ایک مرتبہ
ایک استاذ صاحب بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ اتنے میں ایک بچے نے آکر سلام کیا جس پر
استاذ صاحب کی زبان سے نکلا ”جیتے رہو“ بچوں میں موجود ایک علمی گھرانے سے
تعلق رکھنے والے بچے نے عرض کیا: یہ سلام کا جواب تو نہیں!وعلیکم السلام کہنا چاہیئے، یہ سن کر استاذ صاحب بہت خوش ہوئے
اور اُس بچے کو دعاؤں سے نوازا۔
یہ بچہ کوئی اور نہیں بلکہ اپنے وقت کے امام،
مترجمِ قراٰن،امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت، ماحی بدعت، شیخ المسلمین اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ مبارکہ تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ دنیا بھر
میں اہلسنت و جماعت کے بہت بڑے امام و مُقْتَدَا (جس کی اقتدا کی جائے) اور مذہب و ملت کے محافظ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
ولادتِ باسعادت
اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ 10 شوال المکرم1272ھ بمطابق 14جون 1856ء کو ہند کے
مشہور و معروف شہر بریلی میں واقع محلہ
جسولی میں پیدا ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا پیدائشی نام محمد اور تاریخی نام المختار ہے
جبکہ آپ کے جدِّ امجد مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا نام احمد
رضا رکھا۔(سیرتِ امام احمد رضا خان
قادری، 94)
آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے ذہین و فطین اور اعلیٰ اخلاق و سیرت
کے مالک تھے ۔بچپن ہی سے دینِ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا، بزرگوں کا ادب کرنا
اور ساداتِ کرام (آلِ رسول) کا احترام کرنے سمیت دیگر ایسے کثیر واقعات سے آپ رحمۃا للہ علیہ کی زندگی بھری ہوئی ہے نیز اللہ پاک نے آپ کو
بےشمار علمی صلاحیتوں سےبھی نوازا تھا جن پر
آ پ کی تصانیف اور فتویٰ جات گواہ ہیں۔
جس کے لئے روزہ
رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے
ایک مرتبہ
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جاری و ساری تھا، اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی
پہلی روزہ کشائی کی تقریب کا سلسلہ تھا، ایک کمرے میں فیرنی کے پیالےجمانے کے لئے رکھے ہوئے
تھے۔سخت گرمی ہونے کے باوجود اعلیٰ حضرت نے کم عمری میں بھی بڑی خوش دلی سے روزہ
رکھا تھا۔ دوپہر کے وقت اعلیٰ حضرت کے والدِ محترم آپ کو اُس کمرے میں لے گئے اور دروازہ
بند کر کے فیرنی کا ٹھنڈا پیالہ اٹھا کر دیا اور کہا کہ اسے کھالو۔اعلیٰ حضرت نے اپنے
والدِ محترم سے کہا کہ میرا تو روزہ ہےکیسے کھاؤں؟والدِ محترم نے فرمایا: بچوں کا
روزہ ایسا ہی ہوتا ہے، لو کھالو، کمرہ بند ہے، کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔اس پر
اعلیٰ حضرت عرض گزار ہوئے:”جس کے لئے روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے “، والدِ
محترم آپ کی باتین سن کر آبْ دِیْدَہْ ہو گئے(آنکھوں میں
آنسو آگئے) ، انہوں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیاکہ جس کو کم عمری میں اپنے وعدے کو پورا کرنے کا اتنا لحاظ ہو وہ بچہ
اپنے رب سے کئے ہوئے عہد (وعدے) کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت معہ کرامات، 90)
مریض ہوں تو
علاج نہ کروں؟
اعلیٰ حضرت
رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کہا جاتا ہے:نہ ان کے کسی بڑے کی
زبانی سنا، نہ ہی کسی برابر والے(ہم عمر)نے بتایااور نہ ہم چھوٹوں نے اعلیٰ حضرت
کو کبھی ماہِ مبارک کا کوئی روزہ قضا کرتے
ہوئے دیکھا۔بعض مرتبہ اعلیٰ حضرت ماہِ مبارک میں بیمار ہوئے مگر انہوں نے روزہ
نہیں چھوڑا۔کسی نے عرض کی کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے سے کمزوری اور بڑھ جائےگی
تو ارشاد فرمایا کہ مریض ہوں تو علاج نہ کروں؟لوگوں نے تعجب سے کہا: کہ روزہ بھی
کوئی علاج ہے؟ تو ارشاد فرمایاکہ علاج کا
توڑہے، میرے آقا صلی
اللہ علیہ و سلم کا بتایا ہوا
اکسیر ہے۔آپ صلی
اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:صوموا تصحوا روزہ رکھو صحتیاب ہو جاؤ گے۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت معہ کرامات، 91)
اس سے معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت بچپن ہی سے اللہ عزوجل اور اس
کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے
حکم پر عمل کرنے والے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے کہ عام طور پر بچوں میں ان چیزوں کا
زیادہ رجحان نہیں ہوتا لیکن قربان جائیں میرے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان پر کہ بیماری کے عالم میں بھی روزہ نہ چھوڑا ۔
حسنِ اخلاق کا
اعلیٰ درس
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے
اعلیٰ اخلاق کا اندازہ اُس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جب ایک کم سن بچے نے اعلیٰ
حضرت کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی ۔اس پر اعلیٰ حضرت نے مزاحاً پوچھا:دعوت میں
کیا کھلاؤ گے؟کم سن بچے نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کُرتے کے دامن کو پھیلایا جس میں
ماش کی دال اور مرچیں تھیں، اور کہا دیکھئے نا یہ لایاہوں۔اعلیٰ حضرت نے اُس بچے
کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور دعوت قبول کرتے ہوئے فرمایا:کہ میں اور حاجی کفایت اللہ صاحب آئیں گے ۔
اگلے روز
وقتِ مقررہ پر اعلیٰ حضرت حاجی کفایت اللہ صاحب کے ہمراہ اُس کم سن بچے کے گھر(جو کہ بریلی شہر کے محلہ ملوکپور میں واقع تھا) پہنچے ۔اعلیٰ حضرت اور حاجی کفایت اللہ صاحب کچھ دیر گھرکے باہر کھڑے رہے۔ اس کے بعد ایک بوسیدہ چٹائی آئی
اورایک ڈلیا(مونج یا
کھجور کے پتّوں کی بنی ہوئی چھوٹی ٹوکری) میں باجرہ کی گرم گرم روٹیاں آئیں،مٹی کے برتن میں ماش کی دال آئی جس میں
مرچوں کے ٹکڑے ٹوٹے ہوئے پڑے تھے۔کھانے کے دوران حاجی کفایت اللہ صاحب کے دل میں خیال آیا کہ گھر پر تو اعلیٰ حضرت
کے کھانے میں احتیاط کی جاتی ہے کہ چپاتی کے بجائے سوجی کا بسکٹ تناول فرماتے ہیں
اور یہاں باجرہ کی روٹی اور ماش کی دال
کھانا پڑی ہے مگرقربان جائیں میرےآقا اعلیٰ حضرت کے اخلاقِ کریمہ پر کہ میزبان کی
خوشنودی اور اُس کا دل رکھنے کے لئے پوری توجہ کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت معہ کرامات، 97تا 98)
اس واقعہ
میں اعلیٰ حضرت نے اپنے چاہنے والوں کو حسنِ اخلاق کا کیسا اعلیٰ درس دیا ہے کہ ہمیں ہر ایک کے ساتھ حسنِ
سلوک کرنا چاہیئےچاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، نیز معلوم ہوا کہ آپ کا علمی مقام جس
قدر بلند تھا بلکل اسی طرح آپ کے اخلاقِ
کریمہ بھی بلند و بالا تھے۔
سیّد صاحب کے حکم کی تعمیل
اعلیٰ حضرت
سمیت آپ کا پورا خاندان ساداتِ کرام (آلِ رسول) کی عزت و عظمت اور اُن سے بےحد محبت کرنے والا
مشہور گھرانہ تھا۔ آپ کے آبا و اجداد اکثر
ساداتِ کرام کی خیریت معلوم کرنے اور انہیں سلام کرنے جایا کرتے تھے اور انہیں
اپنی دعوتوں میں شریک کرتے تھے۔ ایک بار اعلیٰ حضرت نے کسی سبب سےکھانا چھوڑ
دیا اور صرف ناشتہ پر قناعت کرنے لگے۔سارے خاندان اور اُن کے احباب نے بڑی جد و
جہد کی کہ اعلیٰ حضرت کھانا شروع کردیں لیکن ان سب کی کوشش رائیگاں گئی تو وہ سب
سیّد مقبول صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
عرض کیا کہ آج دو مہینے ہو گئے ہیں، اعلیٰ حضرت نے کھانا چھوڑ دیا ہے، ہم سب
کوشش کرکے تھک گئے ہیں اب آپ ہی انہیں
سمجھا سکتے ہیں۔اس پر سیّد مقبول صاحب نے اپنے گھر والوں سے کھانا تیار کروایا اور
خود اعلیٰ حضرت کے پاس تشریف لے گئے، جب اعلیٰ حضرت کو سیّد صاحب کے آنے کی اطلاع ملی تو فوراً کمرے سے باہرچلے آئےاور سیّد صاحب سے قدم بوس
ہوئے ۔سیّد مقبول صاحب نے فرمایا : میں نے سنا ہے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہےتو اعلیٰ
حضرت نے کہا کہ میں تو روز کھاتا ہوں، میرے معمولات میں اب تک کوئی فرق نہیں پڑا،
میں اپنا کام بدستور کر رہا ہوں، مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں اس پر سیّد مقبول
صاحب برہم ہوگئے اور کھڑے ہو کر فرمانے لگے اچھا تو میں کھانا لے جاتا ہوں، کل بروزِ قیامت میں سرکارِ
دوعالم صلی
اللہ علیہ و سلم کا دامن پکڑ کر عرض کروں گا کہ ایک سیّدہ نے
بڑے شوق سے کھانا پکایا اور ایک سیّد لے کر آیا مگر آپ کے احمد رضا نے کسی طرح نہ
کھایا۔یہ سن کر اعلیٰ حضرت کانپ گئے اور عرض کیا کہ میں تعمیلِ حکم کے لئے حاضرہوں،ابھی
کھالیتا ہوں۔سیّد صاحب نے اعلیٰ حضرت سے وعدہ لیا کہ اب عمر بھر کھانا نہیں چھوڑو
گے چنانچہ اعلیٰ حضرت نے عمر بھر کھانا نہ چھوڑنے کا وعدہ کیا تو سیّد صاحب اعلیٰ
حضرت کو کھانا کھلا کر خوشی خوشی تشریف لے گئے۔( سیرتِ اعلیٰ حضرت معہ کرامات، 94 تا 95)
ساداتِ کرام کا
ادب و احترام جزءِ رسول ہونے کی حیثیت سے
ساداتِ
کرام کا اس قدر ادب و احترام کرنے کے متعلق تلمیذِ اعلیٰ حضرت، ملک العلماء حضرت
علامہ محمد ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: علمائے دین نے اپنی مستند کتابوں میں اس بات کی تصریح فرمائی
ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت و تعظیم میں سے ہے کہ ہر وہ چیز جس
کو حضور سے نسبت ہو جائے اُس کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ساداتِ کرام جزءِ رسول ہونے
کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحقِ توقیر و تعظیم ہیں اور اس پر پورا عمل کرنے والا میں نے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو پایا ہے، اس لئے کہ کسی سیّد صاحب کو اعلیٰ
حضرت اُس کی ذاتی حیثیت سے نہیں دیکھتے بلکہ اس حیثیت سے دیکھتے ہیں کہ وہ سرکارِ
دوعالم صلی
اللہ علیہ و سلم کا جز ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت 1، 179)
اعلیٰ حضرت کے زندگی کا ہر ایک پہلو ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے، اللہ پاک ہمیں بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
فاضلِ بریلوی رحمۃ
اللہ علیہ کی اعلیٰ سیرت اور اُن
کے فرامین پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
از: غیاث الدین مدنی (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)