اعلیٰ حضرت کو اللہ پاک نے جامع کمالاتِ ظاہری و باطنی اور صوری و معنوی بنایا تھا، اوصاف و کمالات میں جس کو دیکھئے آپ کی ذات میں بروجہِ کمال اس کا ظہور تھا، والدین کی اطاعت کا حال یہ تھا گویا کہ اعلیٰ حضرت حضرت سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مَرْوِی اس قول کی عملی تفسیر تھے کہ 3 آیاتِ مقدسہ 3 ایسی چیزوں کے مُتَعَلِّق نازل ہوئیں جو 3 اشیا سے مُتَّصِل ہیں ، ان میں سے کوئی بھی چیز دوسری کے بغیر قبول نہ ہو گی: (1)اَطِیۡعُوا اللہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ (پ۵، النساء: ۵۹) ترجمۂ کنزالایمان:حکم مانو اللہ کا اورحکم مانورسول کا۔ یعنی جس نے اللہ کی اطاعت کی لیکن رسول کی اطاعت نہ کی تو وہ اس سے قبول نہ کی جائے گی۔ (2)وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُواالزَّکٰوۃَ (پ۱، البقرۃ:۴۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکٰوۃ دو۔ یعنی جس نے نما ز پڑھی لیکن زکوٰۃ نہ دی تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے گی۔اور (3)اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوٰلِدَیۡکَط (پ۲۱، لقمٰن: ۱۴)ترجمۂ کنز الایمان : یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ یعنی جس نے اللہ کا شکر اد اکیا لیکن اپنے والدین کا شکر ادا نہ کیا تو وہ بھی اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔اسی وجہ سے اللہ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا والدین کی رضا میں اور اللہ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔(شعب الایمان، 6/177، حدیث:7830)

پیارے اِسْلَامی بھائیو!اعلیٰ حضرت کی پوری زندگی کا مُطَالَعَہ کیا جائے تو یہی سیکھنے کو ملے گا کہ آپ نے ہمیشہ والدین کا اطاعت کی اور دوسروں کو بھی یہی حکم دیا، جیسا کہ اپنے ہی ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں: باپ كی نافرمانی میں اللہ كی نافرمانی اور باپ كی ناراضی میں اللہ كی ناراضی ہے اگر والدین راضی ہیں تو جنّت ملے گی اگر والدین ناراض ہوں تو دوزخ میں جائے گا۔ لہٰذا چاہيے كہ جلد از جلد والدین كو راضی كر ے ورنہ كوئی فرض و نفل عبادت قبول نہ ہوگی اور مرتے وقت كلمہ نصيب نہ ہونے كا خوف ہے۔(والدین ،زوجین اور اساتذہ کے حقوق، ص 17)

آئیے! اعلیٰ حضرت کی حیاتِ طیبہ سے چند واقعات مُلَاحَظہ کرتے ہیں تا کہ ہمیں بھی اپنے والدین کی اطاعت کا جذبہ ملے، چُنَانْچِہ حضرت علامہ ظفر الدین بہاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: جب اعلیٰ حضرت کے والد ماجد مولانا شاہ نقی علی خان صاحب کا اِنْتِقَال ہوا تو اعلیٰ حضرت اپنے حصۂ جائیداد کے خود مالک تھے مگر سب اختیار والدۂ ماجدہ کے سپرد تھا۔وہ پوری مالکہ و متصرفہ تھیں،جس طرح چاہتیں صَرف کرتیں، جب آپ کو کتابوں کی خریداری کیلئے کسی غیر معمولی رقم کی ضرورت پڑتی تو والدۂ ماجدہ کی خدمت میں درخواست کرتے اور اپنی ضرورت ظاہر کرتے۔جب وہ اجازت دیتیں اور درخواست منظور کرتیں تو کتابیں منگواتے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/146)

یہ ہے اطاعت والدین کہ جائیداد کا مالک ہونے کے باوجود سب اختیارات والدۂ محترمہ کو دیدیئے اور پھر خود دینی کتب کی خریداری کیلئے درخواست کرتے، اگر پوری ہوتی تو ٹھیک ورنہ والدۂ محترمہ کی رضا پر راضی رہتے۔یہ ایک مثال ہی نہیں بلکہ ایسی کئی مثالیں ہیں جن سے ہمیں والدین کی اطاعت اعلیٰ حضرت کی حیاتِ طیبہ سے سیکھنے کو ملتی ہے۔ مَثَلًا دوسری بار جب مکہ معظمہ کی حاضری ہوئی، تو پہلے سے کوئی ارادہ نہ تھا، ننھے میاں (اعلیٰ حضر ت کے برادرِ اصغر حضرت مولانا محمد رضا خان) اور حامد رضا خان (شہزادۂ اعلیٰ حضرت) مع متعلقین بارادۂ حج روانہ ہوئے،اعلیٰ حضرت خود لکھنؤ تک اُن کو پہنچانے تشریف لے گئے ۔واپسی پر دل بے چین ہو گیا، گویا کہ آپ کو اپنی نعت کے یہ اشعار یاد آگئے:

گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر

رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سار ا ہو کر

وائے محرومئ قسمت کہ میں پھر اب کی برس

رہ گیا ہمرَہ ِ زُوّارِ مدینہ ہوکر

اسکے ساتھ ہی بے چینی اتنی بڑھی کہ اُسی وقت حج کا قصدِ مصمم فرما لیا، لیکن والدۂ ماجدہ کی اجازت کے بغیر سفر مناسب نہ جانا، چُنَانْچِہ اس سے آگے کا ذکر خود اعلیٰ حضرت ہی کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں:عشاکی نماز سے اوّل وقت فارغ ہو گیا۔ صرف والدۂ ماجدہ سے اِجازت لینا باقی رہ گئی جو نہایت اہم مَسْئَلَہ تھا اور گویا اس کا یقین تھا کہ وہ اِجازت نہ دیں گی، کس طرح عرض کروں؟اور بغیر اجازتِ والدہ حجِ نفل کو جانا حرام۔ آخر کار اندر مکان میں گیا، دیکھا کہ والدۂ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرما رہی ہیں۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا، وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھیں اور فرمایا:کیا ہے؟ میں نے کہا :حضور! مجھے حج کی اجازت دے دیجئے۔پہلا لفظ جو فرمایا یہ تھا :خدا حافظ۔ میں اُلٹے پاؤ ں با ہر آیا اور فو را ً سوار ہو کر اسٹیشن پہنچا ۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت،1/415)

والدہ کی اطاعت کا ایک اور واقعہ انتہائی سبق آموز ہے، چُنَانْچِہ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت (اپنے شہزادے) حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن (جو ابھی چھوٹے تھے)کو گھر کے ایک دالان میں پڑھانے بیٹھے، اعلیٰ حضرت پچھلا سبق سن کر آگے دیتے تھے، پچھلا سبق جو سنا تو وہ یاد نہ تھا اس پر ان کو سزا دی۔آپ کی والدۂ محترمہ (اپنے پوتے) حضرت حجۃ الاسلام کو بہت چاہتی تھیں،انہیں کسی طرح خبر ہوئی تو وہ غصے سے بھری ہوئی آئیں اور اعلیٰ حضرت قبلہ کی پشت پر ایک دو ہتٹر(دونوں ہاتھوں سے)مارا اورفرمایا:تم میرے حامد کو مارتے ہو!اعلیٰ حضرت فورًا جھک کر کھڑے ہو گئے اور اپنی والدہ محترمہ سے عرض کیا:اماں اور مارئیےجب تک آپ کا غصہ فرو(ختم) نہ ہو۔یہ سننے کے بعد انہوں نے ایک دوہتٹر اور مارا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت سر جھکائے کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ خود واپس تشریف لے گئیں۔اس وقت جو غصے میں ہونا تھا ہو گیامگر بعد میں اس واقعہ کا ذکر جب بھی کرتیں تو آبدیدہ ہو کر فرماتیں کہ دوہتٹر مارنے سے پہلے میرے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئےکہ ایسے مطیع و فرماں بردار بیتے کہ جس نے خود کو پِٹنےکے لئے پیش کردیاکیسے مارا؟افسوس۔(سیرت اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان ص 91)

والدین کی اطاعت کے حوالے سے اعلیٰ حضرت کی زندگی بلاشبہ ہمارے لئے مَشْعَلِ راہ ہے، آپ نے اپنے والدین کی زندگی میں ہی ان کا اطاعت و فرمانبرداری نہیں فرمائی، بلکہ بعد از وصال بھی اگر کبھی والدین میں سے کسی نے خواب میں آکر کوئی حکم یا اشارہ فرمایا تو کبھی بھی اس سے روگردانی نہ فرمائی، ایسے چند واقعات کا تذکرہ آپ نے خود ملفوظات شریف میں بھی فرمایا ہے، مَثَلًا فرماتے ہیں :آٹھ دس برس ہوئے رجب کے مہینے میں حضرت والد ماجد(یعنی مولانا نقی علی خان)کو خواب میں دیکھا فرماتے ہیں:احمد رضا!اب کی رمضان میں تمہیں بیماری ہوگی اور زیادہ ہو گی روزہ نہ چھوڑنا۔یہاںبحمداللہ! جب سے روزے فرض ہوئے کبھی نہ سفر نہ مرض کسی حالت میں روزہ نہیں چھوڑا ۔خیر رمضان شریف میں بیمار ہوااور بہت بیمار ہوا مگر بحمداللہ! روزے نہ چھڑے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ۴۱۳)

تُو نے باطل کو مٹایا اے امام احمدرضا

دین کا ڈنکا بجایا اے امام احمدرضا

اے امامِ اہلِ سنّت نائبِ شاہِ اُمم

کیجئے ہم پر بھی سایہ اے امام احمدرضا