نام وکنیت:

نام عبد اللہ بن محمد بن عبید بن سفیان بن قیس قرشی ہے،کنیت ابو بکر اور شہرت ابن ابی دُنیاکے نام سے ہے ۔

ولادت:

آپ208ہجری کوبغدادمیں پیداہوئے ۔(سیر اعلام النبلاء،10/694)

اساتذۂ کرام :

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نےاپنے وقت کے جیدعلما اور اکابرمحدثین سے اکتسابِ فیض کیا۔آپ کے اساتذہ میں سے چند کے نام یہی ہیں:امام بخاری، امام ابوداؤد سجستانی،امام احمد بن حنبل،امام قاسم بن سلام،صاحب طبقات امام ابنِ سعد، امام علی بن جعد، امام ابو بکر بن ابی شیبہ،امام عثمان بن ابی شیبہ،امام قتیبہ بن سعید، احمدبن ابراہیم، امام احمدبن حاتم، احمدبن محمدبن ایوب، ابراہیم بن عبداللہ ہروی، داؤدبن رشید، حسن بن حماد، ابو عبیدہ بن فضیل بن عیاض، ابراہیم بن محمد بن عرعرہ، احمدبن عمران احنسی رحمۃُ اللہِ علیہم وغیرہ کے اسمائے گرامی معروف ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء،10/694، تھذیب التھذیب،4/473)

تلامذہ:

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ سے علم حاصل کرنے والوں کی تعداد کافی بڑی ہے ۔ آپ کے اکابر تلامذہ میں سے کچھ کے نام یہ ہیں : امام ابن ابی حاتم، احمدبن محمد، امام ابوبکراحمدبن سلیمان،امام ابن ماجہ،امام ا بن خزیمہ،امام ابوالعباس بن عقدہ، عبداللہ بن اسماعیل بن برہ،امام ابوبکر بن محمدبن عبداللہ شافعی، امام ابوبکر احمد بن مروان دینوری، ابوالحسن احمدبن محمدبن عمر نیشاپوری، اور محمد بن خلف وکیع رحمۃُ اللہِ علیہم ۔ان کے علاوہ بھی بہت لوگوں نے آپ کے علوم سے فیض پایاہے ۔امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے تقریباً 26 تلامذہ کے نام ذکر کئے ہیں۔(سیر اعلام النبلاء،10/696)اورامام ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے 17کے نام ذکر کئے ہیں ۔ (تھذیب التھذیب،4/473)

تعریفی کلمات :

(1)امام ابن ابی حاتم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میں اورمیرے والد امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ کی روایات لکھاکرتے تھے ، ایک دن کسی نے میرے والد صاحب سے امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں پوچھاتو والد صاحب نے فرمایا : وہ بہت سچے آدمی ہیں۔( تھذیب التھذیب،4/474)

(2)قاضی اسماعیل بن اسحاق رحمۃُ اللہِ علیہنے آپ کے وصال کے موقع پرکہا : اللہ پاک ابو بکرکوغریقِ بحررحمت فرمائے !ان کے ساتھ کثیر علم بھی چلاگیا۔( تھذیب التھذیب،4/474)

(3)امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہنقل فرماتے ہیں کہ’’امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ جب کسی کے پاس تشریف فرماہوتے تواگراس کوہنساناچاہتے توایک لمحے میں ہنسا دیتے اور اگررلاناچاہتے تو رُلادیتے کیونکہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ بہت وسیع علم رکھتے تھے ۔(سیر اعلام النبلاء،10/696) نیز فرماتے ہیں:آپ رحمۃُ اللہِ علیہسچے عالم اور محدث تھے۔(تذکرۃ الحفاظ،2/181)

(4)مؤرخ ابن ندیم نے کہا:امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ خلیفہ مکتفی باللہ کے استاد ہیں۔آپ ایک متقی اورپرہیز گار آدمی تھے اور اخبارو روایات کے بہت بڑے عالم تھے ۔(الفہرست،ص262)

(5)علامہ ابن تغری بردی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں: امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ عالم،زاہد،متقی اور عبادت گزار تھے۔آپ سے کثیر حضرات نے روایت کیا اور علما نے آپ کے ثقہ ،سچے اور امانت دار ہونے پر اتفاق کیا۔(النجوم الزاہرۃ،3/86)

تصانیف:

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے کثیر کتابیں یاد گار چھوڑیں ہیں جن میں سے اکثر زُہد و رقائق پرمشتمل ہیں ۔آپ کی نصیحتوں اور مواعظ اورکتب کوہردور میں بے پناہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔حضرت علامہ ابن جوزی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ نے زہدکے موضوع پر100سے زائدکتب لکھی ہیں۔( المنتظم لابن جوزی، 12/341) امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ کی 183کتابوں کے نام بیان کئے ہیں۔(سیر اعلام النبلاء،10/697)آپ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں :

(1)اَلْقَنَاعة(2)قَصْرُالْاَمَل(3)اَلصَّمْت(4)اَلتَّوْبَة(5)اَلیَقِیْن(6)اَلصَّبْر(7)الجُوْع(8)حُسْنُ الظَّنِ بِاللّٰه(9)اَلْاَوْلِیَاء(10)صِفَةُالنَّار (11)صِفَةُ الْجَنَّة (12)تَعْبِیْرُ الرُّؤْیَاء (13)الدُّعَاء (14)ذَمُّ الدُّنْیَا(15)اَلْاَخْلَاق(16)کَرَامَاتُ الْاَوْ لِیَاء(17)عَاشُوْرَاء(18) اَلْمَنَاسِک (19)اَخْبَارُ اُوَیْس(20)اَخْبَارُ مُعَاوِیَه(21) اَخْبَارُقُرَیْش(22) اَخْبَارُ الْمُلوک (23) اَخْبَارُ الثَّوْرِی(24) اَخْبَارُ الْاَعْرَاب (25)ذَمُّ الْمُسْکِر(26)ذَمُّ الْکِذْب (27) ذَمُّ الْبَغی(28)ذَمُّ الْغِیْبة(29)ذَمُّ الْحَسَد(30)ذَمُّ الرِّبَا(31)ذَمُّ الرِّیَاء (32) ذَمُّ الْبُخْل(33)ذَمُّ الشَّہْوَات (سیر اعلام النبلاء،10/697)

وفات:

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نےبروز منگل 14 جُمَادَی الاُولیٰ 281ہِجْرِی میں وفات پائی۔ قاضی یوسف بن یعقوب رحمۃُ اللہِ علیہ نے نمازِجنازہ پڑھائی۔آپ کے جسدِخاکی کو شُوْنِیْزِیَّہ (بغداد)کے قبرستان میں سپردِ خاک کیاگیا۔( تاریخ بغداد ، 10 / 9 0 ، 9 1 ، مقدمۃ التحقيق،ذم الکذب،ص12)

از:محمد گل فراز مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)