(33)
طائرانِ قُدُس جس کی ہیں قمرِیَّاں
اس سہی سَرْو قامت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی: قُمریاں:فاختہ کی طرح خوش
الحان پرندے۔سہی:سیدھا۔سرو:ایک درخت جو سیدھا اور گاجر کی شکل کا
ہوتا ہے۔ قامت: قد۔
مفہومِ شعر:معصوم فرشتے قُمریوں کی طرح حضور کی شان بیان کرتےاور درود بھیجتے ہیں اس قد و قامت والے پہ
لاکھوں سلام۔
شرح:طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں:قرآنِ پاک میں
ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى
النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا
تَسْلِيْمًا0(پ22،الاحزاب:56)ترجمہ:
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
امام
سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:درود شریف کی آیت
مدنی ہے اور ا س کا مقصد یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں کو اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وہ
قدر و منزلت بتا رہا ہے جو ملأِ اعلیٰ(یعنی فرشتوں)میں اس کے حضور ہے کہ وہ
مُقَرّب فرشتوں میں اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ثنا بیان
فرماتا ہے اور یہ کہ فرشتے آپ پر صلاۃ بھیجتے ہیں، پھر عالَمِ سِفلی کو حکم دیا کہ
وہ بھی آپ پر صلاۃ و سلام بھیجیں تاکہ نیچے
والی اور اوپر والی ساری مخلوق کی ثنا آپ پر جمع ہو جائے۔([1])
سہی سرو قامت:حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:حضورِ
انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد، بلکہ آپ درمیانی
قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوبصورت تھا، جب آپ چلتے تو کچھ خمیدہ ہو
کر چلتے تھے۔(2) جبکہ حضرت علی
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب چل رہے ہوتے تو ایسے
معلوم ہوتا گویا کہ آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں، میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے
دیکھا نہ آپ کے بعد۔(3)
الغرض
سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور میانہ قد تھے لیکن یہ آپ کی معجزانہ شان ہے کہ
اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تو آپ کا سرِ مبارک سب سے اونچا نظر
آتا تھا۔(4) اعلیٰ حضرت نے ایک مقام پر قدِ مصطفٰے کی شان و عظمت کو
یوں بھی بیان فرمایا ہے:
قدِ بے سایہ کے سایۂ مرحمت ظلِّ ممدودِ رأفت پہ لاکھوں
سلام
(34)
وصف جس کا ہے آئینۂ حق نما
اس خدا ساز طلعت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:وصف: خوبی۔ حق
نما: اللہ پاک کی راہ دکھانے والا۔ خدا ساز:خدا کی پہچان کرانے والا۔ طلعت:
چہرہ
مفہومِ شعر:جو چہرہ مبارک حق کودیکھنے کا آئینہ ہے، خدا کی
پہچان کرانے والے اس چہرے کی نورانیت پہ لاکھوں سلام۔
شرح:حدیثِ
پاک میں ہے:مَنْ رَآنِی فَقَدْ رَأَى الْحَقّ یعنی جس نے
مجھے دیکھا یقیناً اُس نے حق کو دیکھا۔(5) بعض لوگ اس حدیث کے معنی یہ
کرتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد ربِّ کریم کی ذات ہے اور معنی یہ ہیں کہ جس نے مجھے
دیکھا اس نے خدا کو دیکھ لیا کیونکہ حضور انور آئینہ ِذاتِ کبریا ہیں جیسے کہا
جائے:جس نے قرآن ِمجید پڑھا اس نے ربِّ کریم سے کلام کر لیا یا جس نے بخاری دیکھی
اس نے امام محمد بن اسماعیل کو دیکھ لیا۔اگرچہ بعض لوگ اس معنی کی تردید
کرتے ہیں لیکن ہم نے جو توجیہ عرض کی اس توجیہ سے یہ معنی درست ہیں۔ قرآنِ کریم نے
حضورکو ذکرُ اللہ فرمایا،کیونکہ حضور (صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔(6)یہی قول شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ
اللہِ علیہ
کا بھی ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا روئے منور ربِّ کریم کے جمال کا
آئینہ ہے اور اللہ پاک کے انوار و تجلیات کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد
نہیں۔(7)
خدا ساز طلعت:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایامِ وصال میں یارِ با وفا حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، اچانک آقائے کائنات صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھا تو
ہمیں یوں محسوس ہوا: كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ گویا حضور
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے۔ (8)
(35)
جس کے آگے سرِ سَروَراں خَم رہے
اس سرِ تاجِ رِفعت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:سرِ سَروَراں:بادشاہوں
کے سر۔
مفہومِ شعر:اس سرِ مبارک کی بلندی اور مرتبے پہ لاکھوں سلام جس
کے آگے بادشاہوں کے سر جھک گئے۔
شرح:سر تاجِ رفعت:یعنی حضور
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سرِ اقدس کی یہ شان ہے کہ بڑے بڑے باشاہوں اور تاجوروں
کے سر آپ کے آگ جھک گئے اور اللہ
پاک نے آپ کے سر ِاقدس پر نعمت و برتری کا
ایسا تاج سجایا کہ تمام بلندیاں اور رفعتیں
وہاں سے خیرات پا رہی ہیں۔
(36)
وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا
لَکَّۂ ابرِ رَحمت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:کرم:
رحمت۔گیسو: بال مبارک۔مشک سا: کستوری کی مثل۔لکہ: ٹکڑا۔ابر:
بادل۔
مفہومِ شعر:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زلفیں کرم کی
گھٹا جیسی ہیں جن سے مشک کی خوشبو مہکتی ہے،ابرِ رحمت کے اس ٹکڑے پہ لاکھوں سلام۔
شرح:صحیح
بخاری شریف میں ہے: اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور نبیِّ
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بال مبارک تھا جسے آپ نے چاندی کی ڈبیہ میں
رکھا ہوا تھا، مدینہ منورہ میں جب کوئی بیمار ہو جاتا تو آپ بال مبارک کو پانی میں
بھگو دیتیں اور پھر وہ مبارک پانی مریض کو پلایا جاتا تو وہ شفا پا جاتا تھا(9)۔(10)
جب
نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حلق کراتے (یعنی بال مبارک اُترواتے) تو
صحابہ کرام علیہم الرضوان بال حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وار گھومتے تھے۔صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضور نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کے بال مبارک عذابِ قبر سے حفاظت کا نسخہ ہیں۔جیسا کہ کاتبِ وحی جلیل القدر صحابیِ رسول حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک موجود تھے اور آپ نے وصیت فرمائی کہ ان بالوں کو
میرے ساتھ میری قبر میں رکھ دیا جائے۔(11)
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]القول
البدیع،ص85 2شمائل محمدیہ،ص16،حدیث:2 3شمائل محمدیہ، ص19،حدیث:5 4سیرتِ مصطفے،ص566 5بخاری،4/407،حدیث: 6996 6مراۃ
المناجیح،6/286ملتقطاً 7مدارج
النبوۃ،1/3 8بخاری،1/243،حديث:680 9بخاری،4/76،حدیث:5896ماخوذاً 0عمدۃ القاری،15/94،تحت الحدیث: 5896ملخصاً Aتاریخِ ابن عساکر،59 /229ملخصاً