وہ مقدس و بابرکت گھر جس کی تعمیر کا شرف جد
الانبیاء و المرسلین سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کو مرحمت فرمایا
گیا اور جسکی تعمیر کا مقصد حضرت خلیل نے بار گاہ خداوندی میں بایں الفاظ عرض کی :
رَبَّنَاۤ
اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ
بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ -رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ
اَفْىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ
لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ (ابراہیم،پ13 ،37 )
ترجمہ: کنزالعرفان: اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے
عزت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔ اے
ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور
انہیں پھلوں سے رزق عطا فرماتاکہ وہ شکر گزار ہوجائیں ۔
مگر وہ گھر کئی سالوں سے صنم کدہ بنا رہا جہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کے بجائے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے اندھے ،
بہرے ،گونگے بتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس
مقدس گھر کو کفر وشرک سے پاک
کرنے کے لئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے نبی آخرالزماں ﷺ کو بھیجا ،اس محسن انسانیت نے صفا کی چوٹی پر جب ایک اللہ
وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کے لئے لوگوں کو کہا تو جنہوں نے آپکی سچائی و امانت
داری پر صادق و امین جیسے القاب دیئے ، جن لوگوں کوآپ اپنی نیک
نیتی و حسن کردار کے ذریعے ان کی آنکھوں کا تارا تھے، ان میں یکایک نفرت و عداوت کے
شعلے بھڑک اٹھے ، وہ آپ کے سخت دشمن بن
گئے،آپ علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے رفقاء کو حرم مکہ میں جانے پر بھی پابندی لگادی اور طرح طرح کی اذیتیں دینے لگے
حتیٰ کہ وہ آپ ﷺ کے قتل کے درپے ہوگئے جس پر رسولِ خدا ﷺ کو حکم ربانی پر یہ بابرکت شہر چھوڑنا پڑا اور آپ اپنے چند ساتھیوں سمیت رات کے اندھیرے میں مدینہ ہجرت کرگئے ۔روز بعثت سے 8 سن ہجری تک
، یہ عرصہ رسولِ خدا اور دین اسلام کے لئے سخت اور بڑا صبر آزما تھا لیکن آپ اپنی بلند ہمتی اور نیک ارادے کے ساتھ دین کی دعوت و تبلیغ میں لگے رہے اور
اپنی دور اندیشی کے سبب ایسے متعدد فیصلے کئے کہ چند سالوں میں ہی جزیرۃالعرب میں نظریاتی اور عملی انقلاب پیدا ہوا جس سے عرب کے
دور افتادہ خطے بھی نور اسلام سے جگمگا
اٹھا ۔
چنانچہ ایک وہ دن تھا جب نبی کریم ﷺ کو مکہ سے ہجرت
کرنی پڑی اور اب وہ دن بھی آگیا کہ آپ ﷺ
خانہ خدا کو کفر و شرک سے پاک کر کے خالصتاً اللہ ہی کی عبادت کے لئے مختص کردیں تا کہ عرب سے شرک و بت پرستی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے ۔چنانچہ و ہ عظیم دن 8 سن ہجری 17 رمضان
المبارک کا دن تھا جب نبی کریم ﷺ اپنے دس
ہزار جانثاروں کو لیکر مکہ میں داخل ہوئے ۔
مختصراً واقعہ بیان کرتا ہوں کہ صلح حدیبیہ میں دونوں فریقین کے درمیان
کچھ شرائط طے ہوئی تھیں جن میں ایک شرط یہ تھی کہ 10 سال تک دونوں قبائل جنگ نہیں
کرینگے اور عرب کے دیگر قبائل دونوں فریقوں میں سے جس کےساتھ چاہیں اتحاد کرلیں تو
قبیلہ بنو بکر نے قریش کے ساتھ اور بنو خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کرلیا اور ان دونوں قبیلوں میں مدت سے لڑائی
تھی ، بنو بکر کی ایک شاخ بنو نفاشہ نے آب وتیر کے مقام پر موقع غنیمت جانتے ہوئے
خزاعہ پر رات کے وقت حملہ کردیا اور اس حملے میں قریش نے خفیہ طور پر مسلمانوں کے
خلاف مدد کی۔ اس واقعہ کی اطلاع جب رسول
اکرم ﷺ کو ملی تو آپ نے قریش کی طرف پیغام
بھیجا کہ تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط قبول کرلیں۔ (01)مقتولین کا خون بہا(02)بنو
نفاشہ کی حمایت سے انکار (03) اعلان کردیں معاہدہ حدیبیہ ٹوٹ گیا ۔
قریش کے نمائندے قرطہ بن عمر نے کہا ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے۔ چنانچہ 10 رمضان المبارک 8 ھ کو آپ ﷺ
اپنے 10 ہزار جانثار صحابہ کو لیکر مکہ کی طرف چلے ، مکہ کے قریب پہنچ کر آپ نے
اعلان کیا جو شخص ہتھیار ڈال دے ، جو اپنے
گھر کا دروازہ بند کرلے، جو حرم مکہ میں داخل ہوجائے ، جو ابو سفیان کے گھر میں
داخل ہوجائے ان سب کے لئے امان ہے پھر آپ
ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے
اور کعبے کو بتوں سے پاک فرماکر دو نفل ادا کئے اور خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد
کفار قریش (مفتوح ) سے ارشاد فرمایا :کیا میں تمہیں بتاؤں کہ آج میں تمہارے ساتھ
کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ کفار مکہ آپ ﷺ کی
طبیعت سے آگاہ تھے تو کہنے لگے ” اخ
کریم و ابن اخ کریم
“ آپ کرم والے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کی رحمت
جوش میں آئی ،فرمایا: ” لا
تثریب علیکم الیوم فاذہبواانتم الطلقاء“ آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں تم سب
آزاد ہو ۔اس غیر متوقع طور پر عام معافی کا اعلان سن کر کفار جوق در جوق مسلمان
ہونے لگے ۔(واقعہ کی تفصیل کے لئے سیرت رسول عربی کا مطالعہ کریں)
اس
مبارک فتح کے نتائج کیا نکلے ؟اور ہمیں اس فتح میں کیا تعلیمات دی گئی ہیں ان کا سرسری
جائزہ :
1 ۔منزل اور کامیابی کی راہ میں اگر ایک راستہ بند ہو جائے تو
ہزار راستے کھولے ہوتے ہیں ،صلح حدیبیہ میں شرائط مسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن جب معاہدہ ہوگیا کہ قریش کے ساتھ جنگ نہیں
ہوگی تو نبی ﷺ نے تبلیغ کارخ عرب کے دیگر قبائل کی طرف پھیر
دیا نتیجۃً مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور اسلام پھلتا پھولتا رہا ۔
2 ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاق حسنہ کا درس دیتا ہے چنانچہ مکہ فتح ہونے کے بعد جب
کلید مکہ (کعبہ کے دروازے کی چابی) نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں آئی تو آپ نے عثمان بن ابی طلحہ کو بلایا(کعبے کی چابی ان کے پاس ہوتی تھی، فتح مکہ سے قبل انہوں نے ایک بار رسول
اللہ ﷺ کو کعبے میں جانے سے منع کیا تھااور چابی نہیں دی تھی، اب فتحِ مکہ کے بعد
حضورﷺ نے ان کو بلایا) اور کعبے کی چابی منگوائی، جب انہوں نے لاکردی تو آپ ﷺ نے
دوبارہ ان کو عطافرمائی۔ اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے عثمان بن ابی طلحہ سے فرمایا :”یاد
ہے وہ دن جب میں نے کہا تھا کہ ایک وقت آئیگا جب کلید کعبہ میرے قبضہ میں ہو گی
اور جسے چاہوں گا دونگا“توعثمان بن ابی
طلحہ نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق کی ۔ بعض روایات کے مطابق عثمان
بن ابی طلحہ نے ابھی تک اسلام قبول نہیں
کیا تھا، حضور ﷺ کا اخلاق دیکھئے کہ پھر بھی چابی انہیں کو عطا فرمائی۔ چنانچہ بعض روایات کے مطابق عثمان بن ابی طلحہ آ پ ﷺ کے اس اخلاق حسنہ سے متأثر
ہو کر اسلام قبول کرلیا اور آپﷺ کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے۔
3 ۔اس عظیم فتح اور عظیم فاتح نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ
فتح مندی نشے میں چور ہونے کا نام نہیں جس طرح جدید دور میں فتح کے بعد ناچ گانے
، آتش بازی بےہودہ رسومات کی جاتی ہیں بلکہ رسول اکرم ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد تسبیح واستغفار کی ، دو رکعت نفل ادا کی اور خطبہ دیا ۔ سورۃ
النصر میں ہے کہ جب فتح آگئی اور لوگ فوج
در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو اے نبی! آپ اپنے رب کی حمد کیجیئے اور استغفار
کیجیئے ۔
4۔ طاقت و اقتدار رکھ کر بدلہ لینے کے باوجود عام معافی کا اعلان کرکے نبی کریم ﷺ
نے عالمی امن کے پیغام کی واضح مثال پیش کی ہے کہ کس طرح فتح کے بعد امن وامان کی صورتحال کو باقی رکھا جائے
اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اپنی فتح کو برقرار رکھا جائے ۔
5 ۔فتح مکہ ہمیں اللہ تعالی کے وعدے پر امید دلاتی ہےلیکن اسکے
وعدے کی تکمیل کے لئے خود انسان کو کتنی کوشش ،محنت اور مصائب پر صبر کرنا پڑتا ہے یہ بات آپ فتح مکہ سے
پہلےحضور ﷺ کی سیرت کو دیکھیں کہ کس طرح
آپﷺ نے دین کی خاطر محنت و کوشش کی ۔
6 ۔ حضور نبی کریمﷺ کاعمل ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ دشمنوں کو دوست کس طرح بنایا جائے ؟ چنانچہ عفو ودرگزر کر کے عام معافی
کے بعد کئی مخالفین جو آپﷺ کے دشمن تھے کلمہ
پڑھ کر مسلمان ہوتے گئے۔ چند وہ افراد جن کو خاص قتل کرنے کا حکم دیا گیا
تھا لیکن ان میں
بھی صحابہ کرام نے بعض کی سفارش کی تو معاف کردیئے گئے
اور مسلمان ہوگئے اور اس طرح جزیرۃ العرب سے بت پرستی و شرک کا خاتمہ ہوگیا ۔
از۔مولانا محمد مصطفی انیس عطاری مدنی
المدینۃ العلمیہ اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی