اللہ پاک
نے قرآن میں مثالیں کیوں بیان فرمائیں؟ از بنت اظہر، لالہ زار راولپنڈی
قرآن عظیم خاتمُ المرسلین ﷺ پر نازل ہونے والی وہ کتاب مبین ہے جو اسرار و
رموز سے بھر پور،اپنے قارئین کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ کہیں تو یہ عظیم المرتبت
کتاب فلاح دارین کے احکام و مسائل بیان فرما رہی ہے تو کہیں ثواب و عتاب کو،کہیں
اس کی آیات مفصلات سابقہ امم کے حالات بیان کرتی ہیں تو کہیں قصص ِ انبیاء کو
موضوعِ سخن بناتی ہیں،علاوہ ازیں سب سے بڑھ کر یہ کہ
قرآن مجید صاحبِ قرآن ﷺ کی نعت سے بھر پور ہے۔
قرآن مجید نے
کئی ایک مقامات پر اپنا مدعا مثالوں کے ذریعے سمجھایا، یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ
قرآن میں مثالیں ذکر فرمانے کا کیا مقصد
ہے ؟ تو آئیے اس کا جواب بھی قرآن ہی سے معلوم کرتے ہیں۔
یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ
مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶) (پ 1،البقرة:
26) ترجمہ کنز
الایمان: اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں
کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔
مثالیں بیان
کرنے میں کئی ایک حکمتیں پوشیدہ ہیں:
1۔ قرآنی مثالوں کے ذریعے وہ لوگ جن کی عقل پر جہالت کا پردہ ہے اپنی بد
بختی کے باعث گمراہ ہوتے ہیں۔
2۔انہی مثالوں
کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے
ہیں۔
3۔ مثالوں سے
قرآن مجید کا اندازِ بیان مزید دل نشین ہو جاتا ہے۔
4۔قرآنی
مثالوں کے ذریعے مدعا اچھی طرح سے سمجھ میں آجاتا ہے۔
ذیل میں قرآن
کریم سے 5 مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
سورۂ ابراہیم آیت نمبر 24-25 میں
کلمۂ ایمان کی یوں مثال بیان کی گئی ہے: اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً
طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴)تُؤْتِیْۤ
اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ
لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵) ترجمہ کنز
الایمان: کیا تم نے نہ دیکھا
اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی، جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور
شاخیں آسمان میں ہر وقت اپناپھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے اور اللہ لوگوں کے لیے
مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔
مذکورہ مثال میں سمجھایا گیا کہ جس طرح کھجور کے
درخت کی جڑیں زمین کی گہرائی میں موجود
ہوتی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے
ہمیشہ پھل دیتا ہے اسی طرح کلمۂ ایمان ہے کہ اس کی جڑ مومن کے دل کی زمین میں
ثابت ہوتی ہے اور اس کی شاخیں یعنی عمل آسمان میں پہنچتے ہیں اور اس کے ثمرات یعنی
برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں
مثالیں بیان کرنے سے قرآن مجید کے مقصد کو مزید واضح کیا گیا جو انسان کی تفہیم
ہے۔
سورۂ ابراہیم پارہ 13 ہی کی آیت
نمبر 26 میں خبیث کلمے کی مثال یوں بیان کی گئی ہے: وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ
ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶)ترجمہ کنز الایمان: اور گندی بات کی
مثال جیسے ایک گندہ پیڑ کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا اب اسے کوئی قیام نہیں۔
قرآن مجید کا دل نشین انداز بیان
یہ بھی ہے کہ اس میں متقابلات کو بیان کیا جاتا ہے، لہذا مذکورہ آیت مبارکہ میں بیان
کردہ مثال کو پچھلی مثال کے مقابل رکھ کر قرآن کا مدعا سمجھنا مزید آسان ہو جاتا
ہے، یہاں فرمایا گیا کہ گندی بات یعنی کفریہ کلمے
کی مثال اندرائین جیسے کڑوے مزے اور ناگوار بو والے پھل کے درخت کی طرح ہے جو زمین
کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو تو اب اسے کوئی قرار نہیں کیونکہ اس کی جڑیں زمین میں
مستحکم نہیں اور نہ ہی اس کی شاخیں بلند ہوتی ہیں، یہی حال کفریہ کلام کا ہے کہ اس
کی کوئی اصل ثابت نہیں اور وہ کوئی دلیل اور حجت نہیں رکھتا جس سے اسے کوئی استحکام
ملے اور نہ ہی کوئی خیر و برکت رکھتا ہے کہ قبولیت حاصل کرے۔
دنیاوی زندگی کی ناپائیداری کو پارہ
15 سورةالکہف آیت 45 میں بہت ہی دل نشین انداز میں بیان کیا گیا: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ
الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ
نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنز الایمان: اور
ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتاراتو
اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور
اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔
دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کی
مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین پر خوش نما سبزہ ہوتا ہے جو بارش کی بدولت خوب لہلہانے
لگتا ہے پھر جلد ہی یہ سبزه فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور اس سوکھی گھاس کو ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں یہی حال دنیا کا ہے۔ اعتبار حیات
کا ہے کہ اس فنا ہو جانے والےسبزے کی طرح یہ بھی بے وقعت ہے اور یہ سب فنا و بقا
اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔
پارہ 17 سورۃُ الحج آیت نمبر 73 میں کفار کے باطل
معبودوں کے عاجز ہونے کو ایک مثال کے ذریعے بیان کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا
لَهٗؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا
ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗؕ-وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ
شَیْــٴًـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُؕ-ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ(۷۳)ترجمہ
کنز الایمان: اے لوگو! ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو وہ جنہیں اللہ
کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر
مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں کتنا کمزور چاہنے والا اور
وہ جس کو چاہا۔
مذکور مثال میں بتوں کے عاجز
اور بے قدرت ہونے کا بیان ہے کہ مشرکین الله کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں
وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اس مثال سے مدعا یہ ہے کہ ایسے کو معبود
بنانا کس قدر جہالت ہے، کیونکہ اگر مکھی ان بتوں سے وہ شہد و زعفران چھین لے جائے
جو مشرکین ان بتوں پر ملتے ہیں اور ان پر مکھیاں بیٹھتی ہیں تو یہ بت ان سے اس شہد
کو بھی نہیں چھڑا سکتے۔
پارہ 18 سورۂ
نور آیت نمبر 35 میں اللہ تعالیٰ کے نور کی انتہائی خوبصورت مثال بیان کی گئی: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِؕ-مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ-اَلْمِصْبَاحُ فِیْ
زُجَاجَةٍؕ-اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ
مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍۙ-یَّكَادُ زَیْتُهَا
یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌؕ-نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ ترجمہ کنز الایمان: اللہ
نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ
ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا، روشن
ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب(مشرق) کا نہ پچھّم(مغرب)کا،
قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اُسے آگ نہ چھوئے، نور پر نور ہے۔
مندرجہ بالا آیتِ
مبارکہ کے تحت نور کی مثال کے مختلف معانی بیان کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے
مراد اس کی طرف سے ہدایت ہے۔ عالمِ
محسوسات میں اس کی تشبیہ ایسے روشن دان سے ہو سکتی ہے جس میں صاف شفاف فانوس
ہو،فانوس میں ایسا چراغ ہو جو نہایت ہی پاک صاف زیتون سے روشن ہو تاکہ اس کی روشنی
اعلیٰ ترین ہو۔دوسرے یہ کہ یہ مثال سید المرسلین ﷺ کے نور کی ہے،طاق آپ کا سینہ
شریف،فانوس قلب مبارک اور چراغ نبوت ہے جو شجرِ نبوت سے روشن ہے اور اس پر کمال یہ
کہ اگر آپ اپنے نبی ہونے کا اعلان نہ بھی فرمائیں جب بھی نورِ محمدی از خود گواہ
ہے۔
اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ الله علیہ ایک شعر کے پیرائے میں اس مثال کو یوں سموتے ہیں؛
شمع
دل، مشكاة تن، سینہ زجاجہ نور کا
تیری
صورت کے لیے آیا ہے سورہ نور کا
حاصلِ کلام یہ
کہ قرآن مجید طرح طرح کی مثالیں بیان فرما کر بنی نوع انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔
قرآن مجید کے مخاطب یوں تو سب انسان ہیں لیکن ایک مسلمان جس کو قرآن اور صاحبِ
قرآن ﷺ کی بدولت ایمان کی بیش قیمت دولت ملی اس بات کا مکلّف ہے کہ قرآن عظیم کو
سمجھ کر اپنی عملی زندگی کا نصبُ العین بنا لے تو آئیے تمام قارئین نیت کیجئے کہ
دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو کر قرآن مجید سیکھنے سکھانے میں مشغول ہو
جائیں۔