یومِ آزادی ) 14اگست) قریب ہے اور اس دن اللہ کریم کی نعمتوں میں سےایک نعمت ”ملکِ پاکستان“ کی صورت میں ہمیں نصیب ہوئی، 14اگست 1947ءکو ا للہ کریم نےمسلما نوں کو غیر مسلموں کی غلامی سے ہمیشہ کے لئےآزا دی نصیب فرمائی،اگر تاریخ پاکستان کامطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہےکہ اس آزا دی کو حاصل کرنے کے لئے 1857ءسے1947ء تک تقریبا 90سال کی جدو جہدشامل ہے،ملکِ پاکستان کی آزا دی کے لئےکئی علماوصلحا کےساتھ ساتھ عام مسلمانوں نےبھی اپنی جانوں کی قربانی پیش کی، ایک اندازے کےمطابق ملک پاکستان کی بنیاد کے لئے لاکھوں لوگوں نےاپنی جانوں کی قُربانی دی جن میں بچے،بوڑھے،مردا ور عورتیں شامل تھیں،اِس وطنِ عزیز کی آ زا دی کے لیے لوگوں نے ا پنی جائیدادیں چھوڑ یں، گھربارچھوڑا ،تقریبا18 لاکھ لوگوں کا خون ، کئی نوجوان لڑکیوں کی عزت ا ور کئی بہنوں کےسہاگ شامل ہیں۔راقم الحروف کو ایک نمازی نےواقعہ سنایا، جب بھی وہ واقعہ یادآتا ہے تودل خون کےآنسو روتاہےاور روح کانپ جاتی ہے،آپ بھی اس واقعہ کو ملاحظہ کیجئے : چنانچہ

ایک مرتبہ عصرکی نماز کے بعد ایک نمازی نے چائےکی دعوت دی تو میں ا ن کے ساتھ ان کے گھر چلاگیاا ن کی عمر تقریبا 100سال کےقریب ہے اور نمازوں سےمحبت ا یسی کہ پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرنے آتے ہیں،خیران کے گھر پہنچ کر ان کے ساتھ بات چیت شروع ہوئی تو میں نے ان سے عرض کی :آپ نے تو ا پنی آنکھوں سےپاکستان کو بنتےدیکھا اور حالات و واقعات کو دیکھا اور ہجرت کرکے پاکستان آئے ہیں تو کوئی واقعہ ہی سنا دیجئے؟ میری یہ بات ختم ہوئی تو انہوں نے ایک لمبا سانس لیا اور بات شروع کرنے سے پہلے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئےاور پھر انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ جب ملک پاکستان اور مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست بننےکی خبر ملی تو جوجہاں تھا اس نے وہیں سے پاکستان کی طرف ہجرت کرلی، نہ وا لدین کی کوئی خیر خبر اور نہ گھر وا لوں کی فکر،بس سب کی زبان پر ایک نعرہ تھا کہ پاکستان کامطلب کیا؟ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ “ لوگوں کاایساشوق اور ایسا جذبہ کہ بیان سےباہر ا ور دوسری طرف دشمن پیچھابھی کررہے تھےاس لئے ہم چھپتے چھپاتے آرہے تھے ایک جگہ گنے( کماد ) کی فصل تھی تو ہم لوگ اس میں چھپ گئے ، ہمارے ساتھ ایک عورت بھی تھی جس کےپاس ایک دودھ پیتا بچہ تھا ،جیسے ہی بچے کوگرمی کی وجہ سےگھٹن محسوس ہوئی تو اس نے رونا شروع کردیا ا ور ا ب وہا ں موجود لوگوں نے اس کی ما ں کی طرف تِرچھی نظروں سےدیکھنا شروع کردیا کہ اس بچےکی آوا ز سن کر دشمن آجائیں گےا ور سب کی جان جائے گی، بچےکی ما ں نے لوگوں کی طرف دیکھا اور اس کے بعد جو عورت نے کیا وہ آج بھی جب یادکرتے ہیں تود ل خون کےآنسو روتاہے، وہ یہ کہ اس ماں نےاپنےاس دودھ پیتے بچے کا اپنے ہاتھوں سے گلہ دبا دیا۔

اور دوسرا واقعہ کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ماہ بعد لاہور کی ایک مسجد کے باہر ایک بابا جی اکثرنظر آتے، ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا، لوگ ترس کھا کر کوئی کھانے کی چیز رکھ جاتے، بہت کمزور تھے،کبھی کوئی لقمہ لے لیا تو سہی وگرنہ اکثر کھانا خراب ہو جاتا، زیادہ تر گُم سُم بیٹھے رہتےکبھی ا پنے آپ سے باتیں کرتے پھر دن میں ایک دو دفعہ چیخ مارتے اور زور زور سے رونے لگتے ایک دن ا ن کے پاس ایک بزرگ بیٹھے تھےمیں نے پوچھا :آپ کون؟ بولے: یہ میرے رشتہ دار ہیں ، پوچھا: یہ دن میں ایک دو دفعہ اونچی آواز سےایک لڑکی کا نام لیتے ہیں اور زور سے چیخ مار کر رونے لگتے ہیں ، رشتہ دارکی آوا ز بھرآئی، بولے بیٹا! یہ بہت بڑے بیوپاری تھےپاکستان ہجرت کے وقت یہ ہندو اکثریتی علاقےمیں تھے ہندو گروہ کی شکل میں آتے جو گھرمسلمانوں کے ہوتےمردوں، بوڑھی خواتین کو مار دیتے اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر ساتھ لے جاتےایک دن ایسا ہی حملہ ان کےگھر پر ہوا، ا ن کے گھر کےساتھ ایک کنواں تھا، ایک ہی لاڈلی اکلوتی بیٹی تھی سترہ اٹھارہ /سال کی،اسےکنویں کےکنارے کھڑا کیا اس ڈر سےکہ بلوائی، اس کی عزت خرا ب نہ کریں اسے دھکا دے دیا،گرتے ہوے بیٹی نے ایک چیخ ماری تھی جب ان کو اپنی اس لاڈلی کی وہ چیخ یاد آتی ہے تویہ خود چیخ مار کر رونے لگتے ہیں ،اس دکھ میں ان کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں رہا۔

اےمیرےعزیزہم وطنو! اُس منظرکوذرا تصورمیں لائیےاورسوچئےیہی لوگ پاکستان کے اصل وارث ہیں، کتنے دلیر اور غیرت مند تھے کہ کسی نے بچے کو تو کسی نے بیٹی کو پاکستان کے لئے قربان کر دیا۔ یہ لوگ اتنی قربانیاں دینے کےباوجودبھی ایک الگ ملک و ریاست چاہتے تھے تاکہ ا ن کےبعدآنے والےسکون سے زندگی گزارسکیں، بغیرکسی خوف وغم کے رب کریم کی عبادت کریں، دین اسلام کی تبلیغ کریں،ذرا سوچئے!اگر ان شہیدانِ ملک پاکستان نےکل قیامت کے دن ہم سے رب کی بارگاہ میں یہ سوال کر لیا کہ: کیا ہم نے اس لئےجانیں قربان کی تھیں کہ تم اس ملک میں اللہ کریم کی نافرمانی کرو،جشنِ آزادی کےنام پر گانے باجےاور رَقص وسُرُودکی محفلیں سجاؤ۔ بندوں کےحُقُوق پامال کرو، لوگوں کو جانی و مالی نقصان پہنچاؤ، شراب نوشی کرو، جُوا کھیلو، بائکوں کےسلینسرز نکال کر یا وَن ویلنگ کرکے ا پنی جانوں کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر برائیوں کو عام کرو تو پھر کیا جواب دیں گے؟

اس لئےآج اللہ پاک کی نعمت جوہمیں وطنِ عزیز پاکستان کی صورت میں حاصل ہوئی ہے، اس کی قدر کریں، یوم آزادی کےموقع پر خوشی کا اظہار ضرور کریں لیکن ا یسے طریقے سے کریں،جس میں ا للہ پاک کی رِضا اور ہمارے ملک پاکستان کی بقا شامل ہو،کیو نکہ اچھے لوگ ہی اپنے ملک سے محبت کرتے ا ور اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں:امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”محاضرات الادباء “ میں لکھتے ہیں :

حب الوطن من طین المولد یعنی عمدہ اور نیک طبیعت کےلوگ ہی اپنےوطن سےمحبت کرتے ہیں۔ (محاضرات الادباء،2/652 مفہوماً)

لہٰذا اپنے وطن عزیز سےمحبت کا اظہارضرور کیجئے لیکن اس طرح کیجئے کہ جشن آزادی ا للہ پاک کی رِضا ا ور اس نعمت (یعنی وطنِ عزیز کے ملنے) کا شکر ادا کرنےکی نیت سےنوافل پڑھئےا ور تلاوت قرآن کیجئے نیز اپنےوہ مسلمان بھائی جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک پاکستان حاصل کیا انہیں ایصالِ ثواب کریں اور پھر اپنے پیارے وطن عزیز کے لئے یوں دُعابھی کیجئےکہ یا ربّ کریم ! تونےہمیں آزاد ملک کی صورت میں جو نعمت عطافرمائی ہے، ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرما، اس میں تیرے ہی احکامات ا ور تیری رِضا والے کام کرنےکی توفیق عطا فرمااور ہراس کام سے بچنےکی توفیق عطا فرما،جس سےتواور تیرے پیارےحبیب ناراض ہوتے ہوں۔

بانی دعوت اسلامی ،ا میرِ اہلسنّت،حضرت علّامہ مولانا محمدا لیاس عطارقادری دا مت بَرَکاتُہمُ العا لیہ کی سوچ ا ور آپ کی ”وطنِ عزیز ملکِ پاکستان“سےسچی محبت کہ آپ نے مختلف مدنی مذاکروں میں”یومِ آزادی“ کی نعمت پرجو مفید ارشادات عطا فرمائےوہ بھی ملاحظہ کیجئے: چنانچہ

آپ دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں:ایک بہت بڑی تعدادہے جو جشنِ آزادی غلط طریقے سے مناتی ہے، خُوب ہلہ گلہ اورہلڑ بازیاں کرتی،ہوائی فائرنگ ا ور نہ جانے کیا کچھ کرتی ہے،ا للہ کرےکہ مُسلمان ان خُرافات (برائیوں)سےبچ کرمسجد میں آکر ہمارے ساتھ جشنِ آزا دی منائیں،اگر دُور ہوں تو مدنی چینل دیکھ کرجشنِ آزا دی منائیں تو اِنْ شَاءَ اللہ وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم جہنّم سے آزا دی کا جشن منائیں گے ہاں!یہ جہنّم سےآزادی کا جشن جیتے جی نہیں ہوسکے گا۔ (پھر امیراہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العا لیہ جشنِ آزا دی پرخُرافات (برائیوں)میں پڑنےوا لوں کو بچنےکا ذہن دیتے ہوئے ارشا د فرماتے ہیں :) کیاعجب جنہوں نےگنا ہوں کا بھر پور پروگرام بنارکھاہے،وہ گناہوں کا وقت شروع ہونے سے پہلے پیکِ اجل(یعنی موت) کو لبیک کہہ دیں اور اُنہیں موت آجائے،کیاعجب! اِس را ت ہونے وا لی فائرنگ میں کسی گو لی پر کسی کا نام لکھا ہوکہ میں اُس کی کھوپڑی میں جاؤں گی، اُس کے سینے کوچھلنی کروں گی اورقبر کاگڑھا اُس کےلیے تیار ہو،کفن اُس کے لیےمتعین ہوکہ یہ کفن آج اُس نےپہننا ہے،یا ہسپتال کاکوئی بیڈ اُس کا منتظر ہو۔یاد رکھئے!گناہ کرتےکرتےمرنا یا گُناہ کا پکا ارا دہ ہو،اس حالت میں موت سے ہمکنار ہونا اچھا نہیں ہے،کاش گناہ کرتے ہوئےہمیں یہ احساس ہوکہ میرا ربّ کریم مجھےدیکھ رہا ہے،میرا ربّ کریم ناراض ہوگیاتو کہیں میں ا پنی آخرت خراب نہ کربیٹھو،اے میرے ہم وطنو! اگر گناہ کےسلسلے آپ نے سوچ رکھے ہیں تو مہربانی کرکے باز آجائیے ، توبہ کر لیجیےا ور اس مرتبہ آپ نیت کر لیجئےکہ جشنِ آزا دی دعوت اسلامی کےساتھ منائیں گے ان شاء اللہ ۔ ا للہ کریم تما م مسلمانوں کوعقل سلیم عطا فرمائے۔آمین

آخرمیں شیخ طریقت،بانی دعوت اسلامی مولانا محمدالیاس عطارقادری دامت بَرَکاتُہمُ العا لیہ کا ملک پاکستان کے لئے لکھا ہوا دعائیہ کلام بھی ملاحظہ فرمائیے :

یا خُدا پاک وطن کی تو حفاظت فرما

فضل کر اس پہ سدا سایۂ رحمت فرما

مرحبا پاک وطن پاک وطن پاکستان

دے ترقی تو عنایت اسے برکت فرما

اس کو تو قلعۂ اسلام بنا دے یاربّ!

میرے پیارے وطن پہ رحمت فرما

شکر صد شکر غلامی سے ملی آزادی

پھر عنایت ہمیں کھوئی ہوئی شوکت فرما

آج ہے امن وطن کا میرے پارہ پارہ

پھر مہیا میرے مولا اسے راحت فرما

چور ڈاکو سے مِرے پاک وطن کو کر پاک

ملک سے دُور تو رشوت کی نحوست فرما

بچہ بچہ ہو نمازی میرے پاکستان کا

اور عطا جذبۂ پابندیِ سُنّت فرما

واسِطہ شاہِ مدینہ کا اے پیارے اللہ

دُور عطار سے دنیا کی محبّت فرما

از: مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

ا سکالر:المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )