استاد اور
شاگرد کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ از بنت خالد محمود گجرات
اپنے دور ِ تعلیم میں 3 اُمور کو علم کی جان پایا ان میں سے ایک دل و جان
سے اُستاد کا ادب و احترام بھی ہے۔ دورِ حاضر میں تو اس رشتہ کی کوئی اہمیت نہیں ہاں
استاد اور شاگر دیا معلم و متعلم کے الفاظ سنتے ہی اسلاف کے ذہنوں میں رشتوں کا وہ
تقدس تعلقات کی وہ پاکیزگی اور احترام و
محبت کے جذبات کی وہ اعلی تصویر بنتی ہے جس
کی سزاوار کوئی اور رشتہ یا ہستی نہیں ہوسکتی، جہاں اس رشتہ میں آجکل گرہیں پڑ گئی
ہیں، بگاڑ پیدا ہوا ہے اِس کی کچھ وجوہات
ہیں۔ جیسے ہماری اخلاقی اور روحانی قدریں کم ہو گئیں۔اسلاف میں رشتۂ محبت اور تعظیم کا رشتہ انتہائی مقدس تھا، لیکن اب یہ
کوئی اور شکل اختیار کرگیا ہے، لہذا طالب علم کو چاہیے کہ درج ذیل امور پیشِ نظر
رکھے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کتب معتبرہ کے
حوالے سے نقل فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور اُستاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ شاگرد استاد سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر
موجودگی میں بھی نہ بیٹھے، چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔استاد کے آگے نہ بیٹھے،
اپنے مال میں کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے، یعنی جو کچھ اسے درکار
ہو بخوشی حاضر کردے، استاد کے قبول کر لینے میں اُس کا احسان او راپنی سعادت تصور
کرے۔استاد کے حق کو اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم جانے اگر چہ اس
سے ایک ہی حرف پڑھا ہو، اس کے سامنے عاجزی کااظہار کرے، طالب علم کو چاہیے کہ اپنے
استاد کے سامنے سچ ہی بولےاور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ ہی بولے، دیگر
اساتذہ کا بھی احترام ملحوظِ خاطر رکھے،
ایسا نہ ہو کہ صرف انہی اساتذہ کا احترام کرے جن سے پڑھتا ہو۔(کامیاب طالبعلم کون، ص58-59)
حضرت علی رضی
اللہ عنہ کا فرمان ہے: میں نے جس سے صرف ایک بھی حدیث لکھی تو میں اس کا زندگی بھر
غلام ہوں جس نے بھی مجھے ایک حرف پڑھایا میں اس کا غلام ہوں، اگر چاہے تو بیچ دے
چاہے تو آزاد کردے۔(فتاوی رضویہ،10 /20)اور
مزید یہ بھی ہے کہ وہ اگر گھر کے اندر ہو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے
باہر آنےکا انتظار کرے،طالبعلم کو کوئی چیز معلوم نہ ہو یا کچھ سمجھ نہ آتا ہو تو
وہ استا د سے ضرور پوچھے، پوچھنے میں کوئی عاریا شرم نہ محسوس کرے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَ(۷) (پ17، الانبیاء: 7) ترجمہ
کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں
علم نہ ہو۔
حضرت مجاہد
ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:شرمیلا اور متکبر شخص علم حاصل نہیں کر سکتا۔(کامیاب طالب علم، ص 104-105 )
حضرت علی رضی
اللہ عنہ کا فرمان ہے: اُستا دجب اٹھ جائے تو کپڑا مت پکڑو، استا د صاحب جب تھک جائیں تو اصرارمت کرو،استاد کے بھید مت
ظاہر کرو، استاد کی لغز ش نہ پکڑو اور اگر لغزش کرے تو اس کا عذر قبول کرو۔(کامیاب طالبعلم، ص89)
اُستاد کے سامنے شاگرد کو ایسا ہونا چاہیے کہ جیسے زمین پر بہت سی بارش
برسے اور وہ سب پی لے۔امام ابو یوسف رحمۃ
اللہ علیہ کا قول ہے جو اُستاد کو نہیں سمجھتا وہ کبھی کا میاب نہیں ہو سکتا۔حضرت
مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہم اپنے استاد
ابراہیم سے ایسے ڈرتے تھے، جیسے بادشاہ سے لوگ ڈرتے ہیں۔امام ربیعہ رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اپنے استاد کے سامنے
مجھے کبھی پانی پینے کی ہمت نہیں ہوئی۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کا نام نہیں لیتے تھے
بلکہ ان کا ذ کران کی کنیت کے ساتھ کرتے تھے۔ (کامیاب طالبعلم، ص 70) کسی سے دریافت کیا
کہ آپ اُستاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ جواب دیا:میرا باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور استاد نے مجھے زمین
سے آسمان پر پہنچایا اور میرا استاد سبب حیات جاودانی ہے اور والد صاحب سبب حیات فانی ہیں۔
آقا ﷺ نے فرمایا:تمہارے 3 باپ ہیں۔ ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا سبب ہے،
دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی لڑکی دی، تیسرا
وہ جس سے تم نے دولتِ علم حاصل کی۔ ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے۔(کامیاب طالب علم،ص 70)
معلوم ہوا
استاد بمنزلۂ باپ کے ہے اس کی تعظیم و
تکریم ازحد ضروری ہے، نیز طالبعلم علم پر تکبر نہ کرے، اُستاد پر حکم نہ چلائے،
بلکہ اپنے تمام معاملات کی لگام مکمل طور پر استاد کے ہاتھ میں دے دے اور اس کی نصیحت
کو ایسے قبول کرے جیسے جاہل بیمارشفیق طبیب کی نصیحت کو مانتا ہے۔
جس سے اس کے
استاد کو کسی قسم کی اذیت ہو، وہ علم کی
برکات سے محروم رہے گا۔تنبیہ الغافلین میں ہے کہ اگر انسان حکمران بھی بن جائے تو یہ باتیں نہ چھوڑے، ماں باپ کی آمد پر
مجلس میں کھڑا ہونا، اُستاد کی خدمت کرنا،استاد بہت بڑا محسن ہے، اس کے احسانات کا بدلہ کسی
صورت میں بھی چکا یا نہیں جا سکتا، ایسی شخصیت کے لئے مکافات ضروری ہے،اس کا
بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد کے لئے شاگرد دعا کرے۔
اللہ یاک میرے
والدین، پیر و مرشد، اساتذہ کرام کو در ازیٔ
عمر با لخیر عطا فرمائے، بلا حساب مغفرت فرمائے اُن کے علم میں، زہد و تقوی میں برکتیں عطا فرمائے۔آمین