جب  تک انسان صحت مند رہتا ہے یا اس کے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوتی ہیں تو کیا اپنے اور کیا غیر سبھی اس کے گن گاتے اور اس کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں، لیکن جیسے ہی اس پر کوئی مصیبت و آزمائش آ جاتی ہے یا وہ کسی موذی مرض کا شکار ہوتا ہے تو وہی لوگ اسے بے یار و مدد گار چھوڑ کر کسی بھولی بِسری چیز کی طرح بھلا دیتے ہیں، حتی کہ وہ بیوی جس کی ہر فرمائش اس نے پوری کی تھی اور اس کے ناز نخرے برداشت کئے تھے، وہ بھی اپنا ساز و سامان اُٹھا کر ہمیشہ کے لئے اسے داغِ مفارقت دے جاتی ہے۔ لیکن قربان جائیے! حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ محترمہ پر! جو تاریخ ِ انسانی کی وہ عظیم ترین خاتون ہیں جنہوں نے وفا شعاری کی اعلیٰ مثال قائم کی، یوں کہ مال و اولاد کی محرومی پر صبر کیا، شوہر پر آنے والی مصیبتوں کو بڑے صبر اور ہمت و حوصلے سے برداشت کیا، مصیبت کی اس گھڑی میں انہیں تنہا چھوڑنے کے بجائے 18 سال کا طویل عرصہ ان کا ساتھ نبھایا اور ہر دکھ درد میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ رہیں، جس کے صلے میں ربِّ کریم نے انہیں اپنی نعمتوں اور خاص رحمت سے سرفراز فرمایا۔

مختصر تعارف: اللہ پاک کے صابر و شاکر پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے نام میں مورخین و مفسرین کا اختلاف ہے، البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی تھیں ([1])جو شکل و صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ مشابہ تھیں۔(2)

اِزدواجی زندگی:حضرت ایوب علیہ السلام نے 30 سال کی عمر میں آپ سے شادی فرمائی۔(3)اللہ پاک نے آپ کو 7 بیٹوں اور7 بیٹیوں سے نوازا تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام پر آنے والی آزمائش کے دوران وفات پاگئے تھے،جب ان کی آزمائش ختم ہوئی تو اللہ پاک نے انہیں دوبارہ اتنے ہی بیٹے اور بیٹیاں عطا فرمائیں(یعنی آپ کو ٹوٹل 28 بیٹے بیٹیاں عطا ہوئے تھے۔)(4)

اوصاف:آپ حضرت ایوب علیہ السلام کو پہنچنے والی آزمائش میں ان کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ رہیں، ان کے لئے کھانا تیار کرتیں اور ربِّ کریم کی حمد و ثنا بجا لاتی تھیں۔(5)نیز آپ نہایت عبادت گزار خاتون تھیں۔(6)

فضلِ خداوندی: حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السّلام کی بیماری کے بعد ربِّ کریم نے آپ کی بیوی صاحبہ رحمت کو جوانی و صحت بخشی، اولاد بہت عطا کی، مال اندازے سے بھی زیادہ عطا فرمایا۔(7)

شرعی مسئلے کا ثبوت: مفسرینِ کرام فرماتے ہیں:بیماری کے زمانے میں حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے خدمت میں حاضر ہوئیں، چونکہ آپ تکلیف و کمزوری کی وجہ سے بہت سے کام خود نہ کر پاتے تھے اور زوجہ ہی مدد گار تھیں تو زوجہ کی غیر موجودگی میں غالباً سخت آزمائش کا معاملہ آیا جس سے بے قرار ہو کر آپ نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔ جب حضرت ایوب علیہ السلام صحت یاب ہوئے تو اللہ پاک نے حکم دیا کہ آپ انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں، لہٰذا انہوں نے سو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار مار دیا۔(8)اس کا ذکر قرآنِ کریم میں یوں ہوا ہے: وَ خُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ١ؕ(پ23،صٓ:44)ترجمہ:اور(فرمایا)اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔ جبکہ ایک روایت میں حضرت سعید بن مسیّب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیوی کو سو چھڑی مارنے کی قسم کھائی کہ بیوی محنت سے روٹی مہیا کرتی تھیں، ایک روز اس نے زائد روٹی آپ کی خدمت میں پیش کی جس پر آپ کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہو سکتا ہے یہ زائد خوراک کسی کے مال میں خیانت کر کے لائی ہیں، تو جب اﷲ پاک کی طرف سے آپ پر خاص رحمت کے ذریعے تکلیف کی شدت ختم ہوئی اور بیوی کے متعلق جو آپ کو شبہ تھا اس کی برأت معلوم ہوئی تو اﷲ پاک نے فرمایا: آپ ایک مُٹّھا(گُچھا) لے کر اپنے ہاتھ سے اس کو مار دیں اور قسم نہ توڑیں۔ (پ23،صٓ:44)تو آپ نے شاخوں کا ایک مُٹّھا (گُچھا)جو سو چھڑیوں کا مجموعہ تھا، لے کر اللہ پاک کے حکم کے مطابق بیوی کو مارا۔ (9)

اس واقعے سے علمائے کرام نے حیلہ شرعی کا جواز ثابت کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جو حیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شبہ پیدا کرنے یا باطل سے فریب دینے کے لئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جو حیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدمی حرام سے بچ جائے يا حلال کو حاصل کر لے وہ اچھا ہے۔ اس قسم کے حیلوں کے جائز ہونے کی دلیل مذکورہ واقعہ ہی ہے۔ (10)

حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب: مفسرِ قرآن ابو سعود محمد آفندی رحمۃُ اللہِ علیہ کے مطابق حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ ہے کہ بیماری کے زمانے میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو اس کی برکت سے اللہ کریم نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔(11)

وصال: آپ حضرت ایوب علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں ہی انتقال کر گئی تھیں، جبکہ ایک قول کے مطابق آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے وصال کے بعد کچھ عرصہ حیات رہیں اور بعدِ وصال ملکِ شام میں آپ کو دفن کیا گیا۔(12)

زوجۂ ایوب کی سیرت سے حاصل ہونے والے نکات:

· اللہ پاک کی نیک بندیاں مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبراتی نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔

· اپنے کسی عمل سے بے صبری کا اظہار نہیں کرتیں۔

· لمبا عرصہ آزمائش میں گھرے رہنے کے باوجود بھی ان کی زبانیں شکوہ شکایات کی آلودگی سے آلودہ نہیں ہوتیں۔

· یہ خوش حالی اور آزمائش ہر حال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہتیں اور صبر و شکر کا دامن نہیں چھوڑتیں۔

· ان کے شوہر کیسی ہی سخت ترین بیماری میں مبتلا ہو جائیں، ان کا اللہ پاک کی ذات پر بھروسا کمزور نہیں ہوتا۔

· وہ شوہر کی خدمت گزاری میں کمی بھی نہیں آنے دیتیں بلکہ اپنے اس عظیم محسن کا مضبوط سہارا بن کر آخری دم تک ان کا ساتھ نبھاتی ہیں۔

· اللہ پاک شوہر کی اطاعت و خدمت گزار بیوی سے راضی ہو کر اسے دنیا کے اندر ہی بے پناہ نعمتوں اور خاص فضل و کرم سے نوازتا ہے۔

اللہ کریم تمام عورتوں خصوصاً شادی شدہ خواتین کو ان پاکیزہ ہستیوں کا صدقہ نصیب فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[1] عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص181 2 نہایۃ الارب،13/135 3 نہایۃ الارب،13/135 4 تفسیر قرطبی،6/188 5 تفسیر کبیر،8/ 173 6 نہایۃ الارب،13/135 7 مراۃ المناجیح،7/575 8 تفسیر بیضاوی،5/49 9 تفسیر در منثور،7/195 0 فتاویٰ ہندیۃ،6/390 A تفسیرابو سعود،4/444ملخصاً B الروضۃ الفیحاء،ص71