تحریر: محمد آصف اقبال مدنی

خانہ کعبہ کا ہر حصہ ہر گوشہ لاتعداد برکات و فضائل کا منبع ومرکز ہے، انوار وتجلیات ہمہ وقت اس پر برستے رہتے ہیں، خوش نصیب زائرینِ بیت اللہ ان فیوض و برکات سے خوب مستفیض ہوتے ہیں، اپنے دامن کودینی ودنیاوی فوائد وثمرات سے بھرتے ہیں اور اپنے جسمانی و روحانی سکون و راحت کا بھرپور سامان کرتے ہیں۔اس مختصر تحریر میں بیت اللہ شریف کے صرف ایک کونے "رکنِ یمانی" کا تذکرۂ خیر کرتے ہیں۔

٭رکنِ یَمانی: یہ یمن کی جانب خانہ کعبہ کا مغربی کونہ ہے۔ (رفیق الحرمین،ص 61)

٭رکنِ یَمانی کو یہ عظمت حاصل ہے کہ یہ بنیاد ابراہیمی پر ہے۔(مراۃ المناجیح،4/183)

٭رکنِ یمانی کی عظمت کے لئے اتنا کافی ہے کہ حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رکن یمانی کا استلام کرتے، اسے بوسہ دیتے اور اپنا رُخسارِ پُرانوار اس پر رکھ دیتے تھے۔(المستدرک، 2/107، حدیث:1718، 1719)

٭رکنِ یَمانی کی یُمن و برکت سے ہے کہ یہ خطاؤں کو مٹاتا ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حجر اسود اور رکنِ یَمانی دونوں خطاؤں کو مٹاتے ہیں۔ (تر مذی ،2/285،رقم:961)

٭یہاں آنسو بہانا سنت ہے اور اس رکن کا استیلام کرنا روز محشر کام آئے گا۔ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حجرِ اسود اور رکنِ یمانی دونوں قيامت کے دن اٹھائے جائيں گے تو ان کی دو آنکھيں ، ایک زبان اور دو ہونٹ ہوں گے، جس نے ان کا صحيح طريقے سے استلام کياہو گا يہ اس کے حق ميں گواہی ديں گے۔(معجم کبیر،11/146، حدیث:11432)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے پھر اس پر اپنے مبارک ہونٹ رکھ کر دیر تک روتے رہے، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ملاحظہ فرمایاکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی رورہے ہیں توآپ نے ارشاد فرمایا : اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہانے چاہییں ۔

٭اس کا عظیم وفضیلت والا ہونا یوں بھی عیاں ہے کہ یہ جنتی یاقوت ہے۔ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رکنِ یمانی اور مقامِ ابراہيم جنت کے ياقوتوں میں سے دو ياقوت ہيں، اور يہ کہ اللہ پاک نے ان کا نور بجھا ديا اگر ايسا نہ ہوتا تو مشرق و مغرب ہر شے روشن ہو جاتی۔ (صحیح ابن حبان،6/10، حدیث:3702)

٭مولائے کریم اس رکنِ عظیم کی زیارتِ عمیم سے نوازے، وہاں بخشش و عافیت مانگنے کا موقع بہت بڑی سعادت ہے۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رکنِ يمانی پر 70,000 فرشتے مؤکل ہيں،جوبھی يہ دعا مانگتا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِيَۃَ فِی الدِّين وَ الدُّنْيا رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (یعنی اے اللہ پاک ! میں تجھ سے دين و دنيا میں بخشش اور عافيت کا سوال کرتا ہوں، اے ہمارے رب!ہميں دنيا و آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہميں جہنم کے عذاب سے بچا) تووہ فرشتے اس کی دعا پر آمین کہتے ہيں۔ (سنن ابن ماجۃ، 3، ص 439، حدیث:2957)

٭اس عالی شان مقام پر کی جانے والی خاص دعا پر آمین کہنے کو خاص فرشتہ مقرر ہے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے زمین وآسمان کی پیدائش کے وقت سے رکْنِ یمانی پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے۔ جب تم وہاں سے گزرو تو یہ دعاکیاکرو کیونکہ وہ فرشتہ اٰمین کہتا ہے: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطافرمااورآخرت میں بھی بھلائی عطا فرمااور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ (حلیۃ الاولیا،5/ 95، حدیث:6457)

٭رکن یمانی پر فرشتوں کی کثرت کی گواہی ان کے سردار جبریل امین علیہ السلام نے بھی دی ہے۔ ایک بار حضرت جبریل علیہ السلام بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں یوں حاضر ہوئے کہ انہوں نے سبز رنگ کا عمامہ شریف باندھا ہوا تھا جس پر کچھ غبار تھا۔ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پوچھا: آپ کے عمامے پر غبار کیسا ہے؟ حضرت جبریلِ امین علیہ السلام نے عرض کی: میں کعبۃ اللہ کی زیارت کو حاضر ہوا تھاتو رکنِ یمانی پر فرشتوں کا اِزدِحام تھا یہ ان کے پروں سے اڑنے والا غبار ہے۔ (اخبار مکہ للازرقی،ج1، ص35۔ الحبائک فی اخبار الملائک ، ص186)