استاد اور
شاگرد کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ از بنت عبد الغنی،ملیر کھوکھرا پار کراچی
ماں
باپ وہ ہستیاں ہیں جو ایک انسان کو وجود میں لانے کا سبب ہیں اور پھر اس کی پرورش
اور خوراک کا ذمہ بھی ان ہی کے پاس ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کو زندگی کے
مختلف ادوار میں بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے آگے بڑھنے اور اللہ پاک کی دی ہوئی صلا حیتوں
کو پرکھنے، نکھارنے اور انھیں پروان چڑھانے کے لیے ایک اور ہستی بہت ہی اہم ہے جسے
روحانی ماں باپ کا نام دیا جاتا ہے اور وہ ہے "استاد"۔تو ہر انسان پر
کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں چاہے وہ کوئی رشتہ ہی کیوں نہ ہویا پھر زندگی
کے مختلف شعبوں میں سے کوئی شعبہ،اگر ہر کوئی اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھاتا رہے تو معاشرے میں آنے والی
خرا بیاں نہ صرف ختم ہو سکتی ہیں بلکہ ایک صحت مند، خوبصورت اور باوقار معاشرہ بھی
تشکیل پا سکتا ہے۔
بہر حال ماں باپ کے بعد ایک بچے کے لیےاستاد اہم ہستی ہوتی ہے جس کے ساتھ بچہ سے بڑا ہونے تک کا کافی
ساتھ رہتا ہے،دوسرے لفظوں میں استاد کی صحبت بچے کو زیادہ میسر ہوتی ہے۔ سوال یہ
ہے کہ استاد کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ ان کو کیسے نبھائے اور ان ذمہ داریوں کو
پوراکرنے یا وہ چیز یا علم جو وہ دوسروں تک منتقل کرنا چاہتا ہے اس میں استاد کا خود
کا عمل و کردار کیسا ہونا چاہیے۔ اس کے لیے استاد اور شاگردکا رشتہ جب مضبوط ہوگا
تب ہی وہ اپنا علم آگے بڑھا سکے گا۔ تو آئیے اس کے لیے بھی قرآن وحدیث سے رہنمائی
لیتے ہیں۔
1-متقی و پرہیزگار
-2 سنتوں پر عمل کرنے والا 3- شفیق و مہربان4- عدل و درگزر کرنے والا5- با عمل
ہونا 6- مؤثر اندازِ بیان7- آسان طریقوں سے حکمت کی بات
سمجھائے 8- اپنے طالب علموں کی دل چسپی کو
برقرار رکھنے والا۔
(1)
متقی و پرہیز گار:اللہ
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ (پ28، الحشر: 18)ترجمہ کنز الایمان: اور ہر جان
دیکھے کہ کل کے لیے کیا آ گے بھیجا۔
خوفِ خدا
رکھنے والا استاد ہی اپنے شاگردوں کے مابین الله کی پہچان، محبت اور ذکر اللہ سے
محبت راسخ کر سکتا ہے اور خوفِ خدا پیدا کر سکتا ہے اور اصل یہی چیز ہے جو
طالب علم و استاد کے تعلق کو مضبو ط کرتی
ہے۔
(2)سنتوں
پر عمل:استاد
کے کردار سے جب سنتوں کا ظہور اور گفتگو سے عشق رسول کے پھول جھڑتے ہوں گے تو طالب
ِ علم اسی مہک سے اپنے استاد کے اور قریب ہو جائیں گے جس سے وہ نہ صرف عاشقِ رسول بنیں
گے بلکہ محبتِ آل رسول واہلبیت و اصحاب سے بھی مالا مال ہوں گے۔
(3)
شفیق و مہربان:نرم
مزاج ونرم گفتگو یہ استاد کی طبیعت کا لازمی جز ہے استاد کی اسی صفت کے ساتھ شاگرد
قلبی طور پر استاد سے جڑ جاتے ہیں اور اپنے مسائل بھی استاد سےشیئر کرتے ہیں۔
(4) عدل ودرگزر
کرنے والا:استاد کو عادل ہونا بھی لازمی ہے، شاگرد کی غلطیوں، کوتاہیوں سے
درگزر کر کے احسن انداز میں ان کو زجر و توبیخ کرنا سب سے اعلیٰ صفت ہے اور تمام شاگردوں کے
درمیاں یکساں تعلق وانداز تدریس ہی وہ اہم بات ہے جو ہر طالبِ علم اپنے استاد کے
بارے میں یہی سمجھتا ہے کہ وہ استاد محترم مجھ پر شفقت فرماتے ہیں۔
(5)با
عمل اور مؤثر انداز بیاں: طالبِ علم و استاد کے تعلق کو مزید
گہرا کرنے والی چیز استادکا اپنے کہے ہوئے پر عمل ہے اور ساتھ ہی جو وہ بیان کر
رہا ہے اس کو اس انداز سے پیش کرنا ہے کہ سننے والے کے دل میں باآسانی اترجائے، ایسے استاد ہردل عزیز ہوتے ہیں۔
(6)حکمتِ
عملی اور دلچسپی برقرار رکھنا:استاد و شاگرد کے درمیان مضبوط ربط کے
لیے ایک اہم جز یہ ہے کہ استاد بہترین حکمتِ عملی اختیار کرنے والا ہو اور ہر
شاگرد کی نفسیات کو بہتر پر کھنے والا ہو، جبھی وہ اس کی اصلاح کر سکتا ہے، مزید
تعلیمی معیار اور امور میں طالب علموں کی
دلچسپی بڑھانے اور برقرار رکھنے کے گُرو ہنر سے مزین ہونا یہ استاد و شاگرد دونوں کو بہترین ماحول عطا کرتا ہے۔استاد اپنے
شاگردوں پر بھر پور توجہ رکھے اور شاگرد ادب کے ساتھ استاد کے دیے گئے علم کو حاصل
کریں اور عمل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو یقیناً یہ دین کی بھلائیوں میں سے ہے۔