ہمارے آقا ہمارے مولیٰ امام اعظم ابو حنیفہ

ہمارے ملجا ہمارے ماویٰ امام اعظم ابو حنیفہ

امام اعظم ابو حنیفہ کا نام مبارک نعمان ، والد کا نام ثابت اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ ہے، لقب امام اعظم اور سراج الامہ ہے، امام اعظم نے مرکز علم کوفہ میں آنکھ کھولی اس شہر کی علمی فضا کو معلم امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللهُ عنہ اور مدینۃ العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دیگر صحابہ و تابعین کی سرپرستی کا شرف حاصل تھا، آپ نے ائمہ حدیث و فقہ سے خوب خوب استفادہ حاصل کیا چنانچہ خود بیان فرماتے ہیں:"میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہماور ان کے اصحاب و تلامذہ کی فقہ حاصل کرچکا ہوں۔" (صفحہ30، سیرت امام ابو حنیفہ، حیات امام ابو حنیفہ ص67)

امام اعظم کی محدثانہ حیثیت پر کلام کرتے ہوئے مخالفین نے طرح طرح کی باتیں کی ہیں،بعض ائمہ حدیث نے حضرت امام اعظم پر حدیث میں ضعف کا طعن کیا ہے، خطیب نے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ (فتح الباری 1/112)

علامہ ابن خلدون رقمطراز میں:"امام اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے صرف 17 احادیث مروی ہیں یا اس کے قریب قریب یہ بعض حاسدوں کی خام خیالی ہے کہ جس اِمام سے روایت کم مروی ہوں، وہ حدیث نہیں قلیل النضاعت ہوتا ہے، حالانکہ ایسا لغو تخیل کیا ائمہ کے بارے میں سخت گستاخی وبے عقلی نہیں ہے۔؟ (سیرت امام اعظم، ص236، مقدمہ ابن خلدون، ص447)

حقیقت یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ نے چار ہزار مشائخ ائمہ تابعین سے حدیث اخذ کی ہیں، آپ وہ پہلے امام تھے، جنہوں نے ادلہ شرعیہ سے مخصوص اصول و ضوابط کے تحت استنباط و اجتہاد کا کام کیا اور خلاصہ یہ ہے کہ یہ کام بغیر فن حدیث کی مہارت ہو نہیں سکتا۔

امام اعظم کی حدیث فانی کا اعتراف: یحییٰ بن معین فرماتے ہیں "امام ابو حنیفہ حدیث میں شقہ تھے، ان میں اصول جرح و تعدیل کی رُو سے کوئی عیب نہیں تھا۔" ان اقوال کی روشنی میں امام اعظم پر قلت حدیث کا طعن بے بنیاد ہوکر رہ جاتا ہے۔" امام اعظم جب دنیا سے کنارہ کش ہوکر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی ہڈیوں کو مزار اقدس سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کررہا ہوں اور جب پریشان ہوکر اُٹھے تو امام بن سیرین سے تعبیر معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے اور آپ کو سنت نبوی کے پرکھنے میں وہ مرتبہ عطا کیا جائے گا کہ احادیث صحیحہ کو موضوع حدیث سے جُدا کرنے کی شناخت ہو جائے گی، اس کے بعد دوبارہ پیارے آقا کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے، تو آپ نے فرمایا اے ابو حنیفہ اللہ پاک نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کے لئے فرمائی ہے، لہذا دنیا سے کنارہ کش مت ہو۔ (تذکرہ الاولیاء، ص122)

قبول حدیث کا معیار: یہ خواب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی علم حدیث میں بلند مرتبہ کا ٹھوس ثبوت ہے، علم حدیث میں امام اعظم کا سب سے اہم کارنامہ قبول روایت اور وہ معیار و اصول ہیں جنہیں آپ نے وضع کیا جن سے بعد کے علمائے حدیث نے فائیدہ اٹھایا۔ (سیرت امام اعظم، ص240)

فہم حدیث: امام اعظم صاحبِ حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی روایات پر زور نہیں دیتے تھے، بلکہ وہ احادیث کے مفہوم اور سائل فقیہہ کی تخریج و انسباط پر زور دیتے تھے، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میرے نزدیک حدیث کی تفسیر اور حدیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کا جاننے والا امام اعظم سے بڑھ کر کوئی نہیں، مزید فرماتے ہیں: مجھ سے زیادہ امام صاحب کے متبع سفیان ثوری ہیں، سفیان ثوری نے ایک دن ابن مبارک سے امام اعظم کی تعریف بیان کی فرمایا کہ وہ ایسے علم پر سوار ہوتے ہیں، جو برچھی کی انی سے زیادہ تیز ہے، خدا کی قسم وہ غایت درجہ علم کو لینے والے محارم سے بہت رکھنے والے، اپنے شہر والوں کی بہت اتباع کرنے والے ہیں، صحیح حدیث کے سوا دوسری قسم کی حدیث لینا مبتول حلال نہ جانتے۔ (سیرت امام اعظم، ص243-242، الخیرات الحسان، ص61)

ان تمام اقوال سے امام اعظم ابو حنیفہ کا حدیث میں مقام معلوم ہوتا ہے، آپ علم حدیث کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔

تمہارے آگے تمام عالم نہ کیوں کرے زانوئے ادب خم

کہ پیشوایانِ دیں نے مانا امام اعظم ابو حنیفہ

تلامذہ حدیث: آپ کے حلقہ درس میں کثیر تعداد میں علم حدیث سیکھنے والے موجود ہوتے، علامہ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا ہے کہ امام اعظم سے حدیث کا سماع کرنے والے مشہور حضرات میں حماد بن لغمان اور ابراہیم بن طہمان، حمزہ بن حبیب، قاضی ابو یوسف، اسد بن عمرو ابو نعیم، ابو عاصم شامل تھے، وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یاد تھیں، امام مکی بن ابراہیم آپ کے شاگرد تھے اور امام بخاری کے استاد تھے، امام اعظم کوفہ جیسے عظیم شہر میں جو فقہ و حدیث کا بڑا مرکز تھا پرورش پائی، آپ کا حدیث میں مقام بہت بلند تھا، بڑے بڑے اساتذہ سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا، ان کے علاؤہ جلیل القدر تابعین سے بھی استفادہ حاصل کیا، بعض اہل علم نے آپ کے مشائخ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے، ان میں اکثریت محدثین کی ہے، آپ کے تلامذہ کی بڑی تعداد محدثین کی ہے۔

امام اعظم اور عمل بالحدیث: امام اعظم پر طعن کرنے والے کہتے ہیں کہ آپ حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس و رائے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس مقام میں کوئی آپ کے برابر نہیں، سفیان فرماتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہ سے فرماتے سُنا کہ میں قرآن پاک سے حکم کرتا ہوں تو جو اِس میں نہیں پاتا، اس کا حکم رسول اللہ کی حدیث سے لیتا ہوں اور جو قرآن اور حدیث میں نہیں پاتا، اس میں صحابہ کرام کے اقوال سے حکم کرتا ہوں اور جس صحابی کے قول سے چاہتا ہوں سند پکڑتا ہوں اور جس کا قول چاہتا ہوں نہیں لیتا ہوں اور صحابہ کرام کے قول سے باہر نہیں جاتا لیکن جب حکم ابراہیم اور شعبی اور ابن سیرین اور حسن اور عطا اور سعید بن مسیب وغیرہ تک پہنچتا ہے تو ان لوگوں نے اجتہاد کیا، میں بھی اجتہاد کرتا ہوں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔ (تبہییض الصحیفہ 23، سیرت امام اعظم، ص250)

یہ اعتراض کہ آپ حدیث پر قیاس کو مقدم کرتے ہیں بالکل غلط کے، یہ آپ پر صریح بہتان ہے، آپ کی شخصیت علمی دینی اور روحانی شخصیت ہے، سفیان فرماتے ہیں:"علم میں لوگ ابوحنیفہ سے حسد کرتے ہیں۔" امام اعظم میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں، جو ایک بلند پایہ عالم دین میں ہونی چاہئیں، علم حدیث میں کوئی آپ کا ثانی نہیں، مال و دولت کی فراوانی کے باوجود بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے، اکثر ارباب تاریخ کا بیان ہے کہ امام صاحب کی وفات 150ھ میں ہوئی، آپ نے رجب میں انتقال فرمایا، علی بن ہاشم کا قول ہے۔ (بحوالہ مناقب موفق، 1/120)

"ابو حنیفہ علم کا خزانہ تھے جو مسائل بہت بڑے عالم پر مشکل ہوتے تھے، آپ پر آسان ہوتے تھے۔" (سیرت امام اعظم، ص263)

کہ جتنے فقہا محدثین ہیں تمہارے خرمن سے خوشہ چیں ہیں

ہوں واسطے سے کہ بے وسیلہ امام اعظم ابو حنیفہ

سراج تو ہے بغیر تیرے جو کوئی سمجھے حدیث و قرآن

پھرے بھٹکتا نہ پائے رستہ امام اعظم ابو حنیفہ

(حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان صاحب سالک نعیمی علیہ الرحمۃ)