دورِ جاہلیت میں عرب کے لوگ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے، اسلام نے جہاں عربوں کو تہذیب و تمدن اور علم کے زیور سے آراستہ کیا، جس کی بدولت مرد حضرات علم کے سمندر سے سیراب ہونے لگے، وہیں عورتوں میں بھی علم کی پیاس بڑھنے لگی، وہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے خاص مواقع مثلاً عیدین وغیرہ میں حاضری کی منتظر رہتیں، ان کی علمی پیاس روز روز بڑھتی چلی گئی، اس کا اظہار اس وقت سامنے آیا، جب ایک صحابیہ نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے لئے بھی کچھ خاص وقت ہونا چاہئے، جس میں وہ دین کی باتیں سیکھ سکیں، ان میں یہ شعور حضور پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی نظرِ رحمت کا نتیجہ تھا، کیونکہ آپ صلّی اللہُ علیہ وسلّم کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ عورت پر پوری نسل کی تعلیم و تربیت کا انحصار ہے۔

چنانچہ آپ نے خواتین کو جہاں بحیثیت ماں، بہن، بیٹی کی عظمت بخشی، ان کے حقوق مقرر کئے، وہیں ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا، تا کہ ان کی گود میں ایک صحت مند نسل تیار ہو کر معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔

اسلام وہ واحد دین ہے، جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کے لئے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، سب کے لئے علم حاصل کرنا ضروری ہے، رسول پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے فرمایا:طَلَبُ الْعِلْمُ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت) پر فرضِ عین ہے۔" (ابن ماجہ، صفحہ 49، حدیث 224، صحابیات و صالحات کے اعلی اوصاف، ص107)

خواتین معاشرے کا اہم فرد ہیں، ان کی تعلیم و تربیت اگر بہترین انداز میں ہو تو اس سے نہ صرف ایک گھرانہ، بلکہ ایک بہترین معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔

سرکار مدینہ صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے علمِ دین سیکھنے کے بارے میں خواتین کی حوصلہ افزائی فرمائی، ہم علمِ دین حاصل کر کے دنیا و آخرت سنوار سکتے ہیں، جب ایک عورت علمِ دین حاصل کرے گی تو وہ دینی مسائل جانتی ہو گی، زندگی کے ہر باب پر دینِ اسلام کی روشنی میں مسائل حل کر سکے گی، اس طرح ایک اچھی نسل پروان چڑھا کر ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے گی، کیونکہ تعلیم یافتہ عورت پورے گھرانے کے لئے مشعلِ راہ ہے، اس کا بہترین ذریعہ دعوت اسلامی کے مدارس و جامعات ہیں، جہاں بغیر معاوضے کے اسلامی بہنیں عالمہ کورس کرکے عالمہ بن کر اپنی دنیا اور آخرت سنوار رہی ہیں۔

عورت کے لئے پردہ کرنا فرض ہے، جب تک وہ اس کے بارے میں علم حاصل نہیں کرے گی، وہ شرعی پردہ کس طرح کر پائے گی کہ مجھے کس کس سے پردہ کرنا ہے اور کس سے پردہ نہیں کرنا، یہ معلومات حاصل کرنے کے لئے اس کا علم حاصل کرنا ہوگا ،ورنہ شرعی مسائل کو جان نہ سکے گی، عالمہ کورس کرنے سے فرض علوم سیکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ تمام مہلکات مثلاً جھوٹ، غیبت، حسد، خود پسندی وغیرہ کے بارے میں علم حاصل کرنا بے حد آسان ہوگیا ہے۔

دعوت اسلامی ان تمام شعبہ جات میں پیش پیش ہے، مدارس و جامعات میں اسلامی بہنوں کے لئے اعلی سطح پر تعلیم کا انتظام ہے، اب تو علمِ دین کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جارہی ہے، تاکہ دنیاوی اعتبار سے بھی خواتین کسی سے کم تر نا کہلائیں، علماء انبیاء کے وارث ہیں، یہ اتنی بڑی فضیلت علمِ دین حاصل کرنے کی ہی ہے۔

ہمارے اسلاف پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات اور اُمہات المؤمنین کی زندگی خواتین کے لئے بہترین نمونہ ہے، صحابیات علمِ دین حاصل کرنے کے جذبے سے سرشار تھیں، انہوں نے سرکار صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے علمی مسائل سیکھے، اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ، طاہرہ، عالمہ، زاہدہ کی علمی شان و شوکت ہے۔

حضرت سیدنا موسٰی اشعری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اشکال ہوتا تو ہم آپ رضی اللہُ عنہا کے پاس سے ہی اس بات کا علم پاتے۔" (سنن ترمذی، صفحہ 873، حدیث3882)

اس سے حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کی علمی حیثیت کا معلوم ہوتا ہے، آپ کے سامنے بڑے بڑے اہلِ علم کی عقلیں اور زبانیں گنگ نظر آتیں، آپ بہترین عالم اور زبردست فقیہہ تھیں۔ حضرت سیدناعطا رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔ ( المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ کانت عائشہ افقہ الناس)

معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کو اللہ پاک نے علم و فقاہت کی نعمتوں اور بھرپور ذہنی صلاحیتوں سے نواز کر اس حوالے سے سب سے ممتاز کر دیا، اپنی امی جان کی سیرت طیبہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو چاہئے کہ اپنے دل میں جذبہ علمِ دین بیدار کریں، اللہ پاک ان کے صدقے ہمیں بھی علم دین حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (فیضان عائشہ صدیقہ)

حضرت عائشہ کا یہ روشن پہلو اسلامی بہنوں کی توجّہ کا طالب ہے، اسلامی بہنوں کو چاہئے کہ وہ علمِ دین حاصل کر کے خود کو دنیا و آخرت میں سرخرو کریں، مگر افسوس! اس وقت جبکہ علم دین حاصل کرنا مشکل نہ رہا، ہماری اکثریت علم سے دور دکھائی دیتی ہے، نماز پڑھنے والیوں کو وضو کا درست طریقہ معلوم نہیں ہوتا، کثیر عورتیں رمضان کے فرض روزوں، حج و زکوۃ کے ضروری مسائل سے نا آشنا ہیں اور ہماری صحابیات کو جب بھی کوئی دینی اور دنیاوی الجھن ہوتی تو فوراً بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اس کا حل معلوم کر لیا کرتی تھیں، اے کاش! ہمیں بھی علمِ دین حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوجائے اور اپنی آخرت سنوارنے کی فکر پیدا ہوجائے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم اسلامی بہنوں کے اندر خوب علم دین سیکھنے کا، اس پر عمل کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے، تاکہ ہم اپنی دنیا وآخرت کو سنوار سکیں۔آمین

(یہ مضمون صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف حصہ اول کے باب صحابیات اور شوقِ علم دین کے صفحہ 102 سے 138 تک میں سے لکھا ہے اور فیضان عائشہ صدیقہ کتاب سے کچھ حوالے لئے ہیں)