استاد اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے، حضور ﷺ نےفرمایا:جسے خواہش ہے کہ وہ جہنم سے آزاد شدہ لوگوں کو دنیا میں دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ طلبائے اسلام کی زیارت کرے۔ بخدا ہر وہ طالب علم جو اپنے استاد گرامی کے ہاں درس گاہ یا ان کے گھر پر حاضری دیتا ہے تو اسے ایک سال کی عبادت کا ثواب نصیب ہوتا ہے اور اسکے ایک ایک قدم کے بدلے بہشت میں اس کے لیے ایک شہر تیار ہوگا اور وہ زمین پر چلتا ہے تو زمین اسے دعائیں دیتی ہیں اور ہر شام و سحراس کی مغفرت کا اعلان ہوتا ہے اورفرشتے گواہی دیتے ہیں کہ یہ طلبائے  اسلام دوزخ سے آزاد ہیں۔ (روح البیان، پ11)

استاد کا مقام ہر اعتبار سے عزت اور قدر و منزلت کا مستحق ہے۔ طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بڑی اہم ذمہ داری ہے اور جو شخص اس فرض کو دیانت داری، نیت، خلوص اور احساسِ فرض کے ساتھ سرانجام دیتا ہے وہ قوم کی صحیح معنوں میں بہت بڑی خدمت کرتا ہے،استاد کے اوصاف اور اطوار ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ نیکی و پرہیزگاری کا مکمل ومجسم نمونہ ہو اور اسکی زیارت ہی سے تعلیم کے مقدس فیض کا عکس شاگرد کے دل میں اتر جائے،عصرِ حاضر کے تناظر میں بات کی جائے تو واضح رہنا چاہیے کہ استاد کا کام طالب علم کو محض اسباق یا کتب پڑھادینا نہیں ہے بلکہ اس کا اصل کام اپنے طلباء میں علم کا شوق پیدا کرناہے۔مزید جاننےکی لگن پیدا کرنا اور تحقیق و جستجو کیلئے ان کی استعداد میں اضافہ کرنا ہے۔

استاد اور شاگرد کے رشتے سے زیادہ جاذبیت رکھنے والا کوئی رشتہ نہیں لیکن افسوس جتنا یہ رشتہ اُس دور سابق میں اہمیت رکھتا تھا ہمارے دورمیں اس کی اس سے بڑھ کربے قدری ہے کیونکہ آج اس کی اہمیت کے بجائے بے قدری زیادہ ہے۔ اپنی مرضی پر چلنے والے طلبا تو بکثرت ملیں گے لیکن اپنی رضا کا مرکز اپنے استاد صاحب کو بنانے والے بہت تھوڑے ہیں، سابق دور میں ہر مشیت سے رضائے استاد کو ترجیح دی جاتی تھی۔شاگرد کا فرض ہے کہ انتہائی انکسا ری و تواضع اختیار کرے اور اپنی اطاعت گزاری سے استاد کی سختی کو بھی نرمی میں بدل دے تاکہ استاد کے فیض حاصل کرسکے۔امیر اہلِ سنت د امت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: شاگردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا ہر صورت میں ادب کریں، چاہے استاد کی طرف سے ناروا سلوک ہوتا ہو، چونکہ اس سے علمِ دین حاصل کررہے ہیں تو اپنے مفاد پورے حاصل کریں۔مزید فرماتے ہیں: استاد تو آپ کودین سکھاتا ہے آپ کی آخرت بہتربناتا ہے تو آپ کم از کم کتے سے ہی اخلاق سیکھ لیں کہ مالک کتے کوٹکڑا ڈالتا ہے وہ مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتا، یہاں تک کہ مالک اس کو بھگائے مارے تو تھوڑا بھاگے گا پھردُم ہلاتا ہوا واپس پاؤں چاٹنا شروع کردے گا، تو ہم عمر بھر کھائیں اور ایک بارسختی کرے تو مخالف ہو جائیں تو کتے کے اخلاق سے بھی گرگئے،لیکن دورِ حاضر میں جہاں شاگردوں کی بے مروتی اور مذمت کی جارہی ہے، وہیں بعض اساتذہ کی کیفیت شاگردوں سے بھی زبوں تر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرس اپنے منصب کے لحاظ سے ولی الله ہے بشرطیکہ وہ اکابر کے نقشِ قدم پر چلے، الله پاک ہمیں اکابرین کی تعلیمات کے مطابق تعلیم وتعلم کی عادت سے بہرہ مند فرمائے آمین۔