گفتگو ہی ایسا ذریعہ ہے، جس کے ذریعے کسی کے ذہنی معیار، قابلیت اور
شخصیت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور جب انسان کسی سے ملتا ہے، جو گفتگو سے ہی اپنے آپ
کو متعارف کرواتا ہے، اگر گفتگو کا انداز شائستہ اور مہذبانہ ہوگا تو انسان کی شخصیت
کو عظیم سمجھا جائے گا اور اگر زبان میں شائستگی اور مٹھاس نہیں، تو کوئی بھی ایسے
شخص کے متعلق اچھی رائے قائم نہیں کرے گا، دورانِ گفتگو دوسروں کی تنقید کو حوصلے
سے سننا اور اس کا مدلّل یعنی دلیل سے جواب دینا اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے، ہر شخص چھوٹا
ہو گا تو اس سے اندازِ گفتگو مشفقا نہ ہو، بوڑھا ہے تو ادب کا لحاظ رکھیں اور اگر
ہم عمر ہے تو بُردبانہ انداز ہو۔
احادیث مبارکہ میں گفتگو کے آداب: اس
طرح بہت سی احادیث میں بھی گفتگو کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔
جو بات کہوں منہ سے اچھی ہو بھلی ہو
کھٹی نہ ہو کڑوی نہ ہو، مصری کی ڈلی ہو
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے عائشہ! ٹھہرو، نرمی لازم کرو
اور سختی اور فحش سے بچو، مسلم کی ایک روایت میں ہے، فرمایا:تم فحش گو نہ بنو کیونکہ
اللہ تعالیٰ فحش گو اور فحش کرنے والے کو
پسند نہیں کرتا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 233)
امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں الحسن بن صباح نے حدیث بیان کی،
انہوں نے کہا:ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، اززھری از عروہ از حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے تھے کہ اگر کوئی
شخص آپ کے الفاظ کو گننا چاہتا، تو گن سکتا تھا۔(نعمۃ الباری، جلد 6، صفحہ 627)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جو سلام سے ابتداء نہ کرے، اسے اجازت نہ دو۔(رواہ البہیقی فی شعب الایمان)
روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے
راوی کہ فرمایا:جب تم سے کوئی شخص مجلس تک پہنچے تو سلام کرے، پھر اگر بیٹھنا چاہے
تو بیٹھ جائے، جب کھڑا ہو، پھر سلام کرے، کیونکہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ حقدار
نہیں۔(رواہ ترمذی و ابو داؤد، مشکاۃ المصابیح کی شرح مراۃ المناجیح، ج6، صفحہ 342)
ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ جب کسی سے گفتگو کریں تو اس کو سلام
کرنا چاہئے، نرم الفاظ میں گفتگو کرنی چاہئے، فحش کلامی سے بچنا چاہئے اور گفتگو
آہستہ آہستہ آواز میں کرنی چاہئے کہ سامنے والا سمجھ سکے، کسی کی بات نہیں کاٹنی
چاہئے، مختصر اور جامع الفاظ میں گفتگو ہونی چاہئے، کیونکہ گفتگو کا طویل کرنا
نامناسب ہے۔