علم اور ادب کا بہت بڑا ساتھ ہے، یوں سمجھئے کہ جہاں ادب نہیں وہاں علم کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک طالبِ علم کو استاد، کتاب اور مادرِ علمی یعنی  تعلیمی ادارے کا ادب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے، بعض دفعہ بڑے بڑے ذہین و فطین طلبہ بھی سوءِ ادب(بے ادبی) کی وجہ سے محروم اور علم سے دور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

استاد کا ادب کتنا ضروری ہے اس کی اہمیت جاننے اور سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ استاد وہ محسن ہے جو طالبِ علم کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے، رہنے کا ڈھنگ بتاتا ہے اور اخلاقی برائیوں کو دور کرکے اسے معاشرے کا ایک مثالی فرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دینِ اسلام میں استاد کے ادب کو بہت اہمیت دی گئی ہے حتّٰی کہ استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے، لہٰذا طالبِ علم کو چاہئے کہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر مخلص جانے۔تفسیرِ کبیر میں ہے:استاد اپنے شاگرد کے حق میں ماں باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔(تفسیرِ کبیر، 1/401)

امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتا ہے جب تک کہ وہ علم،اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔

امام فخرالدین ارسا بندی رحمۃ اللہ علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اورسلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب واحترام کیا کرتاتھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاد کی خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔کیو نکہ استاد ہو یا طبیب دونوں ہی اس وقت نصیحت نہیں کرتے جب تک ان کی تعظیم وتکریم نہ کی جائے۔(راہِ علم، ص 35 تا38ملتقطاً)

ادب کے ذریعے استادکے دل کو خوش کرکے ثواب حاصل کرنا: حدیث ِپاک میں ہے: اللہ پاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کادل خوش کرناہے۔(معجم اوسط، 6/37، حدیث:7911)

ادب کرنے والے کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہے،کیونکہ جس نے جو کچھ پایا ادب واحترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اورجس نے جوکچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔(تعلیم المتعلم،ص35)

الخىرات الحسان مىں ہے: امام اعظم رضى اللہ عنہ زندگى بھراپنے استاد محترم سىدنا امام حماد علیہ الرحمۃالجوا د کے مکان عظمت نشان کى طرف پاؤں پھىلا کر نہىں لىٹے حالانکہ آپ کے مکان عالى شان اور استادمحترم علىہ الرحمہ کے مکان عالى شان کے درمىان تقرىبا سات گلىاں پڑتى تھىں۔(اشکوں کى برسات، 9)

ہمارا پیارا دین ”اسلام“ تعلیم دیتا ہے کہ جو عمر اور مقام و مرتبے میں چھوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کریں اور جو عمر، علم، منصب، عہدے وغیرہ میں بڑا ہو ان کا ادب و احترام بجالائیں۔ ہمارے بڑوں میں ہمارے ماں باپ، اساتذہ کرام،پیر و مرشد اور علماءو مشائخ اور تمام ذی مرتبہ لوگ شامل ہیں۔ ان کے ادب و احترام کا ہمارے پیارے آقا ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا ہے: بڑوں کی تعظیم و توقیر کرو اور چھوٹوں پر شفقت کرو تم جنّت میں میری رفاقت پالو گے۔ ( شعب الایمان، 7/458، حدیث: 1098)

استاد کا ادب تکمىلِ علم کے لىے بنىاد ہے اور بے ادب علم کى نعمت سے محروم رہتا ہے، جب کہ ادب کو تھامنے والے فلاح و کامرانى کى ان بلندىوں پر پہنچ جاتے ہىں کہ ان کا نام آسمانِ ہدایت مىں چمکتے ہوئے ستاروں کى طرح تا ابد افشاں رہتا ہے اور اس کى روحانى تعلىمات سے اىک عالم فیض یاب ہوتا ہے۔کسى عربى شاعر نے کہا:

مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّابِالْحُرْمَةِ

وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَةِ

ىعنى جس نے جو کچھ پاىا ادب و احترام کرنے کى وجہ سے پاىا اور جس نے جو کچھ کھوىا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہى کھوىا۔ (کامىاب طالب علم کون؟ ص 55)

ىہى ادب تھا جس نے شىرِ خدا علىُ المرتضى کرم اللہ تعالىٰ وجہہ الکرىم کو دروازۂ علم کے لقب ِباکمال سے سرفراز کىا، آپ رضى اللہ عنہ فرماتے ہىں: جس نے مجھے اىک حرف سکھاىا مىں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہِ علم، ص 29)

اور ادب کى بات ىہ ہے کہ جو استاد کہے کرنا چاہىے کہ استاد روحانى باپ ہوتا ہے، والدىن بچے کى جسمانى پرورش کرتے ہىں، لىکن استاد بچوں کو زندگى کى سىڑھىاں چلنا سکھاتا ہے بس بات ىہ ہے کہ استاد بادشاہ نہىں ہوتا مگر بادشاہ بنادىتا ہے، اور استاد کا ادب کامىابى کى پہلى سىڑھى ہے۔