ہمیں روزمرّہ زندگی میں گفتگو کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لیکن ہم جب بھی گفتگو کریں  تو اس کا کوئی صحیح مقصد ضرور ہونا چاہیئے ورنہ بے مقصد بات کہنے سے خاموش رہنا افضل ہے اور اچھی و بامقصد گفتگو کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے جبکہ بری بات کہنا تو ہر وقت برا ہی برا ہے ۔ زبان کی حفاظت کرنا،اسے بے ضرورت بولنے سے روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ تمام اعضاء سےزیادہ فساد اور دشمنی اسی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

حضرت سفیان بن عبداللہ سے روایت ہے:میں نے بارگاہِ رسالت ﷺمیں عرض کی آپ کو مجھ پر سب سے زیادہ کس چیز کا خوف ہے؟آپ نے اپنی زبان اقدس پکڑ کر ارشاد فرمایا :اس کا۔(ترمذی)

حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے:انسان جب صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں :ہم تجھے خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ تو سیدھی رہا کر کیونکہ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔(ترمذی)

افسوس! ہم آج کل جس طرح چلا چلا کر اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں اس طرح ہمارے آقا ﷺ گفتگو نہیں فرماتے تھے آپﷺ کا لہجہ درمیانی ہوتا،آپ کی گفتگو شریف میں اعتدال ہوتا یعنی نہ زیادہ بلند آواز ہوتی نہ ہی اتنی پست کہ مخاطب سن نہ سکے بیان بالکل سادہ ،عام فہم اور واضح ہوتا کہ ہر سننے والا سمجھ لیتا۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:سرکارِ دو عالم ﷺ کا کلام بڑا واضح ہوتا تھا ہر سننے والا اس کو سمجھ لیتا تھا۔ (ابو داؤد)

حضرت انس سے مروی ہے:حضور ﷺ جب کوئی بات فرماتے اس کو تین مرتبہ دہراتے تاکہ اس کی سمجھ آ جائے۔ (بخار ی )

حضرت علی سے روایت ہے:حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں بالا خانے ہیں جن کے بیرونی حصّے اندر سے اور اندرونی حصّے باہر سے نظر آتے ہیں ۔ایک اعرابی نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! یہ کس کے لیے ہوں گے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اچھی گفتگو کرے۔ (ترمذی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ ے فرمایا:اچھی بات صدقہ ہے۔ (بخاری و مسلم)

بلا ضرورت بولنے کا انجام بہت برا ہوتا ہے بعض اوقات ایسی باتیں زبان سے نکل جاتی ہیں جس سے بہت بڑے بڑ ے فتنے و فساد برپا ہو جاتے ہیں اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ ناپسند ہے کہ فضول اقوال آدمی کی زبان سے نکلیں۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا:بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بات بولتا ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا یعنی یہ خیال بھی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو درجوں بلند کرتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی کی بات بولتا ہے اور اس کی طرف دھیان نہیں دھرتا یعنی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اس سے اتنا ناراض ہو گا اس کلمہ کی وجہ سے جہنم میں گرتا ہے۔(صحیح بخاری)

اُخروی آفات اور ان کے انجام کو یاد کرنے سے زبان کی حفاظت نصیب ہوتی ہے اور زبان کی حفاظت میں ہی دنیاوی آفات سے سلامتی ہے زبان کی حفاظت میں ہی نیک اعمال کی حفاظت ہےکہ جو بہت بولتا ہے وہ لامحالہ لوگوں کی غیبت میں پڑجاتا ہے۔

صرف ایک نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ جو بات ہم کریں گے وہ یا تو ناجائزہ و حرام ہوگی یا پھر جائز مگرفضول و بے کار ،اگر ناجائز بات ہوئی تو اس پر عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جسے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں اور اگر جائز ہوبھی تواس وجہ سے ترک کردینی چاہیئے کہ قیامت کے دن فضول باتوں پر اعمال نامہ اللہ رب العالمین کے سامنے پڑھنا ہو گا ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں گفتگو کے آداب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( آمین)