چودہویں صدیں کے مشہور بزرگ، عاشق رسول، فدائے سادات، مجدددین و ملّت، فقیہ اعظم، محدث، پاسبان ناموس رسالت، علم حکمت کے بادشاہ، امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ 10 شوال المکرم 1272ھ ہندوستان کے شہر بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے، حیرت انگیز قوتِ حافظہ کی بناء پر آپ نے پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیااور 13 سال 4 ماہ کی عمر میں علم تفسیر، حدیث ، فقہ و اصول فقہ، منطق و فلسفہ اور دیگر علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی اور فتویٰ نویسی کا آغاز کردیا جبکہ 21 سال کی عمر میں باقاعدہ فتویٰ نویسی کی مطلق اجازت ملی۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو علمُ القرآن، علم الحدیث، علم العقائد، تجارت، جغرافیہ، ریاضی، علم طب، سیاسیات، صحافت، علم الفلکیات اور علم النجوم سمیت درجنوں علوم پر دسترس حاصل تھی جس پر آپ نے 1 ہزار سے زائد کتابیں و رسالے لکھے ہیں۔ جن علوم پر آپ کو مہارت حاصل تھی ان میں کئی ایسے ایسے علوم بھی ہیں جن کے ناموں سے دورجدید کے بڑے بڑے محققین اور ماہرین علوم و فنون بھی آگاہ نہیں ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو جن علوم پر دسترس حاصل تھی ان میں سے چند کے بارے میں اس مضمون میں مختصراً بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

٭علمِ تفسیر

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی علومِ قرآن پر گہری نظر تھی اورتفسیر قرآن میں امتیازی مقام حاصل تھا جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ سید اظہر علی صاحب (ساکن محلہ ذخیرہ) بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت ”حضرت محب الرسول مولانا شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ “کے عرس میں تشریف لے گئے وہاں 9 بجے صبح سے 3 بجے دن تک چھ گھنٹے ”سورۂ و الضحیٰ“ پر بیان کرکے فرمایا کہ اسی سورۂ مبارکہ کی کچھ آیاتِ کریمہ کی تفسیر میں 80 جز (تقریباً چھ سو صفحات)رقم فرماکر چھوڑ دیا کہ اتنا وقت کہاں سے لاؤں کہ پورے کلام پاک کی تفسیر لکھ سکوں۔

اعلیٰ حضرت کی تفسیری مہارت کا اندازہ ہم اُس بیان سے بھی کرسکتے ہیں جو آپ نے ربیع الاول شریف کی ایک محفل میں فرمایا جس میں آپ نے ”بسم اللہ“ کی صرف ”ب“ پر کئی گھنٹے بیان فرمایا۔ یہ بیان تحریری طور پر ”حیاتِ اعلیٰ حضرت“ میں لکھا ہوا ہے۔ (فیضانِ اعلیٰ حضرت، ص 456)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیری مہارت کا ایک شاہکار آپ کا ترجمہ قرآن ”کنز الایمان“ بھی ہے جس کے بارے میں محدث اعظم ہند سید محمد محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: علم قرآن کا اندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثالِ سابق نہ عربی میں ہے، نہ فارسی میں اور نہ اردو زبان میں ہےاور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جاسکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگر درحقیقت وہ قرآن کی تصحیح تفسیر اور اردو زبان میں قرآن (کی روح) ہے۔

(فیضان اعلیٰ حضرت، ص474)

باقی علم تفسیر پر آپ کی علمیت کا اندازہ آپ کی تصنیفات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے علم تفسیر پر تحریر فرمائی ہے۔ ان کتابوں میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں: ٭حاشیہ تفسیر بیضاوی ٭حاشیہ تفسیر خازن ٭حاشیہ معالم التنزیل ٭نائل الراح فی فرق الربح و الرباح

٭علم سائنس

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ علم مشرقیہ کے علاوہ علوم قدیمہ وجدیدہ پر گہری نظر رکھتے تھے، علوم جدیدہ ہی میں علم سائنس بھی ہےجس کا نام عصر حاضر میں بڑے ہی فخر کے ساتھ لیا جاتا ہے اور اس کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

علمِ سائنس پر آپ کی بڑی گہری نظر تھی، آپ علم سائنس کو اسلام کی روشنی میں دیکھتے اور پرکھتے تھے، اگر اس کے نظریات اسلام کے مطابق ہوتے تو اُن کو قبول کرلیتے اور اگر اسلامی نظریات کے خلاف ہوتے تو ان کو ٹھکرادیا کرتے تھےاور پھر ان کا رد و ابطال کرتے ہوئے اس موضوع پر اسلامی مؤقف اور نظریہ کو واضح کرتے۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے علم سائنس میں کئی رسائل لکھے ہیں جن میں سے ایک رسالہ ”البیان شافیاً لفونو غرافیاً“ لکھا اس میں گراموفون میں قید کی گئی آوازوں کے سننے اور ان پر عمل کرنے کے احکام واضح کئے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ اعلیٰ حضرت کی علم سائنس پر چند تصانیف کے نام یہ ہیں: الکلمۃ الملھمۃ فی الحکمۃلوھاء فلسفۃ المشئمۃ“، ” فوز مبین در حرکت زمین‘‘، ’’معین مبین بہر دورشمس و سکون زمین‘‘۔

اعلیٰ حضرت کے بارے میں پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے تاثرات:

عظیم پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی سائنسی تحقیقات کے معترف ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے تاثرات کا اظہار بھی فرماتے رہتے ہیں، آپ نے ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں باقاعدہ ایک پورا کالم ’’فقید المثال مولانا احمد رضا خان بریلوی‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا جس میں آپ اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لاتعداد سائنسی موضوعات پر مضامین و مقالے لکھے ہیں۔ آپ نے تخلیقِ انسانی، بائیوٹیکنالوجی و جنیٹکس، الٹراساؤنڈ مشین کے اصول کی تشریح، پی زوالیکٹرک کی وضاحت، ٹیلی کمیونیکشن کی وضاحت، فلوڈ ڈائنامکس کی تشریح، ٹوپولوجی (ریاضی کا مضمون)، چاند و سورج کی گردش، میٹرالوجی (چٹانوں کی ابتدائی ساخت)، دھاتوں کی تعریف، کورال (مرجان کی ساخت کی تفصیل)، زلزلوں کی وجوہات، مد و جزر کی وجوہات، وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنے دور کے فقیہ، مفتی، محدّث، معلم، اعلیٰ مصنف تھے۔ (روزنامہ جنگ، 5دسمبر 2016)

اسکے علاوہ فقہ کے ضمنی مسائل کے اندر علوم عقلیہ کی تشریحات میں اعلیٰ حضرت کی مکمل دسترس کا ثبوت ملتا ہےمثلاً: پانی کا رنگ ہے یا نہیں؟، برف کے سفید ہونے کا سبب؟، معدنیات میں 4 قسمیں ناقص ترکیب ہیں، گندھک نر ہے یا مادہ، مٹی کے اقسام اور انکی درجہ بندی وغیرہ۔

٭علم توقیت

امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کےمتعلق مفتی ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہیئت و نجوم میں کمال کے ساتھ ”علم توقیت“ میں کمال توحدِ ایجاد کے درجہ پر تھا۔ یعنی اس فن کا موجد (ایجاد کرنے والا) کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ علماء نے جستہ جستہ اس کو مختلف مقامات پر لکھا ہے لیکن میرے علم میں کوئی مستقل کتاب اس فن میں نہ تھی۔ اس لئے جب میں نے اور میرے ساتھ چند جید علمائے کرام نے اس فن کو حاصل کرنا شروع کیا تو کوئی کتاب ان فن میں نہ تھی جس کو ہم لوگ پڑھتے۔

اسی وجہ سے اعلیٰ حضرت خود ہی اس کے قواعد زبانی ارشاد فرماتے ۔ اسی کو ہم لوگ لکھ لیتے اور اسی کے مطابق عمل کرکے اوقاتِ نصف النھار، طلوع، صبح صادق، عشاء، ضحوۂ کبریٰ، عصر نکالتے۔ پھر میں ان سب کو ایک کتاب میں جمع کرکے اس کا نام الجَواہِر والیواقیت فی علم التوقیت معروف بہ توضیح التوقیت رکھا۔ (حیات اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور ص244)

اس فن پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے ”درأ القبح عن درک الصبح، تاج توقیت، کشف العلۃ عن سمت القبلۃ، سر الاوقات، الانجب الانیق فی طریق التعلق سمیت 15سے زائدکتابیں تحریر کی ہیں۔

٭فتاویٰ رضویہ

فتاویٰ رضویہ کا تعارف:اس بے مثال علمی شاہکار کا نام امام ِاہلِ سنت علیہ الرحمۃ نے اَلْعَطَایَا النَّبَوِیَّہ فِی الْفَتَاوی الرضَوِیَّہرکھا ہے، جو جدید تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع ہونے کے بعد تقریباً 22ہزار صفحات، 6ہزار847 سوالات و جوابات اور 206 تحقیقی رسائل پر مشتمل ہے۔ جبکہ ہزاروں مسائل ضِمناً زیرِ بحث آئے ہیں۔( فتاویٰ رضویہ اشاریہ،ص3)

فتاویٰ رضویہ کا مقام:فتاویٰ رضویہ کے بلند علمی مقام کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ اس میں احکامِ شریعت دریافت کرنے والے صرف عوامُ الناس ہی نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے بَحرِ عِلْم سے پیاس بجھانے والوں میں ملک و بیرونِ ملک سے تعلق رکھنے والے وقت کے بڑے بڑے علما، فضلا، مفتیان کرام، محدثین، مشاہیر، مصنفین مؤرخین اصحابِ ِطریقت و معرفت، دانشور و وُکَلا حتی کہ مخالفین بھی شامل ہیں، ان تِشنگانِ عِلْم کی تعداد ایک تحقیق کے مطابق 541 بنتی ہے جنہوں نے پیچیدہ مسائل میں غور و خوض کرنے کے بعد ان مسائل کے کافی و شافی حل کے لئے امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے رابطہ کیا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے انہیں تحقیقی اور تسلِّی بخش جوابات عنایت فرمائے ۔اگر فتاویٰ رضویہ غیرمخرجہ کی 9 جلدوں میں دریافت کئے گئے اِستفتا کی تعداد کو دیکھا جائے تو وہ 4095 ہے، جس میں سے 3034 عوامُ الناس کے اِستفتا ہیں جبکہ 1061اِستفتا علمائے کرام نے بھیجے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال کرنے والوں میں ایک چوتھائی تعداد صرف علما و دانشوروں کی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج1،ص16)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے صرف فقہ کے موضوع پر 200 سے زائد کتب و رسائل تحریر فرمائے ہیں جن میں حاشیہ فتاوٰی عالمگیری، جدالممتار علی رد المختار، حاشیہ مراقی الفلاح، حاشیہ فتح القدیر لابن الہمام، حاشیہ فتاویٰ بزازیہ اور نوٹ (کرنسی) کے متعلق مسائل شامل ہے۔

ان علوم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ منطق، شاعری، علم الانساب، اسماء الرجال، علم الحساب، نثر نگاری، میں بھی مہارت رکھتے تھے، آپ کے ہم عصر علما فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بعض علوم کو اس طرح بیان کرتے تھے گویا کہ آپ خود ہی اس علم کے بانی ہوں۔

اللہ پاک کی ان رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین