زبان الله پاک کی ایک عظیم نعمت ہے، جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے گفتگو کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں، گفتگو ایک فن ہے، کیونکہ بسا اوقات انسان اتنی خوبصورت گفتگو کرتا ہے کہ جس سے سامنے والے کا دل جیت لیتا ہے اور کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے، جس سے مخاطب کے دل کو گھائل کر دیتا ہے، ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

جراحات السنان لها التيام ولا يلتام ما جرح اللسان

یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں، زبان کے گھاؤ نہیں بھرتے۔

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم گفتگو کے آداب سیکھیں، تاکہ ہر ایک سے اچھی گفتگو کر کے لوگوں کے درمیان محبت وخلوص کی فضا قائم کر سکیں، احادیث کریمہ میں بھی جگہ بہ جگہ گفتگو کے آداب ملتے ہیں، اچھے انداز میں بات کرنا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بھی سنت ہے، آئیے چند احادیث ملاحظہ کیجئے۔

1۔بات کرتے ہوئے مسکرانا:

حضرت ام درداء، حضرت ابو درداء کے حوالے سے فرماتی ہیں کہ وہ بات کرتے ہوئے مسکرایا کرتے تھے، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے پیارے نبی ﷺ کو دیکھا کہ وہ گفتگو کرتے ہوئے مسکراتے رہتے تھے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حديث ابي الدرداء ،ج 9، ص45، حدیث 22362 ملتقظاً)

2۔تین بار دہراتے:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم ﷺ جب کوئی بات فرماتے تو اس کو تین مرتبہ دہراتے تھے، تاکہ سمجھ آ جائے۔( بخاری، کتاب العلم، باب من اعاد الحديث ثلاثا ليفهم عنہ، ص 99، حدیث 95)

3۔جلدی نہ فرماتے:

ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنها فرماتی ہیں کہ اللہ عزوجل کے آخری نبی ﷺ تمہاری اس جلدی کی طرح کلام میں جلدی نہ فرماتے، لیکن ایسے کلام کرتے تھے، جس کے درمیان فاصلہ ہوتا تھا، جو آپکی خدمت میں بیٹھتا، وہ حفظ کر لیتا تھا۔(ترمذى، ابواب المناقب عن رسول الله، باب في كلام النبی، ص 832، حدیث 3648)

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں

وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیان ہے جس کا بیان نہیں(حدائق بخشش، ص 107 )

احادیث سے حاصل ہونے والے گفتگو کے آداب:

چند امور یہاں ذکر کئے جاتے ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنی گفتگو کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

٭ گفتگو کرتے وقت خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا جائے۔

٭سکون اور اطمینان سے گفتگو کرنی چاہیئے، عجلت اور جلد بازی سے پرہیز کیا جائے۔

٭جب بھی گفتگو کرے تو ہمیشہ حق بات کرے۔

٭گفتگو میں نرمی اختیار کرے، بے جا سختی سے بچے۔

٭جب ضرورت ہو تب ہی گفتگو کرے، فضول و بے محل باتوں سے انسان کا وقار بھی ختم ہوتا ہے۔

٭کبھی بھی ایسی گفتگو نہ کی جائے، جو گناہ میں ملوث ہونے کا سبب بنے، طنز اور باعثِ اختلاف گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔

٭جس بات کے بارے میں مکمل نہ جانتا ہو، اس بات کو آگے بیان نہ کرے۔

٭مختصر اور مفید گفتگو کیجئے۔

گفتگو میٹھی کرو ہر ایک سے جھک کر ملو

دشمنوں کے واسطے بھی دلربا ہو جاؤ گے

گفتگوکی قسمیں: امام غزالی علیہ الرحمہ نے گفتگو کی چار قسمیں بیان کی ہیں،

1۔مکمل نقصان دہ بات (اس سے بچنا ضروری ہے)،

2۔مکمل فائدہ مند بات (یہ بھی حسبِ ضرورت اور احتیاط کے ساتھ کرے)،

3۔ایسی بات جو فائدہ مند بھی ہو اور نقصان دہ بھی(اس میں نفع والی بات کی پہچان اور احتیاط ضروری ہے)

4۔ایسی بات جس میں نہ فائدہ ہو، نہ نقصان (اس سے بچنا بہتر ہے کہ وقت کا ضیاع ہے)۔(ملخص ازا حیاء العلوم، ج 3، ص 138 )

ہمیں چاہئے کہ دنیا و آخرت کی کا میا بیاں سمیٹنے کے لئے وہی گفتگو کریں، جو مفید ہو، لہٰذا اپنی گفتگو میں حضور اکرم ﷺ کااندازِ گفتگو بھی شامل کیا جائے، نرم گفتگو کرکے لوگوں میں محبت قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔

اللہ کرے ہمیں گفتگو کے آداب بجا لاتے ہوئے صحيح بولنا آجائے۔(آمین)