استاد اور طالبِ علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا
ہے۔لہذا استاد کو چاہیے کہ اپنے طلباء کی بہتر تربیت کے لیے
درجِ ذیل امور پیش نظر رکھے؛
(1)
ان کی ناکامی پر رنجیدہ اور کامیابی پر اظہارِ مسرت:اگر کوئی طالبِ
علم سبق سنانے میں یا امتحان میں ناکامی سے دوچار ہو تو اس کی ناکامی پر رنجیدہ ہو
اور اس کی ڈھارس بندھائے اور اسے ناکامی سے پیچھا چھڑانے کے لیے مفید مشورے دے اور
اگر کسی طالبِ علم کو کوئی کامیابی نصیب ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کرےبلکہ ممکن ہو
تو کوئی تحفہ بھی دے اور اس کی مزید کامیابیوں کے حصول کے لیے دعا کرے۔
(2)
بیمار ہونے پر عیادت:اگر کوئی طالبِ علم (بالخصوص مقیم طالب علم)بیمار ہو جائے تو سنّت کے مطابق اس کی
عیادت اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ
الکریم سے روایت ہے کہ سرورِ کونینﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے
لیے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لیے ستّر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور شام کو
جائے تو صبح تک ستّر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لیے جنّت میں ایک باغ
ہوگا۔(سنن الترمذی،2/290، حدیث:971)
(3)
استقامت کی ترغیب:عموماً
دیکھا گیا ہے کہ حصولِ علمِ دین کے لئے آنے والے طلباء کی بہت بڑی تعداد استقامت
سے محروم رہتی ہے اور اکثر طلباء اپنی تعلیم (خصوصاً ابتدائی درجات میں)ادھوری چھوڑ کر اپنے علاقوں میں چلے
جاتے ہیں اور دیگر کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس لئے استاد کو چاہیے کہ اپنے (بالخصوص ابتدائی درجے کے)
طلباء کو استقامت کے فوائد، عدمِ استقامت کے نقصانات، استقامت کی راہ میں حائل
ہونے والی رکاوٹوں کو بیان کرے اور انہیں دور کرنے کا طریقہ بتائے اور طلباء کو
استقامت کے ساتھ حصولِ علم کی ترغیب دے۔
استاد سے
تعلقّات کیسے ہوں؟
استاد کے حقوق پورے کرے:اعلیٰ حضرت
مجدد دین و ملّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کتبِ معتبرہ کے حوالے سے
استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ "عالم کا جاہل اور استاد
کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ کہ
1۔ استاد سے
پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔
2۔ اس کی جگہ
پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے۔
3۔ چلتے وقت
اس سے آگے نہ بڑھے۔
4۔اپنے مال
میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل نہ کرے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کر دے اور اس کے قبول
کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصوّر کرے۔
5۔ اس کے حق
کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔
6۔اور اگر چہ
اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو، اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے۔
7۔اگر وہ گھر
کے اندر ہو، تو باہر سے دروازہ نہ بجائے، بلکہ خود اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔
8۔ (اسے اپنی
جانب سے کسی قسم کی اَذیت نہ پہنچنے دے کہ) جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اَذیت
پہنچی، وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔(فتاویٰ
رضویہ، 10/97-94)