استاد درحقیقت ایک معمار کی حیثیت رکھتا ہے اور معمار سے مراد تعمیر کرنےوالا ہے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق ایسا ہونا چاہیے کہ شاگرد استاد کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب کس طرح ہونا ہے یہ اُستاد اپنے شاگرد کو سکھائے۔ اُستاد اور شاگرد کا تعلق فقط کتاب و نصاب کا نہ ہو بلکہ شاگرد کی شخصیت کو بدل دینے والا ہو۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

چو نکہ استاد تزکیۂ نفس کرنے والا ہوتا ہے، اسی لئے اُن کو والدین سے بڑھ کر درجہ دیا گیا، لہٰذا استاد اور شاگرد کے درمیان والدین اور اولاد والا تعلق ہونا چاہیے۔جس طرح والدین اپنی اولاد کے لئے شفیق اور تعمیرِ اخلاق میں فکر مند ہوتے ہیں ایسے ہی استاد کو اپنے طلبہ و طالبات کی فکر ہونی چا ہیے۔ تعلیم ایک ذریعہ ہے، اسکا مقصد اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔ علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس لحاظ سے تعلیم و تربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ استاد اور شاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔

اللہ کریم نے قرآن پاک میں اپنے پیارے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا:

وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ (پ1، البقرۃ:129) ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے۔

اسی بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس رشتہ ہے۔استاد اور شاگرد کا رشتہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے انسانی زندگی کا ستون ہے۔ وہ ستون جو زندگی کو معنی و مفہوم کے حسین رنگوں سے نکھار دیتا ہے۔ ایک بہترین استاد طالبعلم کو اچھے اخلاق اور اعتماد کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ وہ شاگرد کی نفسیات اور نفس و کردار کو اخلاقی کردار، اخلاقی عمل کی بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ استاد اور شاگرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ان میں ایک بھی کمزور ہو تو دوسرا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اُستاد اور شاگرد کو ہر دم اپنی درس و تدریس کی نیتوں کی تجدید کرتے رہنا چاہیے تاکہ دونوں اپنے مقصد سے نہ ہٹ سکیں۔ استاد کو چاہیے کہ وہ طالبعلم کی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر کلاس روم میں اسکو ملامت نہ کرے بلکہ شاگرد کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو درستگی کی جانب لانے کیلئے کوشاں رہے۔ اپنا ہدف فقط ذہین شاگرد نہ رکھے بلکہ کمزور شاگردوں کو اپنا ہدف بنائے کہ مجھے ان کو ممتاز کیفیت پر لانا ہے۔ ایسے ہی شاگرد اپنے اُستاد کی تنبیہ کو اپنے لیے باعثِ رحمت جانے کہ میرے استاد میری ہی بہتری کیلئے تنبیہ کر رہے ہیں، مجھ سے ہی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے تھی، جو استاد کو تکلیف اٹھانا پڑی۔

استاد کا فرض:استاد کا فرض ہے کہ وہ علم دینے کے ساتھ ساتھ محبت و شفقت کا اظہار کرے اور طالبعلم کی ذمہ داری ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ استاد کا دلی طور پر احترام کرے۔ اُستاد کی ہر ہدایت و نصیحت پر عمل پیرا ہو اور تعلیم میں دلچسپی کا اظہار کرتا رہے۔ اِن اُصولوں کی بناء پر تعلیمی سرگرمی میں خوشگوار اور صحت مند تخلیقی ماحول پیدا ہو سکتا ہے، تعلیم کی ترقی دونوں کے کردار اور خوشگوار تعلقات سے منسلک ہے۔ سب سے اول اور اہم بات یہ ہے کہ طالب علم نبیِ کریم ﷺ کے اس ارشاد مبارک کو مدِّ نظر رکھے۔

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا (جامع ترمذی، حدیث: 1919)

وہ ہم میں سے نہیں جو ہما رے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و احترام نہ کرے۔

اس لیے شاگرد پر لازم ہے کہ وہ استاد کاادب و احترام کرے اور اُس کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی خود کو بچائے۔ استاد معلم اورمربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔جیسا کہ حدیث مبارک ہے کہ:اِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ (سنن ابوداؤد)میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔

چنانچہ استاد سے آمرانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں، طالبعلم کو تکبر اور بڑائی سے دور رہنا چاہیے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: علم حاصل کرو اس لئے کہ سکینت و وقار بھی سیکھو، جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنہیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اور عاجزی اختیار کرو، جبر کرنے والے علماء مت بنو۔(کتاب جامع بيان العلم و فضلہ)

پس جب طالبعلم اپنے استاد کا حد درجہ احترام کرے گا تب ہی اسے علم کی بیش قیمت دولت حاصل ہوگی۔ اگر طالبعلم بدخواہ اور بے ادب ہے تو علم سے محروم رہے گا۔معلم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے خیرخواہی حاصل نہیں ہوتی۔ بیمار نے اگر طبیب کی توہین کر دی تو وہ اپنی بیماری پر صبر کرے اور اگر شاگرد نے اپنے اُستاد کے ساتھ بد تمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔ استاد چونکہ طالبعلموں کیلئے نمونہ ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو کو متوازن اور محتاط رکھے۔ بے اعتدالی کے الفاظ استعمال نہ کرے۔ بعض اوقات بے توجہی میں زبان سے کوئی ایسا کلمۂ شرادا ہو جاتا ہے کہ نتیجۃً اس جملے کے سبب جو تباہ کاری ہوتی ہے اسکا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔

اکابر تجربہ کار اساتذہ کا کہنا ہے:وہ طالبعلم اوروه استاد علم دینے اور علم لینے کا حق ادا نہیں کرتے جو ان تین اسکلز کو اپنے شاگردوں کے اندر پیدا نہ کرسکیں۔

1-( Confidence)

2-(Creativity)

3- (Character)

طالبعلم کو بھی چاہیے کہ وہ ان 3اسکلز کو اپنے اندر پیدا کرے اور استاد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں میں ان تین صلاحیتوں کو پیدا کرے تاکہ وہ معاشرے میں ایک کامیاب انسان بن کر اُبھریں اور دین کا پیغام احسن انداز میں عام کر سکیں۔کیونکہ کتنے ہی شاگرد دیکھے ہیں جن میں یہ صلاحیتیں نہیں ہوتیں اگرچہ وہ اپنے وقت کے( Topper) ہوتے ہیں مگر ایک کامیاب بہترین معلم نہیں بنتے ہیں جتنا کہ با صلاحیت شاگرد بہترین اُستاد و راہنما بن سکتا ہے۔