اللہ پاک
نے قرآن میں مثالیں کیوں بیان فرمائیں؟ از بنت محمد سچل، ترنڈہ سوائے خان
پہلی
مثال:الله
عز وجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی
اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ
وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸)
(البقرۃ:
18) ترجمہ کنز الایمان:
ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ
ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا بہرے گونگے اندھے تو وہ پھر آنے والے نہیں۔
اسکی تفسیر:
اس میں ان لوگوں کی مثال ہے جنہیں الله تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اس پر قدرت بخشی
پھر انہوں نے اسے ضائع کر دیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا، انکا انجام حسرت و
افسوس اور حیرت و خوف ہے۔ اس میں وہ منافق بھی شامل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا
اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا۔ اور وہ مومن بھی جو ایمان
لانے کے بعد مرتد ہو گئے۔ اور وہ جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی مگر روشنی ہونے کے با
وجود فائدہ نہ اٹھایا گویا کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود حق کو سننے ماننے کہنے اور
دیکھنے سے محروم ہو گئے گویا سب کچھ بے کار ہے۔( صراط الجنان،1/22)
دوسری مثال: قرآن پاک میں
ارشاد ہوتا ہے: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ
اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ
مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ
مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ
لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِم (البقرۃ:19-20) ترجمہ کنز الایمان: یا جیسے آسمان سے اُترتا پانی کہ اس میں
اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں کڑک کے سبب
موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی
نگاہیں اُچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے اور جب اندھیرا ہوا کھڑے
رہ گئے اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا۔
تفسیر: یہ دوسری مثال بیان کی گئی اور
یہ منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے ہیں جس
طرح جب بادل اور بارش کی وجہ سے تاریکی ہوتی ہے تو مسافر متحیر ہو جاتا ہے جب بجلی
چمکتی ہے تو کچھ چل لیتا ہے اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے، اسی طرح
اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے
ہیں اور جب کوئی مشکل یا مشقت آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور
اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں۔
تیسری مثال:
الله پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا
مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ
اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ
مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ
بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶) (البقرۃ:
26) ترجمہ
کنز الایمان: بےشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ
مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے، مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان
لائے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے، رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی
کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں
کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔
تفسیر:اس آیت
میں کافروں کو جواب دیا گیا ہے کہ مثالیں بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصود ہے۔نیز
کافروں اور مومنوں کے مقولے اسکی دلیل ہیں کہ قرآنی مثالوں کے بیان سے بہت لوگ
گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اور جنکی عادت صرف ضد،
مقابلہ بازی، انکار و مخالفت ہوتی ہے اور کلام با لکل معقول مناسب اور موقع محل کے
مطابق ہونے کے باوجود وہ اسکا انکار کرتے ہیں اور انہیں مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ
بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف
بات نہیں کہتے اور مثالوں کے ذریعے وہ سمجھ جاتے ہیں۔
نوٹ: مثالوں
کا بیان حکمت کے مطابق اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتا ہے اور مثالوں کے ذریعے
سمجھانا ما ہرین کا طریقہ ہے۔(صراط الجنان، ص 92)
چو
تھی مثال: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ
نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۷۱) (البقرۃ:171) ترجمہ
کنز الایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو
پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں
سمجھ نہیں۔
تفسیر: پیارے
آقا ﷺ کا فروں کو مسلسل دین حق کی دعوت دیتے رہتے، کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے
نفع حاصل نہ کرتے تھے یعنی ایمان نہ لاتے، ان کے اس سننے کی مثال بیان کی گئی کہ
جس طرح جانوروں کا ایک ریوڑ ہو اور انکا مالک انہیں آواز دے تو وہ محض ایک آواز تو
سنتے ہیں لیکن مالک کے کلام کا مفہوم نہیں سمجھتے تو یہی کافروں کا حال ہے۔ اس
اعتبار سے یہ تو بہرے گونگے اور اندھے ہیں اس میں ہمارے لئے بہت بڑا درس ہے کہ
دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت، قرآن و حدیث، اصلاح وتفہیم کے باوجود جو طرزِ عمل
ہمارا ہے وہ بھی کچھ سوچنے کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس اعتبار سے ہما رے آنکھ کان بھی
کھلے ہوئے ہیں یا نہیں ؟؟؟
پانچویں
مثال: الله
عزوجل قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ
یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا(پ 18،النور:
39) ترجمہ کنز الایمان: اور
جو کافر ہوئے اُن کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا
اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اُس کے پاس آیا تو اُسے کچھ نہ پایا۔
تفسیر: اس میں کافروں کے
اعمال کے متعلق فرمایا ہے، یعنی اس ریت کی چمک کو پانی سمجھ کر اسکی تلاش میں چلا جب وہاں پہنچا تو پانی کا نام ونشان نہ
تھا تو ایسے ہی کافر اپنے خیال میں نیکیاں کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
سے اس کا ثواب پائے گا جب قیامت کے میدان میں پہنچے گا تو ثواب نہ پائے گا بلکہ
عذاب عظیم میں گرفتار ہوگا اور اس وقت اسکی حسرت اور اسکا اندوه و غم اس پیاس سے بدرجہا
زیادہ ہوگا۔ (تفسیر خزائن العرفان،ص 776)
اللہ عزوجل نے
قرآن پاک میں جگہ جگہ مثالوں سے ہم گناہ گاروں کو سمجھایا ہے تاکہ ہم اپنے گناہ سے
باز آجائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ہمیں ان مثالوں
سے ہدایت لینے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین ثم آمین