاقات اور آتے جاتے ملنے والے مسلمان
بھائیوں کو سلام کرنے کی عادت ڈالیں کہ یہ
بھی دلوں میں محبت پیدا کرنے کا زبردست ذریعہ ہے ……… حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک مؤمن نہ ہو
جاؤاور اس وقت تک( کامل) مؤمن نہيں ہو سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو، کیامیں
تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو؟ (وہ چیز یہ ہے کہ) تم آپس میں سلام
کو عام کرو۔(مسند احمد،حدیث:1412) ……… پھر یہ کہ ہر مسلمان کو سلام کریں خواہ آپ اُسے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ……… ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض
کی کہ اسلام میں کیا کام بہتر ہے ؟حضور
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:لوگوں کو کھانا کھلانا اور سلام کرنا خواہ تم اُسے
جانتے ہو یا نہ جانتے ہو۔(صحیح
بخاری،حدیث:6236) ……… اس
حوالے سے یہ بھی یاد رکھیں کہ لوگوں کو اپنا بنانے کے لیے سلام میں پہل کیا
کریں ……… ہمارے پیارے نبی ﷺ کی عادت
مبارکہ بھی یہی تھی کہ جس سے ملاقات ہوتی تو سلام میں پہل فرماتے ۔(شعب الایمان،حدیث:1430)
تیسرا اصول: حسن اخلاق
کا ہتھیار:
دلوں کو جیتنے کے لیے حسن اخلاق بہت بڑا
ہتھیار ہے……… جتنے بھی ہردلعزیز لوگوں کو ہم جانتے ہیں ان میں یہ بات مشترکہ طور پر پائی
جاتی ہے کہ سب کے سب حسن اخلاق کے پیکر ہیں ……… اور جو جتنا زیادہ حسن اخلاق والا
ہے لوگ اتنا ہی زیادہ اُس کے گرویدہ نظر آئیں گے……… سب سے بڑے حسن اخلاق کے پیکر ہمارے پیارے نبی حضور خاتم النبیین ﷺ ہیں ……… آپ کے حسن اخلاق کو دیکھ،سُن اور پڑھ
کر لاکھوں کروڑوں لوگ دامن اسلام سے
وابستہ ہوگئے اور رحمت عالم ﷺ کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ آپ کے نام پر تن من دھن قربان کرنے کے لیے تیار
ہوگئے……… لہذا والدین،رشتے داروں ، دوست احباب اور ہر ملنے والے کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں تو ہردلعزیزی آپ کا
مقدر بن جائے گی۔
چوتھااصول: لوگوں سے میل
جول:
اکیلا رہنے اورزیادہ تر وقت گوشہ تنہائی میں گزارنے کے بجائے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں……… ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ لوگوں سے
ملیں جلیں گے نہیں تو وہ آپ سے کیسے متاثر ہوں؟……… لوگوں سے میل جول رکھنا سنت انبیاء کرام علیہم السلام ہے……… بالخصوص
ہمارے نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے ……… اور یہی ہمارے بزرگوں کا طریقہ رہا ہے……… آپ حضور نبی پاک ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں گے تو
آپ کا یہ وصف روز روشن کی طرح عیاں ہوگا
کہ آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ بکثرت میل جول رکھنے والے ہیں ……… لہذا عزیز واقارب کے
ساتھ احسن انداز میں ملنا جلنا اُن کو آپ
کا گرویدہ بنا دے گا۔
پانچواں اصول: خوشی غمی
میں شرکت:
لوگوں کی خوشی اور غمی میں
شریک ہوں……… اگر سامنے والا خوشی کی کوئی خبر سنائے جیسے کوئی کہے کہ میرے ہاں
بیٹا پیدا ہوا ہے ……… یا میری جاب لگ گئی
ہے ……… یا میرا ویزہ لگ گیا ہے ……… یا میں
نے نیا گھر لیا ہے ……… یا نئی گاڑی خرید ی
ہے ……… یا میری منگنی ہوگئی ہے ……… یا
میری شادی ہونے لگی ہے وغیرہ ……… تو آپ
اُسے خوب خوشی کے ساتھ مبارک باددیں ……… کچھ نہ کچھ دعائیہ کلمات ضرور کہیں ……… ایسا کرنے سے اُس کے دل میں نہ صرف خوشی داخل ہوگی بلکہ آپ کی محبت بھی اس کے دل میں جگہ بنائے
گی یا مزید پختہ ہوجائے گی ……… اسی طرح اگر کوئی افسوس ناک اور غم کی خبر سنائے
مثلا وہ کہے کہ میرے فلاں عزیز کا انتقال ہوگیا ہے ……… یا میرا بچہ ہسپتال میں ایڈمیٹ ہے ………
یا میرے کاروبار میں نقصان ہوگیا ……… یا
میری گاڑی چوری ہوگئی ……… یا میری طبیعت
ناساز ہے ……… یا میرا ایکسڈنٹ ہوگیا وغیرہ ………
تو ایسے موقع پر اُس کے ساتھ دل سے اظہار
ہمدردی کریں ……… اُسے صبر وہمت کی تلقین
کریں ……… اُس کے لیے دعا کریں ……… اور ممکن ہوتو اُس کی مالی مدد کریں یاکسی
اور قسم کی مدد چاہے تو ضرور کریں ……… خبردار ایسی بات سن کرکسی قسم کا مذاق بالکل نہ
کریں اور نہ ہی ہنسی مذاق کریں……… ان شاء اللہ آپ کے ایسے سلوک سے لوگ آپ کے
گرویدہ ہوجائیں گے ۔
چھٹااصول:عاجزی ونرمی:
عاجزی،تواضع اورنرمی اپنائیں……… یہ تین خوبیاں بھی ہردلعزیز بننے
میں کافی مدد گار ہیں ……… نرمی رب کریم کو
پسند ہے……… اِسی کا اُس نے حکم فرمایا ہے
:وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ
الْمُؤْمِنِیۡنَ (پ19،الشعراء:215) ترجمہ :اور اپنی رحمت کا بازو بچھاؤ اپنے پیرو مسلمانوں کے لئے۔……… جبکہ رسول اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:إِنَّ
اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِى الأَمْرِ كُلِّهِ ترجمہ:بے شک اللہ پاک ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث:6024) ……… عاجزی وتواضع کرنے والے کو بلندمرتبے حاصل ہوتے ہیں……… حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:مَنْ تَوَاضَعَ
لِلّٰہِ رَفَعَهُ اللهُ یعنی جو اللہ پاک کے لیے تواضع وعاجزی کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے بلندی عطا فرمائے گا ۔(مشکوۃ المصابیح،حدیث:5119) ……… نرمی انسان کے کردار کو سنوارتی، مزین
کرتی اور خوبصورت بناتی ہے جبکہ
سختی شخصیت کو بدنما ،عیب داراور بدصورت
بنادیتی ہے ……… حدیث پاک میں ہے : نرمی جس شے میں آجائے اُسے سنوار دیتی ہے اور
جس سے نکل جائے اُسے عیب دار کردیتی ہے۔(صحیح مسلم،حدیث:4698) ……… انسانوں کی طبیعت مزین وخوبصورت شے کی طرف
مائل ہوتی ہے اوروہ بدنماوعیب دار چیز سے
دور بھاگتے ہیں ……… لہذا خود کو نرمی سے مزین وآراستہ کریں لوگ آپ کی طرف خود ہی
کھنچے چلے آئیں گے۔
ساتواں اصول:معاف کرنے
کی عادت
عفوودرگزر کو زندگی کا
حصہ بنائیں ……… کوئی ہمیں تکلیف پہنچائے،کسی شے سے محروم کردے،ہم پرظلم کرے یا کوئی حق تلفی کرے تو ہم اُسے معاف کردیں ……… یہ ایسا اصول ہے کہ لوگ اس خوبی کی وجہ سے
آپ کے گرویدہ ہوجائیں گے ……… رحمت عالم ﷺ کی مبارک سیرت میں یہ پہلو بھی بڑا عظیم
الشان تھا ……… اور ایک کمال خوبی تھی ……… آپ
اپنی ذات کے لیے انتقام وبدلہ نہیں لیتے تھے بلکہ ہمیشہ بُرائی کا بدلہ اچھائی سے
دیتےاور عفو و درگزر فرماتے (صحیح بخاری،حدیث:4461)……… خاص طور پر جب سامنے والا،غریب، کمزور اوربے بس ہو اُس وقت معاف کردینا اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے ……… بارگاہِ
رسالت میں عرض کی گئی:ہم اپنے خادم کو کتنی بار معاف کریں۔حضور نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا:ہردن میں 70بار معاف کردیا کرو۔(سنن ابوداود،حدیث:4496)……… جولوگ انتقامی
کاروائیاں کرتے ہیں ……… بدلے لیتے ہیں ………
اوراینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں وہ کبھی لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتے ……… اگرچہ بدلہ لینے کا حق اسلام میں
موجود ہے مگر ساتھ ہی ساتھ معاف کرنے کی ترغیب بھی بہت زیادہ دی گئی ہے ……… بدلہ
لینے میں یہ نقصان بھی ہوسکتا ہے کہ ہم خود پر ہونے والی زیادتی سے زیادہ بدلہ لے لیں اور دنیاوآخرت میں ہماری پکڑ ہو ……… الغرض
معاف کرنے کی بڑی اہمیت ہے ،یہ متقی
وپرہیزگار اور نیک لوگوں کا شعار ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَالْکٰظِمِیۡنَ الْغَیۡظَ وَالْعَافِیۡنَ عَنِ
النَّاسِؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ(پ4،ال عمران:134) ترجمہ :اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے
درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔……… معلوم
یہ ہوا کہ معاف کرنے والا ،درگزر سے کام لینے والا جہاں رب کریم کا پسندیدہ
ومحبوب بنتا ہے وہاں لوگوں کے لیے بھی
پسندیدہ اور ہردلعزیز شخصیت کا مالک
ہوجاتا ہے……… ہوسکے تو اس حدیث پاک کے
مظہر بن جائیں،ارشادِ رسول ﷺ ہے:جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو،جو تمہیں محروم
کرے تم اُسکو عطا کرو اورجو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کرو۔(مسند احمد، حدیث:17457)
آٹھواں اصول: عدل
وانصاف پر قائم رہنا:
عدل وانصاف کا دامن کبھی
نہ چھوڑیں……… بہن بھائیوں،اولاد،عزیز واقارب، دوستوں حتی کہ گھراورآفس کے ملازمین کے درمیان بھی
انصاف کے تقاضوں کو ہمیشہ مدنظر رکھیں……… کیونکہ بے انصافی اور ناانصاف شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں یہاں تک کہ اولاد کے درمیان بھی عدل وبرابری نہ کی جائے تو
اکثر بچے والدین سے نفرت کرنے لگتے ہیں ……… اگر جلد اُس کی تلافی نہ کی جائے تو
بسا اوقات بچے بڑے ہوکر باغی و نافرمان ہوجاتے ہیں ……… قرآن وسنت میں عدل وانصاف
کا بڑا درس دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُ بِالْعَدْلِ وَالۡاِحْسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی(پ14،النحل:90) ترجمہ: بیشک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف اور نیکی اور رشتہ داروں کے دینے کا۔……… کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دشمنی وعداوت کی وجہ سے انسان ناانصافی کرجاتا ہے ……… قرآن پاک میں اس
بات سے خاص طور پر منع فرمایا گیا ۔ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلہِ شُہَدَآءَ
بِالْقِسْطِ ۫ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعْدِلُوۡا ؕ
اِعْدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ
خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ (پ6،المائدۃ:8) ترجمہ :اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی
دیتےاور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو انصاف کرو وہ
پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔
پھر اگر آپ سربراہ ہیں تو عدل وانصاف کی اپنانے کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے ……… اگر عدل وانصاف پر قائم رہیں
گے دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی عزت وعظمت حاصل ہوگی……… حدیث شریف میں سایہ
عرش پانے والوں میں اُسے بھی شمار کیا گیا ہے ،فرمایا:وہ شخص جو لوگوں
پر حاکم ہواور مرتے دم تک عدل وانصاف سے کام لے۔(الکامل فی
ضعفاء الرجال،حدیث:2024) ……… خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ لوگوں کی نظروں
میں اچھا بننا چاہتے ہیں اور وہ آپ کی
شخصیت کے سحرمیں گرفتار ہوجائیں ، آپ کے قریب آنے میں خوشی محسوس کریں اور آپ
سے نفرت نہ کریں توسب کے ساتھ عدل وانصاف سے پیش آئیں ۔
نواں اصول: قول وعمل میں
یکسانیت:
شخصیت تضادات کا مجموعہ نہ ہو،غیرمنظم نہ ہواورآپ کے معمولاتِ زندگی میں جھول نہ ہو……… عمل قول کے مطابق ہو……… گفتگو
میں سچائی ہولہذا جھوٹ سے دور رہیں ……… لباس ،چہرہ،بال وغیرہ کے لحاظ سے اچھے ومناسب دکھائی دیں ……… حضورنبی پاک ﷺ نے فرمایا:اپنے کپڑے
دھوؤ،بالوں کو سنوارو،مسواک کرو،زینت اپناؤاور صفائی ستھرائی رکھو کیونکہ بنی
اسرائیل ایسا نہیں کرتے تھے تو ان کی عورتیں بدکاری میں مبتلا ہوگئیں۔ (کنزالعمال،حدیث:1717) ……… یوں ہی حضور نبی کریم ﷺ نے ایک بکھرے
بالوں والے کو اپنے بال اور داڑھی کے بال درست کرنے کا اشارہ فرمایا،وہ درست کرکے حاضر ہوا تو آپﷺ نے ارشادفرمایا: ألیس ہذا خیرا من أن یأتی أحدکم وہو ثائر
الرأس کأنہ شیطان یعنی
کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے۔(مشکوۃ المصابیح، حدیث:4486)
حرام تو حرام شبہ والی
چیزوں سے بھی خود کو دور رکھیں ……… بالخصوص تہمت والی جگہوں،افراد اور چیزوں سے
ہمیشہ اجتناب کریں……… آپ کی شخصیت میں بے مروتی جیسی مذموم صفت نہ ہو……… جو قدم اٹھائیں اپنی طاقت ،روابط اور آمدن دیکھ
کر ہی اٹھائیں کیونکہ اپنی گنجائش کے
مطابق پاؤں پھیلانا عقلمندی ہے ……… البتہ اپنی ضروریات کے مطابق اپنی آمدن میں
اضافے کی کوشش کرتے رہیں ……… آپ کے دل میں یہ جذبہ کارفرما نہ رہے کہ ہمیشہ لوگ
ہی آپ کی خدمت کریں بلکہ اپنی بساط بھر لوگوں کی خدمت اپنا شیوہ بنائیں۔حدیث پاک
میں ہے: خَیْرُالنَّاسِ
مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ یعنی لوگوں میں بہتر وہ
ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ (کنزالعمال، حدیث:44147)……… ڈکٹیٹرشپ والا مزاج لوگوں کو آپ سے دور کردے گا……… اپنی دولت وطاقت کے
بل بوتے پرعارضی طور پر لوگوں کے جسم قریب
کیے جاسکتے ہیں مگر دلوں کو زیر نہیں کیا جاسکتا ……… دلوں کو مائل کرنے کے لیے
اپنے اخلاق اچھے کرنے پڑتے ہیں ……… خوش اخلاق انسان سے لوگ ملنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
آپ کی گفتگو ہمیشہ اچھی ،پاکیزہ اورصاف ستھری
ہو……… شائستگی سے بات کریں۔ حدیث پاک میں ہے:الْكَلِمَةُ
الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ
ترجمہ:اچھی بات صدقہ ہے۔(صحیح بخاری،قبل
الحدیث:6023)……… کوئی
سوال پوچھے تو حکمت بھرے انداز میں جواب دیں ……… ایسا جواب ہرگز نہ ہوجس سے کوئی
فتنہ وفساد جنم لے یا کوئی بدمزگی پیدا ہو……… بیہودہ باتوں اور جاہل دوستوں سے
کوسوں دُور رہیں……… البتہ جاہل وناواقف لوگوں کی ایک حد میں رہتے ہوئے اصلاح ضرور
کرتےر ہیں ……… ادب وتہذیب کا دامن کبھی مت چھوڑیں ……… آپ کی بات چیت میں جھول نہ
ہو……… تصنع اور بناوٹ سے مکمل پرہیز کریں……… سیدھی اور کھری بات کریں……… ہاں اگر
کہیں مصلحت ہو کھری بات کے بجائے خاموشی
اختیار کریں تاکہ کسی کی دل آزاری یا نفرت وبیزاری کا سبب نہ بن جائے……… اپنے
خریدوفرخت ،لین دین اور کاروباری معاملات بالکل پاک وصاف اور سیدھے رکھیں ………
لین دین میں وعدہ ومعاہدہ کی بڑی اہمیت
ہوتی ہے لہذا اس کا خاص خیال رکھیں ……… اس سے نہ صرف کاروباری ترقی ملے گی بلکہ
آپ سے جڑے افراد دل وجان سے آپ کی عزت
کریں گے اور آپ کے گرویدہ رہیں گے۔
دسواں اصول: گھروالوں کا
دل جیتیں:
یہ اصول اپنے گھر کے ساتھ خاص ہے……… سب پہلے
والدین پھر بیوی اور اُس کے بعد بچے ……… یہاں اس اصول کے تحت کچھ طریقے بتائے جاتے
ہیں جن پر عمل کرنے کی صورت میں آپ کی گھریلوزندگی پُرسکون،عافیت وراحت اور
سلامتی والی بن سکتی ہے ……… آپ کے گھر والے آپ کے گرویدہ ہوجائیں گے ……… اور آپ پر جان چھڑکنے والے بن جائیں گے۔
(1)والدین کا دل کیسے
جیتیں؟
ماں باپ اللہ پاک کی بہترین نعمت ،عالیشان رحمت اور بے مثال عنایت ہیں……… لہذا ان کی قدر کریں
،کبھی ان کا دل نہ دکھائیں ……… بلکہ آپ اُن کا دل جیتنے کی بھرپور کوشش کریں اور آپ کی اس محبت واطاعت کے
سبب خود والدین آپ کے گروید ہوجائیں گے……… اگر آپ اُن کا دل جیتنا چاہتے ہیں
تو ہرجائز کام میں ہمیشہ اُن کی اطاعت
کریں……… کیونکہ ناجائز کام میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ۔حدیث پاک میں ہے:لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں
کسی کی اطاعت جائز نہیں۔(مشکوۃ المصابیح، حدیث:3696) ……… والدین کے سامنے اپنی آواز دھیمی رکھیں اور اُن کے ساتھ کبھی اونچی آواز میں بات نہ
کریں……… اُن سے بات کرتے وقت نگاہیں نیچی رکھنے کی کوشش کریں……… اُن سے گفتگو میں بُرے الفاظ یا القاب ہرگز استعمال
نہ کریں……… اُن کی بات نہ کاٹیں……… نہ
کبھی اُنہیں ٹوکیں ……… اور نہ ہی اُن کی باتوں اور اعمال پر بلاوجہ اعتراض کریں………
کبھی بھی اپنے قول یاعمل کے ذریعے والدین سے بیزاری یا اکتاہٹ کا اظہار نہ کریں ………
اُن کے ادب واحترام کے سبب اُن کی طرف کبھی پاؤں نہ پھیلائیں……… راہ چلتے ہوئے کبھی اُن سے آگے نہ نکلیں ……… یاد
رکھیں کہ اُن کے پیچھے رہنے ہی میں آپ کی عزت ہے۔
اپنے والدین کو وقت دیں ……… کہیں ایسا نہ ہو
کہ آپ دوستوں اور سوشل میڈیا کی دنیا میں کھو کر اپنے والدین کو بھول جائیں ……… روزانہ اُنہیں کچھ نہ کچھ وقت ضرور دیں ……… اُن
کے پاس بیٹھیں تو موبائل وانٹرنیٹ وسوشل میڈیا کو خود سے دُور کردیں ……… اُن کے
سامنے موبائل ہرگز ہرگز استعمال نہ کریں……… اُن کے ساتھ رسمی طور پر نہ بیٹھیں
بلکہ دوستوں کی طرح اُن سے حال دل کہیں،اُن کی سنیں……… گپ شپ لگائیں،اُن کی باتوں
سے لطف اندوز ہوں……… وہ کوئی بات یا واقعہ سنائیں تو ایسے سنیں جیسے پہلی بار سن رہے
ہیں اگرچہ پہلے بھی کئی بار سن رکھا ہو……… اُن کے چہروں کو محبت بھری نظروں سے
دیکھیں۔حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رَحمت کی نظر کرے تواللہ پاک اُس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور(یعنی مقبول حج )کا ثواب لکھتاہے
۔ صحابہ کرام نے عرض کی: اگرچِہ دن میں 100مرتبہ نظر کرے ؟ارشادفرمایا : نَعَمْ، اللہُ
اَکْبَرُ وَاَطْیَبُ یعنی ہاں ،اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے
اور سب سے زیادہ پاک ہے۔ ‘‘(شعب الایمان،حدیث:7856)یقینا اللہ کریم ہرشے پرقادر ہے، وہ جس قدر چاہے دے سکتا ہے،ہرگز
عاجز نہیں لہٰذااگر کوئی اپنے ماں باپ کی
طرف روزانہ 100مرتبہ تو کیا ایک ہزار بار بھی رَحمت کی نظر کرے تو وہ اُسے ایک
ہزارمقبول حج کا ثواب عنایت فرمائے گا۔
گھرکے معاملات میں والدین کو مرکزی حیثیت دیں
کہ آپ کے پاس موجود اللہ پاک کی ہرنعمت کا سبب آپ کے ماں باپ ہیں ……… کیونکہ تمام نعمتیں آپ کے وجود
سے ہیں اور آپ کا وجود والدین سے ہے……… اُن
کے مشوروں کو اہمیت دیں اور انہیں احساس دلائیں کہ آپ اُن کے مشوروں اور
تعاون سے اپنے کام سرانجام دیتے ہیں……… گھر
میں جب بھی پھل یا کھانے کی کوئی چیز لائیں سب سے پہلے انہیں پیش کریں……… بچوں کی چیزیں اورتحائف بھی والدین بالخصوص امی
جان کے ہاتھ سے تقسیم کروائیں ……… اُن کے
سامنے ایسی شے ہرگز مت کھائیں جس سے ان کا پرہیز ہو……… دوسرے شہر یا ملک سے گھر
لوٹیں توشرعی واخلاقی روکاٹ نہ ہونے کی
صورت میں سارا سامان اُن کے سامنے کھولیں ……… اپنے بیوی بچوں کی طرح اُن کے لیے
بھی قیمتی وخوبصورت تحائف لے کرآئیں ……… اگر تحفے اُن کے پسندیدہ ہوں تو سونے پر
سہاگہ ہے……… یہ اُن کا دل خوش کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے……… بیرون ملک یا بیرون
شہر رہنے والے گھر پر کال کریں تو پہلے والدین سے بات کریں ……… کاروبار یا جاب کی
وجہ سے گھر سے باہر رہنے والے کوشش کریں کہ والدین سے فون پر روزانہ چند منٹ
ضرور بات کر لیا کریں……… اس سے نہ صرف والدین کادل جیت سکیں گے بلکہ ماں باپ کی پیاری پیاری آواز اور اُن کی زبان
سے جاری ہونے والی اخلاص بھری دعاؤں سے
آپ کو ذہنی سکون اور راحت بھی ملے گی……… فیملی
کے ساتھ گھومنے پھرنے کا ارادہ ہوتو والدین کو بھی ساتھ لے کرجائیں ……… ایسا نہ ہو کہ انہیں گھر کی چوکیداری کے لیے چھوڑ کر خود
آؤٹنگ پرنکل جائیں ……… یا انہیں گھرکے کسی کونے میں پڑا رہنے دیں اور خود
اپنی زندگی میں مگن رہیں……… گھر میں اگر
کوئی جھگڑا وغیرہ ہوجائے تو آپ نہ فیصلہ کرنے والے بنیں اور نہ ہی فریق بنیں……… بلکہ
ایسی صورت میں نرمی ،صبر،خاموشی اورحکمت عملی سے کام لیں……… والدین کے سامنے دیگر
بہن بھائیوں کی شکایات سے حتی الامکان
پرہیز کریں……… اولاد کے درمیان پھوٹ ڈالنے والی باتوں سے اجتناب کریں۔
(2)بیوی کا دل کیسے
جیتیں؟
کچھ باتیں ایسی ہیں اگر
اُن پر عمل کیا جائے تو گھرمیں خوشگوار فضا قائم کی جاسکتی ہے ……… آپ جس طرح سے لوگوں کا دل جیتنا چاہتے ہیں یوں
ہی اپنی بیوی کا دل بھی جیتیں تاکہ آپ کی
گھریلو زندگی پرسکون ہوجائے اور گھر امن کا گہوارہ بنا رہے ……… حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:تم
میں سے بہتروہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لیے
بہتر ہے اور میں اپنے گھروالوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔(سنن ابن
ماجہ،حدیث:1967) ……… لہذا اپنی بیوی کے لیے بہتر
بنیں……… اُس کے ساتھ خیرخواہی والا معاملہ رکھیں ……… اورحسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں ……… پکارنے کے لیے بیوی
کا اچھا سا نام رکھیں……… موقع کی مناسبت سے اُسی پیارے نام سے پیار بھرےانداز میں اُسے پکاریں……… حضور سید
دوعالم ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوپیارومحبت سے کبھی ”حمیرا“ اور کبھی ”عائش“ کہہ کر پکارتے تھے……… کبھی کبھی بیوی کے حسن کی جائز تعریف بھی کرتے
رہا کریں……… وہ نیا سوٹ پہنے تو تعریف کریں……… موقع بموقع اُس کے ہاتھ کے پکے
کھانوں کی تعریف میں کنجوسی نہ کریں……… اُس کی برتھ ڈے یا میریج اینی ورسری کے
موقع پر کچھ نہ کچھ گفٹ ضرور دیں……… اُس کی پسند ،نا پسند کا خیال رکھیں……… کبھی
گھر میں کام زیادہ ہو تو اُس کا ہاتھ بٹادیا کریں……… اُسے دیکھ کر کبھی منہ نہ
بنائیں بلکہ اکثر مسکرا ئیں ……… مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے رہیں ……… وقتا فوقتا اُس کی دل جوئی کرتے
رہیں ……… اوراُسے نصیحت وتنبیہ کرنی ہو تو
حکمت کے ساتھ کیجئے۔
(3)اولاد کا دل کیسے
جیتیں؟
یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری وٹاسک ہے کہ آپ کے
بچے ہمیشہ آپ کے گرویدہ رہیں ……… اور آپ اُن کے لیے آئیڈیل ورول ماڈل بن جائیں ………
اس کے لیے چند بنیادی باتوں پر عمل ضروری ہے :
اپنے بچوں کو وقت دیں ……… انہیں خوش کریں،پیار
کریں ……… چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلیں،اپنے
ساتھ چمٹائیں اورکندھے پرسوار کریں ……… حضور نبی پاک ﷺ اپنے عظیم نواسوں حسنین
کریمین کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے تھے ……… بچوں کو خوش کرنا سنت نبوی ہے ……… اور ارشادِ
رسول اعظم ﷺہے: إن في الجنة دارا يقال لها دار الفرح، لا يدخلها إلا من
فرح الصبيان ترجمہ :بے شک جنت میں ایک گھر ہے جسے دار الفرح(خوشی کا
گھر) کہا جاتا ہے ،اُس میں وہی داخل
ہوگا جو بچوں کو خوش رکھتا ہے۔(کنزالعمال
،حدیث:6009) ………
بچوں کے ساتھ اُن کے کھیلنے ،ہنسنے ،بہلنے کی باتیں کریں ……… اُن کی دلجوئی اور
دلداری کا پورا پورا اہتمام کریں ……… کھیل
ہی کھیل میں بچوں کی تعلیم وتربیت کا
اہتمام کریں……… بچوں کے مابین عدل وانصاف قائم رکھیں ……… بیٹیوں اور بیٹوں کے
درمیان برابر ی کا معاملہ رکھیں ……… کوئی چیز یا نیا پھل بازار سے لائیں تو بیٹیوں کوپہلے دیں کیونکہ اُن کا دل بہت چھوٹا ہوتا ہے……… حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو بازار سے
اپنے بچوں کے لئے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان پر صدقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے
چاہيے کہ بیٹیوں سے ابتدا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو شخص اپنی بیٹیوں
پر رحمت وشفقت کرے وہ خوفِ خدا میں رونے والے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش
کرے اللہ تعالیٰ بروزِ قیامت اسے خوش کرے گا۔(فردوس
الاخبار،حدیث:5830) ……… بچوں کا جس جائزشے کا دل کرے انہیں دیں………
اُن کو بہلانے کے لیے کبھی جھوٹا وعدہ نہ
کریں کیونکہ بچوں سے بھی وہی وعدہ جائز ہے جس کو پورا کرنے کا ارادہ ہو……… مختلف
مواقع پر اُن کی عمرکے لحاظ سے جائز
کھلونے اور گفٹس دیتے رہیں ……… جب کبھی
سفر سے واپس آئیں تو بچوں کے لیے کوئی نہ
کوئی تحفہ ضرور لائیں۔