استاد اور شاگرد کا تعلق معنی اور مفہوم کے اعتبار سے انسانی زندگی کا اہم ستون ہے،وہ ستون ہے جو زندگی کے مفہوم کو حسین رنگوں میں نکھارتا ہے، استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق درس و تدریس کے عمل میں بہت اہمیت کا حامل ہے، تعلیمی اداروں اور تعلیمی میدان میں ترقی اور کامیابی کا انحصار استاد اور شاگرد دونوں کے خوشگوار تعلقات پر ہوتا ہے۔

زندگی کے دوسرے شعبوں اور اداروں میں کام کرنے والے ایک دوسرے سے اتنا متاثر نہیں ہوتے اور ناہی ایک دوسرے پر اتنا انحصار کرتے ہیں جتنا کہ استاد اور شاگرد۔دفاتر میں کام کرنے والے بے جان فائلز سے تعلق رکھتے ہیں لیکن استاد اور شاگر د کا معاملہ ان سے مختلف ہے یہاں دونوں احساسات رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں استاد اور شاگرد کے مابین تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔

دورِ حاضر میں اس رشتہ کی خاص اہمیت نظر نہیں آتی لیکن ہمارے اسلاف کرام رحمہ الله کے ذہنوں میں رشتوں کا وہ تقدس، تعلقات کی وہ پاکیزگی اور احترام ومحبت کے جذبات کی اعلی تصویر جو استاد اور شاگرد، معلم یا متعلم کے رشتوں میں نظر آتی ہے وہ کسی اور رشتہ میں نظر نہیں آتی،لہذا طالبعلموں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ استاد سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ وہ ان کے محسن ہیں۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جس سے فیض حاصل کرتا ہے اس کے سامنے دل و جان سے جھکا رہے۔

اور استاد کا یہ سمجھنا کہ تعلیمی اوقات کے علاوہ شاگر د میرے دروازے پر حاضر نہیں ہو سکتا، یہ رویہ نامناسب ہے۔شاگرد روحانی اور معنوی اولاد ہے۔ لہذا شاگرد طالب علمی کے دور میں ہی بلکہ تاحیات یہ حق رکھتا ہے کہ اس کو زندگی میں جب الجھنیں پیش آئیں تو استاد کی چوکھٹ پہ حاضر ہو اور استاد کو بھی چاہیے کہ اس کو مفید مشورہ دے، درست رہنمائی کرے اور ایسے ہی اس کا خیر مقدم کرے جیسے اپنی اولاد آگئی ہے۔

شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے محسن کا احسان مند رہے، استاد کی تعظیم اور اطاعت کو شعار بنالے، تاریخ گواہ ہے جس نے استاد کے مقام کو پہچانا، اور آداب بجالائے، وہ دنیائے عزت و شہرت میں چاند کی طرح چمکا۔

چنانچہ ایک بار امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک خیال آیا فرمانے لگے، اونٹ لایا جائے اونٹ لایا گیا، شاگردوں سے کہا اس کو چھت پر چڑھاؤ طلبہ حیران لیکن کچھ نہ کہا، فوراً دو شاگردوں نے اطاعت شروع کردی، اور اونٹ کو اوپر چڑھانے کی کوشش کرنے لگے،آپ نے فرمایا:بس رک جاؤ، اصل مقصود اس کو اوپر چڑھانا نہ تھا بلکہ تمہارا امتحان مقصود تھا کہ کیا تم حکم کی تعمیل کرتے ہو، شاباش ہے تمہاری ہمت پر، اللہ پاک تمہیں علم و عزت عطا فرمائے، استاد کی دعا قبول ہوئی اور آج دنیا ان دو شاگردوں کو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔ (آداب استاد شاگرد، ص9)