ہمارے پیارے نبی ﷺ بہت ہی مہربان اور امت پر شفقت کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ  تو اتنے شفیق ورحیم ہیں کہ آپ نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا اور ان پر بھی شفقت و مہربانی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ جب دشمنوں پراتنے رحم دل ہیں تو امت پر کیوں نہ آپ ﷺ کا لطف وکرم ہوگا۔ آپ ﷺ اپنی امت پر بھی بہت ہی زیادہ شفیق ورحیم ہیں۔ وہ مسائل جن میں آقاﷺ نے امت پر شفقت فرمائی، درج ذیل ہیں۔

تراویح اور نماز: نبی کریم ﷺ نے تین رات نماز تراویح اپنے اصحاب کو پڑھائی، چوتھی رات بکثرت صحابۂ کرام جمع ہوگئے اور انتظار کرتے رہے لیکن آپ تشریف نہ لائے،صبح کی نماز کے بعد آپ نے یوں فرمایا: تمہارا مسجد میں جمع ہونا مجھ پر پوشیدہ نہ تھا لیکن مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آجاؤ۔

شب معراج میں پہلے 50 نمازیں فرض ہوئیں، اللہ پاک کی بارگاہ سے واپس آتے ہوئے چھٹے آسمان پر حضرت موسی ٰعلیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوئی، انہوں نے آپ سے دریافت کیا، کیا حکم ملا؟ آپ نے فرمایا:50 نمازوں کا حکم ملا ہے، حضرت موسی نے کہا: آپ کی امت ہر روز 50 نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، آپ اپنی امت سے بوجھ ہلکا کروائیں چنانچہ آپ بارگاہ الٰہی میں دوبارہ حاضر ہوئے اور تخفیف کراتے رہے یہاں تک کہ 5 نمازیں رہ گئیں اور آپ اس پر راضی ہوگئے۔(سیرت رسول عربی،ص 232 تا 233)

عورتوں پر شفقت: اسلام سے پہلے عورت صنفِ نازک ذلت میں گری ہوئی تھی اور مردوں کے استبداد کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی، عرب میں ازدواج کی کوئی حد نہ تھی چنانچہ حضرت غیلان ایمان لائے توان کے تحت دس عورتیں تھیں،جب شوہر مر جاتا تو اس کا بیٹا اپنی سوتیلی ماں کو وراثت میں پاتا۔ وہ خود اس سے شادی کرلیتا یا اپنے بھائی یاقریبی کو شادی کے لیے دے دیتا ورنہ عورت کو نکاح ثانی سے منع کرتا تھا۔ہندوستان میں تو یہ بھی رائج تھا کہ شوہر مر جاتا توعورت سے بھی اس کے جینے کا حق چھین لیا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے حقوق کو اہمیت دی اور عورت کے ساتھ حسن معاشرت کی تاکید فرمائی۔

فرمان مصطفی ﷺ:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔

عورتوں پر حضور ﷺ کی شفقت اس قدر تھی کہ اگر آپ نماز کی حالت میں کسی بچے کی آواز سنتے تو اس کی ماں کی مشقت کے خیال سے نماز میں تخفیف فرماتے۔ (سیرت رسول عربی، ص 231-235)

یہ آپ ﷺ کی شفقت ہی کا باعث ہے کہ دین و دنیا میں امت کے لیے تخفیف و آسانی ہی مد نظر رہی۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کو دو امروں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ آسان موجبِ گناہ نہ ہو اور اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہنے والے تھے۔ (سیرت رسول عربی،ص232)

دعا: اللہ پاک ہمیں بھی آقا کریم کے صدقے آقا کی امت پر شفقت و مہربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ