استاذ العلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ بن خمیسو خان جمالی کی ولادت 14 اپریل 1898ء بمطابق 1316 ہجری کو بمقام لونی ضلع سبی بلوچستان میں ہوئی۔

مفتی صاحب علیہ الرحمہ کا تعلق جمالی بلوچ قبیلے سے تھا اور ان کا آبائی وطن جھوک سیّد قاسم شاھ تحصیل بھاگ ڈویژن قلات صوبہ بلوچستان تھا جہاں پر اِن کی بارانی زمینیں (یعنی وہ زمین جس کی کاشت بارش کے پانی پر منحصر ہو) تھیں۔( انوار علمائے اہلسنت سندھ )

ولادت کی بشارت

حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ ایک اہل اللہ فقیر کی دعا اور بشارت کے سبب پیدا ہوئے، فقیر نے فرمایا تھا " اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے جو بچہ آپ کو عطا کریگا اس کے داہنے کاندھے پر ایک خاص نشانی ہوگی اگر وہ نشانی ہو تو فقیر کی دعا سمجھئےگا" واقعی مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے داہنے کاندھے پر وہ نشانی موجود تھی۔ ( جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال )

تعلیم وتربیت

حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے قرآن پاک کی تعلیم مشہور اہل اللہ حضرت خواجہ سیّد خواج محمد شا ہ صاحب کاظمی علیہ الرحمہ کے پاس بمقام انجن شیڈ سبی میں حاصل کی، تین درجے اردو پارنس اسکول سبی سے پاس کئے۔ عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ ( لانڈھی فقیر صاحبان ) کے پاس حاصل کی اور 4، 5 برس تک وہیں پڑھتے رہے۔

اس کے بعد سندھ کے مختلف دینی مدارس میں مروجہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے 1334 ہجری میں اعلیٰ تعلیم کے لئے اس وقت کی نامور دینی درس گا ہ ’’ مدرسہ ہاشمیہ قاسمیہ گڑھی یاسین ضلع شکارپور‘‘میں داخلہ لیا، جہاں پر استاذالاساتذہ فقیہ العصر حضرت علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی المعروف صاحب تکبیر علیہ الرحمہ سے 11 ذوالقعد ۃالحرام 1336 ہجری کو فارغ التحصیل ہوکر سند فراغت حاصل کی۔( انوار علمائے اہل سنت سندہ )

قاضی القضاہ

حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ ربیع الثانی 1353 ہجری بمطابق جولائی 1934ء کو عمدۃالفقہاء حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ کےمنتخب کرنے پر خان آف قلات الحاج میر احمد یار خان کے استاد اور ریاست قلات کے قاضی القضاہ ( یعنی چیف جسٹس ) مقرر ہوئے۔

شادی و اولاد

حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے دو شادیاں کی تھیں، ایک اپنے جمالی خاندان میں جس سے آپ علیہ الرحمہ کو ایک بیٹا مولانا عبدالغفار اور ایک بیٹی پیدا ہوئی ، جب کے کوئٹہ اور قلات میں قیام کے دوران خان معظم نے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کی شادی ایک ممتاز سردار گھرانے میں کروائی جس میں سے آپ علیہ الرحمہ کو چار صاحبزادے عبدالرشید، عبدالعزیز، عبدالقادر، عبدالکریم اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔

صحافت

مولانا الٰہی بخش جمالی علیہ الرحمہ ( داماد مفتی اعظم علیہ الرحمہ ) لکھتے ہیں کہ 1340 ہجری بمطابق1921 ء کو حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے سلطان کوٹ ضلع شکارپور میں مستقل رہائش اختیار کی۔

سلطان کوٹ میں رہتے ہوئے حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے مذہبی صحافت کو فروغ دیا، سندھی میں ’’ماہانہ رسالہ ھمایوں‘‘1342 ہجری سے 1345 ہجری بمطابق 1924 ء سے 1928 ء تک چار سال جاری رکھا۔ اس کے بعد’’ ماہنامہ الاسلام ‘‘کے نام سے سلطان کوٹ ہی میں اگست 1935 ء سے 1938 ء تک چار سال جاری رکھا۔ ان دونوں رسائل میں درس تفسیر، مذھبی و علمی مواد، مسائل شرعیہ اور بدمذھبوں کا پرزور اور مدلل رد کیا گیا ہے۔ ( شکارپور جی صحافتی تاریخ )

شخصیت

حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ بیک وقت محدث، اسماء الرجال کے حافظ، فقیہ، مناظر، محقق، مصنف، عظیم مدرس، شاعر اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ علیہ الرحمہ دستار فضیلت سے لیکر اپنی حیات طیبہ کے آخری لمحات تک قال اللہ و قال الرسول کی تعلیم میں مصروف رہے اور تقریبا 50 برس تک دین متین کی خدمت کرتے رہے۔

بیعت

حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کن سے بیعت تھے۔؟

اس سے متعلق مختلف اقوال ہیں۔

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے شاگرد حضرت مفتی محمد رحیم سکندری مدظلہ العالی سے جب اس کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ :حضرت استاذی مفتی اعظم علیہ الرحمہ اویسی سلسلے میں حضور غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔

حضرت مولانا قربان علی سکندری علیہ الرحمہ ( تلمیذ مفتی اعظم علیہ الرحمہ ) حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کی سوانح حیات کے متعلق تحریر کردہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ : 1353 ہجری کو حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ سندھ اور بلوچستان کے مشہوربزرگ اور اپنے پیر طریقت عمدۃالفقہاء حضرت خواجہ محمد حسن جان سرھندی فاروقی علیہ الرحمہ کے منتخب کرنے پر خان آف قلات الحاج میر احمد یار خان کے استاد اور ریاست قلات کے قاضی القضاہ ( چیف جسٹس ) مقرر ہوئے۔

ڈاکٹر ناصر الدین صدیقی قادری اپنی کتاب ’’ بزرگان قادریہ ‘‘میں حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کی بیعت ہونے کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کے ایک ساتھی و مقتدی اور دور حاضر کی ثقہ شخصیت مفتی ظفر علی نعمانی صاحب کا کہنا ہے کہ“ مفتی صاحبداد خان علیہ الرحمہ اپنے آپ کو قادری کہا کرتے تھے، اس وقت بھی مفتی صاحبداد خان علیہ الرحمہ کے خاندان والے خانوادہ حضرت سلطان باہو قادری علیہ الرحمہ سے بیعت ہیں۔

اس بات کی تصدیق محترم المقام حاجی جمیل احمد جمالی صاحب نے بھی کی، ان کا کہنا ہے کہ میرے والد گرامی حضرت مولانا الاہی بخش جمالی علیہ الرحمہ حضرت سلطان العارفین سلطان باہو علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔مزید کہا کہ میری والدہ ( دختر مفتی اعظم پاکستان علیہ الرحمہ ) نے کہا کہ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ حضرت سلطان العارفین سلطان باہو علیہ الرحمہ سے بیعت تھے۔

اندازہ اور غالب گمان یہی ہے کہ استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو علیہ الرحمہ سے ’’ سلسلہ قادریہ ‘‘ میں بیعت تھے۔

درس وتدریس

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے سب سے پہلے تدریس کا آغاز رانی پور ریاست خیرپور میرس سے کیا۔

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے پیر سیّد علی مدد شاہ جیلانی علیہ الرحمہ کے طلب کرنے اور اپنے استاد محترم علیہ الرحمہ کے کہنے پر درگاہ ِقادریہ جیلانیہ رانی پور میں کچھ عرصہ پڑھایا۔اس کے بعد حضرت علامہ مولانا محمد حسن کٹباری علیہ الرحمہ ( سجادہ نشین دربار عالیہ کٹبار شریف بلوچستان ) کے اصرار پر مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے استاد علیہ الرحمہ نے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو تدریس کے لیے ( کٹبار شریف ضلع لہڑی بلوچستان ) بھیجا۔

قیام پاکستان کے بعد جب حضرت علامہ مولانا مفتی ظفر علی نعمانی صاحب علیہ الرحمہ نے بمقام آرام باغ گاڑی کہاتہ کراچی میں ’’ دارالعلوم امجدیہ ‘‘قائم کیا تو حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے وہاں بھی پڑھایا۔

اس کے بعد نے رئیس الفقہاء خواجہ محمد حسن جان سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ کے انتخاب پر ’’سندہ مدرسۃ الاسلام کراچی‘‘ میں بھی تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو کراچی سے حضرت پیر پگارا شاہ مردان، شاہ ثانی علیہ الرحمہ کے طلب کرنے پر استاذالعلماء مولانا محمد صالح مہر علیہ الرحمہ عظیم دینی درس گاہ جامعہ راشدیہ گاہ شریف پیر جو گوٹھ لے آئے۔

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ 1955ء کو جامعہ راشدیہ سے منسلک ہوئے اور اپنے وصال تک اسی جامعہ سے وابسطہ رہے۔حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ جامعہ راشدیہ کے صدر مدرس اور شیخ الجامعہ مقرر ہوئے اور یہاں پر درس وتدریس، فتاوی نویسی، تصنیف و تحقیق کے اہم و ضروری کام میں مصروف رہے اور اپنی حیات طیبہ کے آخری دس سال جامعہ کی ترقی و بہتری میں گز ارے اور علماء کی ایک جماعت تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔( جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال، انوار علمائے اہلسنت سندھ )

تلامذہ

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے کیوں کہ حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے اپنی حیات طیبہ کا اکثر حصہ مختلف مقامات پر درس و تدریس میں گز ارا، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے فیضان کو ان کے جن طلباء نے عام کیا ان میں چند حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں۔

پیر سیّد عبدالجبار شا ہ صاحب رانی پوری علیہ الرحمہ، مولانا میاں تاج محمد کٹباری علیہ الرحمہ، مولانا میاں عبدالحی کٹباری علیہ الرحمہ، مولانا میاں فخرالدین کٹباری علیہ الرحمہ، استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صالح مہر علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مفتی محمد رحیم سکندری مدظلہ العالی، حضرت علامہ مفتی در محمد سکندری علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مفتی عبدالواحد عباسی علیہ الرحمہ، حضرت سلطان الواعظین مفتی عبدالرحیم سکندری علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مولانا سید غوث محمد شاہ صاحب جیلانی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مولانا قربان علی سکندری علیہ الرحمہ، حضرت مولانا محمد موروجہ سکندری مدظلہ العالی وغیرہ

بحیثیت استاد

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کی شخصیت میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک بہترین مدرس میں ہونی چاہیے، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ اپنے طلباء پر والد جیسی شفقت فرماتے اور ان سے محبت رکہتے تھے، استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد رحیم سکندری صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں کہ : استاد مفتی صاحب علیہ الرحمہ کا معمول تھا کہ رات کے وقت لالٹین وغیرہ لئے طلباء کے کمروں کا چکر لگاتے اگر کوئی طالب علم ناساز یا بیمار ہوتا تو فورا ًاس کے علاج معالجے کا اہتمام فرماتے پھرجا کر آرام فرماتے تھے۔ ( جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال )

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے طلباء حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا بے انتہا ادب و احترام کرتے، استاذالعلماء مولانا مفتی محمد صالح مہر علیہ الرحمہ جب حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کوآتا دیکھتے تو حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے ادب و تعظیم کی وجہ سے کھڑےہوجاتے۔( مرد مجا ہد مرد صالح مولانا محمد صالح مہر علیہ الرحمہ )

عادات وخصائل

استاذالعلماء، عمدۃالفقہاء ، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کے متعلق مشہور تھا کہ آپ علیہ الرحمہ رات کا اکثر حصہ تلاوت قرآن پاک میں گز ارتے، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نماز تہجد ادا کرنے کے پابند تھے اس کے علاوہ آپ علیہ الرحمہ درود پاک بکثرت پڑھتے تھے، دلائل الخیرات شریف اور رات کے اذکار پابندی سے پڑھا کرتے تھے۔ ( جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال )

تصنیف وتالیف

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے درس و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں نمایاں خدمات سر انجام دیں، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے اپنے قلم کے ذریعے دین متین کی خوب خدمت کی اور بدمذہبوں کا پرزور اور مدلل رد فرمایا، آپ علیہ الرحمہ نے عقائد کی درست گی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بہتری کے لئے بھی اپنے قلم کا استعمال کیا، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے جو تصانیف تحریر فرمائیں ان کہ نام درج ذیل ہیں۔

البلاغ المبین، مطالبہء حق، نصرت الحق، الحق الصریح، اقامۃ البرھان، گستاخ وھابین جا جواب، وھابی شفاعت جا منکر آھن، التوسل بسید الرسل الی خالق الکل، الصارم الربانی علی کرشن قادیانی، عشرہ کاملہ، سیف الرحمان علی اعداء القرآن، السیف المسلول علی اعداء آل الرسول، تعمیر مساجد کا اہم فتویٰ، القول المقبول ، الہام القدیر فی مسئلۃ التقدیر، سبیل النجاح فی مسائل العیال والنکاح، اسلامی مشاورتی کاونسل کے سوال نامے کے جواب، القول الانور فی بحث النور والبشر، العمل بالتلقیح لایفسد الصوم بالقول الصحیح وغیرہ

فتاوی نویسی

استاذالعلماء،عمدۃالفقہاء، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ علم و فضل و فتاویٰ نویسی میں نا فقط برصغیر میں مرجع الخلائق تھے بلکہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور انگلستان تک سے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے پاس فتویٰ کے لیے سوالات آتے تھے، آپ علیہ الرحمہ کی کمال درجے کی فیاضی اور پابندی تھی کہ ہر ایک کو شافی دلیل اور تفصیل کے ساتھ مستند فتویٰ بھیجتے تھے۔

جمعیت علماء پاکستان نے مسلمانوں کی دینی معاملات میں رہنمائی کے لئے کراچی میں مرکزی دارالافتاء قائم کیا اور جمعیت علماء پاکستان کے قائدین نے متفقہ طور پر حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو اس دارالافتاء کا رئیس منتخب کیا، جہاں آپ علیہ الرحمہ مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے فتاویٰ نویسی کے کام میں مشغول رہے۔

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی فن افتاء میں مہارت کا تذکرہ محقق اہل سنت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ نے اپنی مایہ نازتصنیف ’’تذکرہ اکابر اہلسنت‘‘ میں بھی کیا ہے۔

مفتی اعظم پاکستان کالقب

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کو مفتی اعظم پاکستان کا لقب کس نے دیا اس سےمتعلق جب حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے شاگرد سلطان الواعظین حضرت مفتی عبدالرحیم سکندری علیہ الرحمہ سے استفسار کیا گیاتو انہوں نے فرمایا :حضرت استاذی مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو مفتی اعظم پاکستان کا لقب جمعیت علماء پاکستان والوں نے دیا تھا، اس کے علاوہ اکثر علماء کرام اور مشائخ عظام نے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو اسی لقب ’’مفتی اعظم ‘‘سے یاد کیا ہےجن حضرات نے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو مفتی اعظم پاکستان لکھا ہے ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:

حضرت علامہ مولانا عبدالحامد قادری بدایونی علیہ الرحمہ ( صدر جمعیت علماء پاکستان )، حضرت علامہ مفتی غلام معین الدین نعیمی علیہ الرحمہ ( ایڈیٹر سواد اعظم لاہور )، حضرت مولانا مفتی ریاض الحسن جیلانی حامدی علیہ الرحمہ، خطیب پاکستان حضرت علامہ مولانا عارف اللہ قادری میرٹھی علیہ الرحمہ ( ایڈیٹر ما ہنامہ سالک راولپنڈی ) استاذ العلماء مفتی تقدس علی خان بریلوی علیہ الرحمہ ( سابقہ شیخ الحدیث و شیخ الجامعہ جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ ) حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اعجاز ولی رضوی علیہ الرحمہ ( شیخ الحدیث دارالعلوم نعمانیہ لاہور ) وغیرہ۔

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو’’ مفتی اعظم پاکستان‘‘ کا لقب دینے والے آپ علیہ الرحمہ کے نا شاگرد ہیں، نا استاد، نا ہی پیر بہائی بلکہ ان سب نے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی فقہی بصیرت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ( انوار علمائے اہل سنت سندہ )

ہم عصرعلماءکرام

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے ہم عصر علمائےکرام کی فہرست بہت طویل ہے ان حضرات میں سے چند کے اسماء گرامی یہ ہیں:

حضرت علامہ مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری صاحب علیہ الرحمہ، مجا ہد ملت حضرت علامہ مولانا عبدالحامد قادری بدایونی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مفتی غلام معین الدین نعیمی علیہ الرحمہ ( ایڈیٹر سواد اعظم لاہور ) ، غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ، عمدۃ الفقہاء حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مولانا محمد حسن کٹباری (سجّادَہ نشین دربار عالیہ کٹبار شریف بلوچستان )، حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالباقی ہمایونی علیہ الرحمہ (سجّادَہ نشین درگاہ عالیہ ہمایوں شریف ) ،حضرت علامہ آغا غلام مجدد سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ، استاذ العلماء مفتی تقدس علی خان بریلوی علیہ الرحمہ ( سابقہ شیخ الحدیث و شیخ الجامعہ جامعہ راشدیہ درگا ہ شریف پیر جو گوٹھ ) ،غوث الزماں علامہ محمد قاسم مشوری علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اعجاز ولی رضوی علیہ الرحمہ ( شیخ الحدیث دارالعلوم نعمانیہ لاہور ) حضرت علامہ مولانا قمرالدین عطائی مہیسر علیہ الرحمہ، قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ شا ہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ وغیرہ۔

تحریک پاکستان

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کا شمار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکنان میں ہوتا ہے:

مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے 1939ء کو مذہبی نقطہ نظر سے مسلم لیگ میں شامل ہوکر تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا، کانگریسی حکومت کے خلاف مسجد منزل گاہ سکہر کی آزادی کے لئے کام کیا اور اِتمام حجت کے لیے سندھ کے کانگریسی وزیر اعلی خان بہادر اللہ بخش خان سومرو شکارپوری کو 16 اگست 1939 ءکو مسجد کی آزادی، مسلمانوں کے حقوق کےاحترام اور تحریک کے نتائج کے متعلق خط تحریر فرمایا مگر افسوس کے موصوف نے کوئی توجہ نہ دی۔ ( سہ ماہی مہران سوانح نمبر )

27 تا 30 اپریل 1946 ء کو ’’بنارس انڈیا ‘‘ میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں برصغیر ( پاک و ہند اور بنگال ) سے دو ہزار علماء و مشائخ اہلسنت نے شرکت کی، سب نے متفقہ طور پر یک زبان ہوکر پاکستان کی حمایت کی، ان حضرات میں استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ بھی شامل تھے۔( خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس )

تحریک ختم نبوت

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا،حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ 1952 ء سے ختم نبوت کی بنیادی تحریک کا حصہ رہے۔2 جون 1952 ء کو کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کنوینشن میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے جو بورڈ تشکیل دیا گیا اس میں حضرت علامہ مولانا عبدالحامد قادری بدایونی علیہ الرحمہ، قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ کے علاوہ استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ سندھ سے شامل تھے۔عقیدہ ختم نبوت کے لیے 1953 ء کو پہلی بار علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری علیہ الرحمہ کی قیادت میں تحریک چلائی گئی اس تحریک میں حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ بھی شامل تھے۔

سندھ میں قادیانیوں کے خلاف سب سے اول جس شخصیت نے اپنے قلم کا استعمال کیا وہ بھی حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ ہی تھے اس بات کا اندازہ حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی قادیانیوں کی تردید میں لکھی ہوئی کتاب ’’ الصارم الربانی علی کرشن قادیانی ‘‘کے مطالعے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

شاعری

استاذالعلماء، عمدۃالفقہاء، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ شاعری کا بھی شوق رکھتےتھے اور شاعری میں اپنا تخلص ’’ناصح‘‘ لکھتےتھے۔حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی تحریر کردہ نعتیہ غزلیں انھی کے جاری کردہ ماہوار رسالے ’’الہمایوں‘‘ میں شایع ہوتی تھیں۔

دیدارِمصطفی ﷺ

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے بذریعہ خواب بہت سی بزرگ ہستیوں کا دیدار کیا، ان میں صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ، محبوب سبحانی غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اور اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ شامل ہیں۔

سندہ مدرسۃ الاسلام کراچی میں تدریس کے دوران جس کمرے میں حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ قیام پذیر تھےوہاں آپ علیہ الرحمہ کو خواب میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت فیض بشارت حاصل ہوئی۔ ( جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال )

وصال

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ یکم جمادی الاولی 1385 ہجری بمطابق 29 اگست 1965ء کو اس عالم فانی سے وصال فرماگئے۔

حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ عیدگاہ سلطان کوٹ ، جامعہ راشدیہ کے استاد حضرت علامہ سید حسین امام اختر علیہ الرحمہ کی امامت میں ادا کی گئی۔حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں آپ علیہ الرحمہ کے تلامذہ، محبین، معتقدین اور سلطان کوٹ والوں نے شرکت کی۔حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے وصال پر آنکھیں اشکبار تھیں۔

مزارشریف

استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کا مزار شریف سلطان کوٹ ضلع شکارپور میں واقع ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر اپنی کروڑہا رحمتوں کا نزول فرمائے، ہمیں حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دین متین کی خدمت کا شرف عطا فرمائے اور ہمیں حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے فیض سے مستفیض فرمائے۔ آمین ثم آمین۔