گفتگو ہی ایسا ذریعہ ہے، جس کے ذریعے کسی کے ذہنی معیار، قابلیت اور
شخصیت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور جب انسان کسی سے ملتا ہے، جو گفتگو سے ہی اپنے آپ
کو متعارف کرواتا ہے، اگر گفتگو کا انداز شائستہ اور مہذبانہ ہوگا تو انسان کی شخصیت
کو عظیم سمجھا جائے گا اور اگر زبان میں شائستگی اور مٹھاس نہیں، تو کوئی بھی ایسے
شخص کے متعلق اچھی رائے قائم نہیں کرے گا، دورانِ گفتگو دوسروں کی تنقید کو حوصلے
سے سننا اور اس کا مدلّل یعنی دلیل سے جواب دینا اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے، ہر شخص چھوٹا
ہو گا تو اس سے اندازِ گفتگو مشفقا نہ ہو، بوڑھا ہے تو ادب کا لحاظ رکھیں اور اگر
ہم عمر ہے تو بُردبانہ انداز ہو۔
احادیث مبارکہ میں گفتگو کے آداب: اس
طرح بہت سی احادیث میں بھی گفتگو کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔
جو بات کہوں منہ سے اچھی ہو بھلی ہو
کھٹی نہ ہو کڑوی نہ ہو، مصری کی ڈلی ہو
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے عائشہ! ٹھہرو، نرمی لازم کرو
اور سختی اور فحش سے بچو، مسلم کی ایک روایت میں ہے، فرمایا:تم فحش گو نہ بنو کیونکہ
اللہ تعالیٰ فحش گو اور فحش کرنے والے کو
پسند نہیں کرتا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 233)
امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں الحسن بن صباح نے حدیث بیان کی،
انہوں نے کہا:ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، اززھری از عروہ از حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے تھے کہ اگر کوئی
شخص آپ کے الفاظ کو گننا چاہتا، تو گن سکتا تھا۔(نعمۃ الباری، جلد 6، صفحہ 627)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو سلام سے ابتداء نہ کرے، اسے اجازت نہ دو۔(رواہ البہیقی فی شعب الایمان)
روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے
راوی کہ فرمایا:جب تم سے کوئی شخص مجلس تک پہنچے تو سلام کرے، پھر اگر بیٹھنا چاہے
تو بیٹھ جائے، جب کھڑا ہو، پھر سلام کرے، کیونکہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ حقدار
نہیں۔(رواہ ترمذی و ابو داؤد، مشکاۃ المصابیح کی شرح مراۃ المناجیح، ج6، صفحہ 342)
ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ جب کسی سے گفتگو کریں تو اس کو سلام
کرنا چاہئے، نرم الفاظ میں گفتگو کرنی چاہئے، فحش کلامی سے بچنا چاہئے اور گفتگو
آہستہ آہستہ آواز میں کرنی چاہئے کہ سامنے والا سمجھ سکے، کسی کی بات نہیں کاٹنی
چاہئے، مختصر اور جامع الفاظ میں گفتگو ہونی چاہئے، کیونکہ گفتگو کا طویل کرنا
نامناسب ہے۔
قرآن کریم ہمارے رب عظیم عزوجل کا بے مثل کلام ہے جو اس نے اپنے حبیب بے مثال ﷺ پر نازل فرمایا۔ جس طرح بے شمار آیاتِ قرآنیہ و احادیث مبارکہ قرآن کی عظمت و شان پر شاہد ہیں اسی طرح تلاوت قرآن کے فضائل و فوائد پر بھی دال ہیں یہاں چند فضائل و فوائد ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ تلاوت قرآن کا شوق بڑھے اور تلاوت کرنا ہمارے معمولات میں شامل ہو جائے ۔
آیات قرآنیہ:
اور مسلمانوں کے لیے ہدایت
اور رحمت اور بشارت ہے (نحل:89)
یہ لوگوں کے لیے ایک بیان
اور رہنمائی ہے اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے (آل عمران:138)
فرامینِ مصطفی ﷺ :
افضل عبادۃ امتی تلاوۃ القرآن۔ ( شعب الایمان،حدیث:354)
قرآن پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے اصحاب کے لیے شفیع ہو کر آئے
گا (مسلم:حدیث:252)
تلاوت قرآن کا معمول کیسے بنائیں؟
تلاوت قرآن کا معمول بنانے کے لیے تلاوتِ قرآن کے فضائل و
فوائد پر مشتمل آیات و احادیث کا وقتاً فوقتاً مطالعہ کرتے رہیں تاکہ تلاوتِ
قرآن کا جذبہ کم نہ ہو نیز اس کے متعلق بزرگان دین کے اقوال ،ان کی تلاوتِ قرآن سے محبت کے واقعات کا مطالعہ بھی بے حد مفید رہے گا ۔اگر اپنے یومیہ کاموں کا جدول بنا لیں اور جدول میں صبح و شام ایک وقت تلاوت قرآن کے لیے مختص کر لیں تو
تلاوتِ قرآن کی عادت ہو جائے گی۔
حضرت عمرو بن میمون ( رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں جس نے نماز فجر کے بعد
قرآن کھولااور 100آیات تلاوت کیں اللہ عزوجل اسے تمام اہل دنیا کے عمل کی مثل بلندی
عطافرمائے گا۔
تلاوت قرآن پاک کا معمول بنانے کے لیے کوشش کریں کہ فجر کے بعد ہرگز
نہ سوئیں بلکہ اس وقت تلاوت قرآن کیجئے تاکہ دن کا آغاز اس با برکت کلام سے ہو ۔
قرآن مجید فرقان ِ حمید مینارہ نور ہے۔ یہ روشنی ہے۔اس میں سینے کی بیماریوں سے شفا ہے۔یہ مضبوط رسی،واضح نور ،پختہ گرہ اور
مکمل طور پر محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہ قلیل و کثیر اور چھوٹے بڑے کو گھیرے ہوئے ہے۔اس کے عجائب و غرائب ختم نہیں ہوتے ۔اہل علم کے نزدیک کوئی چیز
اس کے فوائد کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اس نے
اولین و آخرین کی رہنمائی فرمائی۔ اس پر ایمان لانے والا توفیق یافتہ ہو جاتا ہے۔اسے مضبوطی سے تھامنے والا ہدایت یافتہ ہو
جاتا ہے۔ اس پر عمل کرنے والا فلاح والا
ہو جاتا ہے ۔یہ نہایت عمدہ خزانوں کی چابی ہے۔ یہ وہ آب حیات ہے کہ جس نے پیا وہ حیا
ت ابدی سے متصف ہو گیا ۔۔یہ ایسی دوا ہے کہ جس نے اس کو نوش کیا کبھی بیمار نہ ہوا۔
تلاوتِ قرآن کرنے سے قلبی
سکون حاصل ہوتا ہے۔یہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔یہ انسان کو برائیوں سے بچانے کا ذریعہ
ہے۔ تلاوت قرآن کرنے والا بروزِقیامت قرآن لکھنے والے معزز فرشتوں کے ساتھ ہو گا۔
اٹک اٹک کر مشقت سے پڑھنے والے کو دوہرا ثواب ملتا ہے ۔تلاوت قرآن کرنے والے کا ذکر
اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فرماتا ہے۔
قرآن پڑھنے والے کے والدین کے سرپر نورانی تاج سجایا جائے گا۔ قیامت کے دن تلاوت کی
جانے والی آیت تلاوت کرنے والے کے لیے نور
ہو گی۔
مگریاد رہے کہ تلاوت کے یہ تمام فضائل و برکات حاصل کرنے کے لیے ضروری
ہے کہ قرآن شریف کو درست تلفظ ،تجوید و مخارج کے ساتھ پڑھا جائے۔
اے اللہ! ہم سب کو خوش الحانی و عمدگی کے ساتھ تلاوت قرآن کی توفیق
عطا فرما۔ (آمین )
یہی ہے آرزو تعلیم قرآن عام ہو جائے
تلاوت کرنا میرا کام صبح و شام ہو جائے
تلاوت قرآن کے فضائل و فوائد مع
تلاوت قرآن کا معمول کیسے بنائیں حضرتِ ثابِت
بُنانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی روزانہ ایک بار ختمِ قرآن پاک فرماتے تھے۔ آپ
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمیشہ دن کوروزہ رکھتے اورساری رات قِیا م (عبادت) فرماتے ،
جس مسجِد سے گزرتے اس میں دو رَکعت (تحیۃ المسجد) ضَرور پڑھتے۔ تحدیثِ نعمت کے طور
پر فرماتے ہیں :میں نے جامِع مسجِد کے ہرسُتُون کے پاس قرآن پاک کا ختم اور بارگاہ ِ الہٰی
عَزَّوَجَلَّ میں گِریہ کیا ہے۔ نَماز اور تِلاوتِ قرآن کے
ساتھ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خُصوصی مَحَبَّت تھی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر ایسا کرم ہوا کہ رشک آتا ہے چُنانچِہ وفات
کے بعددورانِ تدفین اچانک ایک اینٹ سَرَک
کر اندر چلی گئی، لوگ اینٹ اٹھانے کے لئے جب جھکے تو یہ دیکھ کر حیران رَہ گئے کہ
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قَبْر میں کھڑے ہو کرنَماز پڑھ رہے ہیں ! آپ رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو شہزادی صاحِبہ نے بتایا : والدِ محترم علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الاکرم روزانہ دُعا کیا کرتے تھے:یا اللہ! اگرتُو کسی کو وفات کے بعد
قَبْر میں نَماز پڑھنے کی سعادت عطا فرمائے تو مجھے بھی مُشرّف فرمانا۔ منقول ہے:
جب بھی لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزارِ پُراَنوارکے قریب سے گزرتے تو
قَبْرِ انور سے تِلاوتِ قرآن کی آواز آرہی ہوتی۔(حِلیۃُ الاولیا ء ج 2 ص 362۔366 مُلتَقطاً دار الکتب
العلمیۃ) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
دَہَن مَیلا نہیں ہو تا بدن مَیلا نہیں
ہو تا
خدا کے اولیا کا توکفن مَیلا نہیں ہوتا
ایک حَرف کی دس نیکیا ں: قرآن مجید، فُرقانِ حمیداللہ ربُّ الانام کامبارَک
کلام ہے ، اِس کا پڑھنا ، پڑھانااور سننا سنانا سب ثواب کا کام ہے۔ قرآن پاک کا ایک حَرف پڑھنے پر 10نیکیوں کا ثواب ملتا
ہے ،چُنانچِہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، شفیعُ الْمُذْنِبیْن،رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین ﷺ کا فرمانِ دِلنشین ہے:جو شخص کتابُ اﷲ کا ایک
حَرف پڑھے گا، اُس کو ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا الٓمّٓ ایک حَرف ہے، بلکہ اَلِف ایک حَرف ، لام ایک حَرف اور میم ایک حَرف ہے۔(سُنَنُ
التِّرْمِذِی ج 4 ص 417 حدیث 2919)
تلاوت کی توفیق دیدے الہٰی
گناہوں کی ہو دور دل سے سیا ہی
بہترین شخص: نبیِّ مُکرَّم ، نُورِ مُجسَّم،رسولِ
اکرم ،شَہَنشاہِ بنی آدم ﷺ کا فرمانِ
معظَّم ہے:خَیْرُ
کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقرآن و
َعَلَّمَہٗ یعنی تم میں بہترین شخص وہ
ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ۔ (صَحِیحُ البُخارِی ج ص 410 حدیث 5027) حضرتِ ابو عبد الرحمن سُلَمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مسجِدمیں قرآن پاک پڑھایا کرتے اور فرماتے: اِسی حدیثِ مبارک نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔(فَیضُ القَدیر
ج۳ ص۶۱۸ تحتَ الحدیث۳۹۸۳)
اللہ مجھے حافظِ قرآن بنا دے
قرآن کے اَحکام پہ بھی مجھ کو چلا دے
قرآن شَفاعت کر کے جنَّت میں
لے جائے گا: حضرتِ اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ
رسولِ اکرم، رحمتِ عالَم ، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم ﷺ کافرمانِ
معظَّم ہے: جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے اس پر عمل کیا ، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گااور جنّت میں لے جائے
گا۔(تاریخ دمشق لابن عساکِر ج 41 ص 3،اَلْمُعْجَمُ الْکبِیْرلِلطَّبَرانِیّ ج 10 ص 198 حدیث 10450)۳
ایک آیت سکھانے والے کے لئے قیا مت تک ثواب! ذُوالنُّورین، جامع القرآن حضرتِ عثمان ابنِ عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت
ہے کہ تا جدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطانِ مکّۂ مکرّمہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا : جس نے قرآن مُبین کی ایک آیت سکھائی اس کے لیے سیکھنے والے
سے دُگنا ثواب ہے۔
ایک اور حدیثِ پاک میں حضرتِ اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ
خاتَمُ الْمُرْسَلین، شفیعُ الْمُذْنِبیْن، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین ﷺ فرماتے ہیں : جس نے قرآن عظیم
کی ایک آیت سکھائی جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کے لیے ثواب جاری رہے
گا۔(جَمْعُ الْجَوامِع ج 7 ص 282 حدیث 22455۔22456 )
تلاوت کا جذبہ عطا کر الہٰی
مُعاف فرما میری خطا ہَر الہٰی
معزز خواتین و حضرات تلاوت قرآن کی تو بے شمار برکتیں و فوائد ہیں ہمیں
روزانہ تلاوت قرآن کر کے اس کے فضائل و برکات حاصل کرنے چاہیئے اور اپنے سینوں کو
قرآن کے نور سے منور کرنا چاہیئے اس کا معمول بنائے اگر ہم تلاوت قرآن کو اپنے روزانہ کے کاموں کو مینیج کر تے ہوئے اپنے معمول میں شامل کرلیں
تو بہت ساری برکتیں حاصل کرنے میں کامیاب
ہو سکتے ہیں۔تو آج ہی ابھی سے نیت کر لیتے
ہیں کہ اپنی اتنی مصروف ترین زندگی میں سے قرآن پاک کی تلاوت کا وقت نکال کر اپنی
زندگی کا معمول بنائیں گے ان شاءاللہ عزجل اللہ پاک ہمیں قرآن کے نور سے فیضیاب فرمائے
آمین
قرآن مجید فرقانِ حمید اللہ ربّ العزت عزوجل کا مبارک کلام ہے، اس کا
پڑھنا پڑھانا، سننا سنانا سب ثواب کا کام ہے، قرآن کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں
کا ثواب ملتا ہے، قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے، جس کا ذمّہ رب تعالیٰ نے اپنے ذمّہ لیا
ہے، ربّ تعالیٰ نے قرآن مجید اپنے آخری نبی،
محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمایا، قرآن مجید میں
ہر علم بھی موجود ہے، بے شک اس کی تلاوت دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی ہے، بے چین دلوں کا چین ہے، تلاوت قرآن کے جتنے
فضائل بیان کئے جائیں کم ہیں، بہرحال کچھ فضائل ذکر کئے جاتے ہیں:
میرے آقا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 352 پر
فرماتے ہیں:قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر غور سے سننا اور خاموش رہنا فرض
ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا
لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ0(پ9، الاعراف: آیت 204)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:خیرکم
من تعلم القرآن وعلمہتم میں بہتر وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا
اور دوسروں کو سکھایا۔(صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 410، حدیث5027) حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا
فرمانِ معظم ہے:جس شخص نے قرآن سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اس
پر عمل کیا تو قرآن پاک اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔(المعجم الکبیر،
جلد 10، صفحہ 197)
الٰہی شرف دے شوق قرآن کی تلاوت کا
شرف دے گنبد خضرا کے سائے میں شہادت کا
تلاوت قرآن مجید کا معمول بنانے کے لئے روزانہ امیراہلسنت کے دیئے
گئے نیک اعمال میں سے نیک اعمال نمبر پر عمل کیجئے کہ کیا آج آپ نے قرآن مجید کی تین
آیت مبارکہ مع ترجمہ و تفسیر تلاوت کی؟ اس پر استقامت کے ساتھ عمل کرنے سے قرآن کی
تلاوت کا معمول بن جائے گا، ان شاءاللہ۔۔نیز تلاوت قرآن کے فضائل سنیں اور اس کی
برکتیں پڑھے، جتنا اس بارے میں مطالعہ کیا جائے، اتنا ہی تلاوت کرنے کا ذوق پیدا
ہوگا۔
کنزالایمان اے خدا میں کاش روزانہ پڑھوں
پڑھ کر تفسیر اس کی پھر اس پر عمل کرتا
رہوں
ربّ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید
کا ذوق وشوق عطا فرمائے اور تلاوت قرآن کرنے پر استقامت عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم
النبیین
قرآن کریم اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، قرآن کریم سب سے افضل کتاب
ہے جو سب سے افضل رسول، حضور پر نور، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوئی۔(بہار شریعت، جلد1/29، حصہ اول)
قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے، جس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے، یہ وہ
مقدس کتاب ہے، جو ہمیں نیکیوں کی طرف ابھارتی ہے، یہی ہمیں اطاعتِ الٰہی ، اتباعِ رسول ﷺ کا حکم دیتی ہے، جس کو پڑھنا عبادت ہے، جس کو
دیکھنا عبادت ہے، جس کی تعلیمات پر عمل کرنا عبادت ہے،یہی وہ کتاب ہے، جس میں
ہمارے لئے دینی و دنیاوی، معاشی وسماجی، معاشرتی و فلاحی، الغرض تمام پہلوؤں کے
بارے میں رہنمائی موجود ہے، آئیے ترغیب کے لئے کچھ قرآن پاک کی تلاوت کے فضائل
سنتے ہیں۔
قرآن مجید فرقانِ حمید اللہ ربّ العزت کا مبارک کلام ہے، اس کا پڑھنا
پڑھانا، سننا سنانا، سب ثواب ہے، آخری نبی، محمد عربی ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:جو شخص کتاب اللہ کا ایک
حرف پڑھے گا، اس کو ایک نیکی ملے گی، جو دس نیکیوں کے برابر ہوگی، میں یہ نہیں
کہتا الم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف، اور میم ایک حرف۔(ترمذی، ج4،
صفحہ 417، ح2919)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اپنے
گھروں کو قبرستان نہ بناؤ،(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) تو شیطان اس گھر سے
بھاگتا ہے، جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و
قصرما باب استحباب صلاۃ الناضکۃ، ص306، حدیث
864) قرآن کریم کے مطابق، نبی کریم ﷺ کا ارشاد
ہے: فضل القرآن علی سائرالکلام کفضل الرحمن علی۔۔۔قرآن کی فضیلت تمام
کلاموں پر ایسی ہے، جیسی اللہ عزوجل کی اس کی مخلوق پر۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ
501)
قرآن کریم عقائد کی رہنمائی کرتا ہے، قرآن کریم نور ہے، قرآن کریم قیامت
میں پل صراط کا نور ہے، قرآن کریم کو ایسی مضبوطی سے تھامنا ہے کہ زندگی اس کے
سائے میں گزرے، موت اس کے سایہ میں آئے، تو ہمیں بھی قرآن کریم سے مضبوط تعلق
رکھنا چاہئے، اس کے لئے ہمیں تلاوتِ قرآن کی عادت بنانی ہوگی، روزانہ کی بنیاد پر
وقت مقرر کرکے اسے پڑھنا ہوگا، یوں اس کی لذت و شیرینی بھی ملے گی۔
تلاوتِ قرآن کی عادت کے لئے اس کے فضائل و برکات کو مدِّنظر رکھنا
ہوگا، یوں عادت پختہ ہوتی چلی جائے گی، پھر تو یہ عالم ہوگا کہ ہمارا کوئی دن
تلاوت ِقرآن کے بغیر نہیں گزرے گا۔
تلاوت کروں ہر گھڑی یا الٰہی
بکوں نہ کبھی بھی میں واہی تباہی
قرآن کریم ایسی عظیم کتاب ہے، جو اپنی فصاحت و بلاغت اور اپنی مثالوں
میں یکتا ہے کہ اس جیسی کتاب کوئی بھی پیش نہیں کرسکے گا، الغرض ہر شعبہ زندگی کے
مسائل کا حل اس میں موجود ہے، قرآن کریم کے فوائد حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ
اس کی تلاوت ہے اور تلاوت قرآن کے کثیر فضائل و فوائد ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا ذریعہ:نبی
پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جسے یہ پسند
ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت
کرے تو اسے چاہئے کہ قرآن کی تلاوت کرے۔(جامع صغیر، صفحہ 529، حدیث8744)
آسمان و زمین پر فائدے کا باعث: اللہ
کے رسول ﷺ کا فرمانِ راحت نشان ہے:اللہ کا
ذکر اور تلاوتِ قرآن کرتے رہو، کیونکہ یہ تمہارے لئے آسمان پر راحت اور زمین میں خیر
کا ذریعہ ہے۔(جامع صغیر، ص166)
ایک حرف پر دس نیکیاں: ترمذی و دارمی نے عبداللہ
بن مسعود سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو
شخص کلام اللہ کا ایک حرف پڑھے گا، اس کو ایک نیکی ملے گی، جو دس کے برابر ہوگی، میں
یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف، لام دوسرا حرف، اور میم تیسرا
حرف۔(بہار شریعت، حصہ 16، صفحہ 128)
دلوں کے اطمینان کا ذریعہ:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ کنزالایمان:جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین
پاتے ہیں، سن لو اللہ کی یاد ہی دلوں کا چین ہے۔(پ 13الرعد:28)
امام خازن فرماتے ہیں کہ مقاتل نے فرمایا: ذکر سے مراد قرآن کریم ہے،
کیونکہ یہ مؤمنوں کے دلوں کے لئے اطمینان کا ذریعہ ہے۔(تفسیر خازن3/65)
نزولِ رحمت کا ذریعہ:
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک
شخص سورہ کہف پڑھ رہا تھا تو ان پر ایک بادل چھا گیا، وہ جھکنے لگا اور ان کا
گھوڑا بدکنے لگا، پھر صبح ہوئی تو وہ صاحب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہ ماجرا عرض کیا،
فرمایا:یہ سکینہ اور رحمت ہے، جو قرآن کی وجہ سے اتری۔(بخاری،3/406)
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین!مذکورہ فرامین سے واضح ہوا کہ تلاوت
کے کتنے فضائل ہیں تو ہمیں بھی چاہئے، روزانہ کچھ نہ کچھ وقت ہمیں تلاوت قرآن کے
لئے ضرور مختص کرنا چاہئے، کیونکہ یہ دلوں کے اطمینان اور سکون کا باعث ہے، زہے نصیب!
مفتی محمد قاسم صاحب کی تفسیر القرآن صراط الجنان کے ساتھ تلاوت کی سعادت ملے۔
یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہوجائے
تلاوت شوق سے کرنا ہمارا کام ہو جائے
تلاوتِ قرآن کے فضائل و فوائد مع تلاوت قرآن کا معمول کیسے بنائیں اللہ پاک
کا بڑا بابرکت کلام قرآنِ پاک،جو اللہ پاک
کے محبوب ،آخری نبی ﷺ پر نازل ہوا۔ اس کو پڑھنا،پڑھانا،سننا سنانا
ثواب کاکام ہے۔قرآن پاک روشن نور ہے۔ یہ آقا کریم ﷺ کا سب
سے بڑا معجزہ ہے۔ یہ بڑی عظمت والی کتاب ہے۔ اس پاک کلام کی تلاوت سے لذت و سرور
ملتا ہے۔اس کا ایک حرف پڑھنے پر 10 نیکیاں ملتی ہیں۔
آخری نبی ﷺ نے فرمایا:جو شخص کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے گا،اس کو ایک نیکی ملے گی
جو دس کے برابر ہو گی۔میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ،لام ایک
حرف اور میم ایک حرف ہے۔ (سنن الترمذی ج 4،ص 417،حدیث 2919) (تلاوت کی فضیلت* ص
4)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا:اے بیٹے!صبح و شام تلاوتِ قرآن
سے غافل نہ ہونا کیوں کہ قرآن مرده دل کو زندہ کرتا ہے اور بے حیائی اور برے کاموں
سے روکتا ہے۔( مسند الفردوس ،368/5،حدیث 8459)( دین و دنیا کی انوکھی باتیں* ص 60،61)
آقا کریم ﷺ نے
فرمایا:بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسا کہ لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔عرض کی،یارسول
اللہ ﷺ! اس کی صفائی کس چیز سے ہو گی؟فرمایا:تلاوتِ
قرآن اور موت کو بکثرت یاد کرنے سے۔ (شعب الایمان باب فی تعظیم القرآن، فصل فی ارمان
تلاوته 353/2،حدیث 2014) ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں ج 1ص62)
حضرت عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جو نماز فجر پڑھ کر قرآنِ
پاک کھولے اور اس کی 100 آیتیں تلاوت کرے تو اسے تمام دنیا والوں کے عمل کے برابر
ثواب ملے گا۔ ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں ج1 ص62) امیرُالمؤمِنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے فرمان کے مطابق نماز میں
کھڑے ہو کر تلاوتِ قرآن کرنے سے ہر حرف کے بدلے 100 نیکیاں اور نماز میں بیٹھ کر
تلاوت کرنے سے 50 نیکیاں ملتی ہیں۔نماز کے علاوہ باوضو قرآن پڑھنے سے ہر حرف کے
بدلے 25 نیکیاں جبکہ(چھوئے بغیر) بے وضو پڑھنے سے 10 نیکیاں ملتی ہیں۔ ( دین و دنیا
کی انوکھی باتیں ج1 ص62)
پیاری بہنو!قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنا زبانی پڑھنے سے افضل ہے کہ اس میں
پڑھنا،دیکھنا اور ہاتھ سے چھونا عبادت ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے اخلاص کے ساتھ،باادب
تلاوت کریں۔باوضو،قبلہ رو،اچھے کپڑےپہن کر تلاوت کرنا مستحب ہے۔تلاوت کے آغاز میں
تعوذ پڑھنا مستحب ہےاور ابتدائے سورت میں بسم اللہ سنت ورنہ مستحب۔ (بہار شریعت* ج 1 حصہ 3 ص
550،تلاوت کی فضیلت ص 12، 11) دورانِ
تلاوت یہ کیفیت بنائیں کہ اللہ کودیکھ رہی
ہوں یا یہ کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔خشوع
وخضوع اور غوروفکر کرتے ہوئے تلاوت کریں۔بعض بزرگانِ دین ایک آیت تلاوت فرماتے اسی
پر غوروفکر کرتے رہتے حتی کہ رات گزر جاتی۔قرآن پاک کو اچھی آواز سے پڑھیں لیکن
گانے والا انداز اختیار نہ کریں۔قواعدِ تجوید سے پڑھیں۔قرآن پاک بلند آواز سے
پڑھنا افضل ہے۔بشرطیکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔تلاوت کرتے وقت رونا یا رونے جیسے شکل
بنا لینا مستحب عمل ہے۔تلاوت کے دوران رونا عارفین اور اللہ کے نیک بندوں کی صفت ہے۔ (دین و دنیا کی
انوکھی باتیں ج 1 ص 65،66 ) 8- (دین و دنیا
کی انوکھی باتیں ج 1 ص66)
قرآن پاک کی تلاوت نماز میں
سب سے افضل ہے،دن میں فجر کے بعد کا وقت سب سے افضل،رات میں نصف آخر میں تلاوت نصف
اول وقت سے افضل،مغرب وعشاءکے درمیان تلاوت کرنا بھی افضل ہے۔ اوقاتِ مکروہ میں
قرآنِ پاک کی تلاوت بہتر نہیں،بہتر یہ ہے کہ ذکرو درود شریف میں مشغول رہے۔(بہار
شریعت حصہ 3) (455/1) دعا ہے اللہ پاک ہمیں
اخلاص کے ساتھ غوروفکر کرتے ہوئے تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ خاتم النبیین
ادب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہے، جو کہ دیگر اقوام یا
مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں بھی اہمیت سمجھی، مگر اس
کا تمام تر سہرا اسلام کے سر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار
سے نہیں، زبان یعنی اخلاق سے پھیلا۔
اور اسلام اپنے جاننے والوں کو بھی ادب و احترام کی تعلیم دیتا ہے کہ
اسلام محبت و بھائی چارے کا نام ہے، پھر جہاں محبت ہواور ادب نہ ہو تو کسی نے بہت
ہی پیارا شعر کہا ہےادب پہلا قرینہ ہے، محبت کے قرینوں میں۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو!
ادب و احترام کرنے میں جو کردار ہمارے سلف و صالحین نے ادا کیا اور کیسے ولایت کے
مرتبے پر فائز ہوئے، اس کی نظیر نہیں ملتی، اسلام قدم قدم پر ہمیں ادب کی تعلیم دیتا
ہے، بیٹھ رہے ہیں تو ادب کو ملحوظِ خاطر رکھیں، چل رہے ہیں تو راستے کا ادب کریں،
کھانا کھاتے وقت ادب کا مظاہرہ کریں، پانی پینے کے آداب بیان کئے گئے، سونے کے
آداب، اٹھنے کے آداب، ملاقات کے آداب، والدین کا ادب، اپنے بڑوں کا ادب، بات چیت
کے آداب، اگر طالب علم ہے تو استاد کا ادب، علم کا ادب، کتابوں کا ادب، نشست گاہ
کا ادب، وہاں موجود شرکاء اہلِ علم کا ادب، گویا ہر چیز میں ادب کہ ادب کے ساتھ
زندگی بہت ہی خوبصورت نظر آتی ہے۔
علمِ دین کی بات کو ادب و تعظیم کے ساتھ کے حوالے سے کسی دانا نے کیا
خوب کہا ہے:جس نے کسی علمی بات کو ہزار بار سننے کے بعد اس کی ایسی تعظیم نہیں کی،
جیسی تعظیم اس نے اس مسئلہ کو پہلی مرتبہ سنتے وقت کی تھی تو ایسا شخص علم کا اہل
نہیں۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم، ترجمہ بنام راہِ علم، صفحہ 35)
تعظیمِ علم میں کتاب کی تعظیم کرنا بھی شامل ہے، لہٰذا طالب علم کو چاہئے کہ کبھی بھی بغیر طہارت
کے کتاب کو ہاتھ نہ لگائے، حضرت شیخ شمس الدین حلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت
نقل کی جاتی ہے کہ آپ علیہ الرحمہ نےفرمایا: میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم
کرنے کے سبب حاصل کیا اور اس طرح کہ میں نے کبھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔(تعلیم
المتعلم طریق التعلم، ترجمہ بنام راہِ علم، صفحہ 33)
شمس الائمہ حضرت امام
سرخسی علیہ الرحمہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ کا پیٹ خراب ہو گیا،
آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار و بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے، پس اس
رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو سترہ بار وضو کرنا پڑا،کیونکہ آپ بغیر وضو
تکرار نہیں کیا کرتے تھے۔(راہ علم، ص33)
سبحان اللہ! کیا شان تھی ہمارے اسلاف کی کہ ایسے ہی انسان فنا فی اللہ
کا رتبہ نہیں پالیتا، کہا جاتا ہے کہالحرمۃ خیر من الطاعۃیعنی ادب و احترام کرنا اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ انسان گناہ
کرنے کی وجہ سے کبھی کافر نہیں ہوتا، بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہوتا
ہے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم، ترجمہ بنام راہِ علم، صفحہ 29)
پیاری اسلامی بہنو!استاد کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے، امیر
المؤمنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:انا
عبد من علمنی حرفا واحدا ان شاء باع وان شاء اعتق وان شاء استرقیعنی جس نے مجھے ایک حرف
سکھایا، میں اس کا غلام ہوں، چاہے اب وہ مجھے فروخت کر دے اور چاہے تو آزاد کر دے
اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔
سبحان اللہ! کیا کہنے ہمارے بزرگانِ دین علی الرحمہ کے، ربّ کریم ان
کے فیوضات میں سے ہمیں بھی حصّہ عطا فرمائے۔آمین
الآخر۔۔خلا صہ یہ حاصل ہوا
کہ بغیر ادب کے زندگی بے ذائقہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی معرفتِ الٰہی ، عشقِ حقیقی حاصل کرنا چاہتا ہے تو بغیر
ادب کے اس منزل تک پہنچنا ناممکن ہے، ہر معاملے میں ادب کے ساتھ زندگی گزارنے کا یہ
فائدہ ہے کہ انسان ایک اچھے انسان کے رُوپ میں ڈھل جاتا ہے اور اپنے مقصدِ حقیقی
کو پانے کی راہیں اس کے لئے کشادہ ہو جاتی ہیں۔
جبکہ بےادب شخص اپنے مقصد کی تلاش میں نکلے بھی تو اس کی مثال اس
مسافر کی سی ہے کہ جس کی منزل کی راہیں تاریک ہیں اور تعجب اس بات کا ہے کہ اس
منزل کو روشن کرنے کے لئے اس کے پاس چراغ بھی نہیں، لہٰذا کیا خوب کہا کسی نےباادب بانصیب، بے ادب
بے نصیب۔
ایسا انسان جس کے پاس ادب کرنے کی قوت نہیں، وہ ساری زندگی اپنا مقام
کبھی بھی نہیں بنا سکتا، ادب کا دروازہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں داخل ہونے کے لئے
سر کو جھکانا پڑتا ہے، عاجزی ہی مقام تک لے کر جاتی ہے۔ ربّ تعالیٰ ہمیں ادب واخلاص کی دولت عطا فرمائے۔آمین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ رب العزت نے
قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے
کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ اگر ہم قرآنِ پاک کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ارشادِ
باری تعالیٰ ملتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا
مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ
لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ ؕ (البقرۃ:۲۵۴) ترجمہ: اے ایمان والو! ہمارے دیئے
ہوئے رزق میں سے اللہ کی راہ میں اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کرلو جس میں نہ کوئی خرید
و فروخت ہوگی۔سورۂ حدید میں ارشاد ہوا: وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا
جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِ ؕ(الحدید:۷)
ترجمہ: اور اس کی راہ (میں) کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں
اَوروں کا جانشین کیا۔اسی سورت میں فرمایا گیا : وَ مَا
لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ (الحدید۔
10) ترجمہ: اور تمہیں کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین
سب کا وارث اللہ ہی ہے۔جبکہ سورۂ بقرہ کی ایک آیت میں تو کمال ہی فرمادیا: مَنْ
ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا
كَثِیْرَةً ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ ۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۔ (البقرہ۔ 245) ۔ترجمہ: ہے کوئی جو اللہ کواچھا قرض دے تو
اللہ اس کے لئے اس قرض کو بہت گنا بڑھا دے اور اللہ تنگی دیتا ہے اور وسعت دیتا ہے
اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
اس کے علاوہ اور
بھی کئی آیات ہیں جن میں راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیبیں اور خرچ نہ کرنے پر
وعید یں بیان کی گئی ہیں لہذا ہمیں جب جب موقع ملے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیئے۔
آپ کو اپنا مال خدا
کی راہ میں خرچ کرنے کا ایک بہترین موقع دعوتِ اسلامی فراہم کرنے جارہی ہے:
وہ اس طرح کہ دعوتِ اسلامی کی جانب سے 13 نومبر 2022ء کو”
ٹیلی تھون“ کیا جارہا ہے جس میں دعوتِ اسلامی کے اخراجات کو منظم انداز سے چلانے
کے لئے عاشقانِ رسول سے ڈونیشن جمع کیا جائے گا۔ ایک یونٹ ”دس ہزار (پاکستانی
روپے)“ رکھا گیا۔
دعوتِ
اسلامی نہایت بڑے پیمانے پر دین کی خدمت
انجام دے رہی ہے، کچھ تفصیلات ملاحظہ فرمائیے:
ملک و
بیرونِ ملک میں دعوتِ اسلامی کے ”جامعات المدینہ انسٹیٹیوٹس“ کی تعداد” 1309“ ہے۔
ان
جامعات میں زیرِ تعلیم ”طلبہ /طالبات“ کی
تعداد تقریباً ” 01لاکھ 17ہزار 402“ ہے۔
رپورٹ
کے مطابق ان جامعات المدینہ سے اب تک درسِ نظامی مکمل کرنے والوں/والیوں کی تعداد
16 ہزار 171 ہے۔
دنیا
بھر میں ”مدرسۃ المدینہ “ کی تعداد ”
6ہزار 113 “ ہے۔
ان میں حفظ و ناظرہ کرنے والے” بچوں/بچیوں“ کی تعداد”
2 لاکھ 70 ہزار246“ہے۔
مدرسۃ
المدینہ کی ان برانچز سے اب” ایک لاکھ“ سے زیادہ ”حافظ قرآن“ بن چکے ہیں جبکہ اب تک ”3 لاکھ 38 ہزار 998“بچوں اور بچیوں نے ناظرہ قرآن پاک ختم کرلیا ہے۔اس کامطلب یہ ہوا کہ دعوتِ اسلامی
نے 4 لاکھ 38 ہزار سے زیادہ حافظ و قاری تیار کرکے امتِ مسلمہ کو دیئے ہیں۔
واضح رہے کہ ”جامعات المدینہ اور مدرسۃ المدینہ“ کے ان تمام طلبہ و طالبات کو تعلیم” بغیر کسی فیس کے بالکل مفت“ دی جاتی
ہے۔ بلکہ جامعۃ المدینہ میں” ہاسٹل میں رہ
کر “پڑھنے والے اسٹوڈنٹس کو ”قیام،
طعام، مکمل علاج اور لانڈری وغیرہ“ کی سہولیات بھی بالکل مفت دی جاتی ہیں۔ سبحان اللہ
یہ
جان کر بھی آپ کو خوشی ہوگی کہ دعوتِ اسلامی کے تحت پاکستان بھر میں کچھ مدرسۃ
المدینہ اسپیشل پرسنز کے لئے بھی
قائم ہیں جن میں نابینا افراد کو بھی قرآن کریم (حفظ و ناظرہ) کی مفت تعلیم دی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ ایک جامعۃ المدینہ بھی اسپیشل پرسنز کے لئے قائم کیا جاچکا ہے جہاں بریل
لینگوئج میں انہیں قرآن و سنّت کی تعلیمات
سے روشناس کروایا جارہا ہے۔
مدرسۃ
المدینہ بالغان کی بات کریں توتقریباً 45 ہزار 402 مدارس المدینہ بالغان میں کم و بیش 2 لاکھ 40 ہزار121 اسلامی بھائی قرآن پڑھ رہے ہیں۔
ملک و
بیرونِ ملک میں مدرسۃ المدینہ بالغات کی تعداد 05 ہزار 925سے زائد ہے، جن میں تقریباً 66ہزار
214 اسلامی بہنیں قرآنِ پاک پڑھ رہی ہیں۔
فیضان
آن لائن اکیڈمیز کی 45 برانچز ہیں جن میں
ملک و بیرونِ ملک سے 21ہزار 913 اسٹوڈنٹس
زیرِ تعلیم ہیں۔
دعوتِ
اسلامی کے دنیا بھر میں 585 مراکز(فیضانِ مدینہ) قائم ہیں جن میں155 زیرِ تعمیر
ہیں۔ ان مراکز میں مختلف تعلیمی اور تبلیغی
فرائض انجام دیئے جاتے ہیں ۔
دعوتِ
اسلامی کے تعلیمی، انتظامی، تبلیغی، تکنیکی ، فلاحی اور دیگر امورکو بحسنِ خوبی انجام دینے کے لئے54 ہزار سے زیادہ امپلائزہیں جن کی سیلری ہر مہینے
01ارب 51 کروڑ 31لاکھ 56ہزار اوپر بنتی ہے۔
مدنی
چینل اس وقت 03 زبانوں میں چل رہا ہے۔ (01)اردو (02) انگلش (03)بنگلہ ۔ مدنی چینل کا ایک دن کا خرچہ تقریباً 20 لاکھ
سے زیادہ ہے۔ کڈز مدنی چینل اور غلام رسول
کے مدنی پھول و دیگرD 3اور
D 2اسلامی
کارٹونز بھی اچھی خاصی رقم خرچ کرکے آپ تک پہنچائے جاتے ہیں۔
تبلیغی
اور تعلیمی اعداد و شمار کے بعد اب اگر میں بات کروں دعوتِ اسلامی کی فلاحی خدمات کی تو بے مثل و بے مثال خدمات انجام دینے والی دعوتِ
اسلامی کے فلاحی ڈیپارٹمنٹ FGRF
نے بالخصوص حالیہ بارشوں اور سیلاب میں
ہونے والی تباہی میں اپنی فلاحی خدمات انجام دیتے ہوئے کمال کردیا:
Relief Report Pakistan
٭01 لاکھ 20ہزار لوگوں کو
ٹینٹ میں پناہ دی گئی۔
٭ایک کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ کیش رقم متاثرین میں تقسیم کی گئی۔
٭38سو ٹن راشن 2 لاکھ 75ہزار خاندانوں میں بانٹا
گیا۔
٭لاکھوں افراد کو کھانا اور پینے کا صاف پانی مہیا کیا گیا۔
٭متاثرہ علاقوں میں 117 فری میڈیکل کیمپس لگائے گئے جن میں 37 ہزار افراد کابالکل مفت
علاج کیا گیا۔
٭جانوروں کے علاج کے لئے 44 کیمپس لگائے گئے جن میں 77ہزار جانور وں کی ٹریٹمنٹ کی گئی۔
التجا: دعوتِ اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات میں اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ
ضرور حصہ ملائیں، اِن شآءَ اللہ دارین کی
سعادتیں آپ کا مقدر ہوں گی۔
مزید معلومات اور ڈونیشن دینے کے لئے رابطہ فرمائیں۔
00447393123786
0311-1212142
از: محمد
عمر فیاض عطاری مدنی
اس بات کو طویل عرصے
سے محسوس کیا جارہا ہے کہ معاشرے میں مطالعہ یا کتب بینی کا رجحان رفتہ رفتہ کم
ہوتا جارہا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف یہ کہ عام
لوگوں میں بہت کم ہوا ہے بلکہ طلبہ سمیت معاشرے کے ان طبقوں میں بھی مطالعہ برائے
نام رہ گیا ہے جو لکھنے پڑھنے کے شعبے سے وابستہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کتابوں کی
اشاعت اور فروخت مشکل سا کام ہوگیا ہے ۔ اب
یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو کتابیں شائع ہورہی ہیں اُن کی تعدادِ اشاعت محض ہزار،
دو ہزار یا پانچ ہزار تک ہی ہوتی ہے اور اُس کتاب کا نیا ایڈیشن بھی سال،دو سال یا
پانچ دس سال کے وقفے سے پہلے شائع نہیں ہوپاتا۔ اصل وجہ یہی ہوتی
ہے جو کتابیں پہلے شائع ہوئی ہیں وہ اسٹاک ہوتی ہیں، ابھی وہ فروخت ہی نہیں ہوئی
ہوتیں۔
لیکن اگر بات کی جائے دنیابھر
میں دین اسلام کی اشاعت و ترویج کا کام کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوت
اسلامی کی تواس کے بانی و امیر حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری
دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اپنے مریدین و محبین کو مطالعے کے راستے پر بھی خوب
لگایا ہوا ہے۔
قرآن و حدیث اور دیگر
تحقیقی موضوعات پر عاشقانِ رسول کو مستند کتابیں فراہم کرنے کے لئے دعوتِ
اسلامی نے باقاعدہ اپنا اشاعتی ادارہ قائم کیا ہوا ہے جس کانام مکتبۃ المدینہ ہے۔
مکتبۃ المدینہ سے
دعوتِ اسلامی کی جو کتابیں اور رسائل شائع ہوتے ہیں، ان کی تعداد سُن کر یقیناً آپ کو
مزہ آئے گا کہ مکتبۃ المدینہ سے ایک ایک
رسالہ ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سب سے زیادہ اشاعت ”ہفتہ وار رسالہ“ کی ہوتی ہے،
ہفتہ وار رسالہ ہر ماہ 50 سے 60ہزار تک کی تعداد میں ہارڈ کاپی میں پرنٹ ہوتا ہے اور
پاکستان بھر میں قائم مکتبۃ المدینہ کی برانچز پر دستیاب ہوتا ہے۔
اعلی حضرت عظیم
المرتبت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد
رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے سالانہ عرس 1441 ہجری کے موقع پر شیخ طریقت امیراہلسنت
دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی نئی کتاب "فیضانِ نماز" منظر عام پر آئی، جب میں نے اُس کتاب کی تعدادِ
اشاعت کو دیکھا تو وہاں لکھا تھا ”ایک
لاکھ“، یعنی وہ ایک کتاب ایک لاکھ کی تعداد میں ہارڈ کاپی میں شائع ہوئی اور یہ تومیں پہلی بارکی اشاعت کی تعداد بتا رہا
ہوں ۔
شیخ طریقت امیر اہلسنت
بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے محبین و مریدین و متعلقین
کو مختلف مواقع پر کُتب و رسائل کے مطالعہ
کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں ۔
2006ء کی بات
ہے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی پاکستان میں ماہ صیام ماہ غفران رمضان
المبارک میں کثیر لوگ معتکف تھے، پورے ماہ کا اعتکاف کر رہے تھے ، غالباً اُسی وقت ”فیضان رمضان “ کتاب نئی نئی مارکیٹ میں
آئی تھی، امیراہل سنت تقریباً ہر مدنی مذاکرے میں لائیو اِس کتاب کا مطالعے
کرنے کا ذہن دیتے تھے۔ ایک بار کچھ ایسا
ہوا کہ امیراہلسنت پوچھا:کیا کوئی ایسا
اسلامی بھائی ہےجس نے یہ فیضان رمضان کتاب اول تا آخر مکمل پڑھ لی ہو ؟
دو سے چار اسلامی
بھائی تھے وہ کھڑے ہوگئے، شیخ طریقت
امیراہلسنت نے اُن اسلامی بھائیوں کو اپنے پاس بلایا ، اور اُن کو تحفے میں سوٹ ، عمامہ اور عطر پر مشتمل تحائف عطا فرمائے۔ امیراہلسنت کے اس
عمل سے اِس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دینی کتب و رسائل کا مطالعہ کرنے والوں
سے امیر اہلسنت کس قدر خوش ہوتے ہیں۔
یہ اسلامی کے دینی ماحول کی برکت اور بالخصوص شیخ طریقت امیر
اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم
العالیہ کا کمال ہے کہ جس بندے نےزندگی میں کبھی20صفحات
کی کوئی دینی کتاب بھی نہ پڑھی ہو یا اسکو
مطالعہ کرنا پہاڑ لگتا ہو آج اسکو امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے "فیضانِ رمضان، فیضان سنت اور فیضان نماز " جیسی ضخیم کتابیں پڑھنے بلکہ ہر
ہفتےمیں ایک رسالے کا مطالعہ کرنے پر
لگادیا ۔
دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ اسلامی بھائیوں کو دینی کتب و رسائل خرید کر اپنے مرحومین کے ایصال ثواب اور دیگراچھی نیتوں کے ساتھ عاشقان ِرسول میں
تقسیم کرنے کا بھی ذہن دیا جاتا ہے اور اس
طرح بھی عاشقان ِرسول کی دینی معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اوروہ اپنے
پاس علم دین کے موتیوں کو جمع کرتے رہتے
ہیں ۔
میں صرف آپ کی معلومات
کیلئےیہ بتا رہا ہوں شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ جوہفتہ وارمدنی
مذاکرے میں ایک رسالہ مطالعہ کرنے کا ذہن دیتے ہیں 'ماہ
جون 2022ء' میں ملک و بیرون ملک میں ہفتہ وار رسائل پڑھنے
/ سننے والے اسلامی بھائیوں اور بہنوں کی تعداد 19 لاکھ سے زیادہ ہے ۔ اِس تعداد سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دعوت اسلامی کے
دینی ماحول سے وابستہ افراد کا مطالعہ
کرنے کا کیسا ذہن بنا ہو اہے ۔
ویسے تو شیخ طریقت
امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ
مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے بہت سارے
کارنامے ہیں، لیکن انکے کارناموں میں سے ایک بہت ہی بڑا عمدہ اور انوکھا
کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اِس پُرفتن
دور میں جہاں پر لوگ دینی ماحول اور دینی معلومات حاصل کرنے سے دور ہوتے نظر آتے
ہیں ایسے حالات میں بھی امیر اہل سنت نےقوم و ملت کے مرد و عورت،جوان ہو یا بوڑھا،
ہر ایک کو مطالعے کی لائن پر لگادیا جس کی
وجہ سے آج عاشقابِ رسول کی علمی سطح کو بلندی نصیب ہورہی ہے اور مرد و خواتین میں دینی کتب و رسائل کا مطالعہ کرنے اور بلکہ انکو خرید کر تقسیم کرنے کا جذبہ بھی بیدار
ہورہا ہے۔ یہ سب دعوت اسلامی اور امیر
اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی بدولت ہے۔
میں دعا گو ہوں کہ مالک
کائنات قرآن و سنت کی تعلیمات کو دنیا بھر میں عام کرنے والی اس عظیم دینی تحریک دعوت
اسلامی کو دن دُگنی رات چُگنی ترقیاں اور عروج عطا فرمائے اورشیخ طریقت امیر اہلسنت
حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کا سایہ ہم پر
دراز فرمائے ۔
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم
چودہویں
صدیں کے مشہور بزرگ، عاشق رسول، فدائے سادات، مجدددین و ملّت، فقیہ اعظم، محدث،
پاسبان ناموس رسالت، علم حکمت کے بادشاہ، امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
خان رحمۃ اللہ علیہ 10 شوال المکرم 1272ھ ہندوستان کے شہر بریلی شریف میں پیدا
ہوئے۔
اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے
مالک تھے، حیرت انگیز قوتِ حافظہ کی بناء پر آپ نے پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید
ناظرہ ختم کرلیااور 13 سال 4 ماہ کی عمر میں علم تفسیر، حدیث ، فقہ و اصول فقہ،
منطق و فلسفہ اور دیگر علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی اور فتویٰ نویسی کا آغاز کردیا
جبکہ 21 سال کی عمر میں باقاعدہ فتویٰ نویسی کی مطلق اجازت ملی۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کو علمُ القرآن، علم الحدیث،
علم العقائد، تجارت، جغرافیہ، ریاضی، علم طب، سیاسیات، صحافت، علم الفلکیات اور
علم النجوم سمیت درجنوں علوم پر دسترس
حاصل تھی جس پر آپ نے 1 ہزار سے زائد کتابیں و رسالے لکھے ہیں۔ جن علوم پر آپ کو مہارت حاصل تھی ان میں کئی ایسے ایسے علوم بھی ہیں جن کے ناموں سے
دورجدید کے بڑے بڑے محققین اور ماہرین
علوم و فنون بھی آگاہ نہیں ۔
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو جن علوم پر دسترس حاصل تھی ان میں سے چند کے بارے میں اس مضمون میں مختصراً بیان کرنے
کی کوشش کی جائے گی۔
٭علمِ تفسیر
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی علومِ قرآن پر گہری نظر تھی اورتفسیر قرآن میں امتیازی
مقام حاصل تھا جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ سید اظہر علی صاحب (ساکن محلہ ذخیرہ) بیان
کرتے ہیں : ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت ”حضرت محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ “کے عرس میں تشریف
لے گئے وہاں 9 بجے صبح سے 3 بجے دن تک چھ گھنٹے ”سورۂ و الضحیٰ“ پر بیان کرکے فرمایا کہ اسی سورۂ مبارکہ کی کچھ
آیاتِ کریمہ کی تفسیر میں 80 جز (تقریباً
چھ سو صفحات)رقم
فرماکر چھوڑ دیا کہ اتنا وقت کہاں سے لاؤں کہ پورے کلام پاک کی تفسیر لکھ سکوں۔
اعلیٰ
حضرت کی تفسیری مہارت کا اندازہ ہم اُس بیان سے بھی کرسکتے ہیں جو آپ نے ربیع
الاول شریف کی ایک محفل میں فرمایا جس میں آپ نے ”بسم اللہ“ کی صرف ”ب“ پر کئی
گھنٹے بیان فرمایا۔ یہ بیان تحریری طور پر ”حیاتِ اعلیٰ حضرت“ میں لکھا ہوا
ہے۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت، ص 456)
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیری مہارت کا ایک شاہکار آپ کا ترجمہ قرآن ”کنز
الایمان“ بھی ہے جس کے بارے میں محدث اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: علم قرآن کا اندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے
کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثالِ سابق نہ عربی میں ہے، نہ فارسی
میں اور نہ اردو زبان میں ہےاور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا
لفظ اُس جگہ لایا نہیں جاسکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر درحقیقت وہ قرآن کی تصحیح
تفسیر اور اردو زبان میں قرآن (کی
روح) ہے۔
(فیضان
اعلیٰ حضرت، ص474)
باقی
علم تفسیر پر آپ کی علمیت کا اندازہ آپ کی تصنیفات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو آپ
نے علم تفسیر پر تحریر فرمائی ہے۔ ان کتابوں میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں: ٭حاشیہ
تفسیر بیضاوی ٭حاشیہ تفسیر خازن ٭حاشیہ معالم التنزیل ٭نائل الراح فی فرق الربح و الرباح
٭علم سائنس
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ علم مشرقیہ کے علاوہ علوم قدیمہ وجدیدہ پر گہری نظر رکھتے
تھے، علوم جدیدہ ہی میں علم سائنس بھی ہےجس کا نام عصر حاضر میں بڑے ہی فخر کے
ساتھ لیا جاتا ہے اور اس کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
علمِ
سائنس پر آپ کی بڑی گہری نظر تھی، آپ علم سائنس کو اسلام کی روشنی میں دیکھتے اور پرکھتے
تھے، اگر اس کے نظریات اسلام کے مطابق ہوتے تو اُن کو قبول کرلیتے اور اگر اسلامی
نظریات کے خلاف ہوتے تو ان کو ٹھکرادیا کرتے تھےاور پھر ان کا رد و ابطال کرتے
ہوئے اس موضوع پر اسلامی مؤقف اور نظریہ کو واضح کرتے۔
اعلی
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے علم سائنس میں کئی رسائل لکھے ہیں جن میں سے ایک رسالہ ”البیان شافیاً لفونو
غرافیاً“
لکھا اس میں گراموفون میں قید کی گئی آوازوں کے سننے اور ان پر عمل کرنے کے احکام
واضح کئے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ اعلیٰ حضرت کی علم سائنس پر چند تصانیف کے نام یہ ہیں:
”الکلمۃ الملھمۃ فی الحکمۃلوھاء فلسفۃ المشئمۃ“، ” فوز مبین در حرکت زمین‘‘، ’’معین مبین
بہر دورشمس و سکون زمین‘‘۔
اعلیٰ حضرت کے بارے میں پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان
کے تاثرات:
عظیم
پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ
اللہ علیہ کی سائنسی تحقیقات کے معترف ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے تاثرات کا اظہار
بھی فرماتے رہتے ہیں، آپ نے ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں باقاعدہ ایک پورا کالم ’’فقید
المثال مولانا احمد رضا خان بریلوی‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جس میں آپ اعلیٰ حضرت
کی علمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا
خان بریلوی نے لاتعداد سائنسی موضوعات پر مضامین و مقالے لکھے ہیں۔ آپ نے تخلیقِ
انسانی، بائیوٹیکنالوجی و جنیٹکس، الٹراساؤنڈ مشین کے اصول کی تشریح، پی زوالیکٹرک
کی وضاحت، ٹیلی کمیونیکشن کی وضاحت، فلوڈ ڈائنامکس کی تشریح، ٹوپولوجی (ریاضی کا مضمون)، چاند و سورج کی گردش، میٹرالوجی (چٹانوں کی ابتدائی ساخت)،
دھاتوں کی تعریف، کورال (مرجان
کی ساخت کی تفصیل)، زلزلوں کی وجوہات، مد و جزر کی وجوہات، وغیرہ تفصیل
سے بیان کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنے دور کے فقیہ، مفتی،
محدّث، معلم، اعلیٰ مصنف تھے۔ (روزنامہ
جنگ، 5دسمبر 2016)
اسکے علاوہ
فقہ کے ضمنی مسائل کے اندر علوم عقلیہ کی تشریحات میں اعلیٰ حضرت کی مکمل دسترس کا
ثبوت ملتا ہےمثلاً: پانی کا رنگ ہے یا نہیں؟، برف کے سفید ہونے کا سبب؟، معدنیات
میں 4 قسمیں ناقص ترکیب ہیں، گندھک نر ہے یا مادہ، مٹی کے اقسام اور انکی درجہ
بندی وغیرہ۔
امام
اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کےمتعلق مفتی ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہیئت و نجوم
میں کمال کے ساتھ ”علم توقیت“ میں کمال توحدِ ایجاد کے درجہ پر تھا۔ یعنی اس فن کا
موجد (ایجاد
کرنے والا)
کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ علماء نے جستہ جستہ اس کو مختلف مقامات پر لکھا ہے
لیکن میرے علم میں کوئی مستقل کتاب اس فن میں نہ تھی۔ اس لئے جب میں نے اور میرے
ساتھ چند جید علمائے کرام نے اس فن کو حاصل کرنا شروع کیا تو کوئی کتاب ان فن میں
نہ تھی جس کو ہم لوگ پڑھتے۔
اسی
وجہ سے اعلیٰ حضرت خود ہی اس کے قواعد زبانی ارشاد فرماتے ۔ اسی کو ہم لوگ لکھ
لیتے اور اسی کے مطابق عمل کرکے اوقاتِ نصف النھار، طلوع، صبح صادق، عشاء، ضحوۂ
کبریٰ، عصر نکالتے۔ پھر میں ان سب کو ایک کتاب میں جمع کرکے اس کا نام ” الجَواہِر والیواقیت فی
علم التوقیت معروف بہ توضیح التوقیت“ رکھا۔ (حیات اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر
الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص244)
اس فن
پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے ”درأ القبح عن درک الصبح، تاج توقیت، کشف العلۃ عن سمت القبلۃ، سر
الاوقات،
الانجب
الانیق فی طریق التعلق سمیت 15سے زائدکتابیں تحریر کی ہیں۔
٭فتاویٰ رضویہ
فتاویٰ
رضویہ کا تعارف:اس بے مثال علمی شاہکار کا نام امام ِاہلِ سنت علیہ الرحمۃ نے ”اَلْعَطَایَا
النَّبَوِیَّہ فِی الْفَتَاوی الرضَوِیَّہ“ رکھا
ہے، جو جدید تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہونے کے بعد تقریباً 22ہزار صفحات، 6ہزار847
سوالات و جوابات اور 206 تحقیقی رسائل پر مشتمل ہے۔ جبکہ ہزاروں مسائل ضِمناً زیرِ بحث آئے ہیں۔( فتاویٰ رضویہ اشاریہ،ص3)
فتاویٰ
رضویہ کا مقام:فتاویٰ رضویہ کے بلند علمی مقام کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ اس میں احکامِ شریعت دریافت کرنے والے صرف عوامُ الناس ہی نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ
کے بَحرِ عِلْم سے پیاس بجھانے والوں میں ملک و بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے وقت کے بڑے بڑے علما،
فضلا، مفتیان کرام، محدثین، مشاہیر، مصنفین مؤرخین اصحابِ ِطریقت و معرفت، دانشور
و وُکَلا حتی کہ مخالفین بھی شامل ہیں، ان تِشنگانِ عِلْم کی تعداد ایک تحقیق کے
مطابق 541 بنتی ہے جنہوں نے پیچیدہ مسائل
میں غور و خوض کرنے کے بعد ان مسائل کے کافی و شافی حل کے لئے امام احمد رضا خان
علیہ رحمۃ الرحمٰن سے رابطہ کیا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے انہیں تحقیقی اور
تسلِّی بخش جوابات عنایت فرمائے ۔اگر فتاویٰ رضویہ غیرمخرجہ کی 9 جلدوں میں دریافت
کئے گئے اِستفتا کی تعداد کو دیکھا جائے تو وہ 4095 ہے، جس میں سے 3034 عوامُ
الناس کے اِستفتا ہیں جبکہ 1061اِستفتا علمائے کرام نے بھیجے ہیں، اس کا مطلب یہ
ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال کرنے والوں میں ایک چوتھائی تعداد صرف علما
و دانشوروں کی ہے۔ (فتاویٰ
رضویہ،ج1،ص16)
اعلیٰ
حضرت
رحمۃ اللہ علیہ نے صرف فقہ کے موضوع پر 200 سے زائد کتب و رسائل تحریر فرمائے ہیں جن
میں حاشیہ فتاوٰی عالمگیری، جدالممتار علی رد المختار، حاشیہ مراقی
الفلاح، حاشیہ فتح القدیر لابن الہمام، حاشیہ فتاویٰ بزازیہ اور نوٹ (کرنسی) کے متعلق مسائل شامل ہے۔
ان علوم
کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ
منطق، شاعری، علم الانساب، اسماء الرجال، علم الحساب، نثر نگاری، میں بھی مہارت
رکھتے تھے، آپ کے ہم عصر علما فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بعض علوم
کو اس طرح بیان کرتے تھے گویا کہ آپ خود ہی اس علم کے بانی ہوں۔
اللہ
پاک کی ان رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین
عشقِ رسول لازوال
اور بہت بڑی نعمت ہے،جن کےدل محبّتِ رسول سےسرشار ہوتے ہیں ان کی روح بھی اس
کی مِٹھاس کومَحسُوس کرتی ہے،ان کی زِنْدَگیاں جہاں اس پاکیزہ مَحبَّت سےسنورتی ہیں وہیں یہ
مَحبَّت تاریکی میں اُمِّید کا چراغ بن کر انہیں راہِ حَق سے بھٹکنے سےبھی بچاتی
ہے،محبت طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانے کو کہتےہیں
اور جب یہ میلان مضبوط اورشدید ہوجائے تو اسے”عشق“ کہتے ہیں۔ (احیاء العلوم، 5/6)یادرکھئے!اس دنیا میں کئی خوش نصیب ہستیاں ایسی گزری ہیں جن کی زندگیاں عشقِ رسول کا نمونہ تھیں،ان خوش نصیب ہستیوں میں 13 ویں صدی کے آخر میں ہند کےشہر بریلی میں پیدا ہونے والے ایک عاشقِ رسول جوسر سے پاؤں تک عشقِ رسول کا نمونہ تھے،اس خوش نصیب عاشقِ رسول کانام احمدرضاتھا،اس
بات میں شک نہیں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اپنے وقت کے بہت بڑے عاشقِ رسول
تھے،اعلیٰ حضرت کی پوری زندگی عشقِ رسول میں گزری ہے۔آپ گفتگو فرماتے تو الفاظ کی
صورت میں عشقِ رسول کےجام پلاتے،آپ قلم اُٹھاتےتوتحریرکی صورت میں عشقِ رسول
کوفروغ دیتےنظرآتےگویا کہ آپ کی زندگی کاایک ایک لمحہ عشقِ رسول کےجام پینےاور پِلانے
میں صرف ہوا ہے۔ آپ کی شاعری آپ کےعشقِ رسول کاصحیح پتہ دیتی ہے،آپ اپنے عشقِ
رسول کا اظہار بھی شعر میں یو ں ظاہر کرتے
ہیں :
اِنہیں
جانا اِنہیں مانا نہ رکھا غیر سےکام
لِلّٰہِ
الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا
آپ کاعشقِ
رسول اس درجۂ کمال پرتھا کہ آج سو سال سےز
یادہ عرصہ گزرنے کے باوجودبھی اعلیٰ حضرت
کے لکھے ہوئے اشعار جہاں پڑھےجائیں سننے والےاپنے دلوں میں عشقِ رسول کی تڑپ کو مزید بڑھتا ہوامحسوس
کرتے ہیں۔ ان کے دل جھوم اٹھتے ہیں اور بِلا
اختیار زبان سے سبحان اللہ کی صدائیں نکلتی نظر آتی ہیں۔آپ نے اپنے نعتیہ
دیوان حدائقِ بخشش میں کئی مناظرِ قدرت کوعشقِ رسول میں ڈوب کر عشقی رنگ میں سمجھایا ہے۔ ان مناظر میں سے ایک سورج بھی ہے۔ یہ سورج ہے جو
تمام جہاں کو اپنے نور سے روشن کررہا ہے، یہی سورج ہےجو ہزاروں سال سےدنیا کوجگمگا
رہا ہےمگراس کانورکم نہیں ہورہا۔ یہی سورج ہےجوہر روز آ کر نور کی خیرات بانٹتاہے۔
یہی سورج ہے کہ جس کے طلوع وغروب ہونے سےدنیا کانظام چل رہا ہے،اس سورج کو کائنات
کےمناظرمیں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔امام احمدرضاخان کی عشق کی کتاب میں اس سورج کی
حقیقت کیاہے،ملاحظہ کیجئے: چنانچہ
میرے امام اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:
جس
کو قُرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے مُنْعِمُو!
اُن
کے خوانِ جُود سے ہے ایک نانِ سوختہ
(حدائقِ
بخشش،ص136)
امام عشق و
محبت اعلیٰ حضرت اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اےتاجدارو! اے بادشاہو!سارا
جہاں جسےسورج کی ٹکیا کہتا ہے،لوگ جسےآفتاب کہہ کر پکارتے ہیں، جسے سورج کا نام
دیا جاتا ہے۔یہی سورج اوریہی آفتاب، جانِ عالم، نورِ مجسم کے دستر خوان کی جلی
ہوئی روٹی ہے، ذرا سوچوکہ جس کریم آقا،مدینے والےمصطفےٰ ﷺ کے دسترخوان کی جلی
ہوئی روٹی سے کائنات کا گزارہ ہو رہا ہے تو ان کے دستر خوان کی وہ روٹیاں جوجلن
سےمحفوظ ہیں، ان کا کیا حال ہوگا اور جس محبوب کی جلی ہوئی روٹی کی طرف دیکھنے سے
آنکھیں چُنْدِھیا جاتی ہیں، اس کے اپنے چہرۂ مبارک کے انوار کا عالم کیا ہوگا؟ ۔کسی
شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
قدموں
میں جبیں کو رہنے دو چہرے کا تصوّر مشکل
ہے
جب
چاندسے بڑھ کر ایڑی ہے تو رُخسار کا
عالَم کیا ہوگا
چاند
اور تخیلاتِ رضا
عاشق مزاج شاعراپنےمحبوب
کےحُسن کو ،محبوب کی خوبصورتی کو،محبوب کی دلکشی کواور محبوب کی رنگت کو چاند
سےتشبیہ دیتے ہیں مگر جس طرح اعلیٰ حضرت نے
چاند کو نعتِ محبوب کے لئے استعمال کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چنانچہ
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
برقِ
اَنگُشْتِ نبی چمکی تھی اُس پر ایک بار آج
تک ہے سِینۂ مہ میں نشان ِ سوختہ
(حدائقِ
بخشش، ص136)
اعلیٰ حضرت اس شعر میں فرماتےکہ نبی کریم کےمبارک
ہاتھ کی نورانی انگلی ایک مرتبہ چمک کر چاند پر پڑی مگر آج تک چاند کے سینے میں
جلن کا نشان موجود ہے۔
پھر ایک اور شعر میں چاندکو یہ داغ مٹانےکاطریقہ بھی
بتاتے ہیں،چنانچہ” قصیدۂ معراج“ میں فرماتے ہیں:
سِتَم
کِیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رہ گُزر کی
اُٹھا
نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے
(حدائقِ
بخشش، ص232)
یعنی اے چاند تمہاری عقل کو کیا ہوا کہ اتنا بڑا ستم کر
بیٹھے، جب معراج کی رات آقا کریم،رسولِ عظیم ﷺ آسمانوں کی سیر کے لئے تشریف لائے تھے تو ان کے
رہ گزر کی خاک لے جاتے اور اپنے داغوں پر ملتے رہتے۔ تمہارا اس خا ک کو ملنا تھا
کہ تمہارے سارے داغ ختم ہو جاتے۔
ایک اور جگہ اعلیٰ حضرت اس چاند کو رسولِ کریمﷺ کے بچپنے
کا کھلونا قرار دیتےہیں جس میں اس حدیثِ پاک کی طرف اشارہ ہےکہ حضرت عباس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےعرض
کی:یارسول اللہﷺ!مجھے تو آپ کی علاماتِ نبوت نے دِینِ اِسلام میں داخل ہونے کی دعوت
دی تھی۔میں نےدیکھا کہ آپ گہوارے(پنگھوڑے)میں چاند سےباتیں
کرتےاور اپنی اُنگلی سےجس طرف اشارہ فرماتے چانداُسی طرف جھک جاتا۔(جمع الجوامع، 3/212، حدیث:8361)اس روا
یت کو پڑھ کر بریلی کے امام اعلیٰ
حضرت نے قلم اٹھا یا اور اپنےعشق کو اس
شعر میں یوں بیان کیا:
چاند
جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں
کیا
ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
(حدائقِ
بخشش، ص249)
ایک اور مقام پر اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :
ماہِ
مدینہ اپنی تجلّی عطا کرے!
یہ
ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
(حدائقِ
بخشش، ص202)
یعنی ایک آسمانوں کا چاند ہےاور ایک مدینےکا چاند ہے۔آسمانوں
کا چاند بھی روشنی بکھیرتا ہے مدینے کا چاند بھی نور کی خیرات بانٹتا ہے، آسمانوں
کا چاند جو روشنی دیتا ہے وہ ایک دو پہر تک کے لئے ہوتی ہے جبکہ مدینے کا چاند اگر
نور کی جھلک بھی عطا فرما دےتو دنیا و آخرت دونوں روشن ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ایک
اور مقام پر نور کی خیرات لینے کے لئے عرض کرتےہیں:
چمک
تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مِرا
دِل بھی چمکا دے چمکانے والے
(حدائقِ
بخشش، ص158)
چودھویں کا چاند اور طیبہ کا چاند
حدیثِ پاک میں
ہےصحابی رسول،حضرت جابر بن سَمُرہ فرماتے
ہیں:ایک مرتبہ میں نےرسول الله کو چاندنی رات
میں سُرخ(دھاری
دار) حُلّہ پہنے ہوئےدیکھا،میں کبھی چاندکی طرف دیکھتا اورکبھی آپ کےچہرۂ اَنورکو
دیکھتا،تو مجھےآپ کا چہرہ چاند سے بھی زِیادہ خُوبصُورت نظر آتا تھا ۔ (ترمذی ، ۴/۳۷۰، حدیث:2820)
امام عشق و محبت ، اعلی
حضرت نے اس حدیث کو اپنے ان اشعار میں یوں بند کیا کہ
خُورشید تھاکِس زور پر
کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا
یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
(حدائقِ
بخشش، ص110)
یعنی اعلی حضرت اس
شعرمیں فرماتے ہیں کہ عین دوپہر کے وقت
سورج اپنےعروج پر ہو، پھر رات ہو جائے اور چاند اپنے جوبن پرآجائے، ایسے میں جانِ
عالَم کا رُخِ
انور پردے سے باہرآئے تو سورج بھی شرما جائے گا، چاند بھی آنکھیں چُرائے گا اور
منہ چھپائے گا کیونکہ جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی۔
حضورنبی کریم ﷺ کو
اللہ عزوجل نے بے مثل و مثال بنایا ہے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے کوئی ہوا اور نہ قیامت تک ہو گا، بلکے انسان تو
انسان اللہ کریم کے فرشتوں کا بھی یہی کہنا ہے جسے امام عشق و محبت نے اپنے ان اشعار میں بیا ن فرمایا:
یہی بولے سدرہ والے
چمن جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے
تیرے پائے کا نہ پیایا
تجھے یک نے یک بنایا
یعنی سدرۃ المنتہی کے تمام فرشتے بمع تمام فرشتوں کے سردار سیدنا جبریل امین علیہ السلام بیک
زبان ہو کر عرض کرتے ہیں کہ ہم نے پورے جہان کوچھان ڈالالیکن آپ جیسا کوئی نہیں پایا،اس شعر میں اس حدیث مبارکہ کی طرف
اشارہ ہے کہ سیدنا جبریل امین حضور کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :قلبت مشارق الا رض و
مغاربھافلم اجد رجلا افضل من محمد۔گویا جبریل امین عرض کرتے
ہیں میں نے سارا جہان پھرا ہے ،بڑے بڑے
حسین دیکھے لیکن آپ جیسا حسین و افضل کوئی نہیں دیکھا۔(معجم
اوسط،4/ 373 ،حدیث:6285)
اے عاشقانِ اعلیٰ حضرت!ان اشعار کو پڑھ کر یوں لگتاہے واقعی اعلیٰ
حضرت سچے عاشقِ رسول تھے، بلکہ عاشقانِ رسول
کے قافلے کے سپاہ سالار تھے، اعلیٰ حضرت ساری
زندگی عشقِ رسول کےجام پلاتے رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی عشقِ رسول کو فروغ دیتے
رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی اُمّت کو عشقِ رسول کا درس دیتے رہے اور یہ اسی عشقِ رسول کا صلہ
تھا کہ نبی کریم،رؤف رحیم ﷺ نے اپنے اس عاشقِ
صادق کو حالتِ بیداری میں اپنا رخِ والضحی
دیکھاکر اپنی زیارت سے مشرف فرمایا۔ یادرکھئے! عشقِ رسول صر ف نعرے لگانے سے یا محبت رسول کے دعوے کرنے سے نہیں
بلکے اپنے کردار کو فرامینِ مصطفےٰ ﷺ اور سنت ِمصطفےٰ ﷺ کے سانچے میں ڈھالنے سے نصیب ہوگا۔ آئیے ! عر سِ ا
علی حضرت کے موقع پر یہ نیت کرتے ہیں کہ
کہ ہم بھی اپنے ظاہرو باطن کو سنّتِ رسول کے سانچے میں ڈھالیں گے ۔ان شاء اللہ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اعلیٰ
حضرت کے طفیل حقیقی عشقِ رسول عطا فرمائے۔آمین
از:مولانا عبدالجبار
عطاری مدنی
المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ
سینٹر)
دعوت اسلامی