ادب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہے، جو کہ دیگر اقوام یا
مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں بھی اہمیت سمجھی، مگر اس
کا تمام تر سہرا اسلام کے سر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار
سے نہیں، زبان یعنی اخلاق سے پھیلا۔
اور اسلام اپنے جاننے والوں کو بھی ادب و احترام کی تعلیم دیتا ہے کہ
اسلام محبت و بھائی چارے کا نام ہے، پھر جہاں محبت ہواور ادب نہ ہو تو کسی نے بہت
ہی پیارا شعر کہا ہےادب پہلا قرینہ ہے، محبت کے قرینوں میں۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو!
ادب و احترام کرنے میں جو کردار ہمارے سلف و صالحین نے ادا کیا اور کیسے ولایت کے
مرتبے پر فائز ہوئے، اس کی نظیر نہیں ملتی، اسلام قدم قدم پر ہمیں ادب کی تعلیم دیتا
ہے، بیٹھ رہے ہیں تو ادب کو ملحوظِ خاطر رکھیں، چل رہے ہیں تو راستے کا ادب کریں،
کھانا کھاتے وقت ادب کا مظاہرہ کریں، پانی پینے کے آداب بیان کئے گئے، سونے کے
آداب، اٹھنے کے آداب، ملاقات کے آداب، والدین کا ادب، اپنے بڑوں کا ادب، بات چیت
کے آداب، اگر طالب علم ہے تو استاد کا ادب، علم کا ادب، کتابوں کا ادب، نشست گاہ
کا ادب، وہاں موجود شرکاء اہلِ علم کا ادب، گویا ہر چیز میں ادب کہ ادب کے ساتھ
زندگی بہت ہی خوبصورت نظر آتی ہے۔
علمِ دین کی بات کو ادب و تعظیم کے ساتھ کے حوالے سے کسی دانا نے کیا
خوب کہا ہے:جس نے کسی علمی بات کو ہزار بار سننے کے بعد اس کی ایسی تعظیم نہیں کی،
جیسی تعظیم اس نے اس مسئلہ کو پہلی مرتبہ سنتے وقت کی تھی تو ایسا شخص علم کا اہل
نہیں۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم، ترجمہ بنام راہِ علم، صفحہ 35)
تعظیمِ علم میں کتاب کی تعظیم کرنا بھی شامل ہے، لہٰذا طالب علم کو چاہئے کہ کبھی بھی بغیر طہارت
کے کتاب کو ہاتھ نہ لگائے، حضرت شیخ شمس الدین حلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت
نقل کی جاتی ہے کہ آپ علیہ الرحمہ نےفرمایا: میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم
کرنے کے سبب حاصل کیا اور اس طرح کہ میں نے کبھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔(تعلیم
المتعلم طریق التعلم، ترجمہ بنام راہِ علم، صفحہ 33)
شمس الائمہ حضرت امام
سرخسی علیہ الرحمہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ علیہ الرحمہ کا پیٹ خراب ہو گیا،
آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار و بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے، پس اس
رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو سترہ بار وضو کرنا پڑا،کیونکہ آپ بغیر وضو
تکرار نہیں کیا کرتے تھے۔(راہ علم، ص33)
سبحان اللہ! کیا شان تھی ہمارے اسلاف کی کہ ایسے ہی انسان فنا فی اللہ
کا رتبہ نہیں پالیتا، کہا جاتا ہے کہالحرمۃ خیر من الطاعۃیعنی ادب و احترام کرنا اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے کہ انسان گناہ
کرنے کی وجہ سے کبھی کافر نہیں ہوتا، بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہوتا
ہے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم، ترجمہ بنام راہِ علم، صفحہ 29)
پیاری اسلامی بہنو!استاد کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے، امیر
المؤمنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:انا
عبد من علمنی حرفا واحدا ان شاء باع وان شاء اعتق وان شاء استرقیعنی جس نے مجھے ایک حرف
سکھایا، میں اس کا غلام ہوں، چاہے اب وہ مجھے فروخت کر دے اور چاہے تو آزاد کر دے
اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔
سبحان اللہ! کیا کہنے ہمارے بزرگانِ دین علی الرحمہ کے، ربّ کریم ان
کے فیوضات میں سے ہمیں بھی حصّہ عطا فرمائے۔آمین
الآخر۔۔خلا صہ یہ حاصل ہوا
کہ بغیر ادب کے زندگی بے ذائقہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی معرفتِ الٰہی ، عشقِ حقیقی حاصل کرنا چاہتا ہے تو بغیر
ادب کے اس منزل تک پہنچنا ناممکن ہے، ہر معاملے میں ادب کے ساتھ زندگی گزارنے کا یہ
فائدہ ہے کہ انسان ایک اچھے انسان کے رُوپ میں ڈھل جاتا ہے اور اپنے مقصدِ حقیقی
کو پانے کی راہیں اس کے لئے کشادہ ہو جاتی ہیں۔
جبکہ بےادب شخص اپنے مقصد کی تلاش میں نکلے بھی تو اس کی مثال اس
مسافر کی سی ہے کہ جس کی منزل کی راہیں تاریک ہیں اور تعجب اس بات کا ہے کہ اس
منزل کو روشن کرنے کے لئے اس کے پاس چراغ بھی نہیں، لہٰذا کیا خوب کہا کسی نےباادب بانصیب، بے ادب
بے نصیب۔
ایسا انسان جس کے پاس ادب کرنے کی قوت نہیں، وہ ساری زندگی اپنا مقام
کبھی بھی نہیں بنا سکتا، ادب کا دروازہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں داخل ہونے کے لئے
سر کو جھکانا پڑتا ہے، عاجزی ہی مقام تک لے کر جاتی ہے۔ ربّ تعالیٰ ہمیں ادب واخلاص کی دولت عطا فرمائے۔آمین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا