بچپن سے سنتے آئے ہیں، ماں باپ ذریعہ بنتے ہیں، آسمان سے زمین پر لانے کا، اور استاد ذریعہ بنتا ہے زمین سے آسمان تک پہنچانے کا، پہلے کے دور میں جب والدین بچوں کو درسگاہ میں بٹھا نے جاتےتو کہتے تھے ! ہماری ہڈی تمہاری کھال۔ یہ مثال بہت بعد میں سمجھ میں آئی۔جو طالب علم اپنے استاد کے ساتھ اطاعت و فرما نبر داری کا تعلق رکھتا ہے،وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جو سختیاں اور مشقتیں نہیں برداشت کرتا، وہ تعلیم حاصل نہیں کرپاتا۔ استاد شاگرد کا باہمی تعلق بھروسے و اعتماد کا ہوتا ہے، استاد چاہے اسکول، کالج، یو نیور سٹی مدرسہ کسی بھی تعلیمی ادارے کا ہو اس کا اپنے شاگرد سے تعلق تعلیم کے لیے ہو نہ کہ اپنے ذاتی کام اور مفاد کے لیے۔

استاد شاگرد کا باہمی تعلق ایسا بھی نہیں ہونا چا ہیے کہ استاد اپنے فیورٹ اور مخصوص طالب علم کو مال و دولت، خوبصورتی اور دلی رجحان کے لحاظ سے پسند ر کھے۔ بلکہ اپنے شاگرد کے تعلیمی معیار، ذہانت، فر مانبر داری اور محنت کو سراہےاور اپنے شاگردوں سے مساوی سلوک رکھے۔ کسی بھی طالب علم کو اس کی نفسیات کے مطابق سمجھانا استاد کا شاگرد سے باہمی تعلق ہی ہے۔ ہراستاد کو اپنے شاگرد سے تعلق دینی قواعد و ضوابط کی بنیاد پر رکھنا چاہیے۔استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق انتہائی نرمی و شفقت والا ہوگا تو وہی مزاج اس کے شاگرد میں بھی منتقل ہوگا۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جا تا ہے نادانی میں