جنت سے محروم عورتیں

Fri, 19 Aug , 2022
1 year ago

صحیح مسلم شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:صِنْفَانِ مِنْ اَهْلِ النَّارِ لَمْ اَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ،وَ نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ،رُءُوْسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ،لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ،وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَاِنَّ رِيْحَهَا لَتُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ كَذَا وَكَذَا۔([1]) یعنی جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے(اس زمانے میں) نہیں دیکھا: (1)وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو(ناحق) ماریں گے۔ (2)وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سَر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ایک جانب جھکے ہوئے ہونگے، وہ جنت میں داخل ہوں گی نہ جنت کی خوشبو سونگھیں گی،حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے آتی ہو گی۔

شرحِ حدیث

مذکورہ حدیثِ پاک میں جہنمی عورتوں کے تین اوصاف بیان ہوئے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے:

(1)لباس پہننے کے باوجود برہنہ:اس حدیثِ پاک میں عورتوں کے لباس پہننے سے مراد یا تو یہ ہے کہ وہ اللہ پاک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گی، جبکہ بے لباس ہونے سے مراد ہے کہ وہ نعمتوں کا شکر ادا نہ کریں گی یا پھر یہ مراد ہے کہ ظاہری طور پر تو لباس پہنیں گی مگر حقیقت میں بے لباس ہوں گی، وہ اس طرح کہ ایسا باریک لباس پہنیں گی جس سے ان کا بدن جھلکے گا۔(2) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہحدیثِ مبارکہ کے ان الفاظ کے تحت فرماتے ہیں: جسم کا کچھ حصہ لباس سے ڈھکیں گی اور کچھ حصہ ننگا رکھیں گی یا اتنا باریک کپڑا پہنیں گی جس سے جسم ویسے ہی نظر آئے گا۔ یہ دونوں عیوب آج دیکھے جا رہے ہیں یا اللہ پاک کی نعمتوں سے ڈھکی ہوں گی، شکر سے ننگی یعنی خالی ہوں گی یا زیوروں سے آراستہ(اور) تقویٰ سے ننگی ہوں گی۔(3)

لباس اللہ پاک کی نعمت ہے: لباس اللہ پاک کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے قرآنِ پاک میں لباس کے دو اہم مقاصد مذکور ہیں: (1)سترِ عورت (2) زینت۔سترِ عورت چھپانے کے قابل لباس پہننا فرض ہے اور لباسِ زینت پہننا مستحب ہے۔ (4) چنانچہ پارہ 8 سورۃ الاعراف کی 26 ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے: يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيْشًا ١ؕ ترجمہ:اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے۔

فیشن کے نام پر بےپردگی: ہونا تو یہ چاہئے کہ لباس اللہ پاک کی رضا کے مطابق پہنا جاتا مگر افسوس! فی زمانہ دیگر بڑھتی ہوئی برائیوں کے ساتھ ساتھ لباس کے معاملے میں بھی فیشن وغیرہ کے نام پر شرعی اَحکام کو پامال کیا جا رہا ہے۔ کبھی لباس ایسا ہوتا ہے جو پورے بدن کو ڈھانپتا ہی نہیں مثلاً ہاف آستین یا بغیر آستین(sleeve less) والا کرتہ، ٹخنوں سے اونچا پاجامہ وغیرہ اور کبھی اتنا باریک ہوتا ہے کہ جسم کی رنگت وغیرہ نظر آتی ہے جیسے باریک لان کے کپڑے، باریک ململ یا جالی (Net) والا دوپٹہ وغیرہ۔ یونہی کبھی لباس باریک تو نہیں ہوتا لیکن اس قدر تنگ اور چست ہوتا ہے کہ اعضا کی ہیئت ظاہر ہوتی ہے جیسے چوڑی دار پاجامہ، ٹائٹس (Tights)، پینٹ شرٹ وغیرہ۔ باریک لباس پہن کر اپنے بدن کی نمائش کرنے والیوں پر حدیثِ مبارکہ میں لعنت بھی کی گئی ہے۔(5) نیز باریک کپڑوں میں سے بدن چمکے يا سر کے بالوں يا گلے يا بازو یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی حصہ کھلا ہو یوں کسی نامحرم کے سامنے ہونا سخت حرامِ قطعی ہے۔(6)کیونکہ عورت کیلئے چہرے کی ٹکلی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں پاؤں کے تلووں کے علاوہ تمام بدن، بلکہ سر کے لٹکتے ہوئے بال، گردن اور کلائیاں چھپانا بھی ضروری ہے۔(7) فی زمانہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے نامحرم کے سامنے عورت کو اپنا چہرہ کھولنا بھی منع ہے۔(8)

شرعی مسئلہ: یاد رہے! اتنا باریک کپڑا جس سے بدن کی رنگت جھلکے یا اتنا باریک دوپٹہ جس سے بالوں کی سیاہی نظر آئے اسے پہن کر نماز پڑھی تو نماز نہ ہو گی۔ ایسا کپڑا جس سے بدن کا رنگ تو نہ چمکتا ہو لیکن وہ اتنا تنگ اور بدن سے چپکا ہوا ہوکہ دیکھنے سے عُضْو کی ہیئت معلوم ہوتی ہو، ایسے کپڑے سے نماز تو ہو جائے گی مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا جائز نہیں اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے۔(9)

تفریح گاہوں،شادیوں وغیرہ پر ہماری حالت:فی زمانہ پردے کی اہمیت ہی ذہنوں اور دلوں سے ختم ہو چکی ہے۔ بالخصوص تفریح گاہوں، شادیوں اور دیگر فنکشنز کے موقع پر تو بے پردگی کے دلسوز مناظر خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ حتی کہ ان مواقع پر بظاہر پردہ دار کہلانے والی خواتین بھی پردے کی تمام تر حدود کو یہ کہہ کر پامال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ بھئی خوشی کے موقع پر تو سب چلتا ہے۔ حالانکہ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سب نہیں چلتا بلکہ خوشی ہو یا غمی صرف اللہ پاک و رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حکم ہی چلتا ہے۔

یاد رکھئے! پردہ بلاشبہ مسلم عورت کی پہچان، ہر عورت کی زینت اور عزت و عصمت کا محافظ ہی نہیں بلکہ اللہ پاک و رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا حاصل کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جبکہ بے پردگی، حیا سوز لباس پہننا اور اپنے بدن کی نمائش کرنا اللہ پاک کی ناراضی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، چنانچہ ایسے کام کرنے والیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کمزور اور نرم و نازک جسم جس کی آج وہ نمائش کرتی پھرتی ہیں اللہ پاک کی ناراضی کی صورت میں یہ قبر میں کیڑوں کی خوراک اور پھر جہنم کا ایندھن بنے گا۔

(2) مائل کرنے اور مائل ہونے سے مراد:یعنی دوپٹہ اپنے سر سے اور برقعہ اپنے منہ سے ہٹا دیں گی تاکہ ان کے چہرے ظاہر ہوں یا اپنی باتوں یا گانے سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طرف مائل ہوں گی۔(10)

(3)ان کے سر بختی اونٹنیوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے: مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ مبارکہ کے اس حصے کے تحت فرماتے ہیں:اس جملہ مبارکہ کی بہت تفسیریں ہیں۔ بہتر تفسیر یہ ہے کہ وہ عورتیں راہ چلتے شرم سے سر نیچا نہ کریں گی بلکہ بےحیائی سے اونچی گردن کیے،سر اٹھائے ہر طرف دیکھتی، لوگوں کو گُھورتی چلیں گی جیسے اونٹ کے تمام جسم میں کوہان اونچی ہوتی ہے ایسے ہی ان کے سر اونچے رہا کریں گے۔(11)

الغرض ہمیں مغربی تہذیب کو نہیں بلکہ صحابیات و صالحات کو اپنا رول ماڈل بنانا ہے۔ ہمیں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور سیدہ خاتونِ جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہُ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ خاتونِ جنت رضی اللہُ عنہا کی شان تو یہ تھی کہ بعد از وصال کفن میں ڈھکے ہوئے مبارک بدن پر بھی کسی نامحرم کی نظر پڑنا گوارا نہ تھا۔ اے اللہ پاک! خاتونِ جنت رضی اللہُ عنہا کی شرم و حیا کا صدقہ ہمیں بھی شرم و حیا کی دولت عطا فرما۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

نہ دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو

کہ سارے پھول یہ کاغذ کے ہیں خدا کی قسم!

وہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل

جہاں ہیں عائشہ و فاطمہ کے نقشِ قدم

تری حیات ہے کردارِ رابعہ بصری

ترے فسانے کا موضوع ہے عصمتِ مریم


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1]مسلم،ص 1171، حدیث: 7194 ملخصاً 2جہنم میں لے جانے والے اعمال، 1/ 505 3مراۃ المناجیح، 5/255 4تفسیر صراط الجنان،3/289 5صحیح ابن حبان،7/502،حدیث:5723ماخوذاً 6فتاویٰ رضویہ، 22/217 7درمختار،2/ 95 8در مختار،2/97 9بہارشریعت،حصہ:1،3/480ملخصاً 0تفسیر صراط الجنان،8 / 22 A مراۃ المناجیح،5/ 256