از:مولانا شہروز علی عطاری مدنی

بخاری پارک نزد بس اڈہ الہ آباد روڈ،”سبی“، بلوچستان میں 01دسمبر 2022 بروز جمعرات بعد نمازِ عشاء ، مبلغِ دعوتِ اسلامی و رکنِ شوری حاجی ابو رجب محمد شاہد عطاری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار نیکیوں (سنتوں) بھرے اجتماع میں بیان فرمایا ۔جس میں انہوں نے نیک بننے اور گناہوں سے منہ موڑنے کی بھرپور ترغیب دلائی۔

چالیس سال پرانا تحفہ آج بھی سلامت تھا:

یوں تو رکنِ شوری حاجی ابو رجب محمد شاہد عطاری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا شیڈول 25 نومبر سے بلوچستان کے مختلف شہروں میں رہا ہے اور کئی عاشقانِ رسول سے ملاقات کی لیکن ”سبی“ شہرمیں اسماعیل نام کے ایک ایسے بزرگ اسلامی بھائی کے گھرقیام فرمایا جو محبِ دعوتِ اسلامی ہونے کےساتھ بانی ِدعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے بھی بے ح د معتقد تھے۔انہوں نے امیرِ اہلِ سنت سےمحبت سےا ٓراستہ اپنا چالیس سال پرانا ایک واقعہ بیان کیا کہ

سن 1983میں ایک اسلامی بھائی کے ساتھ امیرِ اہلِ سنت سے ملاقات کے لیے آیا ،امیرِا ہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے میری دل جوئی کے لیے عمامہ کے فضائل تحفے میں دیا ۔تو میں نے ان کی ایک فریم بنالی اور اسے چالیس سال سے محفوظ رکھا ہے۔

وہ تحفہ کیا تھا؟

وہ تحفہ علمِ دین کی معلوملات پر مشتمل ایک پمفلٹ تھا جس میں عمامے کے فضائل پر مشتمل آٹھ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تھے،ایک ایمان افروز حکایت کے ساتھ ساتھ آخر میں عمامے سے متعلق پانچ اہم مسائل بھی درج تھے۔

پھر رکنِ شوری نے امیرِ اہلِ سنت مَدَّ ظِلُّہُ العالی کے کیے گئے دم کی برکت پر مشتمل ایک واقعہ بیان کیا:

امیر اہلِ سنت کا دَم اور نوکری کی ضمانت:

ایک دفعہ امیرِ اہلِ سنت ”سبی“تشریف لائے۔ ایک امام صاحب نے آپ سے ملاقات کی اور کہا کہ حضور! یہاں کہ ادارے میں نیا افسر آیا وہ مجھے نکالنا چاہتا ہے ،آپ دعا کریں کہ میں نوکری سے نہ نکالا جاؤں ۔امیرِ اہل سنت مَدَّ ظِلُّہُ العالی نے ارشاد فرمایا :کھڑے ہو جائیں۔پھر آپ نے ان کے چاروں طرف دَم کرکے ارشاد فرمایا : جب تک تم نہ چاہو گے تب تک تمہیں کوئی نہیں نکالے گا۔اس دَم اور پاکیزہ کلمات کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ وہ اپنی ملازمت کے پچیس سال پورے کر کےریٹائر ہوئے۔

پیارے بھائیو!آج ”دعوتِ اسلامی“دینِ متین کا پیغام عام کرتی جارہی ہے اور اپنے ٹارگٹ کو پورا کرتے ہوئے دن بہ دن ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے ،ان تمام ترقیوں کا کریڈٹ امیرِ اہل سنت کو جاتا ہے۔جن کی محنت،اصلاحِ معاشرے کےجذبےاورشہر شہر،ملک ملک جا کر نیکی کی دعوت دینےاور بگڑے ہوؤں کو نیک راہ پر لانے کے جنون سےہمیں دعوتِ اسلامی نام کا ایک پھل دار اور سایہ دار درخت مل گیا۔

اللہ پاک ہمیں دعوت اسلامی کے دینی ماحول میں رہ کر دینِ متین کی خوب خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ا ستاد ہونا بلاشبہ  ایک سعادت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ اسی طرح شاگرد ہونا بھی تحفۂ ربّ لم یزل ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطافر ماتا ہے۔ استاد شاگرد کو عرصۂ دراز تک ایک ساتھ ایک ادارے میں مخصوص مقاصد کے تحت رہنا ہو تا ہے اور استادو شاگرد دونوں ہی ایک مقدس رشتے کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ان کا باہمی تعلق اس نوعیت کا ہو کہ وہ ادارہ تو چھوڑ جائیں لیکن ایک دوسرے کو نہ چھوڑ سکیں، ان کا باہمی تعلق اتنا مضبوط ہو کہ وہ تاحیات ساتھ رہیں، جب بھی شاگرد کو استاد کا خیال آئے تو دل ادب و احترام سے بھر جائے، اور اس استاد کا شاگرد ہونے کو سعادت خیال کرے۔استاد کی مثال اس باغبان جیسی ہے کہ جس کے کندھے پرننھے پودوں کے مستقبل کی لہلہاوٹ منحصر ہوتی ہے، دور جدید میں استاد کی مثال اس ناخدا جیسی ہے جسے اپنی ناؤ کو ساحل پر لنگر انداز کرنا ہوتا ہے، لہذا استاد کو چاہیے کہ شاگرد کے باطن کو خصائل رذیلہ سے پاک کرکے اوصاف حمیدہ کا حامل بنانے کے لئے تمام تر سُستیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، تاکہ وہ اپنے شاگرد کو معاشرے کا ایک مثالی فرد اور اسلام کا درخشندہ ستارہ بنا سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ استاد و شاگرد باہم نہایت مخلص ہوں اور باہم کسی قسم کے طنز و تنقید اور مقابلے کو روا نہ رکھیں، اس کے لئے ضروری ہےکہ مندرجہ ذیل امور کو زیرِ نظر رکھیں۔

طلبا کی نفسیات سے واقفیت: ہر انسان جداگانہ فطرت کا حامل ہے، ایک ہی درجے میں موجود طلبا کی نفسیات مختلف ہوتی ہیں، بعض اوقات اساتذہ کو شکایت ہوتی ہےکہ فلاں طالبعلم کو بہت سمجھایا پیار سے بھی سمجھایا، غصے سے بھی سمجھایا، لیکن اسکی کمزوری دور نہیں ہوتی، اساتذہ شاید اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ شاگرد آپ کی بات کو اسی وقت تسلیم کرے گا کہ جب آپ اسے اس کی نفسیات کے مطابق سمجھائیں گے۔لہذا اساتذہ غور کریں کہ انہوں نے طلبا کو سمجھایا یا شرمندہ کیا۔بچے کی فطرت کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنا انداز بدل سکتے ہیں۔بہترین استاد وہ ہے جو اپنے شاگرد کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے، استاد و شاگرد کا باہمی تعلق نہایت خوشگوار اور دوستانہ رکھنے کے لئے نفسیات سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔ تاکہ شاگرد بلاخوف و خطر آپ سے اپنے خیالات کا تبادلہ اور مسائل کا حل طلب کرسکے۔ بروز قیامت ما تحت کے بارے میں سوال ہوگا۔ استاد کے ساتھ ساتھ شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے دل میں استاد کی محبت کو پروان چڑھائے، استاد کا دل میں احترام ہر وقت ملحوظ رہے، اور اس کے لئے ادب کرنا بہت ضروری ہے۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔دوران درجہ شاگرد کو چاہیے کہ نہایت مؤدبانہ انداز اختیار کرے۔اور استاد کی موجودگی میں کسی سوال کا جواب نہ دے، بلکہ استاد ہی سے سوال کرنے کا مشورہ دے، نیز استاد سے اگر کبھی سبقت لسانی یا بھول کی وجہ سے کوئی غلطی ہوجائے، تو فورا لقمہ دینے کے بجائے لکھ کر یا الگ سے استاد کو اچھے اندا ز میں بتادے، تاکہ استاد بروقت اپنی غلطی کا ازالہ کرسکے،اور اس کی عزت نفس کو ٹھیس بھی نہ پہنچے۔ شاگرد ہمیشہ یہ بات مستحضر رکھے کہ میرا استاد کامل ہے، اگر بتقاضائے بشریت کچھ غلطی ہوجائے تو یہ سوچے کہ استاد نے ایسا کیا نہیں بلکہ اس سے خطا کے طور پر ایسا ہوگیا۔

ماوصل من وصل الا بالحرمۃ

وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ

جس نےجو پایا ادب سے پایا، اور جس نے جو کھویا ادب نہ کرنے کی وجہ سے کھویا۔

استاد و شاگرد کے درمیان گیپ نہ ہو:چاہیے کہ استاد ایک شریف باپ اور شاگرد ایک باادب بیٹے کا سا طریقہ اپنائے، تاکہ تحصیلِ علم میں طالبِ علم کو کوئی مشکل پیش نہ آئے، تاکہ وہ بلاجھجھک اپنی علمی الجھنیں استاد کے سامنے رکھ کر تشفی بخش جواب سے انہیں دور کرسکے۔شاگرد اور استاد کے درمیان اتنا فاصلہ نہ ہوکہ مفروضات تو دور شاگرد اسباق سے متعلق حقیقی سوال بھی نہ کرسکے، بلکہ اساتذہ شاگرد کے ساتھ بااخلاق رویہ رکھیں، کہ شاگرد بے فکر ہوکر سوالات پوچھے، ایسانہ ہوکہ سوالات پوچھنے سے پہلے شاگرد یہ سوچے کہ پتانہیں اب جواب ملے گا یا الٹا سوال کریں گے۔

شاگرد کے سوال کا جواب ہوسکے تو دیں لیکن اس وقت جواب معلوم نہ ہونے پر وقت طلب کرلیں، یہ نہ کہیں کہ تمہارا اس سوال سے کیا کام؟ یہ پوچھ کر تم کیا کرو گے؟ اگر شاگرد کوئی غلط سوال کر بھی لے تو اسے بتائیں کہ وہ غلطی پر ہے اس کا سوال غلط ہے، تاکہ وہ اپنی غلطی سدھار لے، شاگرد کو بھی چاہیے کہ صرف علمی سوالات کرے، مفروضات نہ پوچھے، کہ اگر اس صورت میں یہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟اس طرح درجے کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے، دیگر طلبا کو بھی ناگوار لگتا ہے، اگر تمنا حصولِ علم کی ہے تو استاد کا ادب کر، نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزانوں میں۔

ذاتی معاملات میں مداخلت:استاد کو چاہیے کہ بلاوجہ اور ذاتی طور پر شاگرد کے معاملات میں دخل نہ دیں، بلکہ آپ کا کردار اور اعتماد شاگرد کی نظروں میں اتنا مضبوط ہو کہ وہ آپ سے خود علمی مسائل کے علاوہ دیگر مسائل کے بھی حل طلب کریں، شاگرد کو جب استاد سے عزت نفس کے تحفظ کا یقین ہوگا تو وہ خود بلا تردد تمام مسائل استاد سے شیئر بھی کرے گا، اور اپنی غلطی کی نشاندہی پر اسے تسلیم بھی کرے گا۔شاگرد چونکہ ایک مدت تک استاد کی نگاہوں میں رہتا ہے، چنانچہ زیرک اساتذہ مختلف طلبا میں پائی جانے والی مختلف صلاحیتوں کو بھی پہچان لیتے ہیں۔ لہذا شاگرد کو چاہیےکہ فارغ التحصیل ہوتے وقت اپنے اساتذہ سے مستقبل کے بارے میں مشورہ ضرور کرے، تاکہ وہ جگہ جگہ خود کو آزما کر وقت ضائع کرنے کے بجائے، اپنی متعلقہ فیلڈ میں خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرسکے۔

المختصر یہ کہ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ اس طرح طلبا پر شفقت کرے کہ جیسے کوئی باپ اپنی حقیقی اولاد پر کرتا ہے، ان سے اندازِ تخاطب، ان کے مسائل میں معاونت، اور دلجوئی کا بھی خیال رکھے،استاد کی کسی بھی قسم کی بے ادبی اور دلی آزردگی کرنے سے بچے، اور یاد رکھے کہ

میدان علم و فن میں ہیں شاہسوار جتنے

ہر ایک کی ہے ہمت استاد کی بدولت

شاگرد کی ہے عزت استاد کی بدولت


 استاد اور طالبِ علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔لہذا استاد کو چاہیے کہ اپنے طلباء کی بہتر تربیت کے لیے درجِ ذیل امور پیش نظر رکھے؛

(1) ان کی ناکامی پر رنجیدہ اور کامیابی پر اظہارِ مسرت:اگر کوئی طالبِ علم سبق سنانے میں یا امتحان میں ناکامی سے دوچار ہو تو اس کی ناکامی پر رنجیدہ ہو اور اس کی ڈھارس بندھائے اور اسے ناکامی سے پیچھا چھڑانے کے لیے مفید مشورے دے اور اگر کسی طالبِ علم کو کوئی کامیابی نصیب ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرےبلکہ ممکن ہو تو کوئی تحفہ بھی دے اور اس کی مزید کامیابیوں کے حصول کے لیے دعا کرے۔

(2) بیمار ہونے پر عیادت:اگر کوئی طالبِ علم (بالخصوص مقیم طالب علم)بیمار ہو جائے تو سنّت کے مطابق اس کی عیادت اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ سرورِ کونینﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستّر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستّر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنّت میں ایک باغ ہوگا۔(سنن الترمذی،2/290، حدیث:971)

(3) استقامت کی ترغیب:عموماً دیکھا گیا ہے کہ حصولِ علمِ دین کے لئے آنے والے طلباء کی بہت بڑی تعداد استقامت سے محروم رہتی ہے اور اکثر طلباء اپنی تعلیم (خصوصاً ابتدائی درجات میں)ادھوری چھوڑ کر اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور دیگر کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس لئے استاد کو چاہیے کہ اپنے (بالخصوص ابتدائی درجے کے) طلباء کو استقامت کے فوائد، عدمِ استقامت کے نقصانات، استقامت کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو بیان کرے اور انہیں دور کرنے کا طریقہ بتائے اور طلباء کو استقامت کے ساتھ حصولِ علم کی ترغیب دے۔

استاد سے تعلقّات کیسے ہوں؟

استاد کے حقوق پورے کرے:اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کتبِ معتبرہ کے حوالے سے استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ "عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ کہ

1۔ استاد سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔

2۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔

3۔ چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔

4۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل نہ کرے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کر دے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصوّر کرے۔

5۔ اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔

6۔اور اگر چہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو، اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے۔

7۔اگر وہ گھر کے اندر ہو، تو باہر سے دروازہ نہ بجائے، بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

8۔ (اسے اپنی جانب سے کسی قسم کی اَذیت نہ پہنچنے دے کہ) جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اَذیت پہنچی، وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(فتاویٰ رضویہ، 10/97-94)


علم اور ادب کا بہت بڑا ساتھ ہے، یوں سمجھئے کہ جہاں ادب نہیں وہاں علم کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک طالبِ علم کو استاد، کتاب اور مادرِ علمی یعنی  تعلیمی ادارے کا ادب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے، بعض دفعہ بڑے بڑے ذہین و فطین طلبہ بھی سوءِ ادب(بے ادبی) کی وجہ سے محروم اور علم سے دور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

استاد کا ادب کتنا ضروری ہے اس کی اہمیت جاننے اور سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ استاد وہ محسن ہے جو طالبِ علم کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے، رہنے کا ڈھنگ بتاتا ہے اور اخلاقی برائیوں کو دور کرکے اسے معاشرے کا ایک مثالی فرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دینِ اسلام میں استاد کے ادب کو بہت اہمیت دی گئی ہے حتّٰی کہ استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے، لہٰذا طالبِ علم کو چاہئے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے۔تفسیرِ کبیر میں ہے:استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیرِ کبیر، 1/401)

امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے جب تک کہ وہ علم،اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔

امام فخرالدین ارسا بندی رحمۃ اللہ علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اورسلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب واحترام کیا کرتاتھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاد کی خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔کیو نکہ استاد ہو یا طبیب دونوں ہی اس وقت نصیحت نہیں کرتے جب تک ان کی تعظیم وتکریم نہ کی جائے۔(راہِ علم، ص 35 تا38ملتقطاً)

ادب کے ذریعے استادکے دل کو خوش کرکے ثواب حاصل کرنا: حدیث ِپاک میں ہے: اللہ پاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کادل خوش کرناہے۔(معجم اوسط، 6/37، حدیث:7911)

ادب کرنے والے کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہے،کیونکہ جس نے جو کچھ پایا ادب واحترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اورجس نے جوکچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(تعلیم المتعلم،ص35)

الخىرات الحسان مىں ہے: امام اعظم رضى اللہ عنہ زندگى بھراپنے استاد محترم سىدنا امام حماد علیہ الرحمۃالجوا د کے مکان عظمت نشان کى طرف پاؤں پھىلا کر نہىں لىٹے حالانکہ آپ کے مکان عالى شان اور استادمحترم علىہ الرحمہ کے مکان عالى شان کے درمىان تقرىبا سات گلىاں پڑتى تھىں۔(اشکوں کى برسات، 9)

ہمارا پیارا دین ”اسلام“ تعلیم دیتا ہے کہ جو عمر اور مقام و مرتبے میں چھوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کریں اور جو عمر، علم، منصب، عہدے وغیرہ میں بڑا ہو ان کا ادب و احترام بجالائیں۔ ہمارے بڑوں میں ہمارے ماں باپ، اساتذہ کرام،پیر و مرشد اور علماءو مشائخ اور تمام ذی مرتبہ لوگ شامل ہیں۔ ان کے ادب و احترام کا ہمارے پیارے آقا ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا ہے: بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو تم جنّت میں میری رفاقت پالو گے۔ ( شعب الایمان، 7/458، حدیث: 1098)

استاد کا ادب تکمىلِ علم کے لىے بنىاد ہے اور بے ادب علم کى نعمت سے محروم رہتا ہے، جب کہ ادب کو تھامنے والے فلاح و کامرانى کى ان بلندىوں پر پہنچ جاتے ہىں کہ ان کا نام آسمانِ ہدایت مىں چمکتے ہوئے ستاروں کى طرح تا ابد افشاں رہتا ہے اور اس کى روحانى تعلىمات سے اىک عالم فیض یاب ہوتا ہے۔کسى عربى شاعر نے کہا:

مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّابِالْحُرْمَةِ

وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَةِ

ىعنى جس نے جو کچھ پاىا ادب و احترام کرنے کى وجہ سے پاىا اور جس نے جو کچھ کھوىا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہى کھوىا۔ (کامىاب طالب علم کون؟ ص 55)

ىہى ادب تھا جس نے شىرِ خدا علىُ المرتضى کرم اللہ تعالىٰ وجہہ الکرىم کو دروازۂ علم کے لقب ِباکمال سے سرفراز کىا، آپ رضى اللہ عنہ فرماتے ہىں: جس نے مجھے اىک حرف سکھاىا مىں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہِ علم، ص 29)

اور ادب کى بات ىہ ہے کہ جو استاد کہے کرنا چاہىے کہ استاد روحانى باپ ہوتا ہے، والدىن بچے کى جسمانى پرورش کرتے ہىں، لىکن استاد بچوں کو زندگى کى سىڑھىاں چلنا سکھاتا ہے بس بات ىہ ہے کہ استاد بادشاہ نہىں ہوتا مگر بادشاہ بنادىتا ہے، اور استاد کا ادب کامىابى کى پہلى سىڑھى ہے۔


ایک انسان استاد کے بغیر کبھی بھی کامیاب شخصیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے ہر کامیاب شخص کے پیچھے اس کے استاد کا ہاتھ پایا جاتا ہے جو اس کی شخصیت کو نکھار کر دنیاکے سامنے لاتا ہے۔ استاد ایک فیکٹری ہے۔ اور یہ وہ فیکٹری ہے کہ جہاں سے خام مال سونا بن کر نکلتا ہے۔ اسی لیے استاد کی عزت کرنا شا گردوں پر لازم ہے۔استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت مقدس ہے۔ اس لیے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے اُستاد کی عزت و احترام کرے، جب تک استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق بہتر نہیں ہوگا طالب علم بہتر علوم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے: اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔ چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے اُستاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اُسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کو قبول کرنے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔ اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے اگرچہ اس سے ایک ہی حرف سیکھا ہو۔ اگر وہ اپنے گھر کے اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے اساتذہ کے ساتھ ماں باپ سے بڑھ کر محبت بھر اسلوک کریں،کیونکہ اساتذہ ہمارے روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں، جبکہ اساتذہ اسے نارِدوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، 1/401)

طالبِ علم کو چاہیے کہ ہر دم یہ کوشش کرتا رہے کہ اس کی کسی بھی حرکت کسی بھی کلام یا کسی بھی طرح سے اس کے استاد کو اذیت نہ پہنچے کہ استاد کو اذیت پہنچانا علم کی برکت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔ میرے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس سے اس کے استاد کوکسی قسم کی اذیت پہنچی، وہ علم کے برکات سے محروم رہے گا۔ (فتاوی رضویہ، 10/96-97)

شاگرد کو چاہیے کہ ہر دم استاد کی عزت کرے، اس کے فرمان پرلبیک کہے۔ اس کے آگے آواز اونچی نہ کرے، ہمارے اسلاف اور بزرگان دین استاد کا بے حد احترام فرماتے تھے جیسا کہ حضرت سہل رحمۃ الله علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن اچانک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں سے فرمایا: آج جو کچھ پوچھنا چاہو پوچھ لو، تو لوگوں نے عرض کی: حضور کیا ماجرا ہے؟ آپ تو کسی سوال کا جواب نہیں دیا کرتے تھے؟ فرمایا: جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا، لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت ہوئی،کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔ بہر حال آپ کے اس جواب کی بناپر فوراً وقت اورتاریخ نوٹ کرلی گئی۔ جب بعد میں معلومات کی گئی تو واضح ہوا کہ آپ کا انتقال حضرت سہل کے کلام سے کچھ دیر قبل ہی ہو گیا تھا۔( تذكرة الاولیاء، 1/229)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ ایک بہترین استاد اور عظیم مفکر ہیں، آپ استاد شاگرد کے متعلق فرماتے ہیں کہ استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے برابر سمجھے۔ اور ان سے نہایت شفقت اور محبت سے پیش آئے۔ جہاں تک ممکن ہو طلباء کو نصیحت کرتا رہے۔ استاد کو چاہیےکہ طلباء پر سختی کرنے سے گریز کرے۔ سختی کرنے سے طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور معلم کا وقار گر جاتا ہے۔ آپ طلباء کو فرماتے ہیں: استاد کی فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائیں۔ میرے شیخِ طریقت امیر اہل سنت کی شخصیت میں بھی استاد کا ادب دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ پیارے آقا محمد مصطفیٰ کا نام مبارک سماعت کرتے ہی ادب سے سر کو جھکاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک کی رضا کے لیے اپنے استاد کا احترام کریں۔ بحیثیت ایک کامیاب طالب علم ہماری ذمہ داری ہے کہ استاد کے حقوق کا خیال رکھیں۔اللہ پاک ہمیں باادب بنائے۔ استاد کے قدموں میں پڑے رہنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین


 ماں باپ وہ ہستیاں ہیں جو ایک انسان کو وجود میں لانے کا سبب ہیں اور پھر اس کی پرورش اور خوراک کا ذمہ بھی ان ہی کے پاس ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کو زندگی کے مختلف ادوار میں بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے آگے بڑھنے اور اللہ پاک کی دی ہوئی صلا حیتوں کو پرکھنے، نکھارنے اور انھیں پروان چڑھانے کے لیے ایک اور ہستی بہت ہی اہم ہے جسے روحانی ماں باپ کا نام دیا جاتا ہے اور وہ ہے "استاد"۔تو ہر انسان پر کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں چاہے وہ کوئی رشتہ ہی کیوں نہ ہویا پھر زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کوئی شعبہ،اگر ہر کوئی اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھاتا رہے تو معاشرے میں آنے والی خرا بیاں نہ صرف ختم ہو سکتی ہیں بلکہ ایک صحت مند، خوبصورت اور باوقار معاشرہ بھی تشکیل پا سکتا ہے۔

بہر حال ماں باپ کے بعد ایک بچے کے لیےاستاد اہم ہستی ہوتی ہے جس کے ساتھ بچہ سے بڑا ہونے تک کا کافی ساتھ رہتا ہے،دوسرے لفظوں میں استاد کی صحبت بچے کو زیادہ میسر ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ استاد کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ ان کو کیسے نبھائے اور ان ذمہ داریوں کو پوراکرنے یا وہ چیز یا علم جو وہ دوسروں تک منتقل کرنا چاہتا ہے اس میں استاد کا خود کا عمل و کردار کیسا ہونا چاہیے۔ اس کے لیے استاد اور شاگردکا رشتہ جب مضبوط ہوگا تب ہی وہ اپنا علم آگے بڑھا سکے گا۔ تو آئیے اس کے لیے بھی قرآن وحدیث سے رہنمائی لیتے ہیں۔

1-متقی و پرہیزگار -2 سنتوں پر عمل کرنے والا 3- شفیق و مہربان4- عدل و درگزر کرنے والا5- با عمل ہونا 6- مؤثر اندازِ بیان7- آسان طریقوں سے حکمت کی بات سمجھائے 8- اپنے طالب علموں کی دل چسپی کو برقرار رکھنے والا۔

(1) متقی و پرہیز گار:اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ (پ28، الحشر: 18)ترجمہ کنز الایمان: اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیے کیا آ گے بھیجا۔

خوفِ خدا رکھنے والا استاد ہی اپنے شاگردوں کے مابین الله کی پہچان، محبت اور ذکر اللہ سے محبت راسخ کر سکتا ہے اور خوفِ خدا پیدا کر سکتا ہے اور اصل یہی چیز ہے جو طالب علم و استاد کے تعلق کو مضبو ط کرتی ہے۔

(2)سنتوں پر عمل:استاد کے کردار سے جب سنتوں کا ظہور اور گفتگو سے عشق رسول کے پھول جھڑتے ہوں گے تو طالب ِ علم اسی مہک سے اپنے استاد کے اور قریب ہو جائیں گے جس سے وہ نہ صرف عاشقِ رسول بنیں گے بلکہ محبتِ آل رسول واہلبیت و اصحاب سے بھی مالا مال ہوں گے۔

(3) شفیق و مہربان:نرم مزاج ونرم گفتگو یہ استاد کی طبیعت کا لازمی جز ہے استاد کی اسی صفت کے ساتھ شاگرد قلبی طور پر استاد سے جڑ جاتے ہیں اور اپنے مسائل بھی استاد سےشیئر کرتے ہیں۔

(4) عدل ودرگزر کرنے والا:استاد کو عادل ہونا بھی لازمی ہے، شاگرد کی غلطیوں، کوتاہیوں سے درگزر کر کے احسن انداز میں ان کو زجر و توبیخ کرنا سب سے اعلیٰ صفت ہے اور تمام شاگردوں کے درمیاں یکساں تعلق وانداز تدریس ہی وہ اہم بات ہے جو ہر طالبِ علم اپنے استاد کے بارے میں یہی سمجھتا ہے کہ وہ استاد محترم مجھ پر شفقت فرماتے ہیں۔

(5)با عمل اور مؤثر انداز بیاں: طالبِ علم و استاد کے تعلق کو مزید گہرا کرنے والی چیز استادکا اپنے کہے ہوئے پر عمل ہے اور ساتھ ہی جو وہ بیان کر رہا ہے اس کو اس انداز سے پیش کرنا ہے کہ سننے والے کے دل میں باآسانی اترجائے، ایسے استاد ہردل عزیز ہوتے ہیں۔

(6)حکمتِ عملی اور دلچسپی برقرار رکھنا:استاد و شاگرد کے درمیان مضبوط ربط کے لیے ایک اہم جز یہ ہے کہ استاد بہترین حکمتِ عملی اختیار کرنے والا ہو اور ہر شاگرد کی نفسیات کو بہتر پر کھنے والا ہو، جبھی وہ اس کی اصلاح کر سکتا ہے، مزید تعلیمی معیار اور امور میں طالب علموں کی دلچسپی بڑھانے اور برقرار رکھنے کے گُرو ہنر سے مزین ہونا یہ استاد و شاگرد دونوں کو بہترین ماحول عطا کرتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں پر بھر پور توجہ رکھے اور شاگرد ادب کے ساتھ استاد کے دیے گئے علم کو حاصل کریں اور عمل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو یقیناً یہ دین کی بھلائیوں میں سے ہے۔ 


استاد درحقیقت ایک معمار کی حیثیت رکھتا ہے اور معمار سے مراد تعمیر کرنےوالا ہے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق ایسا ہونا چاہیے کہ شاگرد استاد کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب کس طرح ہونا ہے یہ اُستاد اپنے شاگرد کو سکھائے۔ اُستاد اور شاگرد کا تعلق فقط کتاب و نصاب کا نہ ہو بلکہ شاگرد کی شخصیت کو بدل دینے والا ہو۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

چو نکہ استاد تزکیۂ نفس کرنے والا ہوتا ہے، اسی لئے اُن کو والدین سے بڑھ کر درجہ دیا گیا، لہٰذا استاد اور شاگرد کے درمیان والدین اور اولاد والا تعلق ہونا چاہیے۔جس طرح والدین اپنی اولاد کے لئے شفیق اور تعمیرِ اخلاق میں فکر مند ہوتے ہیں ایسے ہی استاد کو اپنے طلبہ و طالبات کی فکر ہونی چا ہیے۔ تعلیم ایک ذریعہ ہے، اسکا مقصد اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔ علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس لحاظ سے تعلیم و تربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ استاد اور شاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔

اللہ کریم نے قرآن پاک میں اپنے پیارے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا:

وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ (پ1، البقرۃ:129) ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے۔

اسی بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس رشتہ ہے۔استاد اور شاگرد کا رشتہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے انسانی زندگی کا ستون ہے۔ وہ ستون جو زندگی کو معنی و مفہوم کے حسین رنگوں سے نکھار دیتا ہے۔ ایک بہترین استاد طالبعلم کو اچھے اخلاق اور اعتماد کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ وہ شاگرد کی نفسیات اور نفس و کردار کو اخلاقی کردار، اخلاقی عمل کی بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ استاد اور شاگرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ان میں ایک بھی کمزور ہو تو دوسرا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اُستاد اور شاگرد کو ہر دم اپنی درس و تدریس کی نیتوں کی تجدید کرتے رہنا چاہیے تاکہ دونوں اپنے مقصد سے نہ ہٹ سکیں۔ استاد کو چاہیے کہ وہ طالبعلم کی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر کلاس روم میں اسکو ملامت نہ کرے بلکہ شاگرد کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو درستگی کی جانب لانے کیلئے کوشاں رہے۔ اپنا ہدف فقط ذہین شاگرد نہ رکھے بلکہ کمزور شاگردوں کو اپنا ہدف بنائے کہ مجھے ان کو ممتاز کیفیت پر لانا ہے۔ ایسے ہی شاگرد اپنے اُستاد کی تنبیہ کو اپنے لیے باعثِ رحمت جانے کہ میرے استاد میری ہی بہتری کیلئے تنبیہ کر رہے ہیں، مجھ سے ہی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے تھی، جو استاد کو تکلیف اٹھانا پڑی۔

استاد کا فرض:استاد کا فرض ہے کہ وہ علم دینے کے ساتھ ساتھ محبت و شفقت کا اظہار کرے اور طالبعلم کی ذمہ داری ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ استاد کا دلی طور پر احترام کرے۔ اُستاد کی ہر ہدایت و نصیحت پر عمل پیرا ہو اور تعلیم میں دلچسپی کا اظہار کرتا رہے۔ اِن اُصولوں کی بناء پر تعلیمی سرگرمی میں خوشگوار اور صحت مند تخلیقی ماحول پیدا ہو سکتا ہے، تعلیم کی ترقی دونوں کے کردار اور خوشگوار تعلقات سے منسلک ہے۔ سب سے اول اور اہم بات یہ ہے کہ طالب علم نبیِ کریم ﷺ کے اس ارشاد مبارک کو مدِّ نظر رکھے۔

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا (جامع ترمذی، حدیث: 1919)

وہ ہم میں سے نہیں جو ہما رے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و احترام نہ کرے۔

اس لیے شاگرد پر لازم ہے کہ وہ استاد کاادب و احترام کرے اور اُس کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی خود کو بچائے۔ استاد معلم اورمربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔جیسا کہ حدیث مبارک ہے کہ:اِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ (سنن ابوداؤد)میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔

چنانچہ استاد سے آمرانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں، طالبعلم کو تکبر اور بڑائی سے دور رہنا چاہیے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: علم حاصل کرو اس لئے کہ سکینت و وقار بھی سیکھو، جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنہیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اور عاجزی اختیار کرو، جبر کرنے والے علماء مت بنو۔(کتاب جامع بيان العلم و فضلہ)

پس جب طالبعلم اپنے استاد کا حد درجہ احترام کرے گا تب ہی اسے علم کی بیش قیمت دولت حاصل ہوگی۔ اگر طالبعلم بدخواہ اور بے ادب ہے تو علم سے محروم رہے گا۔معلم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے خیرخواہی حاصل نہیں ہوتی۔ بیمار نے اگر طبیب کی توہین کر دی تو وہ اپنی بیماری پر صبر کرے اور اگر شاگرد نے اپنے اُستاد کے ساتھ بد تمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔ استاد چونکہ طالبعلموں کیلئے نمونہ ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو کو متوازن اور محتاط رکھے۔ بے اعتدالی کے الفاظ استعمال نہ کرے۔ بعض اوقات بے توجہی میں زبان سے کوئی ایسا کلمۂ شرادا ہو جاتا ہے کہ نتیجۃً اس جملے کے سبب جو تباہ کاری ہوتی ہے اسکا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔

اکابر تجربہ کار اساتذہ کا کہنا ہے:وہ طالبعلم اوروه استاد علم دینے اور علم لینے کا حق ادا نہیں کرتے جو ان تین اسکلز کو اپنے شاگردوں کے اندر پیدا نہ کرسکیں۔

1-( Confidence)

2-(Creativity)

3- (Character)

طالبعلم کو بھی چاہیے کہ وہ ان 3اسکلز کو اپنے اندر پیدا کرے اور استاد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں میں ان تین صلاحیتوں کو پیدا کرے تاکہ وہ معاشرے میں ایک کامیاب انسان بن کر اُبھریں اور دین کا پیغام احسن انداز میں عام کر سکیں۔کیونکہ کتنے ہی شاگرد دیکھے ہیں جن میں یہ صلاحیتیں نہیں ہوتیں اگرچہ وہ اپنے وقت کے( Topper) ہوتے ہیں مگر ایک کامیاب بہترین معلم نہیں بنتے ہیں جتنا کہ با صلاحیت شاگرد بہترین اُستاد و راہنما بن سکتا ہے۔


استاد اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے، حضور ﷺ نےفرمایا:جسے خواہش ہے کہ وہ جہنم سے آزاد شدہ لوگوں کو دنیا میں دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ طلبائے اسلام کی زیارت کرے۔ بخدا ہر وہ طالب علم جو اپنے استاد گرامی کے ہاں درس گاہ یا ان کے گھر پر حاضری دیتا ہے تو اسے ایک سال کی عبادت کا ثواب نصیب ہوتا ہے اور اسکے ایک ایک قدم کے بدلے بہشت میں اس کے لیے ایک شہر تیار ہوگا اور وہ زمین پر چلتا ہے تو زمین اسے دعائیں دیتی ہیں اور ہر شام و سحراس کی مغفرت کا اعلان ہوتا ہے اورفرشتے گواہی دیتے ہیں کہ یہ طلبائے  اسلام دوزخ سے آزاد ہیں۔ (روح البیان، پ11)

استاد کا مقام ہر اعتبار سے عزت اور قدر و منزلت کا مستحق ہے۔ طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بڑی اہم ذمہ داری ہے اور جو شخص اس فرض کو دیانت داری، نیت، خلوص اور احساسِ فرض کے ساتھ سرانجام دیتا ہے وہ قوم کی صحیح معنوں میں بہت بڑی خدمت کرتا ہے،استاد کے اوصاف اور اطوار ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ نیکی و پرہیزگاری کا مکمل ومجسم نمونہ ہو اور اسکی زیارت ہی سے تعلیم کے مقدس فیض کا عکس شاگرد کے دل میں اتر جائے،عصرِ حاضر کے تناظر میں بات کی جائے تو واضح رہنا چاہیے کہ استاد کا کام طالب علم کو محض اسباق یا کتب پڑھادینا نہیں ہے بلکہ اس کا اصل کام اپنے طلباء میں علم کا شوق پیدا کرناہے۔مزید جاننےکی لگن پیدا کرنا اور تحقیق و جستجو کیلئے ان کی استعداد میں اضافہ کرنا ہے۔

استاد اور شاگرد کے رشتے سے زیادہ جاذبیت رکھنے والا کوئی رشتہ نہیں لیکن افسوس جتنا یہ رشتہ اُس دور سابق میں اہمیت رکھتا تھا ہمارے دورمیں اس کی اس سے بڑھ کربے قدری ہے کیونکہ آج اس کی اہمیت کے بجائے بے قدری زیادہ ہے۔ اپنی مرضی پر چلنے والے طلبا تو بکثرت ملیں گے لیکن اپنی رضا کا مرکز اپنے استاد صاحب کو بنانے والے بہت تھوڑے ہیں، سابق دور میں ہر مشیت سے رضائے استاد کو ترجیح دی جاتی تھی۔شاگرد کا فرض ہے کہ انتہائی انکسا ری و تواضع اختیار کرے اور اپنی اطاعت گزاری سے استاد کی سختی کو بھی نرمی میں بدل دے تاکہ استاد کے فیض حاصل کرسکے۔امیر اہلِ سنت د امت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: شاگردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا ہر صورت میں ادب کریں، چاہے استاد کی طرف سے ناروا سلوک ہوتا ہو، چونکہ اس سے علمِ دین حاصل کررہے ہیں تو اپنے مفاد پورے حاصل کریں۔مزید فرماتے ہیں: استاد تو آپ کودین سکھاتا ہے آپ کی آخرت بہتربناتا ہے تو آپ کم از کم کتے سے ہی اخلاق سیکھ لیں کہ مالک کتے کوٹکڑا ڈالتا ہے وہ مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتا، یہاں تک کہ مالک اس کو بھگائے مارے تو تھوڑا بھاگے گا پھردُم ہلاتا ہوا واپس پاؤں چاٹنا شروع کردے گا، تو ہم عمر بھر کھائیں اور ایک بارسختی کرے تو مخالف ہو جائیں تو کتے کے اخلاق سے بھی گرگئے،لیکن دورِ حاضر میں جہاں شاگردوں کی بے مروتی اور مذمت کی جارہی ہے، وہیں بعض اساتذہ کی کیفیت شاگردوں سے بھی زبوں تر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرس اپنے منصب کے لحاظ سے ولی الله ہے بشرطیکہ وہ اکابر کے نقشِ قدم پر چلے، الله پاک ہمیں اکابرین کی تعلیمات کے مطابق تعلیم وتعلم کی عادت سے بہرہ مند فرمائے آمین۔


اپنے دور ِ تعلیم میں 3 اُمور کو علم کی جان پایا ان میں سے ایک دل و جان سے اُستاد کا ادب و احترام بھی ہے۔ دورِ حاضر میں تو اس رشتہ کی کوئی اہمیت نہیں ہاں استاد اور شاگر دیا معلم و متعلم کے الفاظ سنتے ہی اسلاف کے ذہنوں میں رشتوں کا وہ تقدس تعلقات کی وہ پاکیزگی  اور احترام و محبت کے جذبات کی وہ اعلی تصویر بنتی ہے جس کی سزاوار کوئی اور رشتہ یا ہستی نہیں ہوسکتی، جہاں اس رشتہ میں آجکل گرہیں پڑ گئی ہیں، بگاڑ پیدا ہوا ہے اِس کی کچھ وجوہات ہیں۔ جیسے ہماری اخلاقی اور روحانی قدریں کم ہو گئیں۔اسلاف میں رشتۂ محبت اور تعظیم کا رشتہ انتہائی مقدس تھا، لیکن اب یہ کوئی اور شکل اختیار کرگیا ہے، لہذا طالب علم کو چاہیے کہ درج ذیل امور پیشِ نظر رکھے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کتب معتبرہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور اُستاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ شاگرد استاد سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے، چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔استاد کے آگے نہ بیٹھے، اپنے مال میں کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے، یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے، استاد کے قبول کر لینے میں اُس کا احسان او راپنی سعادت تصور کرے۔استاد کے حق کو اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم جانے اگر چہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو، اس کے سامنے عاجزی کااظہار کرے، طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاد کے سامنے سچ ہی بولےاور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ ہی بولے، دیگر اساتذہ کا بھی احترام ملحوظِ خاطر رکھے، ایسا نہ ہو کہ صرف انہی اساتذہ کا احترام کرے جن سے پڑھتا ہو۔(کامیاب طالبعلم کون، ص58-59)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: میں نے جس سے صرف ایک بھی حدیث لکھی تو میں اس کا زندگی بھر غلام ہوں جس نے بھی مجھے ایک حرف پڑھایا میں اس کا غلام ہوں، اگر چاہے تو بیچ دے چاہے تو آزاد کردے۔(فتاوی رضویہ،10 /20)اور مزید یہ بھی ہے کہ وہ اگر گھر کے اندر ہو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے باہر آنےکا انتظار کرے،طالبعلم کو کوئی چیز معلوم نہ ہو یا کچھ سمجھ نہ آتا ہو تو وہ استا د سے ضرور پوچھے، پوچھنے میں کوئی عاریا شرم نہ محسوس کرے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے۔

فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) (پ17، الانبیاء: 7) ترجمہ کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔

حضرت مجاہد ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:شرمیلا اور متکبر شخص علم حاصل نہیں کر سکتا۔(کامیاب طالب علم، ص 104-105 )

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: اُستا دجب اٹھ جائے تو کپڑا مت پکڑو، استا د صاحب جب تھک جائیں تو اصرارمت کرو،استاد کے بھید مت ظاہر کرو، استاد کی لغز ش نہ پکڑو اور اگر لغزش کرے تو اس کا عذر قبول کرو۔(کامیاب طالبعلم، ص89)

اُستاد کے سامنے شاگرد کو ایسا ہونا چاہیے کہ جیسے زمین پر بہت سی بارش برسے اور وہ سب پی لے۔امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جو اُستاد کو نہیں سمجھتا وہ کبھی کا میاب نہیں ہو سکتا۔حضرت مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہم اپنے استاد ابراہیم سے ایسے ڈرتے تھے، جیسے بادشاہ سے لوگ ڈرتے ہیں۔امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اپنے استاد کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی ہمت نہیں ہوئی۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ ان کا ذ کران کی کنیت کے ساتھ کرتے تھے۔ (کامیاب طالبعلم، ص 70) کسی سے دریافت کیا کہ آپ اُستاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ جواب دیا:میرا باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور استاد نے مجھے زمین سے آسمان پر پہنچایا اور میرا استاد سبب حیات جاودانی ہے اور والد صاحب سبب حیات فانی ہیں۔

آقا ﷺ نے فرمایا:تمہارے 3 باپ ہیں۔ ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا سبب ہے، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی لڑکی دی، تیسرا وہ جس سے تم نے دولتِ علم حاصل کی۔ ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے۔(کامیاب طالب علم،ص 70)

معلوم ہوا استاد بمنزلۂ باپ کے ہے اس کی تعظیم و تکریم ازحد ضروری ہے، نیز طالبعلم علم پر تکبر نہ کرے، اُستاد پر حکم نہ چلائے، بلکہ اپنے تمام معاملات کی لگام مکمل طور پر استاد کے ہاتھ میں دے دے اور اس کی نصیحت کو ایسے قبول کرے جیسے جاہل بیمارشفیق طبیب کی نصیحت کو مانتا ہے۔

جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت ہو، وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔تنبیہ الغافلین میں ہے کہ اگر انسان حکمران بھی بن جائے تو یہ باتیں نہ چھوڑے، ماں باپ کی آمد پر مجلس میں کھڑا ہونا، اُستاد کی خدمت کرنا،استاد بہت بڑا محسن ہے، اس کے احسانات کا بدلہ کسی صورت میں بھی چکا یا نہیں جا سکتا، ایسی شخصیت کے لئے مکافات ضروری ہے،اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد کے لئے شاگرد دعا کرے۔

اللہ یاک میرے والدین، پیر و مرشد، اساتذہ کرام کو در ازیٔ عمر با لخیر عطا فرمائے، بلا حساب مغفرت فرمائے اُن کے علم میں، زہد و تقوی میں برکتیں عطا فرمائے۔آمین


استاد اور شاگرد کا تعلق معنی اور مفہوم کے اعتبار سے انسانی زندگی کا اہم ستون ہے،وہ ستون ہے جو زندگی کے مفہوم کو حسین رنگوں میں نکھارتا ہے، استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق درس و تدریس کے عمل میں بہت اہمیت کا حامل ہے، تعلیمی اداروں اور تعلیمی میدان میں ترقی اور کامیابی کا انحصار استاد اور شاگرد دونوں کے خوشگوار تعلقات پر ہوتا ہے۔

زندگی کے دوسرے شعبوں اور اداروں میں کام کرنے والے ایک دوسرے سے اتنا متاثر نہیں ہوتے اور ناہی ایک دوسرے پر اتنا انحصار کرتے ہیں جتنا کہ استاد اور شاگرد۔دفاتر میں کام کرنے والے بے جان فائلز سے تعلق رکھتے ہیں لیکن استاد اور شاگر د کا معاملہ ان سے مختلف ہے یہاں دونوں احساسات رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں استاد اور شاگرد کے مابین تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔

دورِ حاضر میں اس رشتہ کی خاص اہمیت نظر نہیں آتی لیکن ہمارے اسلاف کرام رحمہ الله کے ذہنوں میں رشتوں کا وہ تقدس، تعلقات کی وہ پاکیزگی اور احترام ومحبت کے جذبات کی اعلی تصویر جو استاد اور شاگرد، معلم یا متعلم کے رشتوں میں نظر آتی ہے وہ کسی اور رشتہ میں نظر نہیں آتی،لہذا طالبعلموں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ استاد سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ وہ ان کے محسن ہیں۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جس سے فیض حاصل کرتا ہے اس کے سامنے دل و جان سے جھکا رہے۔

اور استاد کا یہ سمجھنا کہ تعلیمی اوقات کے علاوہ شاگر د میرے دروازے پر حاضر نہیں ہو سکتا، یہ رویہ نامناسب ہے۔شاگرد روحانی اور معنوی اولاد ہے۔ لہذا شاگرد طالب علمی کے دور میں ہی بلکہ تاحیات یہ حق رکھتا ہے کہ اس کو زندگی میں جب الجھنیں پیش آئیں تو استاد کی چوکھٹ پہ حاضر ہو اور استاد کو بھی چاہیے کہ اس کو مفید مشورہ دے، درست رہنمائی کرے اور ایسے ہی اس کا خیر مقدم کرے جیسے اپنی اولاد آگئی ہے۔

شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے محسن کا احسان مند رہے، استاد کی تعظیم اور اطاعت کو شعار بنالے، تاریخ گواہ ہے جس نے استاد کے مقام کو پہچانا، اور آداب بجالائے، وہ دنیائے عزت و شہرت میں چاند کی طرح چمکا۔

چنانچہ ایک بار امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک خیال آیا فرمانے لگے، اونٹ لایا جائے اونٹ لایا گیا، شاگردوں سے کہا اس کو چھت پر چڑھاؤ طلبہ حیران لیکن کچھ نہ کہا، فوراً دو شاگردوں نے اطاعت شروع کردی، اور اونٹ کو اوپر چڑھانے کی کوشش کرنے لگے،آپ نے فرمایا:بس رک جاؤ، اصل مقصود اس کو اوپر چڑھانا نہ تھا بلکہ تمہارا امتحان مقصود تھا کہ کیا تم حکم کی تعمیل کرتے ہو، شاباش ہے تمہاری ہمت پر، اللہ پاک تمہیں علم و عزت عطا فرمائے، استاد کی دعا قبول ہوئی اور آج دنیا ان دو شاگردوں کو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔ (آداب استاد شاگرد، ص9)


استاد  ہونا بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ ہمارے پیارے مدنی آقا ﷺ نے اس منصب کی نسبت اپنی ذاتِ اقدس کی طرف کر کے اسے عزت و حرمت کا تاج عطا فرمایا چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اِنَّما بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ (سنن ابن ماجہ، 1 / 150)

استاد کا کردار:با عمل مسلمانوں پر مشتمل معاشرے کی تشکیل میں استاد کا کردار ایک باغبان کی مثل ہے جس طرح کسی باغ کے پودوں کی افزائش و حفاظت باغبان کی توجہ اور کوشش کے بغیر نہیں ہو سکتی اسی طرح طلبا کی دینی تربیت کے لئے استاد کی توجہ و کوشش بے حد اہمیت کی حامل ہے۔استاد کا کام طلبا کے ظاہر و باطن کو پاک کر کے اوصافِ حمیدہ سے مزین کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک ایسا باکردار مسلمان بنانا ہے جو عمر بھر کے لیے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش میں مصروف ہو جائے۔

استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق:استاد اور شاگرد کا آپس میں تعلق شریعتِ مطہرہ کے مطابق صاف و شفاف، پیار بھرا، مشفقانہ ہو۔ استاد کا ادب شاگرد کے لئے اولین ہو اور استاد اپنے شاگردوں کے لئے عفو و درگزر کا پیکر ہو لہٰذا استاد کی ذات میں پائے جانے والے اوصاف غیر محسوس طور پر اس کے طلبا میں منتقل ہو جاتے ہیں۔اگر استاد خوش اخلاق ہے تو اس کے طلبا بھی حسنِ اخلاق والے ہوں گے۔طالبِ علم کا استاد کے ساتھ انتہائی مقدسں رشتہ ہوتا ہے لہٰذا طالبِ علم کو چاہیے کہ استاد کو اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر خاص جانےکیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ استاد اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتا ہے اگرچہ کسی استاد سے ایک ہی حرف پڑھا ہو ا س کی ہی تعظیم بجالائے کہ حدیثِ پاک میں ہے:سید عالم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی آدمی کو قرآنِ کریم کی ایک آیت پڑ ھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم كبير،8/112،حديث:7528)

استاد کے آداب: استاد کے آداب بجالانے والے طالبِ علم ایک وقت میں عمدہ کامیابی سے سرفراز ہوتے ہیں۔ طلبہ کو چاہیے کہ کسی منصب پر فائز ہو جائیں اپنے استاد کے آداب بجالائیں مثلاً استاد کی غیر موجودگی میں بھی ان کا ادب کر یں، ان کی جگہ پر نہ بیٹھیں۔استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی ہے لہٰذا استاد سے ہمیشہ سچ بولئے، ان سے نگاہ نہ ملائیے، نگاہ نیچی رکھیے۔اسی طرح ہر نماز کے بعد استاد اور والدین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔الله پاک ہمیں بیان کردہ مدنی پھولوں کو اپنے دل کے گلدستے میں سجانے اور اس کی خوشبو سے اپنے معاشرے کو معطر کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


بچپن سے سنتے آئے ہیں، ماں باپ ذریعہ بنتے ہیں، آسمان سے زمین پر لانے کا، اور استاد ذریعہ بنتا ہے زمین سے آسمان تک پہنچانے کا، پہلے کے دور میں جب والدین بچوں کو درسگاہ میں بٹھا نے جاتےتو کہتے تھے ! ہماری ہڈی تمہاری کھال۔ یہ مثال بہت بعد میں سمجھ میں آئی۔جو طالب علم اپنے استاد کے ساتھ اطاعت و فرما نبر داری کا تعلق رکھتا ہے،وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جو سختیاں اور مشقتیں نہیں برداشت کرتا، وہ تعلیم حاصل نہیں کرپاتا۔ استاد شاگرد کا باہمی تعلق بھروسے و اعتماد کا ہوتا ہے، استاد چاہے اسکول، کالج، یو نیور سٹی مدرسہ کسی بھی تعلیمی ادارے کا ہو اس کا اپنے شاگرد سے تعلق تعلیم کے لیے ہو نہ کہ اپنے ذاتی کام اور مفاد کے لیے۔

استاد شاگرد کا باہمی تعلق ایسا بھی نہیں ہونا چا ہیے کہ استاد اپنے فیورٹ اور مخصوص طالب علم کو مال و دولت، خوبصورتی اور دلی رجحان کے لحاظ سے پسند ر کھے۔ بلکہ اپنے شاگرد کے تعلیمی معیار، ذہانت، فر مانبر داری اور محنت کو سراہےاور اپنے شاگردوں سے مساوی سلوک رکھے۔ کسی بھی طالب علم کو اس کی نفسیات کے مطابق سمجھانا استاد کا شاگرد سے باہمی تعلق ہی ہے۔ ہراستاد کو اپنے شاگرد سے تعلق دینی قواعد و ضوابط کی بنیاد پر رکھنا چاہیے۔استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق انتہائی نرمی و شفقت والا ہوگا تو وہی مزاج اس کے شاگرد میں بھی منتقل ہوگا۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جا تا ہے نادانی میں