سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارُف:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اللہ پاک کے برگزیدہ رسول ہیں۔ آپ کا لقب ’’خطیب الانبیاء‘‘ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم کو انتہائی اچھے طریقے سے دین کی دعوت دیتےتھے۔ نیز اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ کرتے تو ارشاد فرماتے: ’’وہ خطیب الانبیاء تھے۔‘‘(نوادر الاصول، الاصل الثالث و الستون والمائتان،۶/ ۲۰۶، تحت الحدیث:۱۴۰۸) حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام جَلیلُ القدر رسول حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کے سسر اور حضرت سیِّدُنا ابراہیم خَلِیْلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کے اوصاف:

اوصاف:(1)حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم میں انتہائی امانت دار شخص کی حیثیت سے معروف تھے، اسی لئے توحید ورسالت کی دعوت دیتے وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم سے فرمایا:اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۷۸) ۱۹، الشعراء: ۱۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: بےشک میں تمہارے لئے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔ (2)دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی طرح حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے بھی بےلوث ہو کر اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کے لئے توحید و رسالت کی دعوت دی۔ چنانچہ قوم سے فرمایا:وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۸۰)۱۹، الشعراء: ۱۸۰) ترجمۂ کنزالایمان: اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد:

قرآنِ کریم میں حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی دو شہزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام جیسے جَلیلُ القدر اور اُولُوا الْعَزم رسول کے نکاح میں آئیں۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ ۲۰، القصص:۲۷)

ترجمۂ کنزالایمان: کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم:

اللہ پاک نے حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا:(1)اہْلِ مدین اور (2) اَصْحَابُ الْاَیْکَہ۔(روح المعانی، الاعراف، تحت الایة:۸۵،جزء۸، ۴/ ۵۷۵) مدین: سے مراد وہ شہر ہےجس میں رہنے والوں کی طرف حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔(روح المعانی، ھود، تحت الایة:۸۴،جزء۱۲، ۶/ ۴۳۰) اَصْحَابُ الْاَیْکہ: جنگل اور جھاڑی کو ’’ایکہ‘‘ کہتے ہیں، ان لوگوں کا شہر چونکہ سرسبز جنگلوں اور مرغزاروں کے درمیان تھا اس لئے انہیں قرآن پاک میں’’اَصْحَابُ الْاَیْکَہ‘‘ یعنی جھاڑی والے فرمایا گیا۔ یہ شہر، مدین کے قریب واقع تھا۔ (خازن، الحجر، تحت الایة:۷۸، ۳/ ۱۰۷۔ جلالین، الشعراء، تحت الایة:۱۷۶، ص ۳۱۵)

قوم کو نیکی کی دعوت:

مدین کے رہنے والے لوگ کفر و شرک، بت پرستی اور ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے۔ حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں احسن انداز میں توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع فرمایا۔ عرصہ دراز تک وعظ و نصیحت کے باوجودصرف چند افراد ہی ایمان لائے اور دیگر افراد کو قوم کے سرداروں نے قوم کو معاشی بدحالی سے ڈرا دھمکا کر ایمان قبول کرنے سے روکے رکھا۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الایة:۹۰، ۲/ ۲۷۶۔روح البیان، الاعراف، تحت الایة:۹۰، ۳/ ۲۰۳ ملخصًاو ملتقطًا)

اہْلِ مدین کے گناہ اور بُرائیاں:

قرآنِ پاک میں اہْلِ مدین کے درج ذیل گناہوں کا تذکرہ ہے: (1) اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار۔ (2)بتوں کی پوجا کرنا۔ (3)نعمتوں کی ناشکری۔ (4)ناپ تول میں کمی۔ (5)لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا۔ (6)زمین میں فساد پھیلانا۔ (7)لوگوں کو اذیت دینے کے لئے راستوں میں بیٹھنا۔ (8)لوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے سے روکنا۔ (9)لوگوں کو حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔ (10)حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلانا۔ (11)نبی کو اپنے جیسا بشر کہنا۔(12 تا 15)نماز پڑھنے والوں اور اہْلِ علم پر طنز کرنا، اپنی بڑائی جتانا اور اہْلِ ایمان کو حقیر جاننا۔۸، ۹، الاعراف: ۸۵ تا ۹۳۔ پ ۱۲، ھود: ۸۴ تا ۹۵۔ پ ۱۹، الشعراء: ۱۷۶ تا ۱۹۰ ملخصًا)

ناپ تول میں کمی کرنے پر قرآنی وعید:

اللہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲)وَاِذَاكَالُوْهُمْ اَوْوَّزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) اَلَایَظُنُّ اُولٰٓىٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ(۴)لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ(۵) یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۶) ۳۰، المطففین:۱ تا ۶)

ترجمۂ کنزالایمان: کم تولنے والوں کی خرابی ہے وہ کہ جب اوروں سے ماپ(ناپ) کر لیں پورا لیں اور جب انھیں ماپ یا تول کر دیں کم کر دیں کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انھیں اٹھنا ہے ایک عظمت والے دن کے لیے جس دن سب لوگ ربُّ الْعٰلَمِیْن کے حضور کھڑے ہوں گے۔

تفسیر خزائن العرفان:

(سورۂ مُطَفِّـفِیْن کا) شانِ نزول :رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے، بالخصوص ایک شخص ابو جہینہ ایسا تھا کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور دینے کا اور ان لوگون کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہیں پیمانے میں عدل (انصاف) کرنے کا حکم دیا گیا۔ (خزائن العرفان، سورۂ مُطَفِّـفِیْن)

تفسیر نور العرفان:

مشہور مفسر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ’’کم تولنے والوں کے لیے خرابی ہے‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، دنیا میں لوگوں کی گالیاں کھاتا ہے، اس کا اعتبار اٹھ جاتا ہے کم تولنے سے تجارت کا فروغ نہیں ہوتا، رزق میں بےبرکتی ہوتی ہے، آخرت میں اس کا یہ گناہ معاف نہ ہوگا کیونکہ اس نے بندے کا حق مارا۔ نیز حرام رزق سے دل سیاہ، خیالات خراب، نیک اعمال برباد ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کم تولنے والا تاجر، چور، ڈاکو سے بدتر ہے کیونکہ یہ ترازو کے ذریعہ سے چوری کرتا ہے حالانکہ ربّ (کریم) نے ترازو عدل کے لئے اتاری تھی گویا کہ یہ شریف بدمعاش ہے، کھلے مجرم سے چھپا مجرم زیادہ خطرناک ہے۔(نورالعرفان، پ۳۰، سورۂ مطففین، تحت الآیہ:۱)

ناپ تول میں کمی کرنے پر حدیث میں وعید:

حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ناپ تول کرنے والوں سے ارشاد فرمایا: ’’تم دو ایسی چیزوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن کی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو چکی ہیں (یعنی ناپ تول میں کمی کی وجہ سے)۔‘‘(ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجآء فی المکیال والمیزان، ۳/ ۹، حدیث:۱۲۲۱)

حضرت سیِّدُنا نافع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاایک بیچنے والے کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ اللہ پاک سے ڈر اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔‘‘(بغوی، المطففین، تحت الآیة:۳، ۴/ ۴۲۸)

نافرمانی پر قوم کا انجام:

جب ان لوگوں کے ایمان لانے کی کوئی صورت نہ رہی تو حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے انہیں ایک ہولناک چیخ اور زلزلے کے عذاب سے تباہ و برباد کر دیا۔(ابو سعود، الاعراف، تحت الایة:۹۱، ۲/ ۲۷۶)

قرآن مجید میں ان کے عذاب کو مختلف مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ

(1)……سورۂ اعراف میں ہے:

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْافِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ(۹۱)۹، الاعراف:۹۱)

ترجمۂ کنزالایمان: تو انھیں زلزلے نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔

(2)……سورۂ ہود میں ہے:

وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواالصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْافِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴) كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠(۹۵)۱۲، ھود:۹۴، ۹۵)

ترجمۂ کنزالایمان: اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا توصبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے ارے دور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود۔

(3)…… سورۂ عنکبوت میں ہے:

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ٘(۳۷) ۲۰، العنکبوت:۳۷)

ترجمۂ کنزالایمان: تو اُنھوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنھیں زلزلے نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

مردوں سے خطاب:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام قوم کی ہلاکت کے بعد ان کی نعشوں کے پاس سے گزرے تو ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے میری قوم! بےشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم کسی طرح ایمان نہ لائے اور جب تم خود ہی کفر پر قائم رہ کر اپنے آپ کو تباہ وبرباد کرنے پر تُل گئے تو میں کافروں کی ہلاکت پر کیوں غم کروں۔(صاوی، الاعراف، تحت الایة:۹۳، ۲/ ۶۹۴) قرآن پاک میں ہے:

فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠(۹۳) ۹، الاعرف:۹۳)

ترجمۂ کنزالایمان: تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا۔

تفسیر صراط الجنان:

کفار کی ہلاکت کے بعد حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے جو کلام فرمایا ا س سے معلوم ہو اکہ مردے سنتے ہیں۔ حضرت سیِّدُنا قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: ’’اللہپاک کے نبی حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا، بے شک اللہ پاک کے نبی حضرت سیِّدُنا صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا اور اللہ پاک کی قسم! رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اپنی قوم کو سنایا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۵ / ۱۵۲۴)

مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے: جب ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ان سے خطاب فرمایا: فَهَلْ وَجَدْتُّـمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَـقًّا یعنی توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ! آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا:وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُوْلُ مِنْہُمْ یعنی : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، ۳ / ۱۱، حدیث: ۳۹۷۶)

سابقہ اُمتوں کے احوال بیان کرنے سے مقصود:

پچھلی امتوں کے احوال اور ان پر آنے والے عذابات کے بیان سے مقصود صرف ان کی داستانیں سنانا نہیں بلکہ مقصودنبی آخر الزّمان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت کو جھنجوڑنا ہے۔ اِن کے سامنے اُن قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جن سے عرب کے لوگ واقف تھے ،جن کے کھنڈرات عربوں کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے ارد گرد واقع تھے ،جن کی خوشحالی، بالا دستی اور غلبہ و اقتدار کی بڑی شہرت تھی اور پھر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی نافرمانی کے باعث ان کی تباہی و بربادی کے دِلخراش واقعات ہوئے جوسب کو معلوم تھے، یہ واقعات اور حالات بتا کر انہیں آگاہ کیا کہ محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَبھی انہیں تعلیمات کو کامل اور مکمل صورت میں تمہارے پاس لائے ہیں جو پہلے نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَامنے اپنی اپنی امتوں کو اپنے زمانے میں دیں ، اگر تم نے بھی انکار کیا اور سرکشی کی رَوِش اختیار کی تو یاد رکھو تمہارا انجام بھی و ہی ہو گاجو پہلے منکرین کا ہوتا آیا ہے۔ دونوں جہاں کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو رسولِ خدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور ان کا دامَن رحمت مضبوطی سے تھا م لو ،تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں سربلندی نصیب ہو جائے گی۔ (صراط الجنان۳/ ۳۸۳ملخصاً)

اصحاب ایکہ پر عذاب:

پھر حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو اصحاب ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ بھی اہْلِ مدین جیسے ہی گناہوں میں مبتلا تھے، انہوں نے بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی تبلیغ سے نصیحت حاصل نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر جہنم کا دروازہ کھولا اور ان پر دوزخ کی شدید گرمی بھیجی جس سے سانس بند ہوگئے، اب نہ انہیں سایہ کام دیتا تھا نہ پانی اس حالت میں وہ تہ خانہ میں داخل ہوئے تاکہ وہاں انہیں کچھ امن ملے لیکن وہاں باہر سے زیادہ گرمی تھی وہاں سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگے، اللہ تعالیٰ نے ایک ابر (بادل) بھیجا جس میں نہایت سرد اور خوش گوار ہوا تھی، اس کے سایہ میں آئے اور ایک نے دوسرے کو پُکار پُکار کر جمع کر لیا، مرد، عورتیں، بچے سب مجتمع ہوگئے تو اچانک زلزلہ آیا اور بادل سے آگ برسنے لگی، سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ چونکہ ان لوگوں نے اپنی سرکشی سے حضرت سیِّدُنا شعیب سے یہ کہا تھا کہ’’ تو ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دواگر تم سچے ہو۔‘‘۱۹، الشعراء:۱۸۷)اس لئے اس سرکش قوم پر وہی عذاب اس صورت میں آگیا اور سب کے سب راکھ کا ڈھیر بنا دیئے گئے۔(صاوی، الشعراء، تحت الایة:۱۸۹، ۴/ ۱۴۷۴)

قرآن مجید میں ان کے عذاب کو یوں بیان فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ شعراء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِؕ- اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۸۹)۱۹، الشعراء:۱۸۹)

ترجمۂ کنزالایمان: تو انھیں اسے جھٹلایا تو اُنھیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آ لیا بےشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔

قرآنی مقامات:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی قوموں کا اجمالی ذکر قرآنِ پاک کی متعدد سورتوں میں ہے جبکہ تفصیلی تذکرہ درج ذیل پانچ سورتوں میں ہے: (1) سورۂ اعراف، آیت:85 تا 93۔ (2) سورۂ ہود، آیت:84 تا 95۔ (3) سورۂ حجر، آیت:78، 79۔ (4) سورۂ شعراء، آیت:176 تا 190۔ (5) سورۂ عنکبوت، آیت:36، 37۔

احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی سمجھنے والے غور کریں:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو قوم کے سرداروں کو احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی، راہِ راست پر چلنے میں اپنی ہلاکت اور دیْنِ حق پر ایمان لانے میں مہیب خطرات نظر آتے تھے اور انہوں نے دوسروں کو بھی دیْنِ حق سے دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ہمارے معاشرے میں بھی کوئی کمی نہیں جو اسلامی احکام پر عمل کو اپنی ترقی وخوشحالی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں بلکہ اسلامی احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ہمارے ہاں کتنے لوگ یہ نعرہ لگانے والے ہیں کہ ’’اگر سودی نظام کو چھوڑ دیا، اگر عورتوں کو پردہ کروایا تو ہم نقصان میں پڑ جائیں گے اور ہماری ترقی رک جائے گی۔‘‘ اس جملے میں اور اہْلِ مدین کے جملے ’’اگر تم شعیب کے تابع ہوئے تو ضرور نقصان میں رہو گے‘‘ میں کتنا فرق ہے اس پر غور فرمالیں۔(سیرت الانبیاء، ص۵۲۵ ملخصاً)

(ازقلم : ابو محمد محمد عمران الٰہی عطاری مدنی)