ایک انسان استاد کے بغیر کبھی بھی کامیاب شخصیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ دنیا
کے ہر کامیاب شخص کے پیچھے اس کے استاد کا ہاتھ پایا جاتا ہے جو اس کی شخصیت کو
نکھار کر دنیاکے سامنے لاتا ہے۔ استاد ایک فیکٹری ہے۔ اور یہ وہ فیکٹری ہے کہ جہاں
سے خام مال سونا بن کر نکلتا ہے۔ اسی لیے استاد کی عزت کرنا شا گردوں پر لازم ہے۔استاد
اور شاگرد کا رشتہ بہت مقدس ہے۔ اس لیے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے اُستاد کی
عزت و احترام کرے، جب تک استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق بہتر نہیں ہوگا طالب علم
بہتر علوم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے:
اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔
چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے اُستاد کے حق میں بخل سے
کام نہ لے یعنی جو کچھ اُسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کو قبول کرنے میں اس
کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔ اس کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے
حق سے مقدم رکھے۔اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے اگرچہ اس سے ایک ہی حرف سیکھا ہو۔
اگر وہ اپنے گھر کے اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار
کرے۔
ہمیں چاہیے کہ
اپنے اساتذہ کے ساتھ ماں باپ سے بڑھ کر محبت بھر اسلوک کریں،کیونکہ اساتذہ ہمارے
روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا
کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں، جبکہ اساتذہ اسے نارِدوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، 1/401)
طالبِ علم کو
چاہیے کہ ہر دم یہ کوشش کرتا رہے کہ اس کی کسی بھی حرکت کسی بھی کلام یا کسی بھی
طرح سے اس کے استاد کو اذیت نہ پہنچے کہ استاد کو اذیت پہنچانا علم کی برکت سے
محرومی کا سبب بنتا ہے۔ میرے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس سے اس کے استاد کوکسی قسم کی اذیت پہنچی، وہ علم کے برکات سے
محروم رہے گا۔ (فتاوی رضویہ، 10/96-97)
شاگرد کو چاہیے
کہ ہر دم استاد کی عزت کرے، اس کے فرمان پرلبیک کہے۔ اس کے آگے آواز اونچی نہ کرے،
ہمارے اسلاف اور بزرگان دین استاد کا بے حد احترام فرماتے تھے جیسا کہ حضرت سہل رحمۃ
الله علیہ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپ
پہلو تہی فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن اچانک دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گئے اور لوگوں
سے فرمایا: آج جو کچھ پوچھنا چاہو پوچھ لو، تو لوگوں نے عرض کی: حضور کیا ماجرا ہے؟ آپ تو کسی سوال کا جواب نہیں دیا
کرتے تھے؟ فرمایا: جب تک میرے استاد حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ حیات تھے ان
کے ادب کی وجہ سے جواب دینے سے گریز کیا کرتا تھا، لوگوں کو اس جواب سے مزید حیرت
ہوئی،کیونکہ ان کے علم کے مطابق حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ ابھی حیات تھے۔
بہر حال آپ کے اس جواب کی بناپر فوراً وقت اورتاریخ نوٹ کرلی گئی۔ جب بعد میں
معلومات کی گئی تو واضح ہوا کہ آپ کا انتقال حضرت سہل کے کلام سے کچھ دیر قبل ہی
ہو گیا تھا۔( تذكرة الاولیاء، 1/229)
امام غزالی
رحمۃ اللہ علیہ جو کہ ایک بہترین استاد اور عظیم مفکر ہیں، آپ استاد شاگرد کے متعلق فرماتے ہیں کہ
استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنی
بیٹیوں اور بیٹوں کے برابر سمجھے۔ اور ان سے نہایت شفقت اور محبت سے پیش آئے۔ جہاں
تک ممکن ہو طلباء کو نصیحت کرتا رہے۔ استاد کو چاہیےکہ طلباء پر سختی کرنے سے گریز
کرے۔ سختی کرنے سے طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور معلم کا وقار گر جاتا ہے۔ آپ
طلباء کو فرماتے ہیں: استاد کی فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائیں۔ میرے شیخِ طریقت
امیر اہل سنت کی شخصیت میں بھی استاد کا ادب دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ پیارے آقا محمد
مصطفیٰ کا نام مبارک سماعت کرتے ہی ادب سے سر کو جھکاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ
پاک کی رضا کے لیے اپنے استاد کا احترام کریں۔ بحیثیت ایک کامیاب طالب علم ہماری
ذمہ داری ہے کہ استاد کے حقوق کا خیال رکھیں۔اللہ پاک ہمیں باادب بنائے۔ استاد کے
قدموں میں پڑے رہنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین