قرآن کریم، فرقانِ حمید ربّ ذوالجلال کا بے مثل کلام ہے، قرآن عظیم کے کئی اسماء ہیں، جو کہ اس کتاب کی شرف و عظمت کی دلیل ہیں، تفسیر کبیر اور تفسیر عزیزی وغیرہ میں ہے:"کہ قرآن پاک کے 32 نام ہیں، جو کہ قرآن پاک میں مذکور ہیں، ان میں سے چند ان کی مختصر وضاحت کے ساتھ درج ذیل ہیں:

1۔قرآن:

یہ نام قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 82 میں ذکر ہوا ہے،

ترجمہ کنز العرفان:"اور ہم قرآن میں وہ چیز اتارتے ہیں، جو ایمان والوں کیلئے شفا اور رحمت ہے۔"

قرآن پاک کو قرآن اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ یاتو قَرْءٌ سے بنا ہے، جس کے معنی جمع ہونے کے ہیں اور یہ قرآن سارے اوّلین و آخرین کے علوم کا مجموعہ ہے، اس لئے اسے قرآن کہا جاتا ہے یا پھر یہ قرآۃٌ سے بنا ہے تو اس کے معنی ہیں پڑهی ہوئی چیز، چونکہ قرآن کریم پڑھا ہوا نازل ہوا، نیزجس قدر قرآن کریم پڑھا گیا اور پڑھا جاتا ہے، اس قدر کوئی کتاب دنیا میں نہ پڑھی گئی۔

یا یہ قَرْنٌ سے بنا ہے تو قَرْنٌ کے معنی ہیں ملنا اور ساتھ رہنا، اب اس کوقرآن اسلئے کہتے ہیں کہ حق اور ہدایت اس کے ساتھ ہے، نیز یہ مسلمان کےہر وقت ساتھ رہتا ہے، پھر زندگی میں ہر حالت میں ہر جگہ ساتھ رہتاہے، پھر قبر میں، حشر میں بھی ساتھ کہ گناہگار کو خدا سے بخشوائے۔

2۔فرقان:

یہ نام قرآن کریم کی سورہ بقرہ کی آیت 185 میں ذکرہوا:شهر رمضان الذي انزل فيه القرآن هدى للناس وبینت من الھدى والفرقان۔

ترجمہ کنرالعرفان:" رمضان کا مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کیلئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے)۔"

فرقان لفظ فَرْقٌ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں فرق کرنے والی چیز، قرآن کوفرقان اس لئے کہتے ہیں کہ حق وباطل ، جھوٹ اور سچ مؤمن و کافر میں فرق کرنے والا ہے۔

3۔ کتاب:

یہ نام سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں ذکر ہواہے:ذَلِكَ الْكِتٰبُ لَارَيْبَ فِيْهِ۔

ترجمہ کنزالایمان:"وہ بلند رتبہ کتاب ( قرآن ) کوئی شک کی جگہ نہیں۔"

الکتاب ، کَتَبَ سے بناہے اور اس کے چند معنی ہیں،

٭جمع ہونا:اگر اس کے یہ معنی مراد ہوں تو اس کے معنی ہوں گے، یہ جمع کی ہوئی چیز ہے، کیونکہ قرآن کریم میں سارے علوم جمع ہیں تو گویا کامل کتاب یہی ہے۔

٭ لکھنا اور لکھی ہوئی چیز: اگر یہ معنی مراد ہوں تو مطلب ہوگا کہ یہ لکھی ہوئی چیز ہے، یعنی لکھنے میں کامل کتاب یہی ہے، اس کے سوا سب ناقص ہیں۔

4۔ذکر و تذکره:

یہ لفظ سورہ فجر کی آیت نمر 9 میں بیان ہوا ہے:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإنَّا لَهٗ لَحٰفِظُونَ۔

ترجمہ کنز العرفان:"بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بے شک ہم خوداس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔"

ذکر و تذکرہ کے معنی ہیں یاد دلانا، چونکہ یہ قرآن کریم اللہ اور اس کی نعمتوں کی اور میثاق کے عہد کو یاد دلاتا ہے، اس لئے اس کو ذکر و تذکرہ کہتے ہیں۔

5۔حکيم:

سوره یسین آیت نمبر2 میں قران کریم کیلئے لفظ حکیم ذکر ہوا ہے:والقرآن الحکيم۔

ترجمہ کنز العرفان:"حکمت والے قرآن کی قسم۔"

حکمت، حکیم یا حکم سے بنے ہیں، اس کے معنی ہیں مضبوط کرنا، لازم کرنا اور روکنا، چونکہ یہ قرآن پاک مضبوط بھی ہے، کوئی اس میں تحریف نہ کر سکا اور لازم بھی ہے کہ کسی کتاب نے اس کو منسوخ نہ کیا اور بری باتوں سے روکنے والا بھی ہے، اسلئے یہ نام ہوئے۔

6۔تنزيل:

حم سجدہ کی آیت 42 میں یہ نام ذکر ہوا ہے:لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيل من حكيم حمیدٍ۔

ترجمہ کنز العرفان:"باطل اس کے سامنے اور اس کے پیچھے سے بھی اس کے پاس نہیں آسکتا، وہ قرآن اس کی طرف نازل کیا ہوا ہے، جو حکمت والا تعریف کے لائق ہے۔"

تنزیل کےمعنی ہیں، اتاری ہوئی کتاب، چونکہ یہ بھی ربّ کی طرف سے اتاری گئی ہے، اس لئے تنزیل کہتے ہیں۔

7،8،9،10۔ موعظۃ، شِفَاءٌ، هُدیً، رحمت:

سورہ یونس کی آیت نمبر 57 میں قرآن پاک کے 4 نام مذکور ہیں:يايها الناس قد جاءتكم موعظة من ربكم وشفاء لما في الصدور وهدى ورحمة للمؤمنين۔

ترجمہ کنز العرفان:"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا اور مؤمنوں کیلئے ہدایت اور رحمت آگئی۔"

موعظۃ کے معنی نصیحت کے ہیں اور یہ کتاب سب کو نصیحت کرنے والی ہے، شفاء اسلئے کہتے ہیں کہ یہ ظاہری اور باطنی بیماریوں سے سب کوشفادینے والی کتاب ہے، ھدی اسلئے کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کو ہدایت کرتی ہے، رحمت اس لئے کہتے ہیں کہ یہ علم ہے اور جہالتوں اور گمراہیوں سے نکالنے والا علم ہے اور علم حق تعالی کی رحمت ہے۔

11،12۔برہان، نور:

قرآن پاک کے یہ دو نام سوره نساء کی آیت 174 میں ذکر کئے گئے ہیں:یايھا الناس قد جاءكم برهان من ربكم وانزلنا اليكم نورا مبيناً۔

ترجمہ کنز العرفان:"اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا۔"

برہان کے معنی ہیں دلیل اور قرآن کریم کا ربّ، نبی پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم اور تمام سابقہ انبیاء کے صدق کی دلیل ہے۔

نور اسے کہتے ہیں، جو خودبھی ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاهر کرے، چونکہ قرآن پاک خود بھی ظاہرہے اور اللہ کے احکام وغیرہ سب کو ظاہر فرمانے والا ہے، اس لئے اس کو نور کہا، نیز یہ قرآن کریم پُل صراط پر نور بن کر مسلمانوں کے آگے آگے چلے گا۔

13۔مبارک:

سوره انعام آیت 155میں یہ نام ذکرہوا ہے:وهذا كتب انزلنه مبٰركٌ۔

ترجمہ کنزالعرفان:"اور یہ ( قرآن ) وہ کتاب ہے، جسے ہم نے نازل کیا، بڑی برکت والا ہے۔" مبارک کے معنی ہیں برکت والا، چونکہ اس کے پڑھنے اور عمل کرنے سے ایمان میں برکت، نیک عملوں میں عزت، چہرے کے نور میں برکت ہے، اس لئے اس کو مبارک کہتے ہیں۔

14،15۔حدیث، مثانی:

سوره زمرآیت 23 میں یہ نام ذکر ہوئے ہیں:الله نزل احسن الحديث كتبا متشابہا مَثَانِىَ۔ ترجمہ کنز العرفان:"اللہ نے سب سے اچھی کتاب اتاری کہ ساری ایک جیسی ہے، بار بار دہرائی جاتی ہے۔"

حديث کے معنی میں نئی چیزیا کلام، چونکہ بمقابلہ توریت وانجیل کے یہ دنیا میں زمین پر بعد میں آیا، اس لئے یہ نیا ہے، نیزیہ پڑھا ہوا اترا، نہ کہ لکھا ہوا، اسلئے یہ کلام/بات ہے۔

مثانی جمع ہے مثنی کی، مثنی کے معنی ہیں بار بار، کیونکہ اس میں احکام اور قصّے بار بار آئے ہیں اور یہ کتاب خود بھی بار بار اتری ہے، اس لئے اس کو مثانی کہتے ہیں۔

16۔تبيان، بيان:

سوره نحل آیت 89 میں یہ لفظ آیا ہے:و نزلنا عليك الكت تبيانا لکل شیء۔

ترجمہ:"اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا، جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔"

اس کے معنی ہیں ظاہر کرنے والا، چونکہ قرآن حکیم سارے شرعی احکام کو اور سارے علومِ غیبیہ کو نبی صلّی اللہُ علیہ وسلّم پر ظاہر فرمانے والا ہے، اس لئے یہ نام ہوا۔

17۔صراط مستقیم:

سورة الانعام کی آیت 126 میں یہ ذکر ہوا ہے:و هٰذَا صِرَاطُ ربِّكَ مُسْتَقَيما۔

ترجمہ کنز العرفان :"اور یہ تمارے ربّ کی سیدھی راہ ہے۔"

صراط مستقیم اس لئے کہتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے والا اپنی منزل پر آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔

18۔النجم:

سوره نجم آیت1 میں یہ لفظ مذکور ہے:والنجم إذا هوى۔

ترجمہ کنز العرفان:"تارے کی قسم جب وہ اترے۔"

نجم کے معنی تارے کے بھی ہیں اور حصّہ کے بھی، چونکہ قران پاک کی آیتیں تاروں کی طرح لوگوں کو ہدایت کرتی ہیں اور علیحدہ علیحدہ آئیں، اسلئے نجوم نام ہوا۔

19۔حق:

سوره هود کی آیت نمبر 120 میں یہ لفظ مذکور ہے:وجاءک في هذه الحق وموعظة وذکري للمؤمنین۔

ترجمه کنز العرفان:"اور اس سورت میں تمھارے پاس حق آیا اور مسلمانوں کیلئے وعظ و نصیحت (آئی)۔"

حق کے معنی ہیں، سچی بات بمقابل باطل یعنی جهوٹی بات، قرآن پاک سچی بات بتاتا ہے، سچے کی طرف سے آیا ہے، سچا اس کو لایا ہے، سچے محمد صلّی اللہُ علیہ وسلّم پر اترا ہے، اس لئے اسے حق کہتے ہیں۔

20۔قيم:

سوره کہف میں ارشار ہوتا ہے:الحمد لله الذي انزل على عبده الکتب ولم يجعل له عوجا۔ قيما لينذر بأسا شديداً۔من لدنه وبشرالمؤمنين الذين يعملون الصلحت ان لهم اجرا حسناً۔ ترجمہ کنز العرفان:"تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے، جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی، لوگوں کی مصلحتوں کو قائم رکھنے والی نہایت معتدل کتاب، تاکہ اللہ کی طرف سے سخت عذاب سے ڈرائے اور اچھے اعمال کرنے والے مؤمنوں کو خوشخبری دے کہ ان کیلئے اچھا ثواب ہے۔"

قیم کے معنی ہیں قائم رہنے والی یا قائم رکھنے والی، اس لئے اللہ کو قیوم کہتے ہیں، قرآن پاک کو اس لئے قیم کہا جاتا ہے کہ وہ خود بھی قیامت تک قائم رہے گا اور اس کے ذریعے سے دین بھی قائم رہے گا۔

اللہ پاک ہمیں عاشقِ قرآن بنائے، اس کو پڑھنے، سمجھنے، اسکی تعلیمات پر عمل کی توفیق دے اور اس کی برکتوں سے ہمیں مالا مال فرمائے۔آمين

حوالہ:(صراط الجنان، جلد 1، مقدمہ تفسیرنعیمی، تفسیرنعیمی، قرآن پاک)