اس اُمّت کے بہترین اور افضل و اعلی افراد صحابۂ کرام ہیں کہ جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی قربت و صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے،شب و روز آپ کے شربتِ دِیدار سے سیراب ہوتے،آپ پر نزول ِ وحی کے اثرات ملاحظہ کرتے اور آپ کی ذات سے صادِر ہونے والے بہت سے معجزات کا ظہور بھی اپنی نگاہوں سے دیکھتے۔ چُونکہ اِن افراد کی تعلیم و تربیّت خُود نبیِّ کریم فرمایا کرتے تھے اِسی وجہ سے اِن کے ذہنوں میں آپ کی سوچ،آنکھوں میں نبوت کا سراپا،زندگی میں آپ کا کردار رَچا بسا ہوتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی معیت سے شرف یاب ہونے کے طفیل آپ پر نازل ہونے والے انوار و تجلیات سے اُنہیں بھی حِصّہ ملتا رہا ۔اِسی وجہ سے صحابۂ کرام کا مقام و مرتبہ اُمَّت میں سب سے بلند و بالا ہے۔

یاد رکھئے!جس طرح تمام انبیاء میں سب سے افضل و اعلی ہمارے آقا و مولیٰہیں اِسی طرح دیگر تمام انبیاء کے صحابہ میں سب سے افضل مقام اَصحاب رسول کا ہے، پھر صحابۂ کرام میں سب سے افضل خلفائے راشدین (یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق، حضرت سیدنا عثمانِ غنی اور حضرت سیدنا علی المرتضی ) ہیں اور انہی خلفاۓ راشِدین میں سے تیسرے خلیفۂ ،جامع القرآن ، کامل الحیاء و الایمان حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کا 18 ذی الحجہ کو یوم شہادت ہے۔ اسی مناسبت سے آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ،آپ کے حالات و واقعات کی طرف جانے سے پہلے آپ کا تعارف ملاحظہ کیجیئے : چنانچہ

حضرت عثمان غنی کا تعارف

آپ کا نام نامی،اسم گرامی”عثمان“اور کنیت ’’ ابوعَمرو‘‘ہے۔’’ امیر المؤ منین، ذُوالنورین(یعنی دو نور والا) ،کامل الحیاء و الایمان، (حیا اور ایمان میں کامل) ،جامع القرآن (قرآن جمع کرنے والے) ،سید الاسخیاء (سخیوں کے سردار) ،عثمان باحیا وغیرہ آپ کے مشہور القابات ہیں ۔ مگرآپ کے تمام اَلقابات میں سے ’’ ذُو النُّورَین‘‘ (یعنی دو نور والا) زياده مشہور ہے۔اس لقب کی زیادہ مشہور وجہ یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے حُضُور پُر نُور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دو شہزادیاں حضرت سیدتنا رقیہ اور حضرت سیدتنا اُمِّ کلثوم رضی اللہ تعالی عنھما آئیں،اسی وجہ سے آپ کو ’’ ذُو النّورَیْن‘‘ (یعنی دو نور وا لا)کہا جاتا ہے۔ (تہذیب الاسماء، 1/297)آپ خلفائے راشِدین میں تیسرے خلیفہ ہیں۔ (جنتی زیور، ص182 ملخصا) آپ امیر المؤمنین ابوبکر صدیق کی کوششوں سے اسلام لائے اور اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا شمار چوتھے نمبر پر ہوتا ہے،جیسا کہ آپ رضی ا للہُ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں:ا ِنِّيْ لَرَابِعُ اَرْبَعَةٍ فِي الْاِسْلَامِ یعنی میں اِسلام قبول کرنے والے 4 اشخاص میں سے چوتھا ہوں۔ (معجم کبیر،1/85،حدیث:124 ) حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کو بروز جمعہ35ہجری ماہِ ذی الحجہ میں شہید کیا گیا ۔ حضرت سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہُ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ جنَّتُ البقیع میں سُپردِ خاک کئے گئے۔ (اسد الغابۃ ،3/ 614-616ملخصا)

حضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتاہے،جن پر اسلام قبول کرنے کے بعد ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، طرح طرح سے ستایا گیا اور بہت ہی درد ناک سُلوک کیا گیا،مگر قربان جائیے!حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کے عزم و استقلال پر!جو اس قدر ظلم سہہ کر بھی باطل کےآگے ڈَٹے رہے ا ور دینِ اسلام سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہوئے:چنانچہ

جب حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ اِسلام لاۓ تو آپ کو نہ صِرف اپنے گھر والوں بلکہ پُورے خاندان کی طرف سے شدید مخالفت کے ساتھ ساتھ سخت سزا ؤں کا سامنا کرنا پڑا،یہاں تک کہ آپ کا چچا حکم بن ابی العاص اِس قَدر ناراض اور برہم ہوا کہ آپ کو پکڑ کر ایک رَسّی سے باندھ دیا اور کہا: تم نے اپنے باپ دادا کا دِین چھوڑ کر ایک دُوسرا نیا مذہب اِختیار کرلیا ہے،جب تک کہ تُم اُس نئے مَذہب کو نہیں چھوڑوگے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اِسی طرح باندھ کر رکھیں گے۔یہ سُن کر آپ نےفرمایا: خُدائے ذُوالجلال کی قسم! مذہبِ اسلام کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا“ ا ور نہ کبھی اس دولت سے دَسْتْ بَردارہوسکتا ہوں،میرےجسم کےٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو یہ ہوسکتا ہے مگر دل سےدین ِاسلام نکل جائے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا،حکم بن ا بی العاص نے جب اِس طرح آپ کا ا ستقلال دیکھا تو مجبور ہو کر آپ کو رہا کردیا۔ (تاریخ ابن عساکر،39 /26)

ذوق عبادت اور شوق تلاوت

امیر المؤمنین،حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کی پاکیزہ سیرت کا ایک روشن پہلو یہ بھی تھا کہ آپ ساری ساری رات ربِّ کائنات کی بارگاہ میں سجدہ و قیام کی حالت میں گزار دیا کرتے ،قبر و آخرت کی فکر میں ڈوبے رہتے اور اپنے ربِّ کریم سے رحمت کی آس لگائے رکھتے تھے۔دن کے اوقات سخاوت و روزہ کی حالت میں گزرتے تو راتیں بارگاہ ِخداوندی میں سجدہ و قیام اور تلاوت قرآن میں کٹ جاتی تھیں۔آپ کے شوق ِعبادت و ذوقِ تلاوت پر مشتمل4 واقعات ملاحظہ کیجئے : چنانچہ

(1)حضرت سیِّدُنا زبیر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤ منین حضرت سیِّدُنا عثمان رضی اللہُ عنہ ہمیشہ روزہ رکھتے اور ابتدائی رات میں کچھ آرام کر کے پھر ساری رات عبادت میں بسر کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ 2/ 173 ، حدیث :6)

(2)حضرت سیِّدُنا مسروق ، اَشْتَر (یعنی جس نے حضرت سیدنا عثمانِ غنی کو شہید کیا تھا ) سے ملے تو پوچھا : کیا تو نے حضرت سیِّدُنا عثمان رضی اللہُ عنہ کو شہید کیا ہے؟ اس نے کہا: ’’ہا ں ‘‘ توآپ نے فرمایا:اللہ پاک کی قسم!تو نے روزہ دار اور عبادت گزار شخص کو شہید کیا ہے ۔ (معجم کبیر،1/81، حدیث:114)

(3) جب امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کو شہید کیا گیا تو آپ کی زوجہ نے قاتلوں سے فرمایا: ’’تم نے اس شخص کو شہید کیا،جو ساری رات عبادت کرتا اور ایک رکعت میں قرآنِ کریم ختم کرتا ہے۔ ( الزھد للامام احمد، ص 1 5 3 ، حدیث : 673)

(4) حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن تیمی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ” مجھے ایک بار مقامِ ابراہیم پر رات ہوگئی۔ میں عشاء کی نماز ادا کرکے مقامِ ابراہیم پر پہنچا یہاں تک کہ میں اس میں کھڑا ہوا تو اتنے میں ایک شخص نے میرے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا۔ میں نے دیکھا تو وہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان بن عفان رضی اللہُ عنہ تھے۔ کچھ دیر بعد آپ نے سورۂ فاتحہ سے قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ پورا قرآنِ کریم ختم کرلیا۔ “ (الزھد لابن المبارک، ص452،حدیث:1276ملخصا)

تلاوت قرآن کی عادت بنائیے

اے عاشقانِ صحابہ!ان واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی ا للہُ عنہ کو کس قدر عبادت اور تلاوت قرآن سے محبت تھی ،دن رات ربِّ کریم کا کلام پڑھتے رہتے تھے۔ مگر افسوس!آج مسلمانوں کی اکثریت قرآنِ پاک کی تعلیم سے ناآشنا ہے،بعض نادانوں کو قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنا بھی نہیں آتا اور جن کو پڑھنا آتا ہے وہ بھی سالوں سال تک قرآنِ پاک کھول کر نہیں دیکھتے،کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں مگر مسلمانوں کے گھر تلاوت کی برکت سے محروم رہتے ہیں۔ آئیے!آج حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کے عرس کے موقع پر ہم بھی نیت کرتے ہیں کہ آج سے آپ کی سیرت اور اداؤں کو اپناتے ہوئے ہم دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک پڑھیں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی قرآن ِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائیں گے۔ ان شاء اللہ عَزَّ وَجَلَّ!

18 ذی الحجہ کو اپنے اپنے گھروں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں ایصال ثواب پیش کرنے کے لئے فاتحہ و نیاز کا اہتمام کریں اور اپنے بچوں کو ان کی سیرت کے بارے میں بتائیں،اس کے لئے شیخ طریقت ، امیر اہل سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا رسالہ کراماتِ عثمان غنی خود بھی پڑھئے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیے۔اللہ کریم ہمیں اپنے نیک بندوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

از: مولانا عبد الجبار عطاری مدنی

اسکالر:المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)دعوت اسلامی