شریعت میں جن سے صلہ (نیک سلوک) کا حکم دیا گیا ہے ان سے تعلق توڑنا قطع تعلقی کرنا کہلاتا ہے۔ ہم سب کو اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہے وہ رشتہ دار امیر ہو یا غریب ہو، رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنا سنت بھی ہے، اور اس سے اللہ کے حکم کی بھی پیروی ہو جاتی ہے، آج کل ہمارے معاشرے میں یہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو رشتہ دار اسٹیٹس کا نہ ہو یعنی غریب ہو تو اس سے میل ملاپ کم کر دیا جاتا ہے، بعض اوقات تو جو رشتہ دار غریب ہو تو اس سے رشتہ داری ہی ختم کر دی جاتی ہے، بعض دفعہ باطنی بیماریوں جیسے امراض مثلا حسد اور تکبر بھی قطع تعلقی کا سبب بنتے ہیں، بلاوجہ شرعی تین دن سے زیادہ مسلمانوں سے قطع تعلقی حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 6/599) قطع تعلقی کو مطلقا حلال سمجھنا کفر ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، ص 228) بد مذہب بے دین سے ہر قسم کا قطع تعلق فرض ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 14/594) یہ سب اسباب صرف اور صرف علم دین سے دوری کی وجہ سے ہیں۔ یا اللہ ہم سب کو رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرما!

فرامین مصطفیٰ:

1۔ رشتے داری کے حقوق کو پامال کرنے والا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(ریاض الصالحین، ص 109، حدیث:339)

2۔ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھنے والا وہ شخص نہیں ہوتا جو کسی اچھائی کا بدلہ دینا چاہتا ہو بلکہ خیال رکھنے والا وہ شخص ہوتا ہے جب اس کے ساتھ رشتے داری کو ختم کیا جا رہا ہو تو وہ اس وقت اسے برقرار رکھے۔ (ریاض الصالحین، ص 104، حدیث: 322)

3۔ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن کے ساتھ میں تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اسے توڑ دیتے ہیں، میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ تحمل سے پیش آتا ہوں وہ میرے ساتھ جاہلانہ رویہ کرتے ہیں۔ (مجھے کیا کرنا چاہیے؟) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جیسے تم نے بتایا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو تم انہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو اور تم جب تک ایسا کرتے رہوگے اللہ پاک کی طرف سے ایک مددگار تمہیں نصیب رہے گا۔(ریاض الصالحین، ص 103، حدیث: 318)

4۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت افزائی کرے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ (ریاض الصالحین، ص 102، حدیث: 314)

5۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے تعلق توڑے جو تین دن سے زیادہ تعلق توڑے اور اس حال میں مر جائے تو جہنم میں جائے گا۔ (ابو داود، 4/364، حدیث: 4914)