ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو آپ
نے اسی دن وہ سب قریبی رشتے داروں اور فقیروں میں تقسیم فرما دئیے۔ یہاں تک کہ شام
کے کھانے کے لئے بھی کچھ نہ بچایا حالانکہ اس دن آپ خود روزے سے تھیں۔ جب خادمہ نے
عرض کی کہ اگر ایک درہم ہی بچا لیتیں تو اچھا ہوتا! تو اس کی دل جوئی کے لئے ارشاد
فرمایا: یاد نہیں رہا، اگر یاد آ جاتا تو بچا لیتی۔([1])
راہِ خدا میں خرچ کرنا چونکہ دنیا و آخرت میں نجات
اور برکات کا ذریعہ ہے، لہٰذا ہماری بزرگ خواتین کا معمول
تھا کہ راہِ خدا میں خوش دلی سے خرچ کر کے اللہ پاک کی خوب رضا حاصل کرتیں۔ جیسا
کہ مذکورہ واقعے سے معلوم ہو رہا ہے کہ ہماری بزرگ خواتین راہِ خدا میں مال خرچ
کرتیں تو اپنے ذاتی اخراجات کی بھی فکر نہ کرتیں کیونکہ ان کا اللہ پاک پر یقین
کامل تھا، نیز وہ توکل کے اعلیٰ مرتبے پر ہی فائز نہ تھیں بلکہ وہ بخوبی جانتی تھیں
کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں
ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔(2)
اس حوالے سے ہمارا جذبہ اگرچہ بزرگ خواتین جیسا تو
نہیں مگر ہم کم از کم اتنا تو کر سکتی ہیں کہ جتنی استطاعت ہو اس کے مطابق ہی راہِ
خدا میں خرچ کرنے کی عادت بنا لیں۔ الحمد
للہ! دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں ایسی بہت سی خوش نصیب اسلامی بہنیں ہیں کہ جب
ان سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
اپنے زیورات تک دے دیئے، بعضوں نے اپنی برسوں
کی جمع پونجی راہِ خدا میں دے دی، اللہ پاک انہیں اس کی جزا ضرور عطا فرمائے گا یہ
اس کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ١ۚ وَ هُوَ خَيْرُ
الرّٰزِقِيْنَ0(پ22،السبا:39)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: اور
جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر
رزق دینے والا ہے۔
ایک روایت میں ہے: روزانہ دو فرشتے
نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک دعا مانگتا ہے:
یا اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما دے۔ جبکہ دوسرا یوں عرض کرتا ہے: بخل
کرنے والے کو برباد کر دے۔(3) نیز خرچ کی قدرت ہونے کے باوجود
صدقہ و خیرات سے ہاتھ روک لینا ربِ کریم کی طرف سے ملنے والی نعمتوں سے محرومی کا
سبب بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نے مجھ
سے فرمایا: خرچ کرنے کے معاملے میں ہاتھ
نہ روکو ورنہ تم سے بھی روک لیا جائے گا۔(4) اس لئے ہمیں چاہئے کہ خوش دلی کے ساتھ حسبِ
توفیق راہِ خدا میں مال خرچ کرتی رہیں اور
اگر زیادہ مقدار میں خرچ کرنے کی استطاعت نہ ہو تب بھی شیطان کے بہکاوے میں آکر تھوڑے مال کو کم
سمجھتے ہوئے راہِ خدا میں خرچ کرنے سے
محروم نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ پاک ہماری نیتوں کو ملاحظہ فرماتا ہے، اس لئے کہ کسی کی
اچھی نیت کی وجہ سے اس کا تھوڑا مال ہی بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو جاتا ہے اور کسی
کی بری نیت کی بنا پر اس کے لاکھوں روپے بھی قبول نہیں ہو پاتے۔ جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک صحابی کو دن
بھر کی مزدوری میں دو صاع کھجوریں ملیں، انہوں نے نصف گھر والوں کو دیں اور باقی
نصف کھجوریں لے کر جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اپنے اس جاں نثار
صحابی کے خلوص کو قبول کرتے ہوئے ان کی لائی ہوئی کھجوروں کو تمام مالوں کے ڈھیر کے
اوپر رکھ دیا۔(5)مگر
اس شخص کا مال حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے اللہ پاک کے حکم پر قبول نہ فرمایا کہ جس نے اپنے
کثیر مال میں صدقہ و زکوٰۃ کی ادائیگی کو ٹیکس گمان کیا۔ حالانکہ وہ انتہائی مفلس
تھا اور اسے یہ سارا مال حضور کی دعا کی برکت سے ہی حاصل ہوا تھا۔ پھر بعد میں وہ
شخص خلافتِ صدیقی و فاروقی میں بھی مال لے کر آیا مگر ان دونوں ہستیوں میں سے بھی
کسی نے قبول نہ کیا اور آخر کار یہ شخص خلافتِ عثمانی میں ہلاک ہو گیا۔ (6)
یہ بھی یاد رکھئے کہ غریبوں کی مدد کرنا اگرچہ راہِ
خدا میں خرچ کرنا ہی ہے تاہم پیشہ ور بھکاریوں پر خرچ کرنا اس میں داخل نہیں، ایسے
لوگوں پر اپنا مال خرچ کرنا در حقیقت ان سے ہمدردی نہیں بلکہ بھیک مانگنے کے گناہ
پر ان کی مدد ہے، لہٰذا ایسے بھکاریوں کے بجائے ان مستحق سفید پوش افراد پر اپنا
مال خرچ کیجئے جو خود داری کے سبب کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور مستحقین کو
جھڑکا بھی نہ جائے کہ اس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے، اگر آپ کے رشتے داروں میں کوئی ضرورت مند
ہیں تو پہلے ان کی معاونت کیجئے کہ حضور صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس
کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا! اﷲ پاک اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا، جس
کے رشتے دار اس کے سلوک کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے، قسم ہے اس کی جس
کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! اللہ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔(7) رشتے داروں میں بھی زیادہ افضل اس رشتے دار پر خرچ کرنا ہے جس سے ناراضی ہو
کہ عموماً اسے دینے کا دل نہیں کرتا پھر بھی فقط رضائے الٰہی کیلئے دیں تو ان شاء اللہ اس پر زیادہ اجر ملے
گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کینہ پرور رشتے دار کو دیا
جائے کیونکہ اسے صدقہ دینے میں صدقہ بھی ہے
اور صلہ رحمی بھی۔(8)
ہمیں خوب غور
کر لینا چاہیے کہ ہمارا مال کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ کہیں فضول اور بے مصرف کاموں میں
تو نہیں ضائع ہو رہا؟ کیونکہ ہم میں کئی خواتین ضرورت سے زیادہ کپڑے، برتن اور گھر
کے غیر ضروری سامان میں پانی کی طرح پیسہ بہاتی ہیں جو کہ کمائی کرنے والے پر بھی بہت بوجھ بنتا ہے
اور مالی حوالے سے بھی تنگی اور پریشانی کا
سامنا رہتا ہے اور بسا اوقات نوبت لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتی ہے، نیز گھر میں اتنی
وسعت بھی نہیں ہوتی کہ اتنا سامان رکھا جائے۔
اسی طرح اگر بعض خواتین میں کبھی صدقہ کرنے کا جذبہ
پیدا ہوتا بھی ہے تو بعض اوقات وہ کسی ایسی خاتون یا فقیر کو دیدیتی ہیں جو مستحق ہی نہیں
ہوتا یا پھر ایسے افراد پر خرچ کرتی ہیں جو بعد میں بھی اسی آسرے پر رہتے ہیں کہ
کوئی انہیں کچھ دیدے اور یوں ان میں سوال کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، چنانچہ یاد
رکھئے! خرچ کرنے کے بھی آداب ہیں کہ کس پر خرچ کیا جائے اور کس پر نہیں۔ مثلاً قرآنِ
کریم میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے والدین،
قریبی رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں پر خرچ کریں۔(پ2، البقرۃ: 215)
اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی سعادت
عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کےاگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]تفسیر کبیر،8/257 2مسلم،
ص 1397، حديث:2588 3 بخاری،1/485،حدیث:1442 4
بخاری،1/483،حدیث:1433 5تفسیر خازن،2/ 265 6تفسیرمدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: 75، ص 446، ملتقطاً 7معجم اوسط، 6/296، حدیث: 8828 8مستدرک، 2/
27، حدیث: 1515