جنّت رسولُ اللہ ﷺ کی

Thu, 9 Jun , 2022
2 years ago

اہلِ اسلام کا یہ عقیدہ ہے  کہ جنّت کا خالق ومالکِ حقیقی اللہ عزوجل ہے، لیکن اُس نے اپنے محبوبِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ملکیت میں جنّت کو دے دیا ہے، لہذا خُدا کے دیئے سے سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و الہ وسلم مالکِ جنّت ہیں۔ یہ عین اسلامی عقیدہ ہے،معاذاللہ! شرک یا اِیمان کے منافی نہیں ہے اور نہ ہی اِس بات سے ربّ تعالیٰ کی ملکیتِ حقیقی میں کوئی نَقص اورکمی واقع ہوتی ہے،بلکہ اِس عقیدے میں تو اللہ جَلَّ شَانُہ کی شان کااظہار ہےکہ وہ ایسا مالکِ مطلق و حقیقی ہے کہ اپنے محبوبوں کو بھی اپنی بنائی ہوئی چیزوں کا مالک بنادیتاہے۔

چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ۔([1])

ترجمۂ کنزالایمان:یوں عرض کر اے اللہ ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے۔

مفسِّرِ شہیر، حکیم الاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِس آیتِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مُلک عطا فرمانے سے بھی وہ ربّ مالک رہتا ہے۔ اس کی مِلکیت میں کوئی فرق نہیں آتا جیسے مولیٰ اپنے غلام کو کچھ دے تو مولیٰ مالک رہتا ہے۔ جیساکہ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ سے معلوم ہوا۔ لہذا بندوں کی عارضی مِلک سے ربّ تعالیٰ کی حقیقی مِلکیت پر کوئی أثر نہیں پڑتا۔‘‘([2])

جو لوگ اِس بات کا انکار کرتے ہیں ان سے امامِ اہل سنت،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں: ؎

اُن کو تَمْلِیکِ مَلِیْکُ الْمُلْک سے مالکِ عالَم کہا پھر تجھ کوکیا([3])

یعنی، مُلک کے مالکِ حقیقی اللہ ربُّ العزت کے جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مالک بنادینے کی وجہ سے ہی میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مالکِ عالَم( جہان کا مالک) کہا ہے۔ لہذا اے انکار کرنے والے! تجھے کیا مسئلہ ہے ؟ اِس اسلامی عقیدے کے مقابل تیرے اعتراض کی کیا حیثیت ہے!

جنّت سرکارﷺ کی جاگیر:

پروردگار عزوجل کے فضل و کرم سے جنّت حضورِاَنورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ملکیت اورجاگیرہے۔اس بات کاثبوت ہمیں کئی آیات اور اَحادیث سے ملتاہے۔ چنانچہ سورۂ مریم میں ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

تِلْكَ الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا ۔([4])

ترجمۂ کنزالایمان:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔

اس آیتِ مبارَکہ کے تحت ’’اخبارالاَخیار‘‘ میں ہے:"یعنی ہم اس جنّت کاوارث محمدصلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کوبناتے ہیں پس ان کی مرضی جسے چاہیں عطافرمائیں اورجس کوچاہیں منع کریں، دنیا وآخرت میں وہی سلطان ہیں، اِنہیں کے لیے دنیاہے اور اِنہیں کے لیے جنّت۔‘‘ ([5])

جنّت عطا فرماتے یہ ہیں:

مفخرِ موجودات، جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خالق و مالکِ جنّت ربّ عزوجل کی عطا سے ایسے مالکِ جنّت ہیں کہ اپنے غلاموں کو بھی جنّت عطا فرماتے ہیں۔چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ جنّتی صحابی حضرت سیِّدُنا ربیعہ بن کعب اَسلمی رضی اللہ عنہ رسولِ اَنورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کیلئے رات کو وُضو کاپانی اور دیگر اشیائے ضرورت حاضرِ بارگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے اس غلام سےشفیعِ اُمّت،نبی رحمت،مالکِ جنّت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نےارشاد فرمایا:’’سَلْ‘‘مانگو ، تو حضرت سیِّدُنا ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’أَسْألُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ‘‘ میں آپ سے جنّت میں آپ کاساتھ مانگتاہوں۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’أَوَغَيْرَ ذَلِكَ؟‘‘اس کے سِوا کچھ اوربھی۔ ([6])

محقّقِ اہل سنت شیخ علی بن سلطان المعروف ملّا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ’’مِرقاۃالمفاتیح‘‘میں اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:

’’وَيُؤْخَذُ مِنْ إِطْلَاقِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ الْأَمْرَ بِالسُّؤَالِ أَنَّ اللّٰهَ تَعَالی مَكَّنَهُ مِنْ إِعْطَاءِ كُلِّ مَا أَرَادَ مِنْ خَزَائِنِ الْحَقِّ۔‘‘یعنی ،نبیِ مکرَّم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے سُوال کو مطلق رکھنے سے یہ ثابت ہواکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبِ ذیشان صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کواس بات پر قادر فرمادیا ہے کہ حق عزوجل کے خزانوں میں سے جو کچھ چاہیں عطافرمادیں۔

مزید نقل فرماتے ہیں کہ:’’وَذَكَرَ ابْنُ سَبْعٍ فِي خَصَائِصِهِ وَغَيْرُهُ أَنَّ اللّٰهَ تَعَالی أَقْطَعَهُ أَرْضَ الْجَنَّةِ يُعْطِي مِنْهَا مَا شَاءَ لِمَنْ يَشَاءُ۔‘‘([7])

یعنی ، ابنِ سبع اور دیگر علمائےاُمت نے رسولِ اَنورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خصائصِ شریفہ میں سے اِس بات کوبھی ذکر فرمایا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے جنّت کی زمین آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی جاگیر کردی ہے، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اس میں سے جوچاہیں جسےچاہیں عطافرمادیں۔

لہذا یہ اور ان جیسی دیگرنصوصِ جلیلہ کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے امامِ اہل سنت ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ربّ کی عطا سےمالکِ جنّت ہیں،مُعْطِیِ جنّت(جنّت دینے والے) ہیں،جسے چاہیں عطافرمائیں۔‘‘ ([8])

تجھ سے اور جنّت سے کیا مطلب اے منکر دُور ہو

ہم رسول اللہ کے جنّت رسول اللہ کی

جنّت کی سیر کروانے کی حکمت:

اللہ ربّ العزت عزوجل نے معراج کی رات اپنے محبوبِ اکبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو اپنی قُدرت کی دیگر نشانیوں کے ساتھ ساتھ جنّت کے مشاہدات بھی کروائے۔ فضلِ خداوندی سےآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے شبِ معراج جنّت کی بھی سیر فرمائی۔ یہاں کوئی سوچ سکتا ہے کہ معراج کی رات رسولِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو جنّت کی سیر کروانے میں ربِّ قدیر عزوجل کی کیا کیا حکمتیں تھیں۔ مشہور محاورہ ہے کہ "فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَایَخْلُوْ عَنِ الْحِکْمَۃ" یعنی، حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

علمائے اسلام نے اِس کی کئی حکمتیں ذکر فرمائی ہیں۔ ان میں سے دوحکمتوں کا بیان حکیمُ الاُمّت مفتی اَحمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کےقلم سے ملاحظہ ہو۔چنانچہ مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’ربّ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ([9]) یعنی اللہ نے مسلمانوں کی جان و مال خرید لئے ہیں جنّت کے بدلے میں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جان و مال کاخریدار، مسلمان فروخت کرنے والے اور یہ سودا ہوا حضور علیہ السلام کی معرفت سے اور جس کی معرفت سے سودا ہو،وہ مال کوبھی دیکھے اور قیمت کوبھی،فرمایا گیا! اے محبوب تم نے مسلمانوں کی جان و مال کوتو دیکھا،آؤ جنّت کوبھی دیکھ جاؤ،اورغلاموں کی عمارتیں اورباغات وغیرہ بھی ملاحظہ کرلو۔ بلکہ خریدار کو بھی دیکھ لویعنی خود پروردگارِ عالَم کی ذات کوبھی۔‘‘([10])

ایک اور حکمت یوں بیان فرماتے ہیں کہ :"حضورعلیہ السلام تمام مملکتِ الہٰیہ کےبہ عطاء الہٰی مالک ہیں۔اسی لئے جنّت کے پتے پتے پر حوروں کی آنکھوں میں غرضکہ ہر جگہ لکھا ہوا ہے ۔لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یعنی یہ چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اور محمد رسول اللہ کودی ہوئیں:

میں تومالک ہی کہوں گا کہ ہومالک کے حبیب

یعنی محبوب و محبّ میں نہیں میرا تیرا

مرضی الہٰی یہ تھی کہ مالک کواُس کی ملکیت دکھائی جاوے صلی اللہ علیہ و سلم۔"

خالقِ جنّت عزوجل ہمیں جنّت میں لے جانے والے کام کرنے ، شفاعتِ مالکِ جنّت صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے صدقے جنّت میں جانے اور وہاں کی اَبدی نعمتوں کو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہ ویٰس

از : ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی

6-06-2022



[1]۔سورۃ آل عمران: 26۔

[2]۔ تفسیرنعیمی،3/355،نعیمی کتب خانہ۔

[3]۔ حدائقِ بخشش،ص361۔

[4]۔سورۃ مریم: 63۔

[5]۔ اخبارالاخیار،ص216،فاروق اکیڈمی ضلع خیرپور۔

[6]۔ صحیح مسلم،کتاب الصلوۃ،1/193،قدیمی کتب خانہ۔

[7]۔ مرقاۃالمفاتیح،کتاب الصلوۃ،2/567،مکتبہ رشیدیہ۔

[8]۔ فتاویٰ رضویہ،14/667،رضافاؤنڈیشن لاہور۔

[9]۔ سورۃ التوبۃ: 111۔

[10]۔ شانِ حبیب الرحمن ،107نعیمی کتب خانہ۔