انسان اللہ پاک کی تخلیق کا شہکار ہے اور یہ تخلیق عبث و بیکار نہیں ہے، جیسا کہ آیت مبارکہ ہے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) (المؤمنون:115) ترجمہ کنز الایمان: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔ بلکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) (الذٰریٰت:56) ترجمہ کنز الایمان: اور میں نے جن اور آدمی اتنے ہی لیے بنائے کہ میری بندگی کریں۔ چونکہ مقصدِ تخلیق عبادتِ الٰہی ہے اور یہ عبادت اللہ پاک کے اوامر و نواہی کی صورت میں ہی ہو سکتی ہے کہ جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لایا جائے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہا جائے۔ ممنوع اعمال میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کا ارتکاب اعمال حسنہ کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ان میں سے 5 کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

1۔ بارگاہ رسالت میں آواز بلند کرنا بھی بربادیِ اعمال کی ایک وجہ ہے جس کو اللہ پاک نے سورۃ الحجرات میں بیان فرمایا ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسا ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ صراط الجنان میں ہے:بارگاہ رسالت میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے برخلاف ہے اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہے اور اگر اس سے بے ادبی اور تو ہین کی نیت ہو تو یہ کفر ہے۔(صراط الجنان، 9/404)

2۔انہیں اعمال میں سے ایک غیبت ہے جو کہ نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں غیبت کرنے والے کی نیکیاں جس کی غیبت کی گئی اس کے نامۂ اعمال میں داخل کی جائیں گی، جیسا کہ سورہ حجرات میں ہے: وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اس کے تحت تفسیر صراط الجنان میں امام غزالی کا قول نقل ہے: جس کی غیبت کی وہ مر گیا یا غائب ہو گیا اس سے کیونکر معافی مانگے، یہ معاملہ بہت دشوار ہو گیا اس کو چاہیے کہ نیک کام کی کثرت کرے تاکہ اگر اس کی نیکیاں غیبت کے بدلے میں اسے دے دی جائیں تو اس کے پاس نیکیاں باقی رہ جائیں۔ (صراط الجنان، 9/443)

3۔اعمال کو برباد کرنے والا ایک عمل احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر صدقات کا ثواب باطل کرنا بھی ہے جس کی تصدیق اس آیت مبارکہ سے بھی ہوتی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ- (البقرۃ: 264) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کرو۔

4۔چوتھا عمل شرک ہے جو نیک اعمال کو برباد کرنے والے اعمال میں سے سب سے زیادہ برا اور خطرناک ہے۔ یہ ایسا گناہ ہے جو سب اعمال حسنہ کو کھا جاتا ہے اور اس کی بخشش نہیں، جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ- (النساء: 48) ترجمہ کنز الایمان: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔

5۔ ان میں سے سے ایک حسد بھی ہے جو نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو کھا کر راکھ بنا دیتی ہے، جیسا کہ ابو داؤد شریف کی حدیث ہے: اِيَّاكُمْ وَالْحَسَد فَاِنَّ الْحَسَدَ يَاْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَاْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ترجمہ: حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو یوں کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ (ابو داود، 4/360، حدیث: 4903)