استاد اور
شاگرد کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اخت کاشف،آرائیاں ضلع لاہور
ا ستاد ہونا
بلاشبہ ایک سعادت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:مجھے
معلم بنا کر بھیجا گیا۔ اسی طرح شاگرد ہونا بھی تحفۂ ربّ لم یزل ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا
ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطافر ماتا ہے۔ استاد شاگرد کو عرصۂ دراز
تک ایک ساتھ ایک ادارے میں مخصوص مقاصد کے
تحت رہنا ہو تا ہے اور استادو شاگرد دونوں ہی ایک مقدس رشتے کے بندھن میں بندھے
ہوتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ان کا باہمی تعلق اس نوعیت کا ہو کہ وہ ادارہ تو چھوڑ
جائیں لیکن ایک دوسرے کو نہ چھوڑ سکیں، ان کا باہمی تعلق اتنا مضبوط ہو کہ وہ
تاحیات ساتھ رہیں، جب بھی شاگرد کو استاد کا خیال آئے تو دل ادب و احترام سے بھر
جائے، اور اس استاد کا شاگرد ہونے کو سعادت خیال کرے۔استاد کی مثال اس باغبان جیسی
ہے کہ جس کے کندھے پرننھے پودوں کے مستقبل کی لہلہاوٹ منحصر ہوتی ہے، دور جدید میں
استاد کی مثال اس ناخدا جیسی ہے جسے اپنی ناؤ کو ساحل پر لنگر انداز کرنا ہوتا ہے،
لہذا استاد کو چاہیے کہ شاگرد کے باطن کو خصائل رذیلہ سے پاک کرکے اوصاف حمیدہ کا
حامل بنانے کے لئے تمام تر سُستیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو
بروئے کار لائے، تاکہ وہ اپنے شاگرد کو معاشرے کا ایک مثالی فرد اور اسلام کا
درخشندہ ستارہ بنا سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ استاد و شاگرد باہم نہایت مخلص ہوں اور باہم کسی قسم
کے طنز و تنقید اور مقابلے کو روا نہ رکھیں، اس کے لئے ضروری ہےکہ مندرجہ ذیل امور
کو زیرِ نظر رکھیں۔
طلبا
کی نفسیات سے واقفیت: ہر انسان جداگانہ فطرت کا حامل ہے، ایک ہی درجے میں
موجود طلبا کی نفسیات مختلف ہوتی ہیں، بعض اوقات اساتذہ کو شکایت ہوتی ہےکہ فلاں
طالبعلم کو بہت سمجھایا پیار سے بھی سمجھایا،
غصے سے بھی سمجھایا، لیکن اسکی کمزوری دور نہیں ہوتی، اساتذہ شاید اس بات کو نظر
انداز کردیتے ہیں کہ شاگرد آپ کی بات کو اسی وقت تسلیم کرے گا کہ جب آپ اسے اس کی
نفسیات کے مطابق سمجھائیں گے۔لہذا اساتذہ غور کریں کہ انہوں نے طلبا کو سمجھایا یا
شرمندہ کیا۔بچے کی فطرت کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنا انداز بدل سکتے ہیں۔بہترین
استاد وہ ہے جو اپنے شاگرد کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے، استاد و شاگرد کا
باہمی تعلق نہایت خوشگوار اور دوستانہ رکھنے کے لئے نفسیات سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔ تاکہ شاگرد بلاخوف و خطر آپ سے
اپنے خیالات کا تبادلہ اور مسائل کا حل طلب کرسکے۔ بروز قیامت ما تحت کے بارے میں
سوال ہوگا۔ استاد کے ساتھ ساتھ شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے دل میں استاد کی محبت کو پروان چڑھائے، استاد کا دل میں
احترام ہر وقت ملحوظ رہے، اور اس کے لئے ادب کرنا بہت ضروری ہے۔ادب پہلا قرینہ ہے
محبت کے قرینوں میں۔دوران درجہ شاگرد کو چاہیے کہ نہایت مؤدبانہ انداز اختیار
کرے۔اور استاد کی موجودگی میں کسی سوال کا جواب نہ دے، بلکہ استاد ہی سے سوال کرنے
کا مشورہ دے، نیز استاد سے اگر کبھی سبقت لسانی یا بھول کی وجہ سے کوئی غلطی
ہوجائے، تو فورا لقمہ دینے کے بجائے لکھ کر یا الگ سے استاد کو اچھے اندا ز میں
بتادے، تاکہ استاد بروقت اپنی غلطی کا ازالہ کرسکے،اور اس کی عزت نفس کو ٹھیس بھی
نہ پہنچے۔ شاگرد ہمیشہ یہ بات مستحضر رکھے کہ میرا استاد کامل ہے، اگر بتقاضائے
بشریت کچھ غلطی ہوجائے تو یہ سوچے کہ استاد نے ایسا کیا نہیں بلکہ اس سے خطا کے
طور پر ایسا ہوگیا۔
ماوصل
من وصل الا بالحرمۃ
وما
سقط من سقط الا بترک الحرمۃ
جس نےجو پایا
ادب سے پایا، اور جس نے جو کھویا ادب نہ کرنے کی وجہ سے کھویا۔
استاد
و شاگرد کے درمیان گیپ نہ ہو:چاہیے کہ استاد ایک شریف باپ اور شاگرد
ایک باادب بیٹے کا سا طریقہ اپنائے،
تاکہ تحصیلِ علم میں طالبِ علم کو کوئی مشکل پیش نہ آئے، تاکہ وہ بلاجھجھک اپنی
علمی الجھنیں استاد کے سامنے رکھ کر تشفی
بخش جواب سے انہیں دور کرسکے۔شاگرد اور استاد کے درمیان اتنا فاصلہ نہ ہوکہ
مفروضات تو دور شاگرد اسباق سے متعلق حقیقی سوال بھی نہ کرسکے، بلکہ اساتذہ شاگرد
کے ساتھ بااخلاق رویہ رکھیں، کہ شاگرد بے فکر ہوکر سوالات پوچھے، ایسانہ ہوکہ
سوالات پوچھنے سے پہلے شاگرد یہ سوچے کہ پتانہیں اب جواب ملے گا یا الٹا سوال کریں گے۔
شاگرد کے سوال
کا جواب ہوسکے تو دیں لیکن اس وقت جواب معلوم نہ ہونے پر وقت طلب کرلیں، یہ نہ
کہیں کہ تمہارا اس سوال سے کیا کام؟ یہ پوچھ کر تم کیا کرو گے؟ اگر شاگرد کوئی غلط
سوال کر بھی لے تو اسے بتائیں کہ وہ غلطی پر ہے اس کا سوال غلط ہے، تاکہ وہ اپنی
غلطی سدھار لے، شاگرد کو بھی چاہیے کہ صرف علمی سوالات کرے، مفروضات نہ پوچھے، کہ
اگر اس صورت میں یہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟اس طرح درجے کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے،
دیگر طلبا کو بھی ناگوار لگتا ہے، اگر تمنا حصولِ علم کی ہے تو استاد کا ادب کر،
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزانوں میں۔
ذاتی
معاملات میں مداخلت:استاد کو چاہیے کہ بلاوجہ اور ذاتی طور پر شاگرد کے
معاملات میں دخل نہ دیں، بلکہ آپ کا کردار اور اعتماد شاگرد کی نظروں میں اتنا
مضبوط ہو کہ وہ آپ سے خود علمی مسائل کے علاوہ دیگر مسائل کے بھی حل طلب کریں،
شاگرد کو جب استاد سے عزت نفس کے تحفظ کا یقین ہوگا تو وہ خود بلا تردد تمام مسائل استاد سے شیئر
بھی کرے گا، اور اپنی غلطی کی نشاندہی پر اسے تسلیم بھی کرے گا۔شاگرد چونکہ ایک
مدت تک استاد کی نگاہوں میں رہتا ہے، چنانچہ زیرک اساتذہ مختلف طلبا میں پائی جانے
والی مختلف صلاحیتوں کو بھی پہچان لیتے ہیں۔ لہذا شاگرد کو چاہیےکہ فارغ التحصیل
ہوتے وقت اپنے اساتذہ سے مستقبل کے بارے
میں مشورہ ضرور کرے، تاکہ وہ جگہ جگہ خود کو آزما کر وقت ضائع کرنے کے بجائے، اپنی
متعلقہ فیلڈ میں خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرسکے۔
المختصر یہ کہ
استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ اس طرح طلبا پر شفقت کرے کہ
جیسے کوئی باپ اپنی حقیقی اولاد پر کرتا
ہے، ان سے اندازِ تخاطب، ان کے مسائل میں معاونت، اور دلجوئی کا بھی خیال
رکھے،استاد کی کسی بھی قسم کی بے ادبی اور
دلی آزردگی کرنے سے بچے، اور یاد رکھے کہ
میدان
علم و فن میں ہیں شاہسوار جتنے
ہر
ایک کی ہے ہمت استاد کی بدولت
شاگرد
کی ہے عزت استاد کی بدولت