استاد اور
شاگرد کا باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ از بنت ندیم احمد،گلبہار ضلع سیالکوٹ
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک شاگرد اور استاد کو کیسا ہونا چاہیے احیاء
العلوم جلد اول میں امام غزالی رحمۃ الله علیہ نے استاد اور شاگرد کے متعلق تفصیلاً
بیان فرمایا ہے، طالب علم اپنی دنیوی مشغولیات کو کم کرے،اپنے گھر والوں اور وطن
سے دور رہے، کیونکہ یہ تعلقات اسے مشغول رکھتے اور طلب علم سے بھر دیتے ہیں۔ کیونکہ
ارشادِ خداوندی ہے: الله پاک نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے،کیونکہ جب
خیالات منتشر ہو جائیں تو حقائق جاننے میں کمی آجاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے، علم تجھے اپنا
بعض اس وقت تک نہ دے گا جب تک تم اس کو اپنا سب کچھ نہ دے دو،طالب علم کے متعلق تو
جان لیا اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے، اب استاد کے متعلق بھی امام غزالی کے کچھ
اقوال جان لیتی ہیں کہ ایک استاد کو کیسا ہونا چاہیے پھر ان شاء اللہ ہم استاد اور
شاگرد کے مابین باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے اس کے متعلق جانیں گی، استاد شاگردوں پر
شفقت کرے اور انہیں اپنے بیٹوں جیسا سمجھے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ میں تمھارے
لیے ایسا ہوں جیسے والد اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے۔
ميد
انى تحقيق:
استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اس پر میدانی تحقیق کے مطابق ہر
شخص کی رائے مختلف ہے،درج ذیل میں چند لوگوں کی سوچ کا تذکرہ کرتی ہوں۔
(1) ایک شخص کا کہنا ہے کہ استاد اور شاگرد کا تعلق ایسا ہونا چاہیے جیسا
کہ لو ہار کا تعلق لوہے کے ساتھ، اور سنار کا تعلق سونے کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ایسا مضبوط تعلق ہونا چاہیے کہ جیسےسنار سونے کے بارے
میں جیسا سوچتا ہے ویسی اس سے چیزیں بناتا
ہے، اس طرح ایک اُستاد بھی اپنے شاگرد کے متعلق جیسی سوچ رکھتا ہے ویسا اُن کو بنادے۔
(2) ایک شخص کا کہنا ہے،استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق ایسا ہو کہ اس میں گیپ
Gape نہ ہو یعنی کہ
شاگرد اپنے استاد سے ہر بات بلاجھجھک کہہ سکے،کوئی بھی مسئلہ ہوا ہے اپنی آنے والی زندگی میں، کوئی فیصلہ کرنا ہو وہ
اپنے استاد سے پوچھ سکے، یعنی میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرے لیے کیا بہتر ہے یعنی
استاد ایسا شفیق ہو کہ شاگرد اس سے مشورہ کر سکے۔
(3) استاد اور
شاگرد کا تعلق باپ اور بیٹے کی طرح ہونا چاہیے۔ مختلف اوقات میں جس طرح والدین کا
رویہ مختلف ہوتا ہے ان کا بھی ایسا ہو، جہاں نرمی سے کام ہو وہاں نرمی سے اور جہاں
سختی کرنی پڑے توسختی کر سکتا ہو۔جیسے اولاد والدین کی سختی پر اس کو بطورِ نصیحت
سمجھتے ہیں، استاد بھی اپنے شاگردوں سے ایسا ربط میں ہو کہ شاگرد بھی استاد کی سختی
کو نصیحت سمجھے اور یہ ذہن میں نہ لائے کہ میری Insult
ہوگئی۔
(4) استاد
اور شاگرد کے درمیان حساس رشتہ ہونا چاہیے کیونکہ کہا گیا ہے کہ اگر تم بادشاہ ہو تو پھر بھی استاد
اور والدین کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاؤ یعنی
دونوں کے درمیان شفقت وتعظیم ہونی چاہیے، استاد شفقت و احساس کرنے والا ہے تو شاگرد
بھی تعظیم کرنےو الا ہوگا۔باادب با نصیب
(5) استاد کا
اپنے شاگرد کے ساتھ اتنا نرم لہجہ بھی نہ ہو کہ استاد کو شاگرد استادہی نہ سمجھے بلکہ اعتدال ہو، ایک حد تک شاگردوں سے
محبت ہو کہ استاد استاد ہی رہے، استاد سے شاگرد اپنی ہر بات شیئر کرسکتا ہو ایسا
رویہ ہو کہ شاگرد استاد سے متنفر نہ ہو۔
(6) استاد کا
اپنے شاگرد کے ساتھ تعلق ایسا ہونا چا ہیے کہ دونوں میں سے کوئی بھی پریشان ہو تو
دونوں ایک دوسرے کے ہمدردبنیں،استاد کو شاگرد کا اور شاگرد کو استاد کا راز دار ہونا چاہیے۔
(7) استاد کو شاگرد کا روحانی باپ کا درجہ حاصل
ہے تو اس لحاظ سے دونوں کے مابین ایسا تعلق ہو کہ استاد شاگرد کی اولاد کی طرح تربیت
کرے،شاگردغلطیاں بھی کرے تو استاد اصلاح کرنا نہ چھوڑے، اُستاد اگر غلطی پر ہو تو
شاگرد کے ساتھ اس کا تعلق ایسا ہو کہ وہ اصلاح کرسکے، دونوں یعنی استاد اور شاگرد
خامیوں کو جہاں سے دیکھیں فل کرنے کی کوشش کریں۔
یہ تھی مختلف
لوگوں کی اُستاد اور شاگرد کے مابین باہمی تعلق کے متعلق سوچ،اب ہم امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ کے اقوال نقل کرتے ہیں کہ شاگرد اور استاد کے تعلقات کیسے ہونے چاہیے۔
لا
ئبریری تحقیق:امام
غزالی رحمۃ الله علیہ نے احیاء العلوم جلد
1 صفحہ 191 پر فرمایا: استاد شاگردوں پر
شفقت کرے استاد کا مقصود ہو کہ وہ شاگردوں
کو آخرت کے عذاب سے بچائے گا،جس طرح ایک باپ کی اولاد کا فرض بنتا ہے کہ وہ باہم ایک
دوسرے سے محبت کریں اور تمام مقاصد میں ایک دوسر ے سے تعاون کریں ایسے ہی استاد کے شاگردوں کا حق بنتا
ہےکہ آپس میں پیار محبت سے رہیں، یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہےکہ جب ان کا مقصد آخرت ہو،جب عام شہروں کی طرف جانے والے مسافروں
کے درمیان نرمی ایک دوسرے سے محبت کا ذریعہ ہے تو پھر فردوسِ اعلیٰ کی طرف سفر اور
اس راستے میں نرمی کتنی ہونی چاہیے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان نرمی کا معاملہ ہوتا کہ استاد جو شاگرد کو دینا
چاہے وہ دے سکے۔
استاد نبیِ کریمﷺ
کی پیروی کرے،خالصتا اللہ کی رضاکے لیے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے علم سکھائے۔
شاگرد کے ساتھ استاد کا تعلق ایسا ہو کہ نصیحت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ جس قدر
ممکن ہو اس کے دل میں اس چیز کی خرابی کا تصور پختہ کرے کیو نکہ بد عمل عالم کا فساد
اس کی اصلاح سےزیادہ ہوتا ہے، استاد اور
شاگرد کے درمیان تعلق ایساہو کہ وہ ان میں خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی پیدا کرسکے۔
استاد اورشاگرد
کے مابین تعلق ایسا ہوکہ استاد اپنے حقوق کو اورشاگرد اپنے حقوق کو سمجھے،استاد کی
ذمہ داری ہے کہ جس قدر ممکن ہو شاگرد کو برے اخلاق سے اشارۃً منع کرے، صراحتاً نہ
روکے، پیار محبت سے منع کرے، جھڑک کر منع نہ کرے، کیونکہ واضح لفظوں میں ملامت
کرنے سے ہیبت کا پردہ چاک ہوجاتا ہےاور مخالفت کی جرأت پیدا ہوجاتی ہے، اور وہ منع
کردہ بات پر اصرار کرنے کا حریص بن جاتا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر
لوگوں کو مینگنی توڑنے سے روکا جائے تو وہ اس کو توڑیں گےاور کہیں گے کہ ہمیں منع
کیا گیا ہے ضرور اس میں کوئی بات ہوگی۔استاد اور شاگرد کی مثال ایسی ہے جیسے نقش
اور مٹی، لکڑی اور سائے کی، کہ اس چیز سے مٹی میں کیسے نقش بنے گا جس میں خود نقش
نہیں ہے، اور جب لکڑی ہی ٹیڑھی ہوگی تو اس کا سایہ سیدھا کیسا ہوگا؟ یعنی استاد
اپنی اصلاح بھی کرے اور شاگرد کی بھی، یعنی دونوں ایک دوسرے کی اصلاح کر سکیں۔یعنی
استاد کا تعلق شاگرد کے ساتھ ایسا ہوکہ وہ بھی آسانی سے استاد کی اصلاح کرسکے۔
اللہ پاک ہم سب کو اپنے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔