گفتگو کے آداب قرآن و حدیث کی روشنی میں:

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ اِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا0(پ5، النساء:86)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوعالم ﷺ نے فرمایا :کیا تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت بڑھے؟ اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو۔(مسلم، کتاب الایمان، صفحہ 47)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں خبر دوں، جس پر جہنم حرام ہے؟جہنم نرم خو، نرم دل اور آسان خو شخص پر حرام ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج 4، صفحہ 225)

بعض صورتوں میں نفع بخش اور بعض میں نقصان دہ کلام:

اس طرح کا کلام وہی کرے، جو اس کی باریکیوں کو سمجھتا ہو، وگرنہ خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے، حضرت امام شافعی فرماتے ہیں:جب تم کوئی بات کرنے لگو تو پہلے اس پر غور کر لو، اگر تمہیں فائدہ نظر آئے تو کہہ ڈالو، اگر تم شش و پنج میں پڑ جاؤ تو خاموش رہو، یہاں تک کہ تم پر اس کی افادیت کھل جائے۔(المستطرف فی کل فن مستطرف، الباب الثالث عشر، جلد 1، صفحہ 145)

حضرت ابراہیم تیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:کہ جب مؤمن بات کرنا چاہتا ہے تو دیکھتا ہے اگر کوئی فائدہ محسوس ہو تو بات کرتا ہے، ورنہ خاموش رہتا ہے۔(احیاء العلوم، کتاب آفات اللسان، جلد 3، صفحہ 142)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:خاموش رہنے سے انسان کے رعب میں اضافہ ہوتا ہے۔

بات چیت کرنے کے آداب:

٭مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے بات چیت کیجئے۔

٭چلا چلا کر بات کرنا سنت نہیں۔

٭جب تک دوسرا بات کر رہا ہو، اطمینان سے سنئے۔

٭فرمانِ مصطفی ﷺ :جو چپ رہا، اس نے نجات پائی۔

٭بد زبانی اور بے حیائی سے بات کرنے سے پرہیز کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان نرم گفتگو کرنے میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین