قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-(پ 9، الانفال: 33) ترجمہ: اللہ کہ یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے
حبیب تم ان میں تشریف فرما ہو۔ ایک اور جگہ ارشاد باری ہے: لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ
عَذَابًا اَلِیْمًا(۲۵) (پ 26، الذریت: 35) ترجمہ: اگر مسلمان مکہ سے نکل جائیں تو
ہم کافروں پر عذاب بھیجتے۔ ان آیات مبارکہ میں فرمایا کہ دنیا پر عذاب نہ آنے کی
وجہ حضور کا تشریف فرما ہونا ہے نیز مکہ والوں پر فتح مکہ سے پہلے اس لیے عذاب نہ آیا
کہ وہاں کچھ غریب مسلمان تھے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام اور مؤمنین کے طفیل سے
عذاب الٰہی نہیں آتا یہ حضرات دافع البلاء ہیں بلکہ آج بھی ہمارے اس قدر گناہوں کے
باوجود جو عذاب نہیں آتا یہ سب اس سبز گنبد کی برکت سے ہے۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب
فرمایا:
تمہیں حاکم
برایا، تمہیں قاسم عطایا تمہیں دافع
بلایا تمہیں شافع خطایا
کوئی تم سا کون آیا
میرے آقا اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: سبحن اللہ ہمارے حضور دافع البلاء کفار پر سے
بھی سبب دفر بلا ہیں اور مسلمانوں پر تو خاص رؤف و رحیم ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،
30/379)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ہمیں نظر نہیں آتا
مگر حضور ہر مصیبت کے وقت غمخواری فرماتے ہیں۔ (اطیب النعم، ص 4)
تڑپ کے غم کے
مارو تم پکارو یا رسول اللہ تمہاری
ہر مصیبت دیکھ نا دم میں ٹلی ہوگی
غلط فہمی کا ازالہ: 7 ویں صدی
کے عظیم بزرگ امام تقی الدین سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور سے مدد
مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور خالق و فاعل مستقل یعنی اللہ پاک کے عطا کے بغیر
مدد فرمانے والے ہیں یہ تو کوئی مسلمان ارادہ نہیں کرتا تو اس معنی پر کلام کو
ڈھالنا یعنی حضور سے مدد مانگنے کو اللہ سے ملانا اور حضور سے مدد مانگنے کو منع
کرنا دین میں مغالطہ دینا اور مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔ (شفاء السقام، ص
175)
حشر میں ہم بھی
سیر دیکھیں گے منکر آج ان سے التجا نہ
کرے
شرح کلام رضا: میرے آقا اعلیٰ
حضرت اس شعر میں فرماتے ہیں: جو لوگ آج دنیا میں اللہ پاک کے پیاروں کو بے اختیار
سمجھتے ہیں روز محشر ہم بھی ان کا خوب تماشا دیکھیں گے کہ کس طرح بے بسی اور بے
چینی کے ساتھ انبیائے کرام کے پاک درباروں میں شفاعت کی بھیک لینے کے لیے دھکے کھا
رہے ہوں گے مگر ناکامی کا منہ دیکھیں گے جبھی تو کہا جا رہا ہے:
آج لے ان کی پناہ
آج مدد مانگ ان سے پھر نہ
مانیں قیامت میں اگر مان گیا
شرح کلام رضا: یعنی آج
اختیارات مصطفیٰ کا اعتراف کرلے اور ان کے دامن کرم کی پناہ میں آجا اور ان سے مدد
مانگ اگر تو نے یہ ذہن بنالیا کہ سرکار مدینہ ﷺ اللہ پاک کی عطا سے بھی مدد نہیں
کر سکتے تو یاد رکھ کل بروز قیامت جب اللہ کے پیارے نبی ﷺ کی شان محبوبی ظاہر ہوگی
اور تو اختیارات تسلیم کر لے گا اور شفاعت کی صورت میں مدد کی بھیک لینے دوڑے گا
تو اس وقت سرکار نہیں مانیں گے کہ دنیا دار العمل یعنی عمل کی جگہ تھی اگر وہیں
مان لیتا تو کام ہوجاتا اب ماننا کام نہ دے گا کیونکہ آخرت دار العمل نہیں دار
الجزا یعنی دنیا میں جو عمل کیا اس کابدلہ ملنے کی جگہ ہے۔
بیٹھتے اٹھتے مدد
کے واسطے یارسول اللہ کہا
پھر تجھ کو کیا
خواب میں تشریف لا کر دلجوئی فرمائی: مکے مدینے کے تاجدار ﷺ اپنے غلاموں کے حالات سے کیسے خبردار ہیں اس ضمن میں
امیر اہل سنت کے 1980ء کے سفر مدینہ کا ایک واقعہ پڑھئے اور جھومئے، چنانچہ سیدی
قطب مدینہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید حاجی اسمعیل مرحوم بمبئی ہند کے رہنے والے
تھے مدینہ پاک میں سالہا سال رہتے رہے انہوں نے عاشق مدینہ امیر اہل سنت کو بتایا
کہ ایک بڑی عمر کی خاتون سنہری جالیوں کے سامنے حاضر ہو کر اپنے سادہ سے انداز میں
بارگاہ رسالت میں سلام عرض کر رہی تھی اتنے میں ان کی نظر ساتھ کھڑی ایک خاتون پر
پڑی جو ایک کتاب سے دیکھ دیکھ کر خوبصورت القابات سے بارگاہ رسالت میں سلام عرض کر
رہی تھی بڑی بی یہ دیکھ کر اداس ہوکر کہنے لگی: یا رسول اللہ میں تو اتنی پڑھی
لکھی نہیں ہوں آپ تو شاید اسی اچھے انداز سے پڑھنے والی خاتون ہی کا سلام قبول
فرمائیں گے میرا سلام بھلا کیسے پسند آئے گا اتنا کہہ کر وہ غمزدہ ہو کر رونے لگی
جب رات میں سوئی تو اس کی قسمت جاگ گئی اللہ پاک کی عطا سے دلوں کی بات جاننے والے
غمخوار آقا ﷺ نے خواب میں تشریف لاکر ارشاد فرمایا: مایوس کیوں ہوتی ہو؟ ہم نے
تمہارا سلام سب سے پہلے قبول فرمایا ہے۔
تم اس کے مددگار
ہو تم اس کے طرفدار جو تم کو نکمے سے نکما نظر آئے
لگاتے ہیں اس کو
بھی سینے سے آقا جو ہوتا
نہیں منہ لگانے کے قابل
ہمارے آقا ﷺ کو اللہ کریم نے سراپا رحمت بنایا ہے چنانچہ اللہ پاک پارہ 17
سورۃ الانبیا میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء: 107) ترجمہ کنز الایمان: ہم نے نہ بھیجا تمہیں مگر رحمت
سارے جہان کے لیے۔ یہ آپ ﷺ کی بے پایاں رحمت ہی ہے کہ کفار بھی دنیا میں عذاب سے
محفوظ ہیں۔ اللہ پاک پارہ 9 سورۂ انفال کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- ترجمہ: اللہ کہ یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب
تم ان میں تشریف فرما ہو۔ ہمارے حضور ﷺ دافع البلا کفار پر سے بھی سبب دفعِ بلا
ہیں، پھر مسلمان پر تو خاص رؤف رحیم ہیں، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ عرض کرتے ہیں:
شافع روز جزا تم
پہ کروڑوں درود دافعِ جملہ بلا تم
پہ کروڑوں درود
ہمارے آقا ﷺ دافع البلا ہیں یہ ایسا مسلم عقیدہ ہے جسے ساری امت مانتی ہے،
صحابہ کرام سے لے کر آج تک اس امت کا یہی نظریہ اور اعتقاد رہا ہے کہ اللہ پاک نے
اپنے پیارے آخری نبی ﷺ کو سراپا رحمت بنایا ہے اور رحمت دفعِ بلا و زحمت ہوتی ہے، آپ
کی برکت سے لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں، آفات دور ہوتی ہیں، بے سہارے غم کے
مارے امتی آپ کے دامن اقد میں پناہ لیتے ہیں، صرف انسانوں کے ہی نہیں میرے آقا تو
جانوروں بلکہ بے جان چیزوں کے لیے بھی دافعِ بلا ہیں، لہٰذا کبھی تو صحابہ کروم
اپنی حاجات کے حصول کے لیے اور آفات کے دو ہونے کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے
ہیں اور کبھی جانور فریاد کر رہے ہیں کہیں لکڑی کا بے جان ستون حنانہ دافعِ بلا آقا
ﷺ سے تسکین چاہتا ہے وہ سب کو نوازتے ہیں ہر جگہ عطا فرماتے ہیں، چنانچہ
جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو حضور انور ﷺ ان کے یہاں
تشریف لے گئے اور ان کے یہاں یتیم بچوں کو خدمت اقدس میں یاد فرمایا، وہ حاضر ہوئے
حضرت عبد اللہ بن جعفر طیار اسے بیان کر کے فرماتے ہیں: میری ماں نے حاضر ہو کر
حضور پناہِ بے کساں ﷺ سے ہماری یتیمی کی شکایت عرض کی تو حضور نے فرمایا: کیا تو
ان پر محتاجی کا اندیشہ کرتی ہے، حالانکہ میں ان کا والی و کارساز ہوں دنیا و آخرت
میں۔
وہ غم نہیں کھاتا
جس کا محافظ، والی، آقا اور ولی تو ہے
فتاویٰ رضویہ جلد 30 صفحہ نمبر 436 تا 437 پر ہے: حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ
علیہ اپنے قصیدہ نعتیہ میں لکھتے ہیں، ترجمہ: ہمیں نظر نہیں آتا مگر سرکار ﷺ ہر
مصیبت کے وقت غم خواری فرماتے ہیں۔
کیوں رضا مشکل سے
ڈریئے جب نبی مشکل کشا ہو
اللہ پاک نے ہمارے پیارے اور آخری نبی ﷺ کو بے شمار کمالات اور معجزات سے
نوازا ہے ان میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ آپ دافع رنج و بلا ہیں۔
شتر ناشاد کی داد رسی: حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ کہیں جارہے
تھے کہ ہمارا گزر ایک ایسے اونٹ پر ہوا جس پر پانی دیا جا رہا تھا، اونٹ نے حضور
کو دیکھا تو بلبلانے لگا اور اپنی گردن حضور کے سامنے جھکا دی، آپ اس کے پاس کھڑے
ہوئے اور فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ مالک حاضر ہوا تو ارشاد فرمایا: یہ اونٹ
بیچتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ مزید عرض کی کہ یہ ایسے
گھرانے کا ہے جن کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، آپ اس اونٹ نے شکایت کی ہے کہ
تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ حکیم
الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعے کے تحت فرماتے ہیں: اس سے چند
مسئلے معلوم ہوئے:
1۔ حضور جانوروں کی بولی بھی سمجھتے ہیں۔
2۔ حضور مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔
اور یہ وہ مسئلہ ہے جسے جانور بھی مانتے ہیں جو انسان مسلمان ہو کر حضور کو
حاجت روا نہ مانے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔
3۔ حضور کی کچہری میں جانور بھی فریادی ہوتے ہیں۔
ہاں یہی کرتی ہیں
چڑیاں فریاد ہاں یہی چاہتی ہے
ہرنی داد
اسی در پہ شتران
ناشاد گلہ رنج و عنا کرتے ہیں
(مراٰۃ المناجیح، 8/238-239)
قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ کتاب الشفا جس کے متعلق بزرگوں
نے فرمایا: شفاء شریف وہ متبرک کتاب ہے کہ جس مکان میں رہے اسے ضرر نہ پہنچے اور
جس کشتی میں رہے وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے اور جو مریض اس کتاب پڑھے یا سنے شفا پائے۔
آپ نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا: غزوہ ذی قرد میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ
کے چہرے پر ایک تیر لگا تو حضور نے انہیں بلا لیا اور زخم پر مبارک لعاب لگایا
فرماتے ہیں اس وقت سے نہ تو مجھے درد ہوا اور نہ زخم میں پیپ پڑی بلکہ اچھا ہو
گیا۔ (شفا شریف، 1/212)
اسی مزید فرماتے ہیں: جنگ بدر میں ابو جہل نے حضرت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ
کا ہاتھ کاٹ ڈالا پس وہ اپنا ہاتھ اٹھائے ہوئے حاضر ہوئے تو حضور نے اس ہاتھ پر
اپنا لعاب دہن لگا دیا اور اس کو جوڑ دیا تو وہ اسی وقت جڑ گیا۔ (شفا شریف، 1/213)
ہمارے پیارے آقا ﷺ دافع البلا ہیں اس متعلق احادیث میں کئی دلائل موجود ہیں
جبکہ قرآن مجید خود اس پر شاہد ہے کہ آپ دافع البلا ہیں، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ
علیہ سے سوال کیا گیا کہ ایک بدمذہب کہتا ہے کہ درود تاج اور دلائل الخیرات پڑھنا
شرک ہے اس لیے کہ اس میں حضور ﷺ کی شان میں یہ الفاظ کہے گئے کہ دافع البلا
والوباء و القحط والمرض والالم یعنی مصیبتوں، وباؤں، قحط بیماری اور تکلیفوں کو
دور کرنے والے اور یہ الفاظ کہنا شرک ہے اور اس درود کو پڑھنا بدعت سیئہ ہے۔ سوال
کرنے والے نے اس بد مذہب کو جواب میں جو دلائل دیئے وہ سوال میں مذکور ہیں ان میں
سے چند یہ ہیں:
1۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ
لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-(پ 9، الانفال:
33) ترجمہ: اللہ کہ یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب تم ان میں تشریف
فرما ہو۔
2۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے تمہیں تمام جہاں
کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔
3۔ قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا
زَكِیًّا(۱۹) (پ 16، مریم: 19) ترجمہ: میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں
تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔
ہمیشہ سے علما ان کا ورد کرتے رہتے ہیں تو کیا سب مشرک ہوگئے؟ شاہ ولی اللہ
محدث دہلوی نے حضور ﷺ کو دافع البلاء فرمایا ہے، اس اعتراض کے جواب میں علمائے
کرام نے اقوال پیش کیے ہیں، بدمذہبوں کے نزدیک تو معاذ اللہ سب مشرک جنہوں نے رسول
ﷺ کو دافع البلاء لکھا ہے ہم احادیث سے کیا دلائل دیں جو بعد ہی لکھی گئی؟ حضور
دافع البلاء ہیں اس پر قرآن مجید میں دلیل ہے: وَ
لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ
وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء: 64) ترجمہ: اگر
وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجائیں پھر
اللہ سے معافی مانگیں اور رسول بھی ان کی مغفرت کی دعا فرمائیں تو ضرور اللہ کو
بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ آیت کریمہ صاف بتارہی ہے کہ حضور کی بارگاہ
میں حاضری توبہ قبول ہونے اور عذاب دور ہونے کا سبب ہے حالانکہ رب قادر ہے کہ ایسے
ہی گناہ بخش دے مگر فرمایا کہ توبہ کی قبولیت چاہو تو ہمارے محبوب کی بارگاہ میں
حاضر ہو۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے: میں حمد ہوں میں محمد ہوں میں حاشر ہوں کہ
لوگوں کو اپنے قدموں پر حشر دوں گا میں ماحی ہوں کہ اللہ میرے ذریعے سے کفر کی بلا
دور فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 985، حدیث: 2354)
رسالے میں ماحی یعنی مٹانے والا اس میں دلیل ہے کہ معاذ اللہ کفر سے بڑی اور
کیا بلا ہے؟ آقا ﷺ کفر کو مٹانے والے ہیں ان سے بڑھ کر کون دافع البلاء ہے، اسی
طرح تاریخ دمشق الکبیر میں ہے: میرا نام قرآن میں محمد، انجیل میں احمد، تورات میں
اُحید اور میرا نام اُحید اس لیے ہوا کہ میں امت سے آتش دوزخ کو دفع فرماتا ہوں۔(فتاویٰ
رضویہ، 30/473)
ان آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ حضور دافع البلا ہیں آقا ﷺ رب کی عطا سے بلاؤں
کو دفع کرنے والے ہیں اور جو یہ کہے کہ حضور دافع البلاء نہیں اسے چاہیے کہ اپنی
عقل کا علاج کروائے۔
کعبہ کے بدر
الدجی تم پہ کروڑوں درود طیبہ
کے شمس الضحی تم پہ کروڑوں درود
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتے جا رہے ہیں اور
چونکہ موت کا وقت بھی کسی کو معلوم نہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ موت آنی ہی ہے اور
ہمیں اپنے رب کے حضور پیش کیا جائے گا اور نہ کہ ہم خود بلکہ ہمارے اعمال بھی اللہ
کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے تو اگر ہمارے اعمال اللہ کی ناراضی والے ہوئے تو
ہم کیا کریں گے اور ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب جہنم میں ڈال دیا گیا تو ہم کس کے در
پر جائیں گے؟ اس لیے ہمیں چاہیے کہ جو وقت ہمیں مل رہا ہے اس کو اللہ کی رضا والے
کاموں میں بسر کریں تاکہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور ہمیں بخش دے، ہم لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ رحمٰن ہے رحیم ہے تو یہ بھی درست ہے مگر جہاں وہ رحمٰن ہے وہاں وہ
قہار بھی ہے جہاں وہ رحم فرماتا ہے وہاں وہ پکڑ فرمانے پر بھی قادر ہے، تو ہمیں یہ
ہی چاہیے کہ ہماری جب تک زندگی ہے ہم اللہ کو راضی کرنے والے کاموں میں لگ جائیں، آئیے
ہم قرآن پاک کی روشنی میں دیکھتی ہیں کہ کون سے اعمال کر کے ہم اللہ کو راضی کر
سکتے ہیں:
فرامینِ الٰہی:
1۔ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) (پ 18، المؤمنون: 2) ترجمہ کنز الایمان: جو اپنی نماز میں
گڑگڑاتے ہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو اپنی نماز کو خشوع و خضوع سے پڑھتے
ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اس عمل کے ذریعے بھی ہم اللہ کو
راضی کر سکتی ہیں۔
2۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) (پ 18، المؤمنون: 3) ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو فضول
بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔
3۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) (پ 18، المؤمنون: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو زکوٰۃ
دینے کا کام کرتے ہیں۔
4،5۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) (پ 18، المؤمنون: 8) ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ اس آیت
میں دو اعمال کے متعلق ذکر فرمایا گیا کہ ایک تو وہ عمل ہے کہ بندہ امانت میں
خیانت نہ کرے اور اللہ کی رضا حاصل کر لے اور دوسرا یہ کہ وعدہ خلافی نہ کرے۔ یاد
رہے کہ امانتیں خواہ اللہ کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہدخدا کے ساتھ ہو یا
مخلوق کے ساتھ سب کی وفا لازم ہے۔
6۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) (پ 18، المؤمنون: 9) ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔اس آیت میں یہ فرمایا گیا
کہ وہ لوگ کامیاب ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ رضائے الٰہی پانے
کا اچھا ذریعہ ہے۔
7۔وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) (پ 18، المؤمنون: 5) ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: بات بولو تو سچ
بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو، اپنی
شرمگاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نگاہوں کو پست کرو اور اپنے ہاتھوں کو روکو۔ (مسند
امام احمد، 8/412، حدیث: 22821) اس میں جنت کی ضمانت دی گئی تو ظاہر ہے کہ جو عمل
کر کے ہم جنت حاصل کر سکتے ہیں وہ رضائے الٰہی پانے کا بھی بہترین ذریعہ ہے،
کیونکہ اللہ کے راضی ہونے سے ہی ہم داخلِ جنت ہوں گے، اللہ رحم کرنے پر آئے تو وہ
ایک چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر بھی بخش سکتا ہے اور اگر غضب فرمانے پر آئے تو چھوٹے
سے چھوٹے گناہ پر بھی پکڑ فرمانے پر قادر ہے، اس لیے ہم نیت کرتی ہیں کہ اللہ کی
ناراضی والے تمام کاموں کو چھوڑ کر نیکیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گی۔ اللہ
سے دعا ہے کہ اے اللہ تو ہمیں راضی فرما اور ہم سے راضی ہوجا۔ آمین
قطع تعلقی کی مذمت از ہمشیرہ محمد وقاص خان، خوشبوئے عطار گلشن کالونی واہ
کینٹ
قطع تعلقی یعنی تعلقات توڑنا ایک معیوب عمل ہے جو انسان کو حسنِ اخلاق سے
محروم کر دیتا ہے اور رب کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔ صدرُالشریعہ مولانا امجد علی
اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ
والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب
ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔ (بہارِ شریعت، 3/558، حصہ: 6) یاد رہے
قطع تعلقی ظلم کی ایک بد تر صورت جسکی احادیثِ مبارکہ میں سخت مذمت بیان کی گئی ہے،
چنانچہ
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ شراب کا عادی، جادو پریقین رکھنے والا اور قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل
نہ ہوگا۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، 7/648، حدیث: 6104)
2۔ جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والا ہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان،
6/223، حدیث: 7962)
3۔ کسی مسلمان کو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رہے
تو اگر اس پر تین دن گزر جائیں تو یہ اس سے ملے اسے سلام کرے پھر اگر وہ اسے سلام
کا جواب دے دے تو دونوں ثواب میں شریک ہوگئے اور اگر جواب نہ دے تو وہ گناہ کے
ساتھ لوٹا سلام کرنے والا چھوڑنے سے نکل گیا۔ ( مراة المناجیح، 6/ 414)
4۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)
5۔ جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی
عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4 / 229،حدیث: 2519)
اے حسنِ اخلاق کے طلبگارو! شیطان انسان کو قطع تعلقی پر ابھارنے کیلئے طرح طرح
کے حیلے بہانوں پر ابھارتا ہے اور دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ فلاں کا رویہ میرے
ساتھ ایسا تھا، فلاں نے مجھے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا تو میں کیوں اچھائی کروں
تو ذہن نشین فرما لیجیے کہ صلۂ رحمی اس کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی
کرو، یہ چیز تو حقیقت میں مکافاۃ یعنی ادلا بدلا کرنا ہے حقیقی مزہ تو تب ہی ہے کہ
وہ کاٹے تم اس سے جوڑو، وہ تم سے دور جانا چاہتا ہے بے اعتنائی کرتا ہے تو تم اس
کے ساتھ رشتے کے حقوق کی مراعات کرو اور یہ سب محض رضائے رب الانام کیلئے ہو۔ اللہ
پاک ہمیں قطع تعلقی سے بچائے اور صلح رحمی کو اپنا شعار بنانے کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ آمین
قطع تعلقی حرام ہے جو کہ معاشرے میں عام ہو چکا ہے لوگوں میں الله پاک کا خوف
ختم ہو چکا ہے ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے قطع تعلقی حرام ہے۔
جب تک شریعت اجازت نہ دے تب تک قطع تعلقی نہیں کرنی چاہیے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ
الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے
نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس
آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ مظہری میں ہے: یعنی تم قطع رحم (یعنی رشتے داروں سے
تعلق توڑنے) سے بچو۔ (تفسیرِ مظہری، 2/3)
قطع تعلقی کے متعلق احادیث مبارکہ:
1۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 6/97، حدیث:5986)
2۔ الله پاک فرماتا ہے: جو جوڑے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو کاٹے گا میں اسے
ہلاک کروں گا۔ (ابوداؤد، 2/183، حدیث: 1694)
3۔ جو یہ چاہے کہ اس کے رزق میں کشادگی اور عمر میں اضافہ کیا جائے تو اسے صلہ
رحمی کرنی چاہیے۔ (مسلم، ص1384، حدیث:255)
4۔ جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والا ہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان،7/223،
حدیث: 7962)
5۔ جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دے دی جائے اور اس کے لیے آخرت میں بھی
عذاب رہے وہ بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)
رشتے جوڑیئے: صلہ رحمی (رشتے
داروں کے ساتھ اچھا سلوک) اسکا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو یہ چیز تو
حقیقت میں مکافاۃ یعنی ادلا بدلا کرنا ہے کہ اس نے تمہارے پاس چیز بھیج دی تم نے
اس کے پاس بھیج دی وہ تمہارے یہاں آیا تم اس کے پاس چلے گئے۔ حقیقتاً صلہ رحمی (یعنی
کامل درجے کا رشتے داروں سے اچھا سلوک) یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو وہ تم سے جدا
ہونا چاہتا ہے بے اعتنائی (لا پرواہی) کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی
مراعات (لحاظ و رعایت) کرو۔ (رد المحتار، 9/687)
قطع تعلق حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں قطع تعلقی سے منع فرمایا گیا ہے: وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ
الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے
نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔اس
آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ مظہری میں ہے یعنی تم قطع رحم یعنی رشتے داروں سے تعلق
توڑنے سے بچو۔ (تفسیرِ مظہری، 2/3)
قطع رحمی کی ایک صورت: جب اپنا کوئی رشتے دار کوئی حاجت پیش کرے تو اسکی حاجت روائی کرے اس کو رد کر
دینا قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) ہے۔ (درر، ص323) یاد رہے! قطع رحم یعنی رشتہ کاٹنا
حرام ہے۔
قطع رحمی کے متعلق فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/97، حدیث:598)
2۔ جس قوم میں قاطع رحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو اس قوم پر الله کی
رحمت کا نزول نہیں ہوتا۔ (الزواجر، 2/153)
3۔ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اس کے درجات
بلند کیے جائیں، اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم
کرے یہ اسے عطا کرے۔ اور جو اس سے قطع تعلقی کرے یہ اس سے ناطہ (یعنی تعلق) جوڑے۔ (مستدرک:
3/16، حدیث:3615)
4۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔
(شعب الایمان، 6/223، حدیث: 7962)
5۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی
جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔
(ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)
الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا
رب العالمین
قطع کے معنیٰ تعلق توڑنے کے ہیں، ہمارے معاشرے میں قطع تعلقی بہت عام ہو چکی ہے
جو کہ حرام ہے، قطع تعلقی کو مطقاً حلال سمجھنا کفر ہے۔
قطع تعلقی کی تعریف:
شریعت میں جن سے صلہ رحمی(نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ہے ان
سے تعلق توڑنا قطع تعلقی ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص226)
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں رشتہ داری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ الَّذِیْنَ
یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ
اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِۙ-اُولٰٓىٕكَ
لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ(۲۵) (پ 13، الرعد: 25) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کا
عہد اس کے پکے ہونے کے بعد توڑتے اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اسے قطع کرتے
اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کا حصہ لعنت ہی ہے اور اُن کا نصیبہ بُرا گھر۔
رشتہ توڑنے کی مذمت
پر فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس
گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے
وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)
2۔ حضرت جُبَیر بن مُطْعَم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد
فرمایا: رشتہ داری توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (بخاری، 4/97، حدیث: 5984)
3۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو یہ بات
اچھی لگتی ہے کہ اس کا رزق فراخ ہو اور اس کی عمر دراز ہو جائے تو اسے چاہئے کہ
صلہ رحمی کیا کرے۔ (بخاری،4/97، حدیث: 5985)
4۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: بدلہ لینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ
جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے جوڑے۔ (بخاری، 4/98، حدیث: 5991)
5۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ سرکار ِدو عالَم ﷺ نے ارشاد فرمایا: و
ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے
اور اچھی باتوں کا حکم نہ کرے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، 3/369، حدیث: 1928)
یاد رکھیں! غیبت، حسد، تکبر، وعدہ خلافی، لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اپنے
رشتہ داروں سے تعلق توڑ دیتا ہے اسی لیے ہر مسلمان کو ان سب برائیوں سے بچتے رہنا
چاہیے اور صلہ رحمی کے فضائل پڑھتے اور سنتے رہنا چاہیے۔
الله پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو قطع تعلقی سے بچائے اور سب کے ساتھ
حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
صلہ رحمی واجب جبکہ قطع رحمی حرام ہے۔ مگر افسوس ہمارے معاشرے میں یہ بُری
عادت بھی پائی جاتی ہے، ہمارے رشتہ دار ہمارے ساتھ حسن سلوک کریں یا نہ کریں شریعت
مطہرہ ہمیں انکے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا درس دیتی ہے۔
صِلۂ رِحم کا معنیٰ رشتے کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور
(حُسنِ) سلوک کرنا۔ (بہارِ شریعت،3/ 558) جبکہ رشتہ داری توڑنا اور ان کے ساتھ نیکی
اور اچھا سلوک نہ کرنا قطع رحمی یعنی تعلق توڑنا ہے۔
قرآن پاک میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے:
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ
كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا(۱) (پ 4، النساء: 1) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے ڈرو جس کے
نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔مفتی
احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مُسَلمانوں پر جیسے نماز، روزہ،حج،زکوٰۃوغیرہ
ضروری ہے، ایسے ہی قَرابت داروں کا حق اَدا کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ (تفسیر نعیمی،4/455)
احادیث مبارکہ کی روشنی میں قطع تعلقی کی مذمت:
1۔ رحمت نہ اترنے کا سبب: جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والاہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان،
6/223، حدیث:7962)
2۔ جنت میں داخلہ ممنوع: رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، ص 1338، حدیث:2556)
3۔ دنیا میں بھی سزا: جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی
عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4/229، حدیث: 2519)
4۔ رشتہ داری کاٹنا: حدیث قدسی
ہے الله پاک نے رحم (رشتہ داری) سے فرمایا: جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گااور
جو تجھے کاٹے گا میں اُسے کاٹوں گا۔ (بخاری، 4/98، حدیث: 5988)
5۔ مغفرت سے محروم: پیر اور
جمعرات کو الله پاک کے حضور لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں تو الله پاک آپس میں
عداوت رکھنے اور قطعِ رحمی کرنے والے کے علاوہ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ (معجم کبیر،
1/167، حدیث:409)
اے عاشقان رسول! اگر آپ نے بھی اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کی ہوئی ہے تو
اگرچہ قصور اُنکا ہی ہو سانس بعد میں لیجیئے پہلے ان سے صلح کرلیجیے اور حسن سلوک
سے پیش آئیے۔
رشتہ داروں سے سلوک کی صورتیں: صلہ رحم کی مختلف صورتیں ہیں انکو ہدیہ تخفہ دینا اور اگر انکو کسی کام میں
تمہاری اعانت مدد درکار ہو تو اس کام میں انکی مدد کرنا،انہیں سلام کرنا، انکی
ملاقات کو جانا،انکے پاس اٹھنا بیٹھنا، انکے ساتھ بات چیت کرنا،انکے ساتھ لطف و
مہربانی سے پیش آنا۔ الله پاک ہمیں شریعت کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی بسر
کرنےوالا بنائے۔ آمین یا رب العالمین
شریعت میں جن سے صلہ یعنی نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع
تعلقی ہے۔
قطع تعلقی کی چند مثالیں: بلااجازت شرعی اپنے کسی رشتے دار سے بات چیت اور ملنا ختم کر دینا، کسی کو
کمتر سمجھتے ہوئے اس سے ملنا ختم کر دینا وغیرہ۔
قطع تعلقی کی مذمت میں فرمانِ باری تعالیٰ: فَهَلْ عَسَیْتُمْ
اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا
اَرْحَامَكُمْ(۲۲) اُولٰٓىٕكَ
الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ(۲۳) (پ 26، محمد: 22-23) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا تمہارے
لچھن نظر آتے ہیں کہ اگر تمہیں حکومت ملے تو زمین میں فساد پھیلاؤ اور اپنے رشتے
کاٹ دو یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور انہیں حق سے بہرا کردیا اور ان کی
آنکھیں پھوڑ دیں۔
قطع تعلقی کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ:
1۔ قطع تعلقی کرنے والا جنت میں نہ جائے گا۔ (ترمذی، 3/364، حدیث: 1916)
2۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو شخصوں کی طرف قیامت کے دن رب تعالیٰ نظر
رحمت نہیں فرمائے گا: قطع رحمی کرنے والا اور برا ہمسایہ۔ (کنز العمال، 3/655)
3۔ بے شک بنی آدم کے اعمال ہر جمعہ کی رات کو پیش کیے جاتے ہیں اور قاطع رحم
کے اعمال قبو ل نہیں کیے جاتے۔ (شعب الایمان، 10/341)
4۔ دو گناہ ایسے ہیں جن کی سزا جلدی ہے اور معافی نہیں ہے: ظلم اور قطع رحمی۔
(شعب الایمان، 10/337) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ قطع رحمی سے بچیں اور صلہ رحمی کو
اپنائیں اس لیے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر، جو تجھ
پر ظلم کرے اسے معاف کر اور جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو۔ (شعب الایمان،
10/335)
نیز صلہ رحمی کرنے والے کی عمر میں اور رزق میں برکت و زیادتی ہوتی ہے، عزت
ملتی ہے، یہ دنیاوی فوائد ہیں جبکہ اخروی فوائد یہ ہیں کہ یہ دخول جنت کا سبب ہے،
رب تعالیٰ کی رضا ملتی ہے وغیرہ۔ اور قطع رحمی سے دنیا میں بھی نقصانات ہوتے ہیں،
مثلا لوگوں سے عداوت و دشمنی پیدا ہوتی ہے، ذلت و تنہائی میں مبتلا کر کے غموں میں
اضافہ کرتی ہے وغیرہ، اور آخرت میں بھی نقصانات و عذابات ملتے ہیں، مثلا رب تعالیٰ
کی ناراضگی کا سبب، اللہ کی رحمت سے دوری اور ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا اس
لیے ہمیں اللہ کے عذابات سے ڈرتے ہوئے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو صلہ
رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلق حرام ہے، قطع تعلقی کو
مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے، بدمذہب بے دین سے ہر قسم کا تعلق توڑنا فرض ہے، اگر ہم
کسی سے بغیر اجازت شرعی تعلق توڑیں گے تو حرام ہے تو اس کی مذمت قرآن و حدیث میں
صراحت کیساتھ وارد ہے اللہ ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
قطع تعلقی کی تعریف: شریعت
میں جن سے صلہ (نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ان سے تعلق توڑنا قطع تعلق ہے۔ (صلہ رحمی
اور قطع تعلقی کے احکام، ص 226)
فرامین مصطفیٰ:
1۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلق
توڑے، جو تین دن سے زیادہ تعلق توڑے اور اس حال میں مر جائے تو جہنم میں جائے گا۔
(ابو داود، 4/364، حدیث: 4914)
2۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں اللہ ہوں، میں رحمٰن ہوں اور میں نے رحم
یعنی رشتہ کو پیدا کیا ہے اور اس کا نام اپنے نام سے مشتق کیا پس جو اسے ملائے گا
میں اسے ملائے رکھوں گا اور جو اس کو قطع کرے گا یعنی کاٹے گا میں اس سے قطع کروں
گا۔ (ترمذی، 3/363، حدیث: 1914)
3۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بار مجلس میں تشریف فرما تھے
انہوں نے فرمایا: میں قاطع رحم (رشتہ توڑنے والے کو) اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ
یہاں سے اٹھ جائے تاکہ ہم اللہ سے مغفرت کی دعا کریں کیونکہ قاطع رحم پر آسمان کے
دروازے بند رہتے ہیں یعنی وہ اگر یہاں موجود رہے گا تو رحمت نہیں اترے گی اور
ہماری دعا قبول نہیں ہوگی۔ (معجم کبیر، 9/158، حدیث: 8793)
4۔ ہر جمعرات اور جمعہ کی رات بنی آدم کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں بس قطع رحمی
کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ (مسند امام احمد، 3/532، حدیث: 10276)
5۔ میرے پاس جبرائیل آئے اور عرض کی: یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات
اللہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اس میں
اللہ نہ مشرک کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے، نہ دشمنی رکھنے والے کی طرف، نہ قطع رحمی
کرنے والے کی طرف، نہ تکبر سے اپنا تہبند لٹکانے والے کی طرف، نہ والدین کے
نافرمان کی طرف اور نہ ہی شراب کے عادی کی طرف۔ (شعب الایمان، 3/383، حدیث: 3837)
معاشرتی نقصانات: قطع تعلقی سے لڑائی جھگڑی، حسد، تکبر، دنیا کی محبت، دوسرے
کی عزت نفس کا خیال نہ کرنا اور علم دین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
قطع رحمی سے بچنے کی ترغیب: موت کو کثرت سے یاد کیجیے، گناہوں سے بچنے کا ذہن
بنے، قطع تعلقی کی تباہ کاریوں پر غور کریں، طنز و تنقید کی عادت سے پیچھا
چھڑائیے، اللہ کی عطا پر نظر رکھیے۔