قرآن پاک کلامُ اللہ ہے جسے اللہ پاک نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے، قرآن پاک کا اسلوب اور اندازِ بیان اتنا دلنشین ہے کہ پڑھنے والے اور اس کو سمجھنے والے کے دل میں راسخ ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک میں  اللہ پاک نے احکام بھی بیان فرمائے ہیں، دلائل بھی بیان فرمائے ہیں، مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں، بشارتیں بھی عطا فرمائی ہیں اور عذابات سے بھی ڈرایا ہے تاکہ جس کی عقل جس درجے کی ہو وہ اس کے مطابق ہدایت حاصل کر سکے۔

ماہرینِ کلام کا بھی ایک یہ طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کو اچھے انداز میں دوسروں کو ذہن نشین کروانے کےلیے مثالیں بیان کرتے ہیں،مثالوں کو بیان کرنے کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ سامعین اس بات کو اچھے سے سمجھ سکیں اور یاد رکھ سکیں، چونکہ قرآن پاک انسان کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے کہ انسان اس سے مکمل طور پر ہدایت حاصل کر سکے اس مقصد کی تکمیل کے لیے قرآن پاک کا ایک اسلوب یہ ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بہت سی مثالیں بیان فرمائی ہیں تاکہ انسان مثالوں کے ذریعے اس مضمون کو اچھے طریقے سے سمجھ سکے۔

مثالوں کو بیان کرنے کی دوسری حکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ دلائل کے ذریعے کلام صرف عقل مند ہی سمجھ سکتے ہیں جبکہ مثال کے لیے ذریعے بے وقوف بھی کلام کو سمجھ لیتا ہے۔ اس حکمت کے تحت قرآن پاک میں اللہ پاک نے مثالیں بیان فرمائی ہیں۔

اسی طرح مثالوں کو بیان کرنے کی حکمت کے بارے میں خود اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ ٔ کنز الایمان: اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔( ابراہیم: 25 ) یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں اس لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی اچھی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی اور اگر تم ان کے پاس کوئی نشانی لاؤ تو ضرور کافر کہیں گے تم تو نہیں مگر باطل پر (الروم: 58)یعنی ہم نے ا س قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال بیان فرما دی جس کی انہیں دین اور دنیا میں حاجت ہے اور اس میں غورو فکر اور تَدَبُّر کرنے والا ہدایت اور نصیحت حاصل کر سکتا ہے اور مثالیں اس لئے بیان فرمائی گئیں کہ کافروں کو تنبیہ ہو اور انہیں عذاب سے ڈرانا اپنے کمال کو پہنچے،لیکن انہوں نے اپنی سیاہ باطنی اور سخت دلی کے باعث کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ جب کوئی آیت ِقرآن آئی اس کو جھٹلا دیا اور اس کا انکار کر دیا۔ ( تفسیر صراط الجنان)

چونکہ مثالوں کا بیان حکمت کے تحت ہوتا ہے اسی لیے کسی عمدہ و اعلیٰ چیز کے بارے میں سمجھانا مقصود ہو تو اس کی مثال بھی کسی عمدہ و اعلیٰ شے سے دی جاتی ہے اور اگر کسی کم تر شے کے بارے میں بتانا مقصود ہو تو اس کی مثال بھی کسی ادنیٰ و کم تر شے سے دی جاتی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں بے شمار مثالیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:

1۔وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو واحد معبود ماننے کی بجائے بتوں کو معبود بنا رکھا ہے اور ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں تو ان بتوں کے عاجز اور بے اختیار ہونے کی مثال دیتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمۂ ٔ کنزالایمان:ان کی مثال جنہوں نے الله کے سوا اور مالک بنالئے ہیں مکڑی کی طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر کیا اچھا ہوتا اگر جانتے۔ (العنکبوت: 41)

2۔راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت اور اجر و ثواب کو مثال کے ذریعے اللہ پاک نے اس انداز میں بیان فرمایا ہے: ترجمہ کنزالایمان:ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ ( البقرۃ: 261)

3۔پیارے آقا ﷺ کافروں کو مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے کچھ نفع حاصل نہ کرتے یعنی ایمان نہ لاتے۔ ان کافروں کی مثال کچھ اس انداز میں اللہ پاک نے بیان فرمائی: ترجمہ کنزالایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔ ( البقرۃ: 171)

4۔ریاکاری کے طور اپنا مال خرچ کرنے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان: کہاوت اس کی جو اس دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو وہ ایک ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی برا کرتے تھے تو اسے بالکل مارگئی اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔ (اٰل عمران:117)

5۔دنیا کی زندگی عارضی اور فنا ہونے والی ہے اس کو دوام نہیں اس کو مثال سے سمجھاتے ہوئے قرآن پاک میں کچھ اس طرح ارشادِ خداوندی ہے: ترجمہ کنزالایمان:اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ ( الکہف: 45)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنی مثالوں کو پڑھنے، سمجھنے، اس سے درس حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ