کائنات بہت بڑی ہے یہ سبھی کو پتا ہے،مگر اس کی ایک حد تو ضرور ہے، زمین بہت کشادہ ہے یہ سبھی کو معلوم ہے مگر اسکی ایک حد تو ضرور ہے، سمندر بہت بڑا ہےیہ سبھی کو پتا ہےمگر اس کے کنارے اور گہرائی کی ایک حد تو ضرور ہے،ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ تو سبھی کو پتا ہے مگر ان کی ایک حد تو ضرور ہے، مخلوقِ خدا کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ سبھی کو پتا ہے، مگر اس کی ایک حد ضرور ہے۔

مگر ایک بات ذہن نشین رکھئے! رحمتِ عالَم ﷺ کی اپنی اُمت سے شفقت و  محبت ایک ایسے سمُندر کی طرح ہے جس کی گہرائی اور کنارےکا ہم میں سے کسی کو بھی عِلْم نہیں۔آپﷺ کی اپنی اُمّت سے مَحَبَّت و شفقت کا بیان قرآنِ کریم میں بھی موجود ہے،

چنانچہ پارہ11سورۂ توبہ کی آیت نمبر 128میں اللہ  پاک ارشادفرماتاہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجمہ کنز الایمان:بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ بیان کردہ آیتِ مقدّسہ کے تحت”تفسیرصِراطُ الجنان“میں لکھا ہے:یہ تو قرآنِ مجید سے آپﷺ  کی مسلمانوں پر رحمت و شفقت کا بیان ہوا،اب مسلمانوں پر آپﷺ کی رحمت و شفقت کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

رات کے نوافل فرض نہ ہوں:رات کے نوافل پر ہمیشگی نہ فرمائی تاکہ یہ اُمّت پر فرض نہ ہو جائیں۔(فتاویٰ رضویہ،7/400)

مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمانا:اُمّت کے مَشَقَّت( تکلیف)میں پڑ جانے کی وجہ سے انہیں صومِ وصال کے روزے رکھنے سے منع کر دیا۔(بغیر اِفطار کئے اگلا روزہ رکھ لینا اور یوں مسلسل روزے رکھنا صومِ وصال کہلاتا ہے۔)

اگر میں کہتا تو ہرسال حج فرض ہوجاتا:جب اللہ  پاک نے اپنے بندوں پر حج فرض فرمایا اور رحمتِ عالَم ﷺ نے خُطبہ میں حج کی فَرْضِیَّت کا اِعلان کرتے ہوئے فرمایا:یااَيُّهَا النَّاسُ قَدْفَرَضَ اللہُ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا یعنی اے لوگو! اللہ پاک نے تم پر حج کو فرض فرما دِیا ہے،لہٰذا حج کِیا کرو۔تو ایک صحابیِ رسول(حضرت اَقْرَع بن حابِس)نے عَرْض کی:یارَسُولَ اللہﷺ کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟3 مرتبہ اُنہوں نے یہی سوال کِیا، مگر ہر مرتبہ رسولوں کے سالار امت پر شفقت فرمانے والے آقا و مولا ﷺ نے خاموشی ہی اِخْتِیار فرمائی،پھر ارشاد فرمایا:لَوْ قُلْتُ:نَعَمْ لَوَجَبَتْ اگر میں نے ”ہاں“کہہ دِیا ہوتا تو ہرسال حج کرنا فرض ہوجاتا۔ (مسلم، ص 698، حدیث:1337)

نہایت ہی شفیق آقا و مولا ﷺ کی اپنی امت پر شفقت کے تین (3)فرامین مبارکہ:

1۔مسواک کو فرض نہ ٹھہرایا:لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰى اُمَّتِيْ لَفَـرَضْتُ عَلَيْہِمُ السِّوَاكَ كَمَا فَـرَضْتُ عَلَيْہِمُ الْوُضُوء اگر مجھے اپنی اُمَّت کی دُشواری کا خیال نہ ہوتا تو میں ضرور اُن پر مِسواک کو اُسی طرح فرض کردیتاجس طرح میں نے اُن پر وضو فرض کِیا ہے۔(مسنداحمد، 1/459،حدیث: 1835)

2۔نمازِ عشاء کو مؤخر نہ فرمایا:لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰى اُمَّتِيْ لَاَمَرْتُهُمْ اَنْ يُّـؤَخِّـرُوا الْعِشَاءَ اِلٰى ثُلُثِ اللَّيْلِ اَوْ نِصفِہٖ اگر مجھے اپنی اُمَّت کی مَشَقَّت کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز کو تہائی یا آدھی رات تک مؤخَّر کرنے کا ضرور حکم دیتا۔(ترمذی، 1/214،حدیث:147)

وَلَوْلاَ ضَعْفُ الضَّعِيفِ وَسُقْمُ السَّقِيمِ لَاَخَّرْتُ هٰذِهِ الصَّلَاةَ اِلٰى شَطْرِ اللَّيْلِ اگر بوڑھوں کی کمزوری اورمریضوں کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو اِس نماز(یعنی نمازِ عشاء )کو آدھی رات تک ضرور مؤخَّر کردیتا۔(ابوداؤد،1/185،حدیث:422)

اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ کرم ہے کہ ہمیں ایسے مہربان، شفیق، رحمت والے، برکتوں والے، ہم نکموں کی بگڑی بنانے والے نبی، نبئ رحمت، شفیعِ اُمم، رسولِ محتشم جیسے آقا و مولا عطا فرمائے۔ اے اللہ پاک! سدا مجھے آقا و مولا ﷺ کی نظرِرحمت میں اور ان کی شفقتوں کے سائے میں رکھنا، آمین ثم آمین۔ اے اللہ پاک! ہمیں اپنے آقا و مولا ﷺ کی لازوال محبت عطا فرما اور ہمیں صلوٰۃ و سُنّت کا پابند بنا، والدین کا مطیع و فرمانبردار بنا، امیرِاہلسُنّت کی غلامی دعوتِ اسلامی میں استقامت نصیب فرما، مکۂ مکرمہ و  مدینۂ منورہ کی باادب باذوق مرشدِ پاک اور والدین کے ہمراہ حاضری کی سعادت نصیب فرما۔