بیوہ کی عدت

Fri, 19 Aug , 2022
1 year ago

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے: وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا١ۚ(پ2،البقرۃ:234) ترجمہ: اور تم میں سے جو مر جائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔

تفسیر: اس آیت میں بیوہ کی عدت کا ذکر ہو رہا ہے، عِدَّت کا لغوی معنی ٰ شمار اور گنتی ہے، جبکہ شرعاً اس سے مراد ہے کہ شوہر کے طلاق دینے یا وفات پا جانے کے بعد عورت آگے کسی سے نکاح کرنے سے پہلے ایک مخصوص مدت تک انتظار کرے۔ امام رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں اس آیت مبارکہ میں بیوہ عورتوں کو شوہر کی موت کے بعد خود کو ایک مخصوص مدت تک روکے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، مگر یہاں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کس چیز سے روکے رکھیں؟ چنانچہ یاد رکھئے کہ بیوہ عورت کو 3 چیزوں سے رکے رہنے کا پابند کیا ہے: (1)نکاح سے(2)خاوند کے گھر سے نکلنے سے اور(3)زینت سے۔([1]) اب اگر کوئی عورت عدت کی پابندیاں پوری نہ کرے یعنی مذکورہ تینوں چیزوں سے نہ رکے تو جو اسے روکنے پر قادر ہے وہ اسے روکے، اگر نہیں روکے گا تو وہ بھی گناہ گار ہو گا۔(2)

(1)بیوہ نیا نکاح کب کرے؟شوہر کی وفات کے بعد وفات کی عدت گزارنا عورت پر مطلقاً لازم ہے خواہ جوان ہو یا بوڑھی یا نابالغہ، یونہی عورت کی رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔(3)اس آیتِ مبارکہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بیوہ عورت کی عدت 4 ماہ 10 دن ہے بشرطیکہ جب شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا ہو، ورنہ وہ 130 دن پورے کرے گی(4)۔(5) لیکن اگر وہ بیوہ امید سے ہو یعنی ماں بننے والی ہو تو اب اس کیلئے کوئی خاص مدت مقرر نہیں، بلکہ جس وقت بچہ پیدا ہو گا عدت ختم ہو جائے گی۔ اگرچہ ایک منٹ بعد حمل ساقط ہو گيا اور اعضا بن چکے ہیں عدت پوری ہو گئی ورنہ نہیں اور اگر دو یا تین بچے ایک حمل سے ہوئے تو پچھلے کے پیدا ہونے سے عدت پوری ہو گی۔(6)بیوہ اگر امید سے ہو تو اس کی عدت بچہ پیدا ہونا ہے، اس کی دلیل یہ روایت ہے: حضرت سبیعہ اسلمیہ رضی اللہُ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ قبیلہ بنو عامر سے تعلق رکھنے والے بدری صحابی حضرت سعد بن خولہ رضی اللہُ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ حجۃ الوداع کے سال ان کا انتقال ہو گیا جبکہ وہ امید سے تھیں۔ ان کی وفات کے کچھ دن بعد ہی ان کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی اور جب یہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا۔ یہ دیکھ کر کسی نے انہیں کہا: کیا بات ہے آپ بنی سنوری ہوئی ہیں! لگتا ہے شادی کرنا چاہتی ہیں؟ اللہ کی قسم! آپ اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتىں جب تک کہ چار ماہ دس دن (كى عدت) مکمل نہ ہو جائے۔ تو یہ شام کے وقت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس گئیں اور اس بارے میں دریافت کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تھا تو اسی وقت ان کی عدت بھی پوری ہو گئی تھی، لہٰذا اگر چاہیں تو شادی کر لیں۔(7)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عدت کے دوران عورت نہ کسی سے نکاح کر سکتی ہے نہ ہی اسے نکاح کا پیغام دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عدت میں نکاح تو نکاح، نکاح کا پیغام دینا (بھی) حرامِ قطعی ہے۔(8)ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: عدت میں نکاح باطل و حرام محض ہے۔(9)

(2)عدت کہاں گزارے؟:شوہر کی موت کے وقت جس مکان میں عورت کی رہائش تھی اسی مکان میں عدت پوری کرے کہ بلا ضرورت اس مکان کو چھوڑ کر دوسری جگہ رہائش رکھنا منع ہے۔ آج کل بلاوجہ معمولی باتوں کو ضرورت سمجھ لیا جاتا ہے وہ یہاں مراد نہیں بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اُس کے بغیر چارہ نہ ہو۔(10) مثلا ً٭جبراً (زبردستی)نکالا جائے٭مکان گر جائے یا٭گرنے کا خطرہ ہو یا٭مال کے نقصان کا خطرہ ہویا٭مکا ن کرایہ پر تھا عورت میں کرایہ دینے کی طاقت نہ ہو یا٭اور اس قسم کی ضروریات ہوں تو (ایسی عورت) قریب ترین مکان میں منتقل ہو جائے۔ (11)البتہ! موت کی عدت میں اگر باہر جانے کی حاجت ہو تو ان صورتوں میں گھر سے نکلنے کی علما نے اجازت دی ہے: ٭عورت کے پاس بقدر ِ کفایت مال نہیں اور باہر جا کر محنت مزدوری کر کے لائے گی تو کام چلے گا تو اسے اجازت ہے کہ دن میں اور رات کے کچھ حصے میں باہر جائے اور رات کا اکثر حصہ اپنے مکان میں گزارے مگر حاجت سے زیادہ باہر ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ ٭اگر بقدرِ کفایت اس کے پاس خرچ موجود ہے تو اسے بھی گھر سے نکلنا مطلقاً منع ہے اور اگر خرچ موجود ہے مگر باہر نہ جائے تو کوئی نقصان پہنچے گا مثلاً زراعت کا کوئی دیکھنے بھالنے والا نہیں اور کوئی ایسا نہیں جسے اس کام پر مقرر کرے تو اس کے ليے بھی جا سکتی ہے مگر رات کو اُسی گھر میں رہنا ہو گا۔ ٭یونہی کوئی سودا لانے والا نہ ہو تو اس کے ليے بھی جاسکتی ہے۔ (12)

(3)زینت ترک کرنا: کسی کے فوت ہونے پر زینت کو ترک کرنا سوگ کہلاتا ہے، سوگ اس پر ہے جو عاقلہ بالغہ مسلمان ہو اور موت یا طلاقِ بائن کی عدت ہو۔(13) ایسی عورت کو عدت پوری ہونے تک سوگ منانا شر عاً واجب ہے اور اس کا ترک حرام ہے حتی کہ شوہر نے مرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ سوگ نہ کرنا جب بھی سوگ واجب ہے۔(14) البتہ! 4ماہ 10 دن تک سوگ کرنا صرف شوہر کی موت کے ساتھ خاص ہے اور کسی عزیز یا رشتہ دار کی موت پر 3دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہُ عنہا کے بھائی فوت ہوئے تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے خوشبو منگا کر اپنے جسم پر لگائی اور فرمایا: مجھے خوشبو لگانے کی اگرچہ ضرورت تو نہیں، مگر میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یہ سنا ہے کہ جو عورت اللہ پاک پر اور یوم آخرت پر ایمان لائی ہو اس کیلئے کسی میت پر 3دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔ ہاں! شوہر (کی موت) پر 4ماہ 10دن تک سوگ کرے۔(15)

سوگ کی حالت میں ممنوع کام:(1)ہر قسم کا زیور یہاں تک کہ انگوٹھی، چھلا اور چوڑیاں وغیرہ پہننا (2)ریشمی کپڑا پہننا(3)سرمہ لگانا(4)کنگھی کرنا،مجبوری ہو تو موٹے دندانوں کی کنگھی(استعمال) کرے۔ (5)ہر طرح کی زیب و زینت، ہار، پھول، مہندی، خوشبو وغیرہ کا استعمال کرنا۔ (16)

سوگ کی حالت میں جائز کام:(1)چار پائی پر سونا، بچھونا بچھانا،سونے کیلئے ہو یا بیٹھنے کیلئے منع نہیں۔ (17) (2)غسل کرنا، صاف ستھرا اور سادہ لباس پہننا(3)سر درد کی وجہ سے سر میں تیل کا استعمال کرنا(4) آنکھوں میں درد کے سبب سرمہ لگانا۔(18)

نوٹ: عدت پوری ہونے پر عورت کا مسجد میں جانا یا مسجد کو دیکھنا، کسی رشتہ دار وغیرہ کے بلانے پر نکلنا، نفل ادا کرنا، صبح یا شام کسی مخصوص وقت عدت کو ختم کرنا یا اس دن گھر سے ضرور نکلنا ان تمام باتوں کی شرعاً کوئی اصل نہیں۔ ہاں! ختمِ عدت پر اسی دن کسی وجہ سے گھر سے نکلنے اور شکرانے کے نفل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، مگر عدت کو ختم کرنے کیلئے یہ سب کام ضروری نہیں، نیز شوہر کی قبر پر جانے کے بجائے گھر سے ہی فاتحہ پڑھ کر دعائے مغفرت کرے۔(19)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] تفسیر رازی، 2/ 468 2 تفسیر صراط الجنان،1/359 3 تفسیر صراط الجنان،1/359 4فتاویٰ رضویہ، 13/ 294ماخوذاً 5تفسیر صراط الجنان،1/359 6جوہرہ نیرہ،الجزء الثانی، ص96 7بخاری، 3/ 16، حدیث: 3991 8فتاویٰ رضویہ،11/ 266 9فتاویٰ رضویہ، 11/290 0بہارشریعت، 2/245ملتقطاً A فتاویٰ رضویہ،13/328 B بہار شریعت، 2/245 C در مختار،5/221 D درمختار،5/221 Eبخاری، 1/ 433، حدیث: 1282 Fفتاویٰ رضویہ، 13/331ملخصاً Gفتاویٰ رضویہ، 13/331 Hتجہیز و تکفین کا طریقہ، ص211 Iتجہیز و تکفین کا طریقہ،ص 212