استاد اور
شاگرد کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ از بنت ندیم احمد،گلبہار ضلع سیالکوٹ
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک شاگرد اور استاد کو کیسا ہونا چاہیے احیاء
العلوم جلد اول میں امام غزالی رحمۃ الله علیہ نے استاد اور شاگرد کے متعلق تفصیلاً
بیان فرمایا ہے، طالب علم اپنی دنیوی مشغولیات کو کم کرے،اپنے گھر والوں اور وطن
سے دور رہے، کیونکہ یہ تعلقات اسے مشغول رکھتے اور طلب علم سے بھر دیتے ہیں۔ کیونکہ
ارشادِ خداوندی ہے: الله پاک نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے،کیونکہ جب
خیالات منتشر ہو جائیں تو حقائق جاننے میں کمی آجاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے، علم تجھے اپنا
بعض اس وقت تک نہ دے گا جب تک تم اس کو اپنا سب کچھ نہ دے دو،طالب علم کے متعلق تو
جان لیا اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے، اب استاد کے متعلق بھی امام غزالی کے کچھ
اقوال جان لیتی ہیں کہ ایک استاد کو کیسا ہونا چاہیے پھر ان شاء اللہ ہم استاد اور
شاگرد کے مابین باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے اس کے متعلق جانیں گی، استاد شاگردوں پر
شفقت کرے اور انہیں اپنے بیٹوں جیسا سمجھے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ میں تمھارے
لیے ایسا ہوں جیسے والد اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے۔
ميد
انى تحقيق:
استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اس پر میدانی تحقیق کے مطابق ہر
شخص کی رائے مختلف ہے،درج ذیل میں چند لوگوں کی سوچ کا تذکرہ کرتی ہوں۔
(1) ایک شخص کا کہنا ہے کہ استاد اور شاگرد کا تعلق ایسا ہونا چاہیے جیسا
کہ لو ہار کا تعلق لوہے کے ساتھ، اور سنار کا تعلق سونے کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ایسا مضبوط تعلق ہونا چاہیے کہ جیسےسنار سونے کے بارے
میں جیسا سوچتا ہے ویسی اس سے چیزیں بناتا
ہے، اس طرح ایک اُستاد بھی اپنے شاگرد کے متعلق جیسی سوچ رکھتا ہے ویسا اُن کو بنادے۔
(2) ایک شخص کا کہنا ہے،استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق ایسا ہو کہ اس میں گیپ
Gape نہ ہو یعنی کہ
شاگرد اپنے استاد سے ہر بات بلاجھجھک کہہ سکے،کوئی بھی مسئلہ ہوا ہے اپنی آنے والی زندگی میں، کوئی فیصلہ کرنا ہو وہ
اپنے استاد سے پوچھ سکے، یعنی میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرے لیے کیا بہتر ہے یعنی
استاد ایسا شفیق ہو کہ شاگرد اس سے مشورہ کر سکے۔
(3) استاد اور
شاگرد کا تعلق باپ اور بیٹے کی طرح ہونا چاہیے۔ مختلف اوقات میں جس طرح والدین کا
رویہ مختلف ہوتا ہے ان کا بھی ایسا ہو، جہاں نرمی سے کام ہو وہاں نرمی سے اور جہاں
سختی کرنی پڑے توسختی کر سکتا ہو۔جیسے اولاد والدین کی سختی پر اس کو بطورِ نصیحت
سمجھتے ہیں، استاد بھی اپنے شاگردوں سے ایسا ربط میں ہو کہ شاگرد بھی استاد کی سختی
کو نصیحت سمجھے اور یہ ذہن میں نہ لائے کہ میری Insult
ہوگئی۔
(4) استاد
اور شاگرد کے درمیان حساس رشتہ ہونا چاہیے کیونکہ کہا گیا ہے کہ اگر تم بادشاہ ہو تو پھر بھی استاد
اور والدین کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاؤ یعنی
دونوں کے درمیان شفقت وتعظیم ہونی چاہیے، استاد شفقت و احساس کرنے والا ہے تو شاگرد
بھی تعظیم کرنےو الا ہوگا۔باادب با نصیب
(5) استاد کا
اپنے شاگرد کے ساتھ اتنا نرم لہجہ بھی نہ ہو کہ استاد کو شاگرد استادہی نہ سمجھے بلکہ اعتدال ہو، ایک حد تک شاگردوں سے
محبت ہو کہ استاد استاد ہی رہے، استاد سے شاگرد اپنی ہر بات شیئر کرسکتا ہو ایسا
رویہ ہو کہ شاگرد استاد سے متنفر نہ ہو۔
(6) استاد کا
اپنے شاگرد کے ساتھ تعلق ایسا ہونا چا ہیے کہ دونوں میں سے کوئی بھی پریشان ہو تو
دونوں ایک دوسرے کے ہمدردبنیں،استاد کو شاگرد کا اور شاگرد کو استاد کا راز دار ہونا چاہیے۔
(7) استاد کو شاگرد کا روحانی باپ کا درجہ حاصل
ہے تو اس لحاظ سے دونوں کے مابین ایسا تعلق ہو کہ استاد شاگرد کی اولاد کی طرح تربیت
کرے،شاگردغلطیاں بھی کرے تو استاد اصلاح کرنا نہ چھوڑے، اُستاد اگر غلطی پر ہو تو
شاگرد کے ساتھ اس کا تعلق ایسا ہو کہ وہ اصلاح کرسکے، دونوں یعنی استاد اور شاگرد
خامیوں کو جہاں سے دیکھیں فل کرنے کی کوشش کریں۔
یہ تھی مختلف
لوگوں کی اُستاد اور شاگرد کے مابین باہمی تعلق کے متعلق سوچ،اب ہم امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ کے اقوال نقل کرتے ہیں کہ شاگرد اور استاد کے تعلقات کیسے ہونے چاہیے۔
لا
ئبریری تحقیق:امام
غزالی رحمۃ الله علیہ نے احیاء العلوم جلد
1 صفحہ 191 پر فرمایا: استاد شاگردوں پر
شفقت کرے استاد کا مقصود ہو کہ وہ شاگردوں
کو آخرت کے عذاب سے بچائے گا،جس طرح ایک باپ کی اولاد کا فرض بنتا ہے کہ وہ باہم ایک
دوسرے سے محبت کریں اور تمام مقاصد میں ایک دوسر ے سے تعاون کریں ایسے ہی استاد کے شاگردوں کا حق بنتا
ہےکہ آپس میں پیار محبت سے رہیں، یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہےکہ جب ان کا مقصد آخرت ہو،جب عام شہروں کی طرف جانے والے مسافروں
کے درمیان نرمی ایک دوسرے سے محبت کا ذریعہ ہے تو پھر فردوسِ اعلیٰ کی طرف سفر اور
اس راستے میں نرمی کتنی ہونی چاہیے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان نرمی کا معاملہ ہوتا کہ استاد جو شاگرد کو دینا
چاہے وہ دے سکے۔
استاد نبیِ کریمﷺ
کی پیروی کرے،خالصتا اللہ کی رضاکے لیے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے علم سکھائے۔
شاگرد کے ساتھ استاد کا تعلق ایسا ہو کہ نصیحت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ جس قدر
ممکن ہو اس کے دل میں اس چیز کی خرابی کا تصور پختہ کرے کیو نکہ بد عمل عالم کا فساد
اس کی اصلاح سےزیادہ ہوتا ہے، استاد اور
شاگرد کے درمیان تعلق ایساہو کہ وہ ان میں خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی پیدا کرسکے۔
استاد اورشاگرد
کے مابین تعلق ایسا ہوکہ استاد اپنے حقوق کو اورشاگرد اپنے حقوق کو سمجھے،استاد کی
ذمہ داری ہے کہ جس قدر ممکن ہو شاگرد کو برے اخلاق سے اشارۃً منع کرے، صراحتاً نہ
روکے، پیار محبت سے منع کرے، جھڑک کر منع نہ کرے، کیونکہ واضح لفظوں میں ملامت
کرنے سے ہیبت کا پردہ چاک ہوجاتا ہےاور مخالفت کی جرأت پیدا ہوجاتی ہے، اور وہ منع
کردہ بات پر اصرار کرنے کا حریص بن جاتا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر
لوگوں کو مینگنی توڑنے سے روکا جائے تو وہ اس کو توڑیں گےاور کہیں گے کہ ہمیں منع
کیا گیا ہے ضرور اس میں کوئی بات ہوگی۔استاد اور شاگرد کی مثال ایسی ہے جیسے نقش
اور مٹی، لکڑی اور سائے کی، کہ اس چیز سے مٹی میں کیسے نقش بنے گا جس میں خود نقش
نہیں ہے، اور جب لکڑی ہی ٹیڑھی ہوگی تو اس کا سایہ سیدھا کیسا ہوگا؟ یعنی استاد
اپنی اصلاح بھی کرے اور شاگرد کی بھی، یعنی دونوں ایک دوسرے کی اصلاح کر سکیں۔یعنی
استاد کا تعلق شاگرد کے ساتھ ایسا ہوکہ وہ بھی آسانی سے استاد کی اصلاح کرسکے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
استاذ شاگرد
کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اخت ثقلین محمود،آرائیاں ضلع لاہور
ا ستاد ہونا
بلاشبہ ایک سعادت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:مجھے
معلم بنا کر بھیجا گیا۔ اسی طرح شاگرد ہونا بھی تحفۂ ربّ لم یزل ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا
ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطافر ماتا ہے۔ استاد شاگرد کو عرصۂ دراز
تک ایک ساتھ ایک ادارے میں مخصوص مقاصد کے
تحت رہنا ہو تا ہے اور استادو شاگرد دونوں ہی ایک مقدس رشتے کے بندھن میں بندھے
ہوتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ان کا باہمی تعلق اس نوعیت کا ہو کہ وہ ادارہ تو چھوڑ
جائیں لیکن ایک دوسرے کو نہ چھوڑ سکیں، ان کا باہمی تعلق اتنا مضبوط ہو کہ وہ
تاحیات ساتھ رہیں، جب بھی شاگرد کو استاد کا خیال آئے تو دل ادب و احترام سے بھر
جائے، اور اس استاد کا شاگرد ہونے کو سعادت خیال کرے۔استاد کی مثال اس باغبان جیسی
ہے کہ جس کے کندھے پرننھے پودوں کے مستقبل کی لہلہاوٹ منحصر ہوتی ہے، دور جدید میں
استاد کی مثال اس ناخدا جیسی ہے جسے اپنی ناؤ کو ساحل پر لنگر انداز کرنا ہوتا ہے،
لہذا استاد کو چاہیے کہ شاگرد کے باطن کو خصائل رذیلہ سے پاک کرکے اوصاف حمیدہ کا
حامل بنانے کے لئے تمام تر سُستیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو
بروئے کار لائے، تاکہ وہ اپنے شاگرد کو معاشرے کا ایک مثالی فرد اور اسلام کا
درخشندہ ستارہ بنا سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ استاد و شاگرد باہم نہایت مخلص ہوں اور باہم کسی قسم
کے طنز و تنقید اور مقابلے کو روا نہ رکھیں، اس کے لئے ضروری ہےکہ مندرجہ ذیل امور
کو زیرِ نظر رکھیں۔
طلبا
کی نفسیات سے واقفیت: ہر انسان جداگانہ فطرت کا حامل ہے، ایک ہی درجے میں
موجود طلبا کی نفسیات مختلف ہوتی ہیں، بعض اوقات اساتذہ کو شکایت ہوتی ہےکہ فلاں
طالبعلم کو بہت سمجھایا پیار سے بھی
سمجھایا، غصے سے بھی سمجھایا، لیکن اسکی کمزوری دور نہیں ہوتی، اساتذہ شاید اس بات
کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ شاگرد آپ کی بات کو اسی وقت تسلیم کرے گا کہ جب آپ اسے
اس کی نفسیات کے مطابق سمجھائیں گے۔لہذا اساتذہ غور کریں کہ انہوں نے طلبا کو
سمجھایا یا شرمندہ کیا۔بچے کی فطرت کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنا انداز بدل سکتے
ہیں۔بہترین استاد وہ ہے جو اپنے شاگرد کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے، استاد و
شاگرد کا باہمی تعلق نہایت خوشگوار اور دوستانہ رکھنے کے لئے نفسیات سے
واقفیت نہایت ضروری ہے۔ تاکہ شاگرد بلاخوف
و خطر آپ سے اپنے خیالات کا تبادلہ اور مسائل کا حل طلب کرسکے۔ بروز قیامت ما تحت
کے بارے میں سوال ہوگا۔ استاد کے ساتھ ساتھ شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے دل میں استاد کی محبت کو پروان چڑھائے، استاد کا دل میں
احترام ہر وقت ملحوظ رہے، اور اس کے لئے ادب کرنا بہت ضروری ہے۔ادب پہلا قرینہ ہے
محبت کے قرینوں میں۔دوران درجہ شاگرد کو چاہیے کہ نہایت مؤدبانہ انداز اختیار کرے۔اور
استاد کی موجودگی میں کسی سوال کا جواب نہ دے، بلکہ استاد ہی سے سوال کرنے کا
مشورہ دے، نیز استاد سے اگر کبھی سبقت لسانی یا بھول کی وجہ سے کوئی غلطی ہوجائے،
تو فورا لقمہ دینے کے بجائے لکھ کر یا الگ سے استاد کو اچھے اندا ز میں بتادے،
تاکہ استاد بروقت اپنی غلطی کا ازالہ کرسکے،اور اس کی عزت نفس کو ٹھیس بھی نہ
پہنچے۔ شاگرد ہمیشہ یہ بات مستحضر رکھے کہ میرا استاد کامل ہے، اگر بتقاضائے بشریت
کچھ غلطی ہوجائے تو یہ سوچے کہ استاد نے ایسا کیا نہیں بلکہ اس سے خطا کے
طور پر ایسا ہوگیا۔
ماوصل
من وصل الا بالحرمۃ
وما
سقط من سقط الا بترک الحرمۃ
جس نےجو پایا
ادب سے پایا، اور جس نے جو کھویا ادب نہ کرنے کی وجہ سے کھویا۔
استاد
و شاگرد کے درمیان گیپ نہ ہو:چاہیے کہ استاد ایک شریف باپ اور شاگرد
ایک باادب بیٹے کا سا طریقہ اپنائے،
تاکہ تحصیلِ علم میں طالبِ علم کو کوئی مشکل پیش نہ آئے، تاکہ وہ بلاجھجھک اپنی
علمی الجھنیں استاد کے سامنے رکھ کر تشفی
بخش جواب سے انہیں دور کرسکے۔شاگرد اور استاد کے درمیان اتنا فاصلہ نہ ہوکہ
مفروضات تو دور شاگرد اسباق سے متعلق حقیقی سوال بھی نہ کرسکے، بلکہ اساتذہ شاگرد
کے ساتھ بااخلاق رویہ رکھیں، کہ شاگرد بے فکر ہوکر سوالات پوچھے، ایسانہ ہوکہ
سوالات پوچھنے سے پہلے شاگرد یہ سوچے کہ پتانہیں اب جواب ملے گا یا الٹا سوال کریں گے۔
شاگرد کے سوال
کا جواب ہوسکے تو دیں لیکن اس وقت جواب معلوم نہ ہونے پر وقت طلب کرلیں، یہ نہ
کہیں کہ تمہارا اس سوال سے کیا کام؟ یہ پوچھ کر تم کیا کرو گے؟ اگر شاگرد کوئی غلط
سوال کر بھی لے تو اسے بتائیں کہ وہ غلطی پر ہے اس کا سوال غلط ہے، تاکہ وہ اپنی
غلطی سدھار لے، شاگرد کو بھی چاہیے کہ صرف علمی سوالات کرے، مفروضات نہ پوچھے، کہ
اگر اس صورت میں یہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟اس طرح درجے کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے،
دیگر طلبا کو بھی ناگوار لگتا ہے، اگر تمنا حصولِ علم کی ہے تو استاد کا ادب کر،
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزانوں میں۔
ذاتی
معاملات میں مداخلت:استاد کو چاہیے کہ بلاوجہ اور ذاتی طور پر شاگرد کے
معاملات میں دخل نہ دیں، بلکہ آپ کا کردار اور اعتماد شاگرد کی نظروں میں اتنا
مضبوط ہو کہ وہ آپ سے خود علمی مسائل کے علاوہ دیگر مسائل کے بھی حل طلب کریں،
شاگرد کو جب استاد سے عزت نفس کے تحفظ کا یقین ہوگا تو وہ خود بلا تردد تمام مسائل استاد سے شیئر
بھی کرے گا، اور اپنی غلطی کی نشاندہی پر اسے تسلیم بھی کرے گا۔شاگرد چونکہ ایک
مدت تک استاد کی نگاہوں میں رہتا ہے، چنانچہ زیرک اساتذہ مختلف طلبا میں پائی جانے
والی مختلف صلاحیتوں کو بھی پہچان لیتے ہیں۔ لہذا شاگرد کو چاہیےکہ فارغ التحصیل
ہوتے وقت اپنے اساتذہ سے مستقبل کے بارے
میں مشورہ ضرور کرے، تاکہ وہ جگہ جگہ خود کو آزما کر وقت ضائع کرنے کے بجائے، اپنی
متعلقہ فیلڈ میں خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرسکے۔
المختصر یہ کہ
استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ اس طرح طلبا پر شفقت کرے کہ
جیسے کوئی باپ اپنی حقیقی اولاد پر کرتا
ہے، ان سے اندازِ تخاطب، ان کے مسائل میں معاونت، اور دلجوئی کا بھی خیال
رکھے،استاد کی کسی بھی قسم کی بے ادبی اور
دلی آزردگی کرنے سے بچے، اور یاد رکھے کہ
میدان
علم و فن میں ہیں شاہسوار جتنے
ہر
ایک کی ہے ہمت استاد کی بدولت
شاگرد
کی ہے عزت استاد کی بدولت
کائنات بہت
بڑی ہے یہ سبھی کو پتا ہے،مگر اس کی ایک حد تو ضرور ہے، زمین بہت کشادہ ہے یہ سبھی
کو معلوم ہے مگر اسکی ایک حد تو ضرور ہے، سمندر بہت بڑا ہےیہ سبھی کو پتا ہےمگر اس
کے کنارے اور گہرائی کی ایک حد تو ضرور ہے،ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ تو
سبھی کو پتا ہے مگر ان کی ایک حد تو ضرور ہے، مخلوقِ خدا کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ
سبھی کو پتا ہے، مگر اس کی ایک حد ضرور ہے۔
مگر ایک بات ذہن
نشین رکھئے! رحمتِ عالَم ﷺ کی اپنی اُمت سے شفقت و محبت ایک ایسے سمُندر کی
طرح ہے جس کی گہرائی اور کنارےکا ہم میں سے کسی کو بھی عِلْم نہیں۔آپﷺ کی اپنی
اُمّت سے مَحَبَّت و شفقت کا بیان قرآنِ کریم میں بھی موجود ہے،
چنانچہ
پارہ11سورۂ توبہ کی آیت نمبر 128میں اللہ پاک ارشادفرماتاہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ
مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجمہ کنز الایمان:بےشک تمہارے
پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری
بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ بیان کردہ آیتِ
مقدّسہ کے تحت”تفسیرصِراطُ الجنان“میں لکھا ہے:یہ تو قرآنِ مجید سے آپﷺ کی
مسلمانوں پر رحمت و شفقت کا بیان ہوا،اب مسلمانوں پر آپﷺ کی رحمت و شفقت کی چند
مثالیں ملاحظہ ہوں:
رات
کے نوافل فرض نہ ہوں:رات کے نوافل پر ہمیشگی نہ فرمائی تاکہ یہ اُمّت پر
فرض نہ ہو جائیں۔(فتاویٰ
رضویہ،7/400)
مسلسل
روزے رکھنے سے منع فرمانا:اُمّت کے مَشَقَّت(
تکلیف)میں
پڑ جانے کی وجہ سے انہیں صومِ وصال کے روزے رکھنے سے منع کر دیا۔(بغیر
اِفطار کئے اگلا روزہ رکھ لینا اور یوں مسلسل روزے رکھنا صومِ وصال کہلاتا ہے۔)
اگر میں کہتا تو ہرسال حج فرض ہوجاتا:جب اللہ پاک نے اپنے بندوں پر حج فرض فرمایا اور رحمتِ عالَم ﷺ نے
خُطبہ میں حج کی فَرْضِیَّت کا اِعلان کرتے ہوئے فرمایا:یااَيُّهَا النَّاسُ قَدْفَرَضَ اللہُ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا یعنی اے لوگو! اللہ پاک نے تم پر حج کو فرض فرما دِیا
ہے،لہٰذا حج کِیا کرو۔تو ایک صحابیِ رسول(حضرت
اَقْرَع بن حابِس)نے عَرْض کی:یارَسُولَ اللہﷺ کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟3
مرتبہ اُنہوں نے یہی سوال کِیا، مگر ہر مرتبہ رسولوں کے سالار امت پر شفقت فرمانے
والے آقا و مولا ﷺ نے خاموشی ہی اِخْتِیار فرمائی،پھر ارشاد فرمایا:لَوْ قُلْتُ:نَعَمْ لَوَجَبَتْ اگر میں نے ”ہاں“کہہ دِیا ہوتا تو ہرسال حج کرنا فرض
ہوجاتا۔ (مسلم، ص 698، حدیث:1337)
نہایت ہی شفیق
آقا و مولا ﷺ کی اپنی امت پر شفقت کے تین (3)فرامین مبارکہ:
1۔مسواک
کو فرض نہ ٹھہرایا:لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰى اُمَّتِيْ
لَفَـرَضْتُ عَلَيْہِمُ السِّوَاكَ كَمَا فَـرَضْتُ عَلَيْہِمُ الْوُضُوء
اگر
مجھے اپنی اُمَّت کی دُشواری کا خیال نہ ہوتا تو میں ضرور اُن پر مِسواک کو اُسی
طرح فرض کردیتاجس طرح میں نے اُن پر وضو فرض کِیا ہے۔(مسنداحمد، 1/459،حدیث:
1835)
2۔نمازِ
عشاء کو مؤخر نہ فرمایا:لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰى
اُمَّتِيْ لَاَمَرْتُهُمْ اَنْ يُّـؤَخِّـرُوا الْعِشَاءَ اِلٰى ثُلُثِ اللَّيْلِ
اَوْ نِصفِہٖ اگر
مجھے اپنی اُمَّت کی مَشَقَّت کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز کو
تہائی یا آدھی رات تک مؤخَّر کرنے کا ضرور حکم دیتا۔(ترمذی، 1/214،حدیث:147)
3۔وَلَوْلاَ
ضَعْفُ الضَّعِيفِ وَسُقْمُ السَّقِيمِ لَاَخَّرْتُ هٰذِهِ الصَّلَاةَ اِلٰى
شَطْرِ اللَّيْلِ اگر بوڑھوں کی کمزوری اورمریضوں کی بیماری کا خیال
نہ ہوتا تو اِس نماز(یعنی نمازِ عشاء )کو آدھی رات
تک ضرور مؤخَّر کردیتا۔(ابوداؤد،1/185،حدیث:422)
اللہ پاک کا
کروڑہا کروڑ کرم ہے کہ ہمیں ایسے مہربان،
شفیق، رحمت والے، برکتوں والے، ہم نکموں کی بگڑی بنانے والے نبی، نبئ رحمت، شفیعِ
اُمم، رسولِ محتشم جیسے آقا و مولا عطا فرمائے۔ اے اللہ پاک! سدا مجھے آقا و مولا
ﷺ کی نظرِرحمت میں اور ان کی شفقتوں کے سائے میں رکھنا، آمین ثم آمین۔ اے اللہ پاک!
ہمیں اپنے آقا و مولا ﷺ کی لازوال محبت عطا فرما اور ہمیں صلوٰۃ و سُنّت کا پابند
بنا، والدین کا مطیع و فرمانبردار بنا، امیرِاہلسُنّت کی غلامی دعوتِ اسلامی میں
استقامت نصیب فرما، مکۂ مکرمہ و مدینۂ منورہ کی باادب باذوق مرشدِ پاک اور
والدین کے ہمراہ حاضری کی سعادت نصیب فرما۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ بہت ہی مہربان اور امت پر شفقت کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ تو اتنے شفیق ورحیم ہیں کہ آپ نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا اور ان پر بھی
شفقت و مہربانی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔
جب دشمنوں پراتنے رحم دل ہیں تو امت پر کیوں نہ آپ ﷺ کا لطف وکرم ہوگا۔ آپ ﷺ اپنی
امت پر بھی بہت ہی زیادہ شفیق ورحیم ہیں۔ وہ مسائل جن میں آقاﷺ نے امت پر شفقت
فرمائی، درج ذیل ہیں۔
تراویح اور نماز: نبی
کریم ﷺ نے تین رات نماز تراویح اپنے اصحاب کو پڑھائی، چوتھی رات بکثرت صحابۂ کرام جمع ہوگئے اور انتظار کرتے رہے لیکن آپ
تشریف نہ لائے،صبح کی نماز کے بعد آپ نے یوں فرمایا: تمہارا مسجد میں جمع ہونا مجھ
پر پوشیدہ نہ تھا لیکن مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آجاؤ۔
شب معراج میں
پہلے 50 نمازیں فرض ہوئیں، اللہ پاک کی
بارگاہ سے واپس آتے ہوئے چھٹے آسمان پر حضرت موسی ٰعلیہ السلام سے آپ کی ملاقات
ہوئی، انہوں نے آپ سے دریافت کیا، کیا حکم ملا؟ آپ نے فرمایا:50 نمازوں کا حکم ملا
ہے، حضرت موسی نے کہا: آپ کی امت ہر روز 50 نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، آپ اپنی امت
سے بوجھ ہلکا کروائیں چنانچہ آپ بارگاہ الٰہی میں دوبارہ حاضر ہوئے اور تخفیف کراتے رہے یہاں تک کہ 5
نمازیں رہ گئیں اور آپ اس پر راضی ہوگئے۔(سیرت رسول عربی،ص 232 تا 233)
عورتوں
پر شفقت:
اسلام سے پہلے عورت صنفِ نازک ذلت میں گری ہوئی تھی اور مردوں کے استبداد کا تختہ
مشق بنی ہوئی تھی، عرب میں ازدواج کی کوئی
حد نہ تھی چنانچہ حضرت غیلان ایمان لائے
توان کے تحت دس عورتیں تھیں،جب شوہر مر جاتا
تو اس کا بیٹا اپنی سوتیلی ماں کو وراثت میں پاتا۔ وہ خود اس سے شادی کرلیتا یا اپنے بھائی یاقریبی کو شادی کے لیے دے دیتا
ورنہ عورت کو نکاح ثانی سے منع کرتا تھا۔ہندوستان میں تو یہ بھی رائج تھا کہ شوہر مر جاتا توعورت سے بھی اس کے جینے
کا حق چھین لیا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے حقوق کو اہمیت دی اور عورت کے
ساتھ حسن معاشرت کی تاکید فرمائی۔
فرمان
مصطفی ﷺ:نبیِ
کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے سب سے اچھا ہو اور
میں اپنے اہل کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔
عورتوں پر
حضور ﷺ کی شفقت اس قدر تھی کہ اگر آپ نماز کی حالت میں کسی بچے کی آواز سنتے تو اس
کی ماں کی مشقت کے خیال سے نماز میں تخفیف فرماتے۔ (سیرت رسول
عربی، ص 231-235)
یہ آپ ﷺ کی
شفقت ہی کا باعث ہے کہ دین و دنیا میں امت
کے لیے تخفیف و آسانی ہی مد نظر رہی۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کو دو امروں میں اختیار دیا
جاتا تو آپ ﷺان میں سے آسان کو اختیار
فرماتے بشرطیکہ وہ آسان موجبِ گناہ نہ ہو اور اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺ سب سے بڑھ کر
اس سے دور رہنے والے تھے۔ (سیرت رسول عربی،ص232)
دعا:
اللہ
پاک ہمیں بھی آقا کریم کے صدقے آقا کی امت پر شفقت و مہربانی کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ
شفقت ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو آراستہ و پیراستہ کر کے ہر دل عزیز بنا دیتا
ہے۔ پھر نبی ِکریم ﷺکی شفقت کا کیا کہنا کہ آپ کا اپنی امت پر شفیق و مہربان ہونا
روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے۔
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ
مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)
آپ علیہ
السلام اپنی ولادت سے لیکروصال ظاہر ی تک
اور مابعد وصال تا قیامت امت پر شفقت و مہربانی کے دریا بہا رہے ہیں۔
مؤمن
ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل
ہوں سائلوں کو خوشی لا نھر کی ہے۔
اس شفقت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شریعت کے کئی احکام آپ ﷺ نے امت پر آسان
فرما دئے، جن میں سے چند یہ ہیں:
1 -حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری
امت پر شاق ہوگا تو میں انہیں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔(ترمذی،
1/101)
2-حضرت ابو
قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریمﷺ
نے فرمایا کہ میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے دراز کرنا چاہتا ہوں کہ بچے کے رونے
کی آواز سنتا ہوں تو نماز میں اختصار کرتا ہوں کیونکہ اسکے رونےسے اس کی ماں کی
سخت گھبراہٹ جان لیتا ہوں۔(مراٰۃ المناجیح، 2/196)
3 -حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میری امت پر مشقت نہ ہوتی تو میں
ان پر ہر وضو کے ساتھ مسواک فرض کر دیتا اور نماز عشاء کو نصف رات تک مؤخر کر دیتا۔(ترمذی، 1/102)
4 -حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر
حج فرض ہو گیا پسں حج کیا کرو۔ ایک شخص نے عرض کی ! یا رسو ل اللہ! کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ آپ خاموش رہے حتی کہ اس
نے تین بار عرض کیا۔ پھرآپ ﷺنے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہو
جاتا اور تم اس کی ادائیگی کی طاقت نہ رکھتے، جن چیزوں کا بیان میں چھوڑ دیا کروں
تم ان کا سوال مت کیا کرو۔ (مسلم، 1/432)
5-حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم ﷺنے فرمایا: وصال کے روزے نہ رکھو، صحابہ نے
عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ وصال کے روزے
رکھتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا تم اس معاملے میں مجھ جیسے نہیں۔ میں اس حال میں رات
گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے تم وہ کام کیا کرو جو آسانی سے کر سکو۔(مسلم،
1/432)
صومِ وصال کا معنی یہ ہے کہ روزے کے بعد روزہ
رکھا جائے اور ان روزوں کے درمیان کھانا پینا نہ ہو،اس طرح جتنے روزے رکھے جائیں
وہ سب صومِ وصال ہونگے۔ (شرح صحیح مسلم، 3/647)
اللہ پاک
نے قرآن میں مثالیں کیوں بیان فرمائیں؟ از بنت مشتاق احمد مدنیہ، عامر ٹاؤن لاہور
قرآن پاک کلامُ اللہ ہے جسے اللہ پاک نے بنی نوع انسان کی
ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے، قرآن پاک کا اسلوب اور اندازِ بیان اتنا دلنشین ہے
کہ پڑھنے والے اور اس کو سمجھنے والے کے دل میں راسخ ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک نے احکام بھی بیان فرمائے ہیں، دلائل
بھی بیان فرمائے ہیں، مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں، بشارتیں بھی عطا فرمائی ہیں اور
عذابات سے بھی ڈرایا ہے تاکہ جس کی عقل جس درجے کی ہو وہ اس کے مطابق ہدایت حاصل
کر سکے۔
ماہرینِ کلام کا بھی ایک یہ طریقہ ہوتا ہے کہ وہ
اپنی بات کو اچھے انداز میں دوسروں کو ذہن نشین کروانے کےلیے مثالیں بیان کرتے ہیں،مثالوں
کو بیان کرنے کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ سامعین اس بات کو اچھے سے سمجھ سکیں اور
یاد رکھ سکیں، چونکہ قرآن پاک انسان کی
ہدایت کے لیے نازل کیا ہے کہ انسان اس سے مکمل طور پر ہدایت حاصل کر سکے اس مقصد
کی تکمیل کے لیے قرآن پاک کا ایک اسلوب یہ ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بہت سی مثالیں بیان فرمائی ہیں تاکہ انسان مثالوں کے ذریعے اس
مضمون کو اچھے طریقے سے سمجھ سکے۔
مثالوں کو بیان کرنے کی دوسری حکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ دلائل
کے ذریعے کلام صرف عقل مند ہی سمجھ سکتے ہیں جبکہ مثال کے لیے ذریعے بے وقوف بھی
کلام کو سمجھ لیتا ہے۔ اس حکمت کے تحت قرآن پاک میں اللہ پاک نے مثالیں بیان فرمائی ہیں۔
اسی طرح
مثالوں کو بیان کرنے کی حکمت کے بارے میں خود اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ
ٔ کنز الایمان: اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔(
ابراہیم: 25 ) یعنی
اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں اس لئے بیان فرماتا
ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان
لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی اچھی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ (تفسیر صراط
الجنان)
ایک اور مقام
پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان:اور
بے شک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی اور اگر تم ان
کے پاس کوئی نشانی لاؤ تو ضرور کافر کہیں گے تم تو نہیں مگر باطل پر (الروم:
58)یعنی
ہم نے ا س قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال بیان فرما دی جس کی
انہیں دین اور دنیا میں حاجت ہے اور اس میں غورو فکر اور تَدَبُّر کرنے والا ہدایت اور
نصیحت حاصل کر سکتا ہے اور مثالیں اس لئے
بیان فرمائی گئیں کہ کافروں کو تنبیہ ہو
اور انہیں عذاب سے ڈرانا اپنے کمال کو
پہنچے،لیکن انہوں نے اپنی سیاہ باطنی اور
سخت دلی کے باعث کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ جب کوئی آیت ِقرآن آئی اس کو جھٹلا
دیا اور اس کا انکار کر دیا۔ ( تفسیر صراط الجنان)
چونکہ مثالوں کا بیان حکمت کے تحت ہوتا ہے اسی
لیے کسی عمدہ و اعلیٰ چیز کے بارے میں سمجھانا مقصود ہو تو اس کی مثال بھی کسی
عمدہ و اعلیٰ شے سے دی جاتی ہے اور اگر کسی کم تر شے کے بارے میں بتانا مقصود ہو
تو اس کی مثال بھی کسی ادنیٰ و کم تر شے سے دی جاتی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں
بے شمار مثالیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1۔وہ لوگ
جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو واحد معبود ماننے
کی بجائے بتوں کو معبود بنا رکھا ہے اور
ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں تو ان بتوں کے عاجز اور بے اختیار ہونے کی مثال دیتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
ترجمۂ ٔ کنزالایمان:ان کی مثال جنہوں نے الله کے سوا اور مالک بنالئے ہیں مکڑی کی
طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر کیا
اچھا ہوتا اگر جانتے۔ (العنکبوت: 41)
2۔راہِ خدا
میں اپنا مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت اور
اجر و ثواب کو مثال کے ذریعے اللہ پاک نے اس انداز میں بیان فرمایا ہے: ترجمہ کنزالایمان:ان
کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں
سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور
اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ ( البقرۃ: 261)
3۔پیارے آقا ﷺ
کافروں کو مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے کچھ نفع
حاصل نہ کرتے یعنی ایمان نہ لاتے۔ ان کافروں کی مثال کچھ اس انداز میں اللہ پاک نے
بیان فرمائی: ترجمہ کنزالایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو
کہ خالی چیخ پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔ (
البقرۃ: 171)
4۔ریاکاری کے
طور اپنا مال خرچ کرنے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان:
کہاوت اس کی جو اس دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو
وہ ایک ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی برا کرتے تھے تو اسے بالکل مارگئی اور
اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔ (اٰل
عمران:117)
5۔دنیا کی
زندگی عارضی اور فنا ہونے والی ہے اس کو دوام نہیں اس کو مثال سے سمجھاتے ہوئے
قرآن پاک میں کچھ اس طرح ارشادِ خداوندی ہے: ترجمہ کنزالایمان:اور ان کے سامنے
زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب
زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر
چیز پر قابو والا ہے۔ ( الکہف: 45)
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنی مثالوں کو
پڑھنے، سمجھنے، اس سے درس حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین ﷺ
اللہ پاک
نے قرآن میں مثالیں کیوں بیان فرمائیں؟ از بنت محمد سچل، ترنڈہ سوائے خان
پہلی
مثال:الله
عز وجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی
اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ
وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸)
(البقرۃ:
18) ترجمہ کنز الایمان:
ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ
ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا بہرے گونگے اندھے تو وہ پھر آنے والے نہیں۔
اسکی تفسیر:
اس میں ان لوگوں کی مثال ہے جنہیں الله تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اس پر قدرت بخشی
پھر انہوں نے اسے ضائع کر دیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا، انکا انجام حسرت و
افسوس اور حیرت و خوف ہے۔ اس میں وہ منافق بھی شامل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا
اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا۔ اور وہ مومن بھی جو ایمان
لانے کے بعد مرتد ہو گئے۔ اور وہ جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی مگر روشنی ہونے کے با
وجود فائدہ نہ اٹھایا گویا کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود حق کو سننے ماننے کہنے اور
دیکھنے سے محروم ہو گئے گویا سب کچھ بے کار ہے۔( صراط الجنان،1/22)
دوسری مثال: قرآن پاک میں
ارشاد ہوتا ہے: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ
اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ
مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ
مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ
لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِم (البقرۃ:19-20) ترجمہ کنز الایمان: یا جیسے آسمان سے اُترتا پانی کہ اس میں
اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں کڑک کے سبب
موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی
نگاہیں اُچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے اور جب اندھیرا ہوا کھڑے
رہ گئے اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا۔
تفسیر: یہ دوسری مثال بیان کی گئی اور
یہ منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے ہیں جس
طرح جب بادل اور بارش کی وجہ سے تاریکی ہوتی ہے تو مسافر متحیر ہو جاتا ہے جب بجلی
چمکتی ہے تو کچھ چل لیتا ہے اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے، اسی طرح
اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے
ہیں اور جب کوئی مشکل یا مشقت آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور
اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں۔
تیسری مثال:
الله پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا
مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ
اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ
مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ
بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶) (البقرۃ:
26) ترجمہ
کنز الایمان: بےشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ
مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے، مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان
لائے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے، رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی
کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں
کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔
تفسیر:اس آیت
میں کافروں کو جواب دیا گیا ہے کہ مثالیں بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصود ہے۔نیز
کافروں اور مومنوں کے مقولے اسکی دلیل ہیں کہ قرآنی مثالوں کے بیان سے بہت لوگ
گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اور جنکی عادت صرف ضد،
مقابلہ بازی، انکار و مخالفت ہوتی ہے اور کلام با لکل معقول مناسب اور موقع محل کے
مطابق ہونے کے باوجود وہ اسکا انکار کرتے ہیں اور انہیں مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ
بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف
بات نہیں کہتے اور مثالوں کے ذریعے وہ سمجھ جاتے ہیں۔
نوٹ: مثالوں
کا بیان حکمت کے مطابق اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتا ہے اور مثالوں کے ذریعے
سمجھانا ما ہرین کا طریقہ ہے۔(صراط الجنان، ص 92)
چو
تھی مثال: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ
نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۷۱) (البقرۃ:171) ترجمہ
کنز الایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو
پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں
سمجھ نہیں۔
تفسیر: پیارے
آقا ﷺ کا فروں کو مسلسل دین حق کی دعوت دیتے رہتے، کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے
نفع حاصل نہ کرتے تھے یعنی ایمان نہ لاتے، ان کے اس سننے کی مثال بیان کی گئی کہ
جس طرح جانوروں کا ایک ریوڑ ہو اور انکا مالک انہیں آواز دے تو وہ محض ایک آواز تو
سنتے ہیں لیکن مالک کے کلام کا مفہوم نہیں سمجھتے تو یہی کافروں کا حال ہے۔ اس
اعتبار سے یہ تو بہرے گونگے اور اندھے ہیں اس میں ہمارے لئے بہت بڑا درس ہے کہ
دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت، قرآن و حدیث، اصلاح وتفہیم کے باوجود جو طرزِ عمل
ہمارا ہے وہ بھی کچھ سوچنے کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس اعتبار سے ہما رے آنکھ کان بھی
کھلے ہوئے ہیں یا نہیں ؟؟؟
پانچویں
مثال: الله
عزوجل قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ
یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا(پ 18،النور:
39) ترجمہ کنز الایمان: اور
جو کافر ہوئے اُن کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا
اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اُس کے پاس آیا تو اُسے کچھ نہ پایا۔
تفسیر: اس میں کافروں کے
اعمال کے متعلق فرمایا ہے، یعنی اس ریت کی چمک کو پانی سمجھ کر اسکی تلاش میں چلا جب وہاں پہنچا تو پانی کا نام ونشان نہ
تھا تو ایسے ہی کافر اپنے خیال میں نیکیاں کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
سے اس کا ثواب پائے گا جب قیامت کے میدان میں پہنچے گا تو ثواب نہ پائے گا بلکہ
عذاب عظیم میں گرفتار ہوگا اور اس وقت اسکی حسرت اور اسکا اندوه و غم اس پیاس سے بدرجہا
زیادہ ہوگا۔ (تفسیر خزائن العرفان،ص 776)
اللہ عزوجل نے
قرآن پاک میں جگہ جگہ مثالوں سے ہم گناہ گاروں کو سمجھایا ہے تاکہ ہم اپنے گناہ سے
باز آجائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ہمیں ان مثالوں
سے ہدایت لینے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین ثم آمین
اللہ پاک
نے قرآن میں مثالیں کیوں بیان فرمائیں؟ از
بنت خدا بخش، میر پور خاص سندھ
الله پاک نے
جہاں قرآن مجید میں احکامات اور واقعات بیان فرمائے ہیں وہیں کئی مضامین کو مثالوں
کے ذریعے بھی بیان فرمایا ہے۔ مثالوں کے ذریعے ایک بات انسان کے ذہن نشین بھی ہو
جاتی ہے، اس کلام کو سمجھنا بھی آسان ہوتا ہے اور بات میں دل چسپی بھی پیدا ہوتی
ہے۔ مثال کا عام استعمال ضرب المثل کے معنی میں ہوتا ہے اور بطور استعارہ کسی حالت
کو بیان کرنے کو بھی مثال کہتے ہیں، قرآن مجید میں جو مثالیں بیان کی گئی ہیں وہ
وضاحت، نصیحت یا عبرت کیلئے ہوتی ہیں۔ آئیے یہاں 5 مثالوں کو ملاحظہ کرتے ہیں جو
قرآن مجید فرقان حمید میں الله ربُّ العزت نے بیان فرمائی ہیں:
1۔
ہدایت سے محروم لوگوں کی مثال: پارہ 2 سورۂ بقرہ آیت نمبر 171 میں
الله پاک ہدایت سے محروم لوگوں کی مثال بیان فرماتا ہے: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ
یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ
فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۷۱) ترجمہ کنز الایمان: اور
کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ
سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔اس آیتِ مبارکہ میں کافروں کے سننے کی
مثال جانوروں کے ریوڑ سے کی گئی ہے کہ انکا مالک انھیں آواز دے تو صرف وہ آواز کو
سنتے ہیں اس بات کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تو ایسے آنکھ کان کا کیا فائدہ جس سے نفع
نہیں اٹھا سکیں۔
2۔
الله پاک کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال: پارہ 3 سورۂ
بقرہ آیت نمبر 261 میں ارشاد ہوتا ہے: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ
سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ
اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱) ترجمہ کنز الایمان:
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے
اوگائیں سات بالیں، ہر بال میں سو
دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا
ہے۔یہاں راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی گئی ہے یعنی
کوئی آدمی جب ایک دانہ بوتا ہے تو اس سے سات بالیاں اگ جاتی ہیں سب میں سو سو دانے
ہوتے ہیں تو اسی طرح صدقہ کرنے والوں کو بھی الله عزوجل ان کے اخلاص کے مطابق
اجروثواب دگنا بلکہ 700 گنا بڑھا کر عطا فر ماتا ہے۔
3۔
کافروں کے اعمال کی مثال: پارہ 13 سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 18
میں ارشاد ربانی ہے: مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ
اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ
مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(۱۸) ترجمہ کنز الایمان:
اپنے رب سے منکروں کا حال ایسا ہے کہ ان کے کام ہیں جیسے
راکھ کہ اس پر ہوا کا سخت جھونکا آ یا آندھی کے دن میں ساری کمائی میں سے کچھ ہاتھ
نہ لگا یہی ہے دُور کی گمراہی۔اس آیت میں کافروں کے اعمال کے بارے میں بتایا گیا
کہ قیامت کے دن ان کے اعمال کچھ بھی نہ ہوں گے اور اس وقت اس کا نقصان مکمل طور پر
واضح ہو جائے گا دنیا میں جو نیک اعمال کئے ہوں گے قیامت میں گویا راکھ کی طرح کچھ
فائدہ نہ پہنچائیں گے۔
4۔
جھوٹے معبودوں کو پوجنے کی مثال: پارہ 13 سورۂ رعد کی آیت نمبر 14 میں
ارشاد ہوتا ہے: لَهٗ
دَعْوَةُ الْحَقِّؕ-وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ
لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ
مَا هُوَ بِبَالِغِهٖؕ-وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ(۱۴) ترجمہ کنز الایمان: اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس
کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے مگر اس کی طرح جو پانی کے
سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلائے بیٹھا ہے کہ اس کے منہ میں پہنچ جائے اور وہ ہرگز نہ پہنچے گااور کافروں کی ہر دعا بھٹکتی
پھرتی ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں غیر خدا سے مانگنے کی مثال بیان کی کہ جس طرح پانی
خود ان کے منہ میں نہیں جائے گا اس طرح ان کی دعا بھی قبول نہ ہوگی۔
5۔
شرک کا رد کرنے کے لئے مثال:پارہ 14سورۂ نحل کی آیت نمبر 75 میں رب
تعالیٰ فرماتا ہے: ضَرَبَ
اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ مَنْ
رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ
جَهْرًاؕ-هَلْ یَسْتَوٗنَؕ-اَلْحَمْدُ لِلّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۷۵) ترجمہ
کنز الایمان: اللہ نے ایک کہاوت بیان فرمائی ایک
بندہ ہے دوسرے کی مِلک آپ کچھ مَقْدُور(طاقت) نہیں رکھتا اور ایک وہ جسے ہم نے اپنی
طرف سے اچھی روزی عطا فرمائی تو وہ اس میں سے خرچ کرتا ہے چھپے اور ظاہر کیا وہ
برابر ہوجائیں گے سب خوبیاں اللہ کو ہیں بلکہ ان میں اکثر کو خبر نہیں۔اس آیت میں
دو شخصوں کی مثال بیان کر کے شرک کا رد کیا ہے یعنی ایک بندہ غلام ہے دوسرا شخص
اچھی روزی کمانے والا ہے آزاد اور مالک ہے تو جب یہ دو شخص برابر نہیں ہو سکتے تو
وہ قادر مطلق رب ہے اس کے برابر کوئی بھی کیسے ہو سکتا ہے۔
اسی طرح جگہ بہ
جگہ مثالیں بیان فرما کر لوگوں کیلئے ہدایت حاصل کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔ الله
عز وجل ہمیں بھی ہدایت یافتگان میں شامل فرمائے۔
اللہ پاک
نے قرآن میں مثالیں کیوں بیان فرمائیں؟ از بنت اظہر، لالہ زار راولپنڈی
قرآن عظیم خاتمُ المرسلین ﷺ پر نازل ہونے والی وہ کتاب مبین ہے جو اسرار و
رموز سے بھر پور،اپنے قارئین کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ کہیں تو یہ عظیم المرتبت
کتاب فلاح دارین کے احکام و مسائل بیان فرما رہی ہے تو کہیں ثواب و عتاب کو،کہیں
اس کی آیات مفصلات سابقہ امم کے حالات بیان کرتی ہیں تو کہیں قصص ِ انبیاء کو
موضوعِ سخن بناتی ہیں،علاوہ ازیں سب سے بڑھ کر یہ کہ
قرآن مجید صاحبِ قرآن ﷺ کی نعت سے بھر پور ہے۔
قرآن مجید نے
کئی ایک مقامات پر اپنا مدعا مثالوں کے ذریعے سمجھایا، یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ
قرآن میں مثالیں ذکر فرمانے کا کیا مقصد
ہے ؟ تو آئیے اس کا جواب بھی قرآن ہی سے معلوم کرتے ہیں۔
یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ
مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶) (پ 1،البقرة:
26) ترجمہ کنز
الایمان: اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں
کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔
مثالیں بیان
کرنے میں کئی ایک حکمتیں پوشیدہ ہیں:
1۔ قرآنی مثالوں کے ذریعے وہ لوگ جن کی عقل پر جہالت کا پردہ ہے اپنی بد
بختی کے باعث گمراہ ہوتے ہیں۔
2۔انہی مثالوں
کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے
ہیں۔
3۔ مثالوں سے
قرآن مجید کا اندازِ بیان مزید دل نشین ہو جاتا ہے۔
4۔قرآنی
مثالوں کے ذریعے مدعا اچھی طرح سے سمجھ میں آجاتا ہے۔
ذیل میں قرآن
کریم سے 5 مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
سورۂ ابراہیم آیت نمبر 24-25 میں
کلمۂ ایمان کی یوں مثال بیان کی گئی ہے: اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً
طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴)تُؤْتِیْۤ
اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ
لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵) ترجمہ کنز
الایمان: کیا تم نے نہ دیکھا
اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی، جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور
شاخیں آسمان میں ہر وقت اپناپھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے اور اللہ لوگوں کے لیے
مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔
مذکورہ مثال میں سمجھایا گیا کہ جس طرح کھجور کے
درخت کی جڑیں زمین کی گہرائی میں موجود
ہوتی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے
ہمیشہ پھل دیتا ہے اسی طرح کلمۂ ایمان ہے کہ اس کی جڑ مومن کے دل کی زمین میں
ثابت ہوتی ہے اور اس کی شاخیں یعنی عمل آسمان میں پہنچتے ہیں اور اس کے ثمرات یعنی
برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں
مثالیں بیان کرنے سے قرآن مجید کے مقصد کو مزید واضح کیا گیا جو انسان کی تفہیم
ہے۔
سورۂ ابراہیم پارہ 13 ہی کی آیت
نمبر 26 میں خبیث کلمے کی مثال یوں بیان کی گئی ہے: وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ
ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶)ترجمہ کنز الایمان: اور گندی بات کی
مثال جیسے ایک گندہ پیڑ کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا اب اسے کوئی قیام نہیں۔
قرآن مجید کا دل نشین انداز بیان
یہ بھی ہے کہ اس میں متقابلات کو بیان کیا جاتا ہے، لہذا مذکورہ آیت مبارکہ میں بیان
کردہ مثال کو پچھلی مثال کے مقابل رکھ کر قرآن کا مدعا سمجھنا مزید آسان ہو جاتا
ہے، یہاں فرمایا گیا کہ گندی بات یعنی کفریہ کلمے
کی مثال اندرائین جیسے کڑوے مزے اور ناگوار بو والے پھل کے درخت کی طرح ہے جو زمین
کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو تو اب اسے کوئی قرار نہیں کیونکہ اس کی جڑیں زمین میں
مستحکم نہیں اور نہ ہی اس کی شاخیں بلند ہوتی ہیں، یہی حال کفریہ کلام کا ہے کہ اس
کی کوئی اصل ثابت نہیں اور وہ کوئی دلیل اور حجت نہیں رکھتا جس سے اسے کوئی استحکام
ملے اور نہ ہی کوئی خیر و برکت رکھتا ہے کہ قبولیت حاصل کرے۔
دنیاوی زندگی کی ناپائیداری کو پارہ
15 سورةالکہف آیت 45 میں بہت ہی دل نشین انداز میں بیان کیا گیا: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ
الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ
نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنز الایمان: اور
ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتاراتو
اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور
اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔
دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کی
مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین پر خوش نما سبزہ ہوتا ہے جو بارش کی بدولت خوب لہلہانے
لگتا ہے پھر جلد ہی یہ سبزه فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور اس سوکھی گھاس کو ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں یہی حال دنیا کا ہے۔ اعتبار حیات
کا ہے کہ اس فنا ہو جانے والےسبزے کی طرح یہ بھی بے وقعت ہے اور یہ سب فنا و بقا
اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔
پارہ 17 سورۃُ الحج آیت نمبر 73 میں کفار کے باطل
معبودوں کے عاجز ہونے کو ایک مثال کے ذریعے بیان کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا
لَهٗؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا
ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗؕ-وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ
شَیْــٴًـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُؕ-ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ(۷۳)ترجمہ
کنز الایمان: اے لوگو! ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو وہ جنہیں اللہ
کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر
مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں کتنا کمزور چاہنے والا اور
وہ جس کو چاہا۔
مذکور مثال میں بتوں کے عاجز
اور بے قدرت ہونے کا بیان ہے کہ مشرکین الله کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں
وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اس مثال سے مدعا یہ ہے کہ ایسے کو معبود
بنانا کس قدر جہالت ہے، کیونکہ اگر مکھی ان بتوں سے وہ شہد و زعفران چھین لے جائے
جو مشرکین ان بتوں پر ملتے ہیں اور ان پر مکھیاں بیٹھتی ہیں تو یہ بت ان سے اس شہد
کو بھی نہیں چھڑا سکتے۔
پارہ 18 سورۂ
نور آیت نمبر 35 میں اللہ تعالیٰ کے نور کی انتہائی خوبصورت مثال بیان کی گئی: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِؕ-مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ-اَلْمِصْبَاحُ فِیْ
زُجَاجَةٍؕ-اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ
مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍۙ-یَّكَادُ زَیْتُهَا
یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌؕ-نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ ترجمہ کنز الایمان: اللہ
نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ
ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا، روشن
ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب(مشرق) کا نہ پچھّم(مغرب)کا،
قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اُسے آگ نہ چھوئے، نور پر نور ہے۔
مندرجہ بالا آیتِ
مبارکہ کے تحت نور کی مثال کے مختلف معانی بیان کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے
مراد اس کی طرف سے ہدایت ہے۔ عالمِ
محسوسات میں اس کی تشبیہ ایسے روشن دان سے ہو سکتی ہے جس میں صاف شفاف فانوس
ہو،فانوس میں ایسا چراغ ہو جو نہایت ہی پاک صاف زیتون سے روشن ہو تاکہ اس کی روشنی
اعلیٰ ترین ہو۔دوسرے یہ کہ یہ مثال سید المرسلین ﷺ کے نور کی ہے،طاق آپ کا سینہ
شریف،فانوس قلب مبارک اور چراغ نبوت ہے جو شجرِ نبوت سے روشن ہے اور اس پر کمال یہ
کہ اگر آپ اپنے نبی ہونے کا اعلان نہ بھی فرمائیں جب بھی نورِ محمدی از خود گواہ
ہے۔
اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ الله علیہ ایک شعر کے پیرائے میں اس مثال کو یوں سموتے ہیں؛
شمع
دل، مشكاة تن، سینہ زجاجہ نور کا
تیری
صورت کے لیے آیا ہے سورہ نور کا
حاصلِ کلام یہ
کہ قرآن مجید طرح طرح کی مثالیں بیان فرما کر بنی نوع انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔
قرآن مجید کے مخاطب یوں تو سب انسان ہیں لیکن ایک مسلمان جس کو قرآن اور صاحبِ
قرآن ﷺ کی بدولت ایمان کی بیش قیمت دولت ملی اس بات کا مکلّف ہے کہ قرآن عظیم کو
سمجھ کر اپنی عملی زندگی کا نصبُ العین بنا لے تو آئیے تمام قارئین نیت کیجئے کہ
دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو کر قرآن مجید سیکھنے سکھانے میں مشغول ہو
جائیں۔
ہمیں روزمرّہ زندگی میں گفتگو کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لیکن ہم جب
بھی گفتگو کریں تو اس کا کوئی صحیح مقصد
ضرور ہونا چاہیئے ورنہ بے مقصد بات کہنے سے خاموش رہنا افضل ہے اور اچھی و بامقصد
گفتگو کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے جبکہ بری بات کہنا تو ہر وقت برا ہی برا ہے ۔
زبان کی حفاظت کرنا،اسے بے ضرورت بولنے سے
روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ تمام اعضاء سےزیادہ فساد اور دشمنی اسی کی وجہ سے ہوتی
ہے۔
حضرت سفیان بن عبداللہ سے روایت ہے:میں نے بارگاہِ
رسالت ﷺمیں عرض کی آپ کو مجھ پر سب سے زیادہ کس چیز کا خوف ہے؟آپ نے اپنی زبان
اقدس پکڑ کر ارشاد فرمایا :اس کا۔(ترمذی)
حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے:انسان جب صبح کرتا ہے تو
تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں :ہم تجھے خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ تو سیدھی رہا کر کیونکہ
اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے
ہو جائیں گے۔(ترمذی)
افسوس! ہم آج کل جس طرح چلا
چلا کر اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں اس
طرح ہمارے آقا ﷺ گفتگو نہیں فرماتے تھے آپﷺ کا لہجہ درمیانی ہوتا،آپ کی گفتگو شریف میں اعتدال ہوتا یعنی نہ زیادہ بلند آواز ہوتی نہ ہی اتنی پست کہ مخاطب سن نہ سکے بیان
بالکل سادہ ،عام فہم اور واضح ہوتا کہ ہر
سننے والا سمجھ لیتا۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
فرماتی ہیں:سرکارِ دو عالم ﷺ کا کلام بڑا واضح ہوتا تھا ہر سننے والا اس کو سمجھ لیتا تھا۔ (ابو داؤد)
حضرت انس سے مروی ہے:حضور ﷺ جب کوئی بات فرماتے اس کو تین مرتبہ
دہراتے تاکہ اس کی سمجھ آ جائے۔ (بخار ی )
حضرت علی سے روایت ہے:حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں بالا خانے
ہیں جن کے بیرونی حصّے اندر سے اور اندرونی حصّے باہر سے نظر آتے ہیں ۔ایک اعرابی نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! یہ کس کے لیے ہوں گے؟ حضور ﷺ نے
فرمایا: جو اچھی گفتگو کرے۔ (ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ ے فرمایا:اچھی بات صدقہ ہے۔ (بخاری و مسلم)
بلا ضرورت بولنے کا انجام بہت برا ہوتا ہے بعض اوقات ایسی باتیں زبان
سے نکل جاتی ہیں جس سے بہت بڑے بڑ ے فتنے و فساد برپا ہو جاتے ہیں اسی لیے حضور ﷺ
نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ ناپسند ہے
کہ فضول اقوال آدمی کی زبان سے نکلیں۔
نبی پاک ﷺ نے فرمایا:بندہ
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بات بولتا
ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا یعنی یہ خیال بھی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ
اتنا خوش ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو درجوں
بلند کرتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی کی بات بولتا ہے اور اس کی طرف
دھیان نہیں دھرتا یعنی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اس سے
اتنا ناراض ہو گا اس کلمہ کی وجہ سے جہنم میں گرتا ہے۔(صحیح بخاری)
اُخروی آفات اور ان کے
انجام کو یاد کرنے سے زبان کی حفاظت نصیب ہوتی ہے اور زبان کی حفاظت میں ہی دنیاوی
آفات سے سلامتی ہے زبان کی حفاظت میں ہی نیک
اعمال کی حفاظت ہےکہ جو بہت بولتا ہے وہ لامحالہ لوگوں کی غیبت میں پڑجاتا ہے۔
صرف ایک نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ جو بات ہم کریں گے وہ یا تو ناجائزہ
و حرام ہوگی یا پھر جائز مگرفضول و بے کار ،اگر ناجائز بات ہوئی تو اس پر عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جسے برداشت کرنے کی ہم
میں طاقت نہیں اور اگر جائز ہوبھی تواس وجہ سے ترک کردینی چاہیئے کہ قیامت کے دن
فضول باتوں پر اعمال نامہ اللہ رب العالمین کے سامنے پڑھنا ہو گا ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں گفتگو کے
آداب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (
آمین)
گفتگو کے آداب قرآن و حدیث کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مجید
میں ارشاد فرمایا:
وَ اِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ
رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا0(پ5، النساء:86)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوعالم ﷺ نے
فرمایا :کیا تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت
بڑھے؟ اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو۔(مسلم، کتاب الایمان، صفحہ 47)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں خبر
دوں، جس پر جہنم حرام ہے؟جہنم نرم خو، نرم دل اور آسان خو شخص پر حرام ہے۔(ترمذی،
کتاب صفۃ القیامۃ، ج 4، صفحہ 225)
بعض صورتوں میں نفع بخش اور بعض میں نقصان دہ کلام:
اس طرح کا کلام وہی کرے، جو اس کی باریکیوں کو سمجھتا ہو، وگرنہ
خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے، حضرت امام شافعی فرماتے ہیں:جب تم کوئی بات کرنے لگو
تو پہلے اس پر غور کر لو، اگر تمہیں فائدہ نظر آئے تو کہہ ڈالو، اگر تم شش و پنج میں
پڑ جاؤ تو خاموش رہو، یہاں تک کہ تم پر اس کی افادیت کھل جائے۔(المستطرف فی کل فن
مستطرف، الباب الثالث عشر، جلد 1، صفحہ 145)
حضرت ابراہیم تیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:کہ جب مؤمن
بات کرنا چاہتا ہے تو دیکھتا ہے اگر کوئی فائدہ محسوس ہو تو بات کرتا ہے، ورنہ
خاموش رہتا ہے۔(احیاء العلوم، کتاب آفات اللسان، جلد 3، صفحہ 142)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:خاموش رہنے سے انسان کے رعب میں اضافہ
ہوتا ہے۔
بات چیت کرنے کے آداب:
٭مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے بات چیت کیجئے۔
٭چلا چلا کر بات کرنا سنت نہیں۔
٭جب تک دوسرا بات کر رہا ہو، اطمینان سے سنئے۔
٭فرمانِ مصطفی ﷺ :جو چپ رہا، اس نے نجات پائی۔
٭بد زبانی اور بے حیائی سے بات کرنے سے پرہیز کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان
نرم گفتگو کرنے میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
زبان الله پاک کی ایک عظیم نعمت ہے، جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے
گفتگو کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں، گفتگو ایک فن ہے، کیونکہ بسا اوقات انسان اتنی
خوبصورت گفتگو کرتا ہے کہ جس سے سامنے والے کا دل جیت لیتا ہے اور کبھی ایسی بات کہہ
دیتا ہے، جس سے مخاطب کے دل کو گھائل کر دیتا ہے، ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا
ہے:
جراحات
السنان لها التيام ولا يلتام ما
جرح اللسان
یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں، زبان کے گھاؤ نہیں بھرتے۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم
گفتگو کے آداب سیکھیں، تاکہ ہر ایک سے اچھی گفتگو کر کے لوگوں کے درمیان محبت
وخلوص کی فضا قائم کر سکیں، احادیث کریمہ میں بھی جگہ بہ جگہ گفتگو کے آداب ملتے ہیں،
اچھے انداز میں بات کرنا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بھی سنت ہے، آئیے چند احادیث ملاحظہ
کیجئے۔
1۔بات کرتے ہوئے مسکرانا:
حضرت ام درداء، حضرت ابو درداء کے حوالے سے فرماتی ہیں کہ وہ بات
کرتے ہوئے مسکرایا کرتے تھے، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا
کہ میں نے پیارے نبی ﷺ کو دیکھا کہ وہ
گفتگو کرتے ہوئے مسکراتے رہتے تھے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حديث ابي
الدرداء ،ج 9، ص45، حدیث 22362 ملتقظاً)
2۔تین بار دہراتے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، حضور اکرم ﷺ جب کوئی بات فرماتے تو اس کو تین مرتبہ دہراتے تھے، تاکہ
سمجھ آ جائے۔( بخاری، کتاب العلم، باب من اعاد الحديث ثلاثا ليفهم عنہ، ص 99، حدیث
95)
3۔جلدی نہ فرماتے:
ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنها فرماتی ہیں کہ
اللہ عزوجل کے آخری نبی ﷺ تمہاری اس جلدی کی طرح کلام میں جلدی نہ فرماتے، لیکن ایسے کلام کرتے تھے، جس کے درمیان فاصلہ ہوتا
تھا، جو آپکی خدمت میں بیٹھتا، وہ حفظ کر لیتا تھا۔(ترمذى، ابواب المناقب عن رسول
الله، باب في كلام النبی، ص 832، حدیث 3648)
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو
زباں نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیان ہے
جس کا بیان نہیں(حدائق بخشش، ص 107 )
احادیث سے حاصل ہونے والے گفتگو کے آداب:
چند امور یہاں ذکر کئے جاتے ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنی گفتگو کو بہتر
بنا سکتے ہیں۔
٭ گفتگو کرتے وقت خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا جائے۔
٭سکون اور اطمینان سے گفتگو کرنی چاہیئے، عجلت اور جلد بازی سے پرہیز
کیا جائے۔
٭جب بھی گفتگو کرے تو ہمیشہ حق بات کرے۔
٭گفتگو میں نرمی اختیار کرے، بے جا سختی سے بچے۔
٭جب ضرورت ہو تب ہی گفتگو کرے، فضول و بے محل باتوں سے انسان کا وقار
بھی ختم ہوتا ہے۔
٭کبھی بھی ایسی گفتگو نہ کی جائے، جو گناہ میں ملوث ہونے کا سبب بنے،
طنز اور باعثِ اختلاف گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔
٭جس بات کے بارے میں مکمل نہ جانتا ہو، اس بات کو آگے بیان نہ کرے۔
٭مختصر اور مفید گفتگو کیجئے۔
گفتگو میٹھی کرو ہر ایک سے جھک کر ملو
دشمنوں کے واسطے بھی دلربا ہو جاؤ گے
گفتگوکی قسمیں: امام غزالی علیہ الرحمہ نے
گفتگو کی چار قسمیں بیان کی ہیں،
1۔مکمل نقصان دہ بات (اس سے بچنا ضروری ہے)،
2۔مکمل فائدہ مند بات (یہ بھی حسبِ ضرورت اور احتیاط کے ساتھ کرے)،
3۔ایسی بات جو فائدہ مند بھی ہو اور نقصان دہ بھی(اس میں نفع والی
بات کی پہچان اور احتیاط ضروری ہے)
4۔ایسی بات جس میں نہ فائدہ ہو، نہ نقصان (اس سے بچنا بہتر ہے کہ وقت
کا ضیاع ہے)۔(ملخص ازا حیاء العلوم، ج 3، ص 138 )
ہمیں چاہئے کہ دنیا و آخرت کی کا میا بیاں سمیٹنے کے لئے وہی گفتگو
کریں، جو مفید ہو، لہٰذا اپنی گفتگو میں حضور اکرم ﷺ کااندازِ گفتگو بھی
شامل کیا جائے، نرم گفتگو کرکے لوگوں میں محبت قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ کرے ہمیں گفتگو کے آداب بجا لاتے ہوئے صحيح بولنا آجائے۔(آمین)