راکبِ دوشِ مصطفیٰﷺ، شہزادۂ علی المرتضیٰ،برادرِ
سیّدُالسادات، سیّدہ فاطمۃالزہرہ کےمہکتے پھول رضی اللہ عنہم، جنّتی نوجوانوں کےسردار، میدانِ کربلا کے شاہ سوار،
سلطانِ کربلا، امامِ عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات وہ پاک ہستی ہیں جنہوں نےمیدانِ کربلا
میں دینِ اسلام کی بقاء کے لئے اپنے گھربار،
مال و دولت اوراولادسب کچھ قربان کر دیا۔
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں:
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات پر کثیر احادیثِ مبارکہ موجود
ہیں چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے ارشادفرمایا جس
کا مفہوم کچھ یوں ہے:حسین مجھ سے ہےاور میں حسین سے ہوں، اللہ عزوجل اس
سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے ، حسین میری اولاد کی اولاد ہے۔ (سنن ترمذی،
کتاب
المناقب، باب مناقبِ ابی محمد حسن بن علی
بن ابی طالب الخ، 5/429، الحدیث 3800)
ایک اور مقام پر پیارے آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:بے
شک حسن اور حسین اہلِ جنت نوجوانوں کےسردار ہیں۔ (ایضاً431، الحدیث 3806)
پیدائش کے ساتھ ہی شہادت کی خبر :
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے بعد سے ہی حضرت علی، بی بی فاطمہ
اور دیگر اصحاب سمیت اہلِ بیت رضی اللہ عنہم یہ بات جان گئے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو سرزمینِ کربلا میں ظلم و ستم کے ساتھ شہید کیا جائے گااور نہایت
بےدردی کے ساتھ آپ کا خون کا بہایا جائے گا جیساکہ اُن احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے
جن میں حضور ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں خبر دی جیساکہ حاکم نے
ابنِ عباس رضی
اللہ عنہ سے روایت کی ہےکہ ہمیں
کوئی شک نہیں تھا اور اہلِ بیت بالاتفاق یہ بات جانتے تھے کہ حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو مقامِ طف میں شہید کیا جائے گا۔(المستدرک للحاکم، کتاب
معرفۃالصحابۃ، استشھد الحسین، 4/175، الحدیث 4879)
میدانِ کربلا میں کرامات کا ظہور
اللہ پاک
نےجس طرح اپنے پیارے حبیب ﷺ کو کثیر معجزات سے نوازا بلکہ معجزہ بنا کر
بھیجا اسی طرح آپ ﷺ کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی
بے شمار کرامات سے نوازا تھا جن کا ظہور میدانِ کربلا میں بھی ہوا ۔جہاں آپ رضی اللہ عنہ 50 سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود شجاعت و بہادری کے ساتھ میدانِ کربلا میں
دشمنانِ اہلِ بیت سے جنگ کرتے رہے وہیں آپ رضی اللہ عنہ سے مختلف کرامات ظاہر ہوئیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
بدزبان یزیدی کو گھوڑے نے آگ میں
ڈال دیا
جب امامِ عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے درمیان خطبہ ارشاد فرما رہےتھے تو خیموں کی حفاظت کے لئے خندق میں لگائی گئی آگ
کو دیکھ کر ایک بدزبان یزیدی مالک بن عروہ کہنے لگا:اے حسین! آپ نے دوزخ کی آگ سے
پہلے یہیں آگ لگا لی ۔امام حسین رضی اللہ عنہ
نے اس بدبخت کو جواب دیتے ہوئےفرمایا:کذبت یا عدواللہ (اے خدا
کے دشمن تو جھوٹا ہے) تجھے یہ گمان
ہے کہ میں دوزخ میں جاؤں گااور تو جنت میں جائے گا۔
مسلمانوں کی صف میں سے حضرتِ مسلم بن عو سجہ رضی اللہ عنہ کو مالک بن عروہ کے یہ کلمات بہت ناپسند لگے تو
انہوں نے امامِ عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے اس بد زبان کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت
طلب کی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ میری طرف
سے جنگ کی ابتداء نہیں کی جائے گی۔
یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ الٰہی میں اپنے دستِ مبارک (ہاتھ) پھیلائے اور عرض کیا کہ یا رب عزوجل عذابِ نار سے قبل اسے دنیا میں آتشِ عذاب میں
مبتلا فرما۔آپ رضی
اللہ عنہ کا یہ کہنا تھا کہ اُس
بدبخت کے گھوڑے کا پاؤں ایک سوراخ میں گیاجس کی وجہ سے وہ گھوڑے سے گر گیااور اس
کا پاؤں رکاب میں اُلجھ گیا پھر گھوڑا اسے لیکر بھاگا اور آگ کے خندق میں ڈال دیا۔اس
پر امام حسین رضی
اللہ عنہ نے سجدۂ شکر ادا کیا اور
اللہ
عزوجل کی حمد و ثناء بیان کرتے ہوئے بلند آواز سے (جسے دونوں لشکر سن سکیں) دعا فرمائی: یا اللہ عزوجل ہم تیرے حبیب ﷺ کے گھر والے اور ذریّت (یعنی
اولاد) ہیں ، ہم پر ظلم کرنےوالوں
کے ساتھ انصاف فرما۔
آلِ رسول کے نسب پر جرح کرنے والے کا انجام
اسی دوران دشمنوں کی صف سے ابنِ اشعث نامی شخص
نے کہا کہ آپ کو حضور سرورِ کائنات ﷺ سے کیا نسبت ہے؟ اس کی اس بے ادبی کی وجہ سے امام حسین رضی اللہ عنہ کو کافی تکلیف پہنچی اور وہ بارگاہِ الٰہی میں
عرض گزار ہوئے:یا اللہ
عزوجل ابنِ اشعث نے میرے نسب پر جرح کی ہے اور یہ مجھے تیرے پیارے حبیب ﷺ کا بیٹا تسلیم نہیں کرتا ،یا اللہ عزوجل اس بدزبان کو فوری عذاب میں گرفتار فرما جس کے
بعد اُس بے ادب کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی۔وہ گھوڑے سے اتر کر ایک طرف بھاگا
اور کسی جگہ قضائے حاجت کے لئے برہنہ ہوا تو ایک سیاہ بچھو نے اس کی شرم گاہ میں ڈَنگ
مارا تو وہ اسی حالت میں نجاست آلود زمین پر گر اور اس کی جان نکل گئی۔
مغرور شخص پیاسا واصلِ جہنم ہوا
امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات اور آپ کا مستجاب الدعوات(جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں) ہونے کو دیکھ کر بھی اُن بے باک اور سخت دلوں کو غیرت نہ آئی اور ایک
مغرور شخص نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر کہنے لگاکہ:اے حسین! دیکھو
تو دریائے فرات کیسے موجیں مار رہا ہے مگرخدا کی قسم تم اس کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکو گے حتیٰ کہ تم پیاسے ہلاک ہو جاؤ
گے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ
اُس مغرور شخص کی باتیں سن کر رونے لگے
اور اپنے پاک پروردگار سے عرض کرنے لگے :اللّٰہُمَّ اَمِتْہ عَطْشَانًا یا رب عزوجل
اس کو پیاسا مار۔امام حسین رضی اللہ عنہ
کا دعا مانگنا تھا کہ اُس مغرور شخص کا گھوڑا اسے گرا کر بھاگنے لگا جس کو پکڑنے کے لئے اُس شخص نے دوڑ لگائی جس کے سبب
اس پر پیاس کا غلبہ ہوا اور وہ العطش العطش
کہنے لگا ، اُس کے ساتھیوں نے اسے پانی پلانا
چاہا لیکن ایک قطرہ بھی اُس کے حلق سے
نیچے نہیں اترا اور وہ مغرور شخص اسی شدتِ پیاس میں واصلِ جہنم ہو گیا۔(روضۃ الشہداء،
باب نہم، ج 2، ص 186 تا 188)
امام حسین رضی اللہ عنہ کی
کرامات آپ کی شان و عظمت پر گواہ ہیں
امام حسین رضی اللہ عنہ سے کرامات کا ظاہر ہونا اس بات کی طرف اشارہ
تھا کہ امام حسین رضی
اللہ عنہ کی کرامات آپ کی شان و
عظمت پر گواہ ہیں نیز دشمنانِ اہلِ بیت کو
یہ بتانا تھا کہ دیکھ لو کہ جو ایسامستجاب
الدعوات ہو اس کے مقابلے میں آنا اللہ پاک سے جنگ کرنا
ہے لہٰذا اس معاملے میں اللہ عزوجل سے
ڈرومگر اُن بے باک لوگوں نے دنیاوی منصب
پانے کے لئے حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو شہید کر ڈالا جس کی سزا انہیں دنیا میں بھی ملی۔ ان واقعات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
آلِ رسول کی اللہ پاک کی بارگاہ میں کیسی قدر و منزلت ہے ، صرف دعا
مانگنے کی دیر تھی اور دشمنانِ آلِ رسول چند ہی لمحوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اللہ پاک ہمیں بھی آلِ رسول کا ادب
و احترام کرنےاور اُن کی طرح دینِ اسلام
کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔
از:غیاث الدین عطاری
مدنی
اسکالر، اسلامک ریسرچ
سینٹر(المدینۃ العلمیہ)دعوتِ اسلامی