از: بنت اکرم
عطاریہ ایم اے اردو، گلشن معمار ،کراچی
آج
جو کچھ زبیدہ بیگم نے اپنی بہن کے منہ سے سنا تھا، اس کی انہیں قطعی امید نہ تھی۔ اپنے تئیں وہ پر یقین تھیں کہ ان کی
بہن ان کی امید نہ توڑے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ رہ رہ کر دماغ میں وہ الفاظ
گردش کر رہے تھے جو ان کی بہن نے کہے تھے کہ میں کیسے زہرا کو اپنے بیٹے کے ساتھ
بیاہ لاؤں! وہ اب یتیم ہو چکی ہے، جہیز میں کیا لائے گی؟ میں چار لوگوں کو کیا دکھاؤں
گی؟ میرے بیٹے کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، گھر اور سسرال میں بس پس کر رہ جائے گا۔
یہ
الفاظ زبیدہ بیگم کے لئے گویا زہریلے نشتر تھے، کیونکہ ان الفاظ نے انہیں سرتاپا
جھنجوڑا ہی نہیں بلکہ ماضی کی کئی تلخ باتیں بھی انہیں یاد کروا دیں، تقریباً یہی
الفاظ انہوں نے چند سال قبل اپنے شوہر کی بھتیجی کے لئے استعمال کئے تھے، جب ان کے
شوہر نے اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کے بارے میں بات کی تھی۔
آہ!
وقت نے کس قدر جلد پلٹا کھایا تھا، آج وہ خود بیوہ ہو چکی تھیں اور ان کی بیٹی کے
سر پر بھی والد کا سایہ نہ رہا تھا، زبیدہ بیگم آج خود احتسابی کی کیفیت کا شکار
تھیں اور خود اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بنے کھڑی تھیں، جو کچھ انہوں نے دوسروں
کی بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا سب کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا کہ کیسے وہ
آئے دن بڑی شان سے اپنے بیٹے کے لئے رشتے دیکھنے جایا کرتیں اور کبھی کسی لڑکی کو
قد کے چھوٹی ہونے کی وجہ سے تو کسی کو جسامت میں موٹی ہونے کی وجہ سے خاطر میں نہ
لاتیں، کبھی کسی کی ناک اور دانت انہیں پسند نہ آتے تو کبھی کسی کی چال اور رنگت اچھی
نہ لگتی، کبھی کسی کی فیملی کے بڑا ہونے پر اعتراض کرتیں تو کبھی کسی کے کم پڑھا
لکھا ہونے کی وجہ سے انکار کر دیتیں۔ غریب
لڑکیوں بالخصوص جن کے سر پر والد کا سایہ نہ ہوتا انہیں محض اس وجہ سے دیکھنا بھی
پسند نہ کرتیں کہ وہ جہیز کم لائیں گی۔ ایسی نجانے کتنی ہی باتیں انہیں آہستہ
آہستہ یاد آ رہی تھی جن کی وجہ سے وہ اب تک من پسند بہو ڈھونڈ نہ پائی تھیں۔
آج
زبیدہ بیگم کو ان سب ماؤں کے دکھ کا اندازہ ہو رہا تھا، جب چوٹ ان کے دل پر لگی
اور ان کی بیٹی کا رشتہ لینے سے انکار کیا گیا ، جو کچھ انہوں نے دوسروں کی بچیوں
کے ساتھ کیا آج خود ویسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہوا تو غلطی کا احساس پیدا ہوا،
فوراً اپنے رب کے حضور معافی کی خواستگار ہوئیں اور اپنی غلطی کو سدھارنے کے لئے
ایک عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کیونکہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ جیسی کرنی ویسی
بھرنی کے مصداق وہ دوسروں کے ساتھ اچھا کریں گی تو یقیناً انہیں بھی اس کا اچھا
صلہ ملے گا۔
زہرہ
نے اپنی ماں کو یوں کہیں جانے کے لئے چادر اوڑھتے دیکھا تو حیرانی سے پوچھا: امی!
خیریت ہے! کہاں جا رہی ہیں؟ بولیں: تمہاری چچی کے گھر تمہارے بھائی کے لئے سعدیہ
کا رشتہ لینے جا رہی ہوں۔ انہوں نے جب یہ بتایا تو زہرہ پہلے تو اپنی والدہ کی اس
کایا پلٹ پر بڑی حیران ہوئی پھر بولی: کیا چچی جان مان جائیں گی۔ تو زبیدہ خاتون
بولیں: ہاں مجھے یقین ہے وہ مان ہی جائیں گی۔ اِن شاءَ اللہ ۔
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین
ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
از: بنت نظر احمد وانی کشمیر
ماں اللہ
پاک کی ایک ایسی نعمت ہے جسے اس نے انسان کی اولین تربیت و نگہداشت کا بہترین ذریعہ
بنایا ہے، انسانوں میں ماں کا کوئی نعمُ البدل ہے نہ رشتوں میں ماں جیسا کوئی رشتہ
ہے، ہمدردی میں ماں سے بڑھ کر کوئی کردار ہے نہ ماں کے دل اور آنکھ جیسا کوئی دل
اور آنکھ کہ دنیا کے ناگوار ترین شخص کو اگر کوئی گوارا کر سکتا ہے تو وہ
ماں کا دل ہے اور اسی دنیا کی بدترین صورت
کو خوبصورت دیکھ سکتی ہے تو وہ ماں کی آنکھ ہے۔
بلاشبہ
تاریخ کے صفحات اولاد کی خاطر ماں کی دی گئی بے مثل قربانیوں کے تذکرے سے بھرے
ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اور دنیا کے سارے لوگ ماں کو بہت زیادہ احترام کے قابل سمجھتے ہیں۔
بچے
پر ماں کے شفقت کرنے اور تکالیف جھیلنے کا آغاز اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتا
ہے اور پھر پیدائش کے وقت اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رکتا، وہ اس کی دیکھ
بھال کرتے کرتے اگرچہ خود بنجر ہوجائے مگر اسے زرخیز بنا دیتی ہے۔ اپنی خواہشوں
اور خوشیوں کا گلا گھونٹ کر بھی اسے خوش دیکھنا چاہتی ہے، اولاد کے لئے اس کے لہجے
میں مٹھاس، کردار میں شفقت، آغوش میں دنیا بھر کی راحت اور قدموں تلے جنت ہے۔
بعض
رشتے ایسے ہیں جن کی عظمت کو پورے طور پر لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے انہی میں سے
ایک ماں کا رشتہ بھی ہے۔ واقعی ماں بہت سی خوبیوں کی جامع ہے۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
دنیائے
فانی میں انسانی ہمدردی کا حامل، فلاحی و معاشرتی لحاظ سے صفوں میں سب سے آگے
نمائندگی کرنے والامذہب ، دینِ حق”مذہب اسلام“ ہے۔قدرتِ الٰہی نے دینِ اسلام کے دھاگے میں فرائض و عبادات کی
ایسی ایسی موتی کو پرویا ہے جس پر عمل کرکے
بندہ نہ صرف قربِ خدا کو حاصل کرسکتا ہے بلکہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور فلاحی
کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو بھی بہترین بناسکتا ہے۔
جی
ہاں!
اس تمہید سے ہم جس عبادت کی طرف اشارہ کرنا چارہے ہیں اس سے ہماری مراد ماہِ ”ذوالحجۃ
الحرام “ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو ہونے والی جانوروں کی قربانی
کے بارے میں ہےجو ہر مسلمان بالغ مرد و عورت مالک نصاب (مالدار) پر واجب ہے۔ان
تین دنوں میں قربانی کے ذریعے حاصل ہونے والے ثواب کو سال کے کسی بھی دن کسی بھی
وسائل سے کمایا نہیں جاسکتا۔ان دنوں افضل یہی ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں
جانوروں کی قربانی پیش کی جائے۔ اس قربانی کے ذریعے نہ صرف ثواب کا ذخیرہ ہاتھ آتا
ہے بلکہ لوگوں کو معاشی و معاشرتی اعتبار سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا ذکر ہم
اس مضمون میں بیان کریں گےاس کے علاوہ قربانی کے وجوب اور فضیلت پر قرآن و حدیث سے دلیل بھی پیش کی جائے گی۔چنانچہ
قرآن کی روشنی میں قربانی کا
وجوب:
اللہ
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ(۲) ترجمہ کنزالایمان: تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (سورۃ
الکوثر، آیۃ2)
قربانی کی فضیلت پر احادیث مبارکہ:
فرمان مصطفٰے ﷺ:
(1)جس نے خوش دلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی ،تووہ آتش جہنم سے حِجاب(یعنی روک)ہو جائے گی۔(المعجم الکبیر، ج3، ص84، حدیث 2736)
(2) اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے پاس
موجودرہو کیونکہ اِس کے خون کا پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف کر دیئے
جائیں گے۔ (السنن
الکبری للبیہقی، ج9، ص476، حدیث19161)
قربانی کے معاشی فوائد
قربانی
عبادت کے ساتھ ساتھ لاکھوں لاکھ افراد کو کاروبار کا ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے اور ملکی معیشت کو بھی اربوں روپے کافائدہ پہنچاتا ہےجس کی چند
مثالیں ملاحظہ کیجئے:
٭ قربانی
کے لئے بہت سے لوگ اپنے گھروں، باڑوں یا کیٹل فارمز Kettle farms
میں جانور پالتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کے لئے ملازمین رکھے جاتے ہیں ٭کسان جانوروں کے چارے کے لئے کھیتی باڑی کرتا
ہے ٭اگر جانور بیمار ہوجائے تو علاج کے لئے ڈاکٹر زسے مدد لی جاتی ہے ٭جانور بیچنے والے اسے بیچنے کے لئے منڈی
لانےتک اور خریدار جانور کو اپنے گھر لے جانے
کے لئے گاڑیوں کو کرایے پر لیتے ہیں ٭جانور
کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانے کے لئے راستے میں حکومت کو ٹول ٹیکس ادا کیا جاتا
ہے ٭منڈی میں جانور رکھنے کے لئے جگہیں
کرائے پر لی جاتی ہیں ٭جانوروں کی
حفاظت کے لئے ٹینٹ اور دیگر لوازمات کا کرایہ ادا کیا جاتا ہے ٭منڈی آنے والے افراد کے لئے منڈی میں مختلف
کھانے پینے کے اسٹال لگائے جاتے ہیں ٭منڈی
میں بچے اور بزرگ گھوم گھوم کر ماسک بیچ رہے ہوتے ہیں
٭جانوروں کو سجانے کے لئے
سجاوٹ کا سامان خریدا جاتا ہے ٭چھری،
چاقو تیز کرنے والوں کے کاموں میں تیزی آجاتی ہے ٭چھری،
چاقو کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے ٭قصابوں
کو بھی تلاش کیا جارہا ہوتا ہے٭قربانی
کے بعد گوشت کو پکانے کے لئے مصالحہ جات کا استعمال ٭قربانی
کے بعد لیدر انڈسٹری Leather
industry جانوروں کے کھالوں کی منتظرہوتی ہے٭قربانی
کی کھالوں سے دینی مدارس اور فلاحی اداروں کو مالی مدد ملتی ہے۔
اس کے
علاوہ اور بہت سے ایسے کاروبار ہیں جو عین
قربانی کے دنوں میں عروج پر ہوتے ہیں جن
کے ذریعے مالدارو ں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر
غریبوں اور مزدوروں کو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے۔
قربانی کے معاشرتی فوائد
قربانی
سے جہاں ثواب کا ذخیرہ ہاتھ آتاہے اور مالی مسائل حل ہوتے ہیں ، وہیں معاشرتی
ماحول میں بھی درستگی آتی ہے۔قربانی ہمیں بھائی چارگی اور اخوت کا پیغام بھی دیتی
ہےجیسے ٭قربانی کے جانور کی حفاظت میں
دوست احباب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ٭قربانی
کے وقت خاندان کے چندلوگ ، دوست احباب اکٹھے ہوکر جانور کو نحر (ذبح) کرنے
میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ٭جانور
ذبح ہونے کے بعد کلیجی پکتی ہے جو گھر میں آئے مہمان ساتھ مل کر کھاتے ہیں ٭بعض مقامات پر پکی ہوئی کلیجی اپنے پڑوسیوں کو
بھی بھیجواتے ہیں جس سے ان کے دلوں میں خوشی پیدا ہوتی ہے ٭قربانی کے بعد گوشت بانٹنے کا سلسلہ ہوتا ہے جو
ایک رشتہ دار کو دوسرے رشتہ دار سے، ایک امیر کو ایک غریب سے ملانے کا سبب ہے
کیونکہ بعض دفعہ مصروفیات کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے کئی کئی دن بلکہ کئی کئی
مہینوں تک نہیں مل پاتے ٭رشتہ داروں
میں ایک دوسرے کو دعوتیں دی جارہی ہوتی ہیں ٭قربانی
کا گوشت ایسے غریبوں کے گھر بھی پہنچ رہا ہوتا ہے جو بیچارے پورے سال گوشت کھانے
سے محروم رہتے ہیں اور گوشت دینے والا ان کی دعائیں لے رہا ہوتا ہے۔
الغرض
قربانی معاشرے کے افراد میں ایک دوسرے کے لئے الفت و چاہت اور ادب و احترام پیدا
کرنے، معاملات کو مشترکہ طور پر انجام دینے ، ایک دوسرے کے ساتھ تعان کرنے، ایک
دوسرے کو تحائف دینے اور صلہ رحمی کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے معاشرے پر مثبت
اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی الفت اور باہمی تعلقات سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔
اللہ
پاک! ہمیں قربانی کرتے وقت تمام حقوق کا خیال رکھنے اور عزیر و اقارب کے ساتھ الفت
و محبت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
چغلی کی تعریف:
کسی کی بات ضَرر (یعنی نقصان )پہنچانے کےاِرادے سے دُوسروں کو پہنچانا چُغلی ہے۔ (عُمدۃُ القاری
ج2 ص594) امام نَوَوِی رحمۃُ اللہِ علیہ نے چغلی
کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : لوگوں میں
فساد کروانے کے لئے اُن کی باتیں ایک دوسرے تک پہنچانا چغلی ہے۔ (شرح مسلم للنووی ج1،جزء 2،ص211)افسوس! آج ہمارے معاشرے میں چغلی کا مرض عام ہے۔بدقسمتی سے بعض لوگوں میں یہ
مرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود اس کا علاج نہیں ہوپاتا۔ ایسوں سے گزارش ہے کہ چغل خوری کی مذمت میں اللہ پاک اوراس کےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرامین ملاحظہ کریں اور چغل خوری کے نتیجے میں
ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لئے مرنے سے
پہلے کامل توبہ کر لیں ۔
چغل خوری کی مذمت میں آیات:
چغل خور ی کی مذمت بیان کرتے ہوئے
رب تعالیٰ فرماتاہے : (1)وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍۙ)۱۰ (هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍۙ)۱۱( (پ29،القلم:11،10)ترجمۂ کنز الایمان: اورہرایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل بہت
طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا۔حضرت سیِّدُناحسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےفرمایا: ” هَمَّازٍ “وہ شخص ہےجو مجلس میں اپنے بھائی کی چغلی کھاتا ہے۔ (تفسیر بغوی،القلم ،تحت الآیۃ:11 ،5/136) (2)وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ
لُّمَزَةِ )ﹰۙ ۱( (پ30، الھمزة:1) ترجمۂ کنز الایمان: خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منھ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے
بدی کرے۔اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ ”mH
“سے مراد چغل خور ہے۔(احیاء العلوم،3/ 192)
چغل خور ی کی مذمت میں احادیث:
(1) چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(بخاری،
4 / 115 ، حدیث : 6056) (2) اللہ پاک کے بد ترین بندے وہ ہیں جو لوگوں میں چغلی کھاتے پھرتے
ہیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں۔ (مسند احمد ،10/442، حدیث27670) (3)غیبت کرنے والوں، چغل خور اورپاکباز لوگوں پر عیب لگانے والوں
کا حشر کتوں کی صورت میں ہوگا۔ (الترغیب والترہیب ،3/325،حدیث:10)
چغلی کے نقصانات:
چغلی کے بہت سے نقصانات ہیں،ان میں سے چند نقصانات یہ
ہیں*چغلی محبّت ختم کرتی ہے*چغلی سے لڑائیاں ہوتی ہیں*چغلی سے دشمنی کی فضا قائم ہوتی
ہے*چغلی احترامِ مسلم کا خاتمہ کرتی ہے*چغلی خاندانوں کو تباہ کرتی ہے*چغلی قتل و غارت
تک لے جاتی ہے*چغلی غیبت و جھوٹ کی طرف لے جانے والی ہے *چغلی اللہ و رسول کی نافرمانی کا سبب ہے*چغلی جہنّم میں لے جانے والا
کام ہے*چغلی بندوں کے حقوق ضائع کرنے کا سبب
ہے۔
چغلی کی مثالیں:
مثلاً کسی طالب علم کا کسی
دُوسرے کو سزا دِلوانے کے لیے اُستاذ سے
شکایت کرنا، میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا کرنے کی خاطر ان کے سامنے ایک دوسرے کی
کمزوریاں بیان کرنا، بھائی کو بھائی سے لڑوانے کے لیے اُس
کےعیب ظاہرکرنا، اولاد کو ماں باپ سے دُور کرنے کے لیے ان میں پائی جانے والی
بُرائیوں کا ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب
مثالیں موقع محل کی مناسبت سے چُغْلی میں شامل ہوں گی۔
حکایت:چغل خور غلام:
حضرت حَمّاد بن سَلَمَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے
ہیں:ایک شخص نے غلام بیچا اور خریدار سے کہا: اس میں چغل خوری کے علاوہ کوئی عیب
نہیں۔اس نے کہا: مجھے منظور ہے اور اس غلام کو خرید لیا۔غلام چند دن تو خاموش رہا
پھر اپنے مالک کی بیوی سے کہنے لگا:میرا آقا تجھے پسند نہیں کرتا اور دوسری عورت
لانا چاہتا ہے،جب تیرا خاوند سو رہا ہو تو اُسْتَرَے کے ساتھ اس کی گدی کے چند بال مونڈ لینا تاکہ میں کوئی
منتر کروں اس طرح وہ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ دوسری طرف اس کے شوہر سے جا کر کہا
:تمہاری بیوی نے کسی کو دوست بنا رکھا ہے اور تمہیں قتل کرنا چاہتی ہے،تم جھوٹ موٹ
سوجاناتاکہ تمہیں حقیقت حال معلوم ہو جائے۔ چنانچہ وہ شخص بناوٹی طور پر سو گیا،
عورت اُسْتَرَا لے کر آئی تو وہ سمجھا کہ اسے قتل کرنا چاہتی ہے لہٰذا وہ اٹھا اور
اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ پھر عورت کے گھر
والے آئے اور انہوں نے اسے قتل کر دیا اور اس طرح چغل غور کی وجہ سے دو قبیلوں کے
درمیان جنگ ہوگئی۔(احیاء العلوم،3/194)
چغلی اور عذاب قبر:
حضرت قتادَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں : عذابِ قبر کو تین
حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:(1)ایک تِہائی (1/3) عذابِ غیبت کی وجہ سے (2)ایک تِہائی چغلی کی وجہ سے
اور (3)ایک تِہائی پیشاب(کے چھینٹوں سے خود کو نہ بچانے)کی وجہ سے ہو تا ہے۔ ( اثبات عذاب القبربیھقی
، ص136 ، حدیث : 238) حضرت کعب احبار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: چُغلی سے بچو کہ بلاشُبہ چغلی کرنے والا عذابِ قبر سےمحفوظ نہیں رہتا۔(76کبیرہ گناہ، ص154) حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَافرماتی ہیں کہ رسولِ خدا صَلَّی
اللہُ عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
مجھ سے ارشاد فرمایا: اےمیمونہ! عذابِ قبر سے اللہ پاک کی پناہ مانگوکیونکہ زیادہ تر عذابِ قبر غیبت اور پیشاب (سے نہ بچنے)کی وجہ سے
ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، 5/ 303، حدیث : 6731)
چغلی اور چغل خور سے چھٹکارا دلانے والے چھ
اُمور :
حضرت امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہفرماتے ہیں: جس شخص کے پاس چغلی کی جائے اور اس سے کہا جائے کہ فُلاں نے
تمہارے بارے میں یہ کہا یا تمہارے خلاف ایسا کیا یا وہ تمہارے معاملے کو بگاڑنے کی
سازش کر رہا ہے یا تمہارے دشمن سے دوستی کرنے کی تیاری کر رہا ہے یا تمہاری حالت
کو خراب کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے یا اس قسم کی دوسری باتیں کہی جائیں تو ایسی صورت میں اس پر چھ باتیں لا زم ہیں۔﴿1﴾…اس کی تصدیق نہ کرے کیو نکہ چُغْل خور فاسق ہوتا ہے اور
فاسق کی گو اہی مردود ہے۔﴿2﴾…اسے چغلی سے منع کرے، سمجھائے اور اس کے سامنے اس کے فِعْل
کی قَباحَت ظاہر کرے ۔﴿3﴾…اللہ پاک کی رِضا کے
لئے اس سے بغض رکھے کیونکہ چغل خور اللہ پاک کو ناپسند
ہے اور جسے اللہ پاک ناپسند کرے اس سے بغض رکھنا واجب ہے۔ ﴿4﴾…اپنے مسلمان بھائی یعنی جس کی غیبت کی گئی اس سے بدگمان نہ
ہو کیو نکہ اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا
مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ26،الحجرات:12)ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والوبہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا
ہے۔ ﴿5﴾…جو بات تمہیں بتائی گئی وہ تمہیں تَجَسُّس اور بحث پرنہ اُبھارے کہ تم اسے حقیقت سمجھنے لگ جاؤ۔اللہ ارشاد فرماتا ہے : وَلَا تَجَسَّسُوْا (پ26، الحجرات:12) ترجمۂ کنز الایمان: اور عیب نہ ڈھونڈھو۔﴿6﴾…جس بات سےتم چغل خور کو منع کر رہے ہو اسے اپنے لئے پسند نہ
کرو اور نہ ہی اس کی چغلی آگے بیان کرو کہ یہ کہو:اس نے مجھ سے یہ یہ بات بیان کی۔
اس طرح تم چغل خور اور غیبت کرنے والے ہوجاؤ گے اور جس بات سے تم نے منع کیا خوداس
کے کرنے والے بن جاؤ گے۔ (احیاء
العلوم،3/194)
از:محمد گل فراز مدنی(اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
مجدِّدِ اعظم
،امامِ اہلسنّت،اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا
خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے
پانی کی رنگت سےمتعلّق 11صفحات پر محیط شاندار
تحقیق فرمائی ہے۔ سطورِ ذیل میں اس تحقیق کا مختصر خُلاصہ پیشِ خدمت ہے۔
خُلاصۂ
تحقیق
پانی
کی رنگت میں اختلاف:
محققین
کا اِس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا پانی
کاکوئی رنگ ہے بھی یا نہیں۔بعض علما و محققین کے نزدیک پانی بے رنگ ہے اور بعض کی
تحقیق کے مطابق پانی ذِی لَون (رنگ والا) ہے۔
چنانچہ امامِ اہلسنت ،اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے
دلائلِ نقلیہ و عقلیہ کے ذریعے اِس بات کو ثابت فرمایا ہے کہ پانی ذِی لَون یعنی رنگ والا ہے۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے
فرمایا :صحیح یہ ہے کہ پانی کا رنگ
ہوتاہے۔ امام فخرالدین رازی وغیرہ کئی
علما و محققین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِم کا یہی مختار
ہے۔نیز فقہائے کرام
رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِم نے پانی
سے متعلّق شرعی اَحکام بیان کرتے ہوئے
پانی کے ذِی لَون(
رنگ والا )
ہونے کو جابجا تواتر کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ عبارتِ امام ملاحظہ ہو: "اور صحیح یہ کہ وہ ذی لَون(رنگ والا) ہے ،
یہی امام فخر الدین رازی وغیرہ کا مختار ہے جو کلام فقہا مسائل آبِ کثیر و آبِ
مطلق وغیرہما میں ذکرِ لَون متواتر ہے۔"[1]
اس کے بعد
امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نےچند
ایسی حدیثوں کو نقل فرمایا جن میں پانی کے
لئے "لَون" یعنی رنگ والا ہونےکا ذکر فرمایا گیا ہے۔ پھر پانی کے رنگ والا ہونے کے مَوْقِف پر عقلی دلیل بھی ذکر فرمائی ہے کہ :
" معہذا مقرَّر ہوچکا کہ اَبصارِ عادی دُنیاوی کے لئے مرئی کا ذی لَون ہونا
شرط ہے ،بلکہ مرئی نہیں مگر لَون و ضیا ،تو
پانی بے لَون کیونکر ہوسکتاہےو لہذا ابنِ کمال پاشا نے اُس کے حقیقۃً ذی لَون ہونے
پر جَزم کیا۔"[2]
مذکورہ بالا
سطور کا خلاصہ یہ ہے کہ دُنیا میں عادۃً ظاہری نگاہوں سے رنگ والی شے کو ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ دِکھائی دی جانے والی چیز کے لئے رنگ والا ہونا شرط ہے ، لہذا پانی کا ظاہری آنکھوں سے دِکھائی دینا ہی اِس کے ذِی لَون(رنگ والا) ہونے
کی دلیل ہے۔
پانی
کا رنگ سیاہ یا سفید:
جن علما و محققین کے نزدیک پانی ذِی لَون یعنی رنگ والا ہے ان میں بھی باہم
اختلاف ہے۔ بعض محققین کےنزدیک پانی کا
رنگ سفید ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ پانی
کا رنگ سیاہ یعنی کالا ہے۔ امامِ اہلسنّت ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے دونوں طرف
کے محققین کے دلائل کو نقل فرما کر ان کے تحقیقی اور تشفی بخش جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔ چنانچہ پانی کے سفید
رنگ والاہونے کی نفی کرتے ہوئے امامِ
اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے
پیش کردہ دلائل میں سے تین دلیلیں ملاحظہ ہوں:
چند
دلائل کاذکر:
1: مشاہدہ
شاہد کہ وہ (پانی)سپید
نہیں ولہذا آبی اُس رنگ کو کہتے ہیں کہ نیلگونی کی طرف مائل ہو۔
2: سپید
کپڑے کا کوئی حصہ دھویا جائے جب تک خشک نہ ہو اس کا رنگ سیاہی مائل رہے گا،یہ پانی
کا رنگ نہیں تو کیا ہے۔
3: دُودھ
جس میں پانی زیادہ ملا ہو سپید نہیں رہتا ،نیلا ہٹ لے آتا ہے۔[3]
تحقیقاتِ رضا کی روشنی میں پانی کی رنگت :
اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے
اختتامِ بحث پر دلائل اور براہین کی روشنی
میں پانی کی رنگت کے حوالے سے تحقیقی قول ارشاد فرمایا ہے اور اس پر زبردست قسم کے
شرعی وسائنسی دلائل بھی بیان فرمائے ہیں۔[4]
چنانچہ قلمِ
رضا کو جنبش ہوتی ہے اور تحقیقاتِ رضا میں سے ایک عظیم شہ پارہ یوں ترتیب پاتا ہے:
أَقُوْل:
حقیقتِ اَمر یہ ہے کہ پانی خالص سیاہ نہیں ،مگر اُس کا رنگ سپید بھی نہیں ،میلا
مائل بیک گونہ سواد خفیف ہے اور وہ صاف سپید چیزوں کے بمقابل آکر کھل جاتا ہے جیسا
کہ ہم نے سفید کپڑے کا ایک حصہ دھونے اور دودھ میں پانی ملانے کی حالت بیان کی واللّٰہ سبحٰنہ وتعالی أعلم۔[5]
حاصلِ کلام: دلائلِ
نقلیہ و عقلیہ کے تناظر میں معاملے کی حقیقت
یہ ہے کہ پانی بے رنگ (colorless) نہیں
ہے ، بلکہ ذِی لَون (رنگ والا)
ہے۔پھر پانی کی رنگت کے حوالے سے بھی تحقیق یہ ہے
کہ پانی کا رنگ نہ تو خالص سیاہ ہے اور نہ
ہی (دودھ
وغیرہ کی طرح)بالکل سفید ہے۔ پانی کا اصل رنگ "ہلکا سیاہی
مائل" ہے ۔
جو اس نے
لکھ دیا ہے سَند ہے وہ دِین میں
اہلِ قلم
کی آبرو نُقطہ رضا کاہے
وادی رضا
کی ، کوہِ ہِمالہ رضا کا ہے
جس سمت
دیکھیےوہ علاقہ رضا کا ہے
سگِ
درگاہِ اعلیٰ حضرت
ابوالحقائق
راشد علی رضوی عطاری مدنی
١٩ذوالقعدہ١٤٤٣ھ،
مطابق 19 جون 2022ء، بروز: اتوار
[1]…فتاوی
رضویہ،3/236، رضافاؤنڈیشن لاہور۔
[2]…فتاوی
رضویہ،3/237، رضافاؤنڈیشن لاہور۔
[3]…فتاوی
رضویہ،3/238، رضافاؤنڈیشن لاہور۔
[4]… اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالی عَلَیْہنے اپنے مَوقِف پر اِنتہائی شاندار انداز میں دلائل قائم فرمائے ہیں ۔ چونکہ عوام الناس ان
دلائل کو کماحقُّہ نہیں سمجھ سکتی ،اِس
لئے ان کا یہاں تفصیلی یا اِجمالی ذکر نہیں کیا گیا۔ اہلِ علم
حضرات مسئلۂ مذکورہ میں امام کے تفصیلی دلائل کو جاننے کے لئے فتاوی
رضویہ مخرَّجہ کی تیسری جلد کے صفحہ 235 تا 245 کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
[5]…فتاوی
رضویہ،3/244-245، رضافاؤنڈیشن لاہور۔
اس جہانِ رنگ و
بو میں بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو تاریخ
لکھتےہیں، جبکہ بعض وہ ہوتے ہیں جن کو خودتاریخ
لکھتی ہے۔ آج ہم جن کے بارے میں بات کر رہےہیں، وہ بجا طور پر اپنے عہد کی تاریخ
ساز شخصیت ہیں۔ ان کی عادات و اطوار کی کیا بات کی جائے۔ قدرت
نے ان کو جو دیا ہے ناں ،بڑی فیاضی سے عطا
فرمایا ہے۔
☆ لوگ
شریعت کے جزئیے کتابوں میں تلاشتے ہیں ہم نے شریعت کے جزئیات کو ان کی اداؤں میں پنہاں دیکھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کی ذات سنتِ نبویہ کی سمٹی
ہوئی کتاب ہے۔
☆ لوگ سنتوں
کو اپنانے کیلئے لاکھوں جتن کرتے ہیں جبکہ یہاں یوں لگتا ہے کہ طبعی طور پر ہر ادا
موافقِ شرع ہے۔
☆ہر قول دین و سنت کا آئینہ دار ہے یا جذبَۂ خیر خواہی سے
سرشار، ان کی نشست و برخواست ہو یا عمل و
کردار ، قول و قرار ہو یا رفتار و گفتار، اَلْغَرَض!
بِسطامی خصائل، جنیدی شَمائل اور رومی سوچ کا مظہر آج کے دور میں جسے دیکھنا ہو
وہ ان کی ذات کو دیکھ سکتا ہے ۔
☆ذکر و فکر، صبر و شکر، عشق و عرفان، ضبط و تحمل، ایثار و توکل، تسلیم و رِ ضا، خدمت و طاعت، عبادت و
ریاضت، زہد و تقویٰ، عجز و انکسار، احتیاط اور صدق و صفا سمیت وہ کون سی عادت ہےجو ان میں موجود نہیں ہے۔
☆ چشمِ
فلک اس بات پر شاہد ہے کہ ان کی ذات مصدر الحسنات، منبع الفیضان اور مرجع الخلائق ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے دلوں کی دھڑکنوں
کو محسوس کیا اور پھر خود بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے ہیں۔
☆ آج ہم
اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےہیں کہ دنیا کے مقتدر علمائے کرام اور ذی وجاہت مشائخِ
عظام ان کے جلوہ کے گرد پروانہ وار پھرتے ہیں۔یہ کیفیت خواص کی ہے جبکہ عوام کے
ہجومِ عاشقاں کی طرف نظر دوڑائیں تو کتنی آنکھیں ہیں جو ان کے دیدار سے سیر نہیں
ہو پاتیں، کتنے قلوب ہیں جو ان کی عقیدت سے شکِیبْ آشنا نہیں ہو پاتے، زائرین کا حال یہ ہوتا ہے کہ ”اے جلوۂ
جاناناں! دل دیتا ہوں نذرانہ! “ کہہ کر قدموں پر لَوْٹنے کیلئے تیار ہیں۔
☆ ان کے
طرزِ گفتگو میں نُزہتوں اور نکہتوں کا ایسا سویرا ہوتا ہے جو ماحول کو لطیف اور
فضا کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔
☆ یہ جب
بولتے ہیں تو سامعین کی توجہات کا مرکز بن جاتےہیں اور جب خاموش رہتے ہیں تب بھی توجہ انہی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔
☆ وہ منظر ذہن میں
لائیں ، جب یہ رشد و ہدایت کا منبع اور علم و آگہی کا پیکر بن کر، عقیدت، محبت
اور الفت کے پھولوں کی مالاؤں سے سج دھج کر، امام ِ اعظم ابوحنیفہ
کے علم ، علامہ عراقی کے تصوف، امام غزالی کے فلسفۂ
زہد، شیخ بایزید کے کردار، شیخ جنید کی
گفتار اور امام احمد رضا کی للکار کافیض بانٹ رہے ہوتے ہیں، اور کاروبارِ زندگی سے منسلک تمام طبقات اپنی بِساط
بھر لُوْٹ رہے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی عالَمِ خیال کی منظر کشی نہیں ہے بلکہ مدنی
مذاکرے کے جلووں کی ایک جھلک ہے۔
☆ ان کی پرانے انقلابی بیانات ہوں یا وعظ و نصیحت سے بھرپور موتیوں
کی مالائیں ہوں ، ان کی دعوت و آواز میں خونِ جگر شامل ہوتا ہے، ان کی آواز اپنی
دلکشی، رعنائی، انفرادیت اور نرالی ادا کی ایسی اَلَسْتی پکار ہے جس نے اہل ِدل کے
ساتھ ساتھ سخت سے سخت دلوں کے بھی تار ہلا دیئے ہیں۔ آج کے اس مادِیّت زدہ دور
میں ان کی آواز ہی ہے جو غافل روحوں اور
بے چین دلوں کے درد کا دَرْمَاں ثابت ہوئی ہے۔
☆ روایتی
انداز کے برعکس ان کی بے ساختہ گفتگو جب جذب و مستی، حِدَّتِ عشق، رموزِ تصوف، معاشرتی
اسرار، تجارب و واقعاتی نتائج کی روشنیوں
سے قلوب و اذہان کو منور کرتی ہے تو کسی کو تن من کی خبر نہیں رہتی، خصوصی مدنی
مذاکروں میں چشمِ زَدَنْ میں رات کے سارے پہر گزر جاتے ہیں اور محفل میں شرکت کی
سعادت پانے کیلئے سحر بھی آن دھمکتی ہے۔
☆عام
مشاہدہ یہی ہے کہ جو صاحبِ تصنیف ہو وہ کتابوں کے ہجوم میں گم رہتا ہے، لوگوں سے
ربط و ضبط اس کے لئے بارِ گراں ہوتا ہے، جو محقق ہو وہ پوری عمر کتابوں کی گرد
جھاڑنے میں کھپا دیتا ہے معاشرے کی رَوِش سدھارنے کو وہ کارِ فضول سمجھتا ہے، جو
صوفی ہو وہ فقط اپنے گریبان میں سارے جہاں کا مشاہدہ کرنے میں مشغول رہتا ہے، وہ
مکاشفے اور مراقبے میں ایسا غرق رہتا ہے کہ گرد و پیش سے ہی بے نیار ہوجاتا ہے،
لیکن ہمارے پیر کے کمالات میں سے یہ ہے کہ وہ مقبول و مشہور مصنف بھی ہیں اور
ہزاروں کو شرفِ ملاقات سے بھی فیض یاب فرماتے ہیں، باطنی و ظاہری بیماریوں کے اسپیشلسٹ بھی ہیں تو معاشرے کی
زلفِ پریشاں کو سنوارنے کیلئے مصروفِ عمل بھی، وہ مراقبے اور محاسبے کے پابند صوفی
و صافی بزرگ بھی ہیں اور دکھیاری امت پر پڑنے والے مصائب پر بے قرار بھی۔
☆ عام طور
پر مشاہیر و مشائخ کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنا علاقہ و ایریا جہاں ان کے شب و روز،
صبح و شام، بچپن اور جوانی گزری ہوتی ہے وہاں کے لوگوں کی نگاہ میں ان کا کوئی
خصوصی مقام نہیں ہوتا، لیکن اس عمومی ضابطے سے ہمارے پیر کی ذات مستثنیٰ ہے، جس
طرح دور دراز علاقوں میں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں ان کے دیوانے ان کیلئے دیدہ و
دل فرشِ راہ کئے ہوتے ہیں اسی طرح
کھارادر اور میٹھا در کے باسیوں کے دلوں
پر بھی انہی کا راج ہے، بلکہ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ آج وہ کون سا دل ہے جس پر غوثِ
اعظم کے اس متوالے کا سکہ نہیں چل رہا، وہ کون سی نگاہ ہے جس میں ان کے دیدارِ پُر
جمال کا عکس نظر نہیں آتا، ہزاروں نہیں
لاکھوں ہیں جن کے دل دھڑکتے ہیں تو ان کی یاد میں، جن کی آنکھیں ترستی ہیں تو ان کی دید کیلئے،
جن کی سماعتیں مچلتی ہیں جو ان کی صدائے دل نواز کیلئے اور جو منتظر رہتے ہیں تو صرف
ان کے اشارۂ ابرو کے۔
یہ شان دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ برکۃ
العصر ، فرید الدہر ، نباضِ قوم، کُشتہ عشقِ رسول، آفتابِ علم و حکمت، مقبول عوام
و خواص مولانا محمد الیاس عطارقادری صاحب محبوبیت کے اعلیٰ منصب پر فائز
ہیں۔ آپ دنیا میں مسلکِ اعلی حضرت کی پہچان ہیں، رضویت کے پاسبان ہیں اور ناموس
صحابہ واہل بیت کے علمبردار ہیں، اللہ کریم آپ کو عافیتوں
والی عمرخضری عطا فرمائے۔ آمین
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط
دُرود
شریف کی فضیلت
حضرت علامہ مَجدُالدّین فیروز آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ سے منقول ہے :جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں)بیٹھواورکہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو اللہ پاک تم پر ایک فِرِشتہ مقرّر فرمادے گا جو تم کو غیبت سے
بازرکھے گا۔اور جب مجلس سے اُٹھو تو کہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو فِرِشتہ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے باز رکھے گا ۔ (القول البدیع ،ص278)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب _ _صَلَّی
اللهُ علٰی مُحَمَّد
دنیا،
قبر(برزخ) اور آخرت
عام طور پر لوگ دو عالَموں (یعنی دنیا وآخرت) کے بارے میں گفتگو کرتے اور ان کے لئے
ہی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انسان کےلئےپانچ عالَم ہیں: عالَمِ اَرواح، عالَمِ دنیا،
عالَمِ برزخ، عالَمِ حشر اورعالَمِ آخرت(یعنی
جنت اور جہنم)۔ انسان
کےایک عالَم سے دوسرےعالَم میں منتقل ہونےکےاَسباب مُقَرَّرہیں۔ عالَمِ اَرواح سےعالَمِ
دنیامیں آنے کاسبب والدین ، عالَمِ دنیا سے عالَمِ برزخ میں جانے کا سبب موت، عالَمِ
برزخ سے عالَمِ حشر میں پہنچنے کاسبب صورِ اسرافیل اورعالَمِ حشر سے عالَمِ آخرت میں منتقل ہونے کا
سبب ایمان یا کفر ہے۔ الغرض! انسان کے پیشِ
نظر تین عالَم ہیں: (1)…… عالَمِ دنیا۔(2)…… عالَمِ برزخ اور (3)……عالَمِ آخرت ( یعنی جنت یا جہنم) اور ان تین میں سے
بھی دو کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ”دنیا و آخرت کو “جبکہ ایک تعداد ہے جو برزخ وقبر
کو بھولی بیٹھی ہے حالانکہ ’’برزخ “ ایسا عالَم ہے جس سےپہلےبھی دواوربعدمیں
بھی دوعالَم ہیں یہاں سےاس کی اہمیت کااندازہ
لگایاجاسکتا ہے۔
اس رسالے کے شروع میں دنیا کی اہمیت، قدر
ومنزلت اور حیثیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں رہ کر قبر وآخرت میں کام آنے
والے اور فائدہ مند چند اعمال بیان کئے گئے ہیں، پھر قبر وبرزخ کے معاملات اور اس میں
کام آنے والے چند اعمال بیان ہوئے ہیں اور پھر آخرت کی اہمیت وفضیلت اور آخرت میں
فائدہ پہنچانے والے کچھ اعمال بیان ہوئے ہیں۔چنانچہ عالَمِ دنیا یہ بہت مختصر،
جلد ختم ہونے والااور فانی ہے، اس کی ابتدا
انسان کی پیدائش اور اختتام موت ہے۔ بعض کی دنیاوی زندگی عیش وعشرت میں گزرتی ہے جبکہ
بعض کی مصائب وآلام میں۔ اگر عیش وعشرت میں زندگی گزارنے والا مال دار مومن فرمانبردار
ہے تو کامیاب اور اگر نافرمان ہے تو دھوکے
کا شکار۔ اسی طرح مصائب و آلام میں زندگی گزارنے والا مسلمان اگر صابر وشاکر ہے تو
کامیاب اور اگر بےصبرا ور ناشکرا ہے تو ہلاکت میں
مبتلا ہوگا۔ یوں یہ دونوں ہی آزمائش میں ہیں۔ نیز دنیا اور اس کی نعمتوں کے حصول کے
لئے جتنی بھی کوشش کی جائے ملے گا اتنا ہی جتنا نصیب میں ہوگا۔ پس اس کی فانی نعمتوں
اور آسائشوں کے پیچھے بھاگنا خود کو مصائب وآلام میں ڈالنے اور تھکانے کے مترادف
ہے، لہٰذا اس کی حقیقت وحیثیت اور مقام ومرتبے کو سمجھنا چاہئے۔
چنانچہ دنیا وی زندگی کی حقیقت قرآنِ مجید(پ4: سورۃ اٰل عمرٰن:185) میں یوں بیان کی گئی ہے ترجمۂ کنز الایمان:
اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔
تفسیرخزائن
العرفان:مشہور
مفسر، خلیفَۂ اعلیٰ حضرت،
صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:
’’دنیا کی حقیقت اس مبارک جملہ نے بے حجاب کر دی۔ آدمی زندگانی پرمفتون (شیدائی ودیوانہ) ہوتا ہے۔ اسی کو سرمایہ سمجھتا ہے اور
اس فرصت کو بیکار ضائع کر دیتا ہے۔ وقت اخیر(موت
کے وقت) اسے معلوم
ہوتا ہے کہ اس میں بقانہ تھی۔ اس کے ساتھ دل لگانا حیاتِ باقی اور اُخروی زندگی کے
لئے سخت مُضَرَّت رساں (نقصان
دہ ثابت) ہوا۔ حضرت
سعید بن جبیر رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہنے فرمایا
کہ’’دنیا طالبِ دنیا کے لئے متاع غرور اور دھوکے کا سرمایہ ہے۔ لیکن آخرت کے طلب
گار کے لئے دولت باقی کے حصول کا ذریعہ اور نفع دینے والا سرمایہ ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمۂ کنز الایمان:
تو ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی۔(پ۲۱،لقمٰن:۳۳)تفسیر نور العرفان: مشہور مفسر، حکیم الاُمت مفتی احمد یار
خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ اس کی تفسیر میں
لکھتے ہیں:’’دنیا کی زندگی کو باقی سمجھ کر رب سے غافل ہو جانا بڑی ہی غفلت ہے یہ تو
پانی کے بلبلے کی طرح خالی غلاف ہے جس کی کچھ حقیقت نہیں، خیال رہے کہ اولیاء، انبیاء
کی دنیاوی زندگی دنیا کی زندگی نہیں بلکہ آخرت کی زندگی ہے کہ وہ حضرات اس میں توشَۂ
آخرت جمع کر لیتے ہیں لہٰذا یہ آیت ہم جیسے غافلوں کو بیدار کرنے کے لئے ہے۔‘‘ (نور
العرفان، پ21،سورۂ لقمٰن، تحت الآیۃ:33)
دنیا کی حیثیت
حضرت سیِّدُناسہل بن سعد رَضِیَ اللہُ عَنْہ
سےمروی ہے کہ حضورنبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: لَوْ کانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَاللہِ جَنَاحَ
بَعُوْضَۃٍ مَّاسَقٰی کَافِرًا مِّنْہَاشَرْبَۃَ مَاءٍ یعنی اگر اللہ پاک کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھر کے پَر برابر بھی ہوتی تو وہ اس میں سے کسی
کافر کو پانی کا ایک گھونٹ نہ پلاتا۔ (ترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء فی ھوان الدنیا علی اللّٰہ، 4/ 143، حدیث:2327)
حضرت سیِّدُنا مُستَورِد بن شداد رَضِیَ اللہُ عَنْہ
سے مروی ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا: وَاللہِ مَا
الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ اَحَدُكُمْ اِصْبَعَهُ ھٰذِہِ
فِي الْيَمِّ ، فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرجِعْ یعنی
بخدا! آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر
میں ڈالے پھر دیکھے کہ وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے۔ (مسلم
، کتاب الجنة وصفة نعیمھا
واھلھا، باب فناءالدنیاوبیان الحشریوم القیامة، ص:1171،حدیث
: 7197)
شرح حديث
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس
حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:’’مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی بہت تنگ ہے اور فنا
ہونے والی ہے جبکہ آخرت دائمی ہے اور اس کی نعمتوں کو بھی ہمیشگی ہے لہٰذا اگر اِس
اعتبار سے دیکھا جائے تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت وہی ہے جو انگلی پر لگنے
والے پانی کی سمندر کے مقابلے میں ہوتی ہے۔‘‘(شرح مسلم للنووی ،
9/ 192 ، الجزءالسابع عشر)
مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد
یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مذکورہ حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’ یہ بھی فقط سمجھانے کے لیے ہے ورنہ فانی اور متناہی کو باقی ، غیر فانی ، غیر متناہی
سے (وہ) وجہ نسبت بھی نہیں جو بھیگی انگلی کی تری
کو سمندر سے ہے۔ خیال رہے کہ دنیا وہ ہے جو اللہ سے غافل کر دے، عاقل عارف کی دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے اس کی دنیا بہت ہی عظیم ہے۔ غافل کی نماز بھی دنیا ہے جو وہ نام نمود کے لیے
اداکرتا
ہے۔ عاقل(نیک، متقی و پرہیزگار) کا کھانا پینا ، سونا جاگنا بلکہ جینا
مرنا بھی دِین ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّم کی سنت ہے۔ مسلمان اس لیے کھائے پئے سوئے جاگے کہ
یہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی سنتیں ہیں۔ حَیَاۃُ الدُّنْیَا
اور چیز ہے، حَیاۃٌ فِی الدُّنْیَا اور حَیَاۃٌ لِّلدُّنْیَا کچھ اور یعنی دنیا کی زندگی، دنیا میں
زندگی ، دنیا کے لیے زندگی ، جو زندگی دنیا میں ہو مگر آخرت کے لیے ہو دنیا کے لیے
نہ ہو وہ مبارک ہے ۔ مولانا(روم
رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ) فرماتے ہیں:
آب
اندر زیر کشتی پشتی است
آب در کشتی ہلاک کشتی است
یعنی:
کشتی دریا میں رہے تو نجات ہے : اور اگر دریا
کشتی میں آجاوے تو ہلاک ہے۔
مؤمن کا دل مال و اولاد میں رہنا چاہیے
مگر دل میں اللہ و رسول کے سوا کچھ نہ رہنا ضرو ری ہے ۔(مراۃ المناجیح،
7/ 3)
دنیا کیا ہے؟
مشہور مفسر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان
نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’خیال رہے کہ دُنیاوی زندگی
وہ ہے جونفسانی خواہشات میں خرچ ہو۔اورجوزندگی آخرت کی تیاری میں صرف ہو، وہ دُنیاکی
زندگی نہیں اگرچہ دُنیامیں زندگی ہے۔دُنیاکی زندگی اور ہے۔ دُنیا میں زندگی کچھ اور۔
دُنیاکی زندگی فانی ہے مگرجودُنیامیں زندگی آخرت کے لئے ہے، فنا نہیں۔‘‘(نور العرفان، پ30،سورۂ نازعات، تحت الآیۃ:39)
حضرت سیِّدُنا سفیان ثَوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: دنیا کو دنیا اس لئے کہتے ہیں
کہ یہ’’دَنِيَّة یعنی گھٹیا‘‘ہے اور مال کو مال اس لئے کہتے
ہیں کہ یہ مال دار کوٹیڑھاکردیتا ہے۔ (حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء،7/ ۱۱، رقم:9339)
عقل مندی کا تقاضا
پس جب اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دنیا کی حقیقت اور حیثیت واضح طور پر
بیان کر دی تو اب عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لئے بقدر ضرورت ہی کوشش کی جائے
اور حرص و لالچ میں آ کر اسے حاصل کرنے کے لئے بلاضرورت خود کو مشقت میں نہ ڈالا جائے
کیونکہ اس کے پیچھے جتنا بھاگیں گے یہ اتنا ہی دور ہوتی جائے گی، اگر اسے چھوڑ دیا جائے اور کوئی اہمیت نہ دی جائے
تو پیچھے پیچھے آئے گی۔ اس کی مثال انسان کے سائے کی مثل ہے کہ اگر بندہ اپنے سائے
کے پیچھے بھاگے تو اسے پکڑ نہ سکے گا بلکہ وہ اسے تھکا دے گا اور اگر اسے چھوڑ کر مخالف
سمت میں چلنا شروع کر دیا جائے تو پیچھے پیچھے آتاہے دنیا کا حال بھی یہ ہی ہے۔ لہٰذا
دنیا میں اس طرح رہا جائے جس طرح حضور نبی
پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رہنے کی تعلیم دی۔
دنیا میں مسافر کی طرح رہو
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عُمَررَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بیان کرتےہیں کہ اللہ پاک کےآخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرا کاندھا پکڑکرارشادفرمایا:کُنْ فِی الدُّنْیَاکَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْکَعَابِرِ
سَبِیْلٍ یعنی دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم پردیسی
یامسافرہو۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی کن فی الدنیا…الخ، 4/ 223، حدیث:6416)
دنیا کے محبوب وپسندیدہ اعمال
ایک بار حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اَصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے، گفتگو
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ
دُنْیَاکُمْ ثَلَاثٌ اَلطِّیْبُ وَالنِّسَاءُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی
الصَّلٰوۃِ ’’
یعنی مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں: خوشبو لگانا،بیویاں اورنماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے۔‘‘یہ
سن کر حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ نے سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی
تین چیزیں محبوب ہیں: ’’ اَلنَّظْرُ اِلَی
وَجْہِ رَسُوْلِ اللہِ وَاِنْفَاقُ مَالِیْ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ وَاَنْ یَّکُوْنَ
اِبْنَتِیْ تَحْتَ رَسُوْلِ اللہِ یعنی
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کے رُخِ روشن کی
زیارت کرنا، اپنا مال آپ کی مبارک ذات پر نچھاور کرنا اور اپنی بیٹی کو آپ کے نکاح
میں دینا ۔‘‘ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
بارگاہِ صدیقی میں عرض کی: آپرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں: ’’اَلْاَمْرُ بِالْمَعْرُوْف وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَر
وَالثَّوْبُ الْخَلِقُ یعنی نیکی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا اور پرانے
کپڑے پہننا۔‘‘ یہ سن کر حضرت سیِّدُنا عثمان غنی ذوالنورین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
بارگاہِ فاروقی میں عرض کی: آپرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں محبوب ہیں: ’’اِشْبَاعُ الْجِیْعَانِ وَکِسْوَۃُ الْعُرْیَانِ وَتِلَاوَۃُ
الْقُرْاٰنِ یعنی
بھوکے کا پیٹ بھرنا، بےلباس کو کپڑے پہنانا اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا۔‘‘ یہ سن
کر حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ
الْکَرِیْمنے بارگاہِ
عثمانی میں عرض کی: آپرَضِیَ اللہُ عَنْہ نے
سچ فرمایا اور مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں
محبوب ہیں: ’’اَلْخِدْمَۃُ لِلضَّیْف
وَالصَّوْمُ فِی الصَّیْف وَالضَّرْبُ بِالسَّیْف یعنی مہمان کی خدمت کرنا، گرمیوں میں روزے
رکھنا اور تلوار کے ساتھ جہاد کرنا۔‘‘ یہ تمام گفتگو سن کر حضرت سیِّدُنا جبرائیل امین عَلَیْہِ السَّلَام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:
اللہ پاک نے آپ سب کی یہ گفتگو سن کر مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھ سے بھی یہ استفسار فرمائیں کہ اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو مجھے کون سی چیزیں محبوب ہوتیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
اِستفسار فرمایا:اے جبرائیل! اگر تم دنیا والوں میں سے ہوتے تو تمہیں کون سی چیزیں
محبوب ہوتیں۔عرض کی: ’’ اِرْشَادُ الضَّالِّیْنَ
وَمُوَانَسَۃُ الْغُرَبَاءِ الْقَانِتِیْنَ وَمُعَاوَنَۃُ اَھْلِ الْعَیَالِ الْمُعْسِرِیْنَ
‘‘یعنی راہ بھولنے
والوں کو راہ دکھانا، فرمانبردار اجنبیوں سے ہمدردی کرنا اور تنگ دست عیال دار کی مدد کرنا۔‘‘
پھر حضرت سیِّدُنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام عرض گزار ہوئے: اللہ پاک کوبھی اپنے بندوں کی تین خصلتیں محبوب ہیں: ’’بَذْلُ الْاِسْتِطَاعَۃ وَالْبُکَاءُ عِنْدَ النَّدَامَۃِ وَالصَّبْرُ
عِنْدَ الْفَاقَۃِ یعنی
(نیکیوں کے معاملے میں ) اپنی
طاقت کو خرچ کرنا، ندامت کے وقت رونا اور فاقے کی حالت میں صبرکرنا۔‘‘(المنبھات لابن حجر،
ص :27)
حضرت سیِّدُنا ابو دَرْدَاء رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرمایا کرتے کہ اگر
تین چیزیں نہ ہوتیں تو میں موت کو ترجیح دیتا۔ عرض کی گئی: وہ تین چیزیں کون سی ہیں؟ارشاد
فرمایا:(1)……دن رات اپنے ربّ کریم کے حضور سجدے کرنا، (2)……سخت گرمی کے دنوں میں پیاسا
رہنا (یعنی روزے رکھنا) اور (3)……ان لوگوں کے حلقوں میں بیٹھناجو کلام کوعمدہ پھلوں
کی طرح چنتے ہیں۔پھر فرمایا: کمال درجہ کا تقویٰ یہ ہے کہ بندہ ایک ذرّہ کے معاملے
میں بھی اللہ پاک سے ڈرے اورجس حلال میں ذرّہ بھر حرام کا شبہ ہو اسے ترک کر دے ،اس
طرح وہ اپنے اور حرام کے درمیان مضبوط آڑ بنالے گا۔(الزھد الکبیر للبیھقی، ص ۳۲۴، حدیث:۸۷۰)
حضرت سیِّدُنامعضد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ اگر تین چیزیں نہ ہوتیں تو مجھے اپنے شہد کی مکھی
ہونے کی بھی پروا نہ ہوتی: (1)……گرمیوں کی دوپہر کی پیاس (یعنی گرمیوں کے روزے)، (2)……(عبادت کے لئے) سردیوں کی لمبی راتیں اور (3)……نماز تہجد
میں کِتَابُ اللہ (تلاوت
قرآن) کی لذت۔(حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ۴/ ۱۷۴، رقم:۵۱۶۱)
دنیا کے تین حصے اور ان کی وضاحت
دُنیاکے تین حصے ہیں:(1)…وہ جس میں ثواب ہے (2)…وہ جس کاحساب ہے اور (3)…وہ جس میں عذاب ہے ۔ ثواب والا حصہ: وہ ہےجس کے وسیلے سے
بندہ بھلائی تک پہنچتا اور بُرائی سے نجات پاتا ہے۔ یہ مومن کی سواری، آخرت کی کھیتی اور کفایت کرنے والی حلال
روزی ہے۔ حساب والا حصہ: وہ ہے جس کی وجہ سے تو کسی حکم کی ادائیگی سے غافل نہ ہو اور
اس کی طلب میں کسی ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرے اور اس کے اہل وہ اغنیا(مال دار) ہیں جن کا حساب طویل ہوگا، فقرا (غریب، مسکین جن کے پاس دنیاوی مال ودولت
نہیں ہے وہ) ان
سے 500 سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ عذاب والا حصہ: وہ ہے جس میں بندہ تمام ضروری
اُمور کی ادائیگی سے دور ہو کر گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جو اس حصے کا مالک بنے
گا یہ اس کو آگ کی طرف بڑھائے گا اور خسارے کے گھر میں دھکیل دے گا۔( الرسالة المذکرة،ص۴۱)
خلاصہ
پس یہ دنیا جس میں
ہم زندگی گزاررہے ہیں ، آخرت کی کھیتی ہے،ہم
پر لازم ہے کہ اپنی عمر بھلائی کے کاموں میں صرف کریں کیونکہ ہرنئے دن ، دنیا ہم سے
دور ہوتی جارہی ہے اور آخرت ہمارے قریب آرہی ہے،آج عمل کاموقع ہے اورکوئی حساب نہیں
لیکن کل صرف حساب ہوگا اورکچھ عمل نہ کرسکیں گے۔ نیز جب دنیا اتنی ناپائیدار، فانی
اور جلد فنا ہونے والی ہے تو عقل مند وہی ہے جو اس کے لئے اتنی ہی بھاگ دوڑ اور تیاری
کرے جتنا اس میں رہنا ہے۔ پھر چونکہ یہ آخرت کی کھیتی ہے اور اس میں جو بوئیں گے وہی
کاٹیں گے تو چاہئے کہ دنیاوی زندگی کو قبر وآخرت کی تیاری میں بسر کیا جائے نہ کہ
صرف دنیا بنانے اور سنوارنے میں۔
عالَمِ برزخ
دنیا و آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے
جسے برزخ کہتے ہیں۔ تمام انسانوں اور جنّوں کو حسب مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے اور
یہ عالَم اِس دنیا سے بہت بڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ
کے ساتھ دنیا کو۔ برزخ میں کسی کو آرام ہے اور کسی کو تکلیف۔ چونکہ برزخی زندگی دنیاوی
زندگی کے مقابلے میں بہت طویل ہے لیکن ختم ہونے والی ہے۔ اس کی ابتدا موت اور اختتام
حشر کے لئے قیامت کے دن اٹھنا۔چنانچہ:اللہ
پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:(پ18،المؤمنون:۱۰۰)ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کے آگے ایک
آڑ ہے اُس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے۔تفسیر خزائن العرفان:
مشہور مفسر، خلیفَۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ’’ان کے آگے ایک آڑ ہے‘‘کے تحت فرماتے
ہیں: ’’جو انہیں دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع (روکے ہوئے)ہے اور وہ موت ہے۔(خازن، پ 18، المؤمنون، تحت الاٰیۃ:۱۰۰، ۳/ ۳۳۱) بعض مفسرین نے کہا کہ برزخ وقت موت سے وقْتِ
بعث (یعنی قیامت کے
دن اٹھائے جانے) تک کی مدت
کو کہتے ہیں۔‘‘
برزخ کیا ہے؟
برزخ کے لفظی معنیٰ آڑ اور پردہ کے ہیں
اور مرنے کے بعد سے لے کر قیامت میں اٹھنے تک کا وقفہ برزخ کہلاتا ہے۔ سیِّدی اعلیٰ
حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں عرض کی گئی: ’’برزخ کی تعریف
تو یہ ہے کہ جو دو چیزوں کے درمیان متوسط ہو، جسے دونوں سے علاقہ ہو سکے۔ جب صرف برزخ
کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کا مفہوم قبر ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ برزخ سے مراد قبر ہے
یا وہ زمانہ جو مرنے کے بعد سے قیامت یا حشر تک ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: نہ قبر نہ وہ زمانہ بلکہ وہ
مقامات جن میں موت کے بعد حشر تک روحیں حسب مراتب رہتی ہیں ۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت،ص
455 بحوالہ: مفردات الفاظ القراٰن
للراغب الاصفہانی، ص
118)
آخرت کی پہلی منزل
عالَم برزخ آخرت کی منزلوں میں سے پہلی
منزل ہے جس نے اس میں نجات پائی اس کے لئے آگے کی منزلیں آسان ہوں گی۔ چنانچہ مروی
ہے کہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی ذوالنورین رَضِیَ اللہُ عَنْہ
جب کسی قبر پرتشریف لاتےتواس قدرآنسو بہاتے کہ آپ کی داڑھی مبارک ترہوجاتی ۔ عرض
کی گئی: جنت ودوزخ کا تذکرہ کرتے وقت آپ نہیں روتے مگر قبر پربہت روتےہیں اس کی وجہ کیاہے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے حضورنبی پاک
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم سےسنا
ہےکہ بےشک آخرت کی سب سے پہلی منزل قبر ہے، اگر قبر والے نے اس سے نجات پائی تو بعد کا معاملہ
اس سے آسان ہے اور اگر اس سے نجات نہ پائی تو بعد کا معاملہ زیادہ سخت ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب القبر والبلی،
۴/ ۵۰۰، حدیث:۴۲۶۷)
حضرت سیِّدُنابَراءبن عازبرَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان
کرتےہیں:ہم حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
ہمراہ ایک جنازے میں شریک تھے تو آپ قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ مٹی بھیگ
گئی۔ پھرارشاد فرمایا: اس کے لئے تیاری کرو۔)ابن
ماجہ ، کتاب الزھد، باب الحزن والبکاء، 4/ 466، حدیث :4195)
مسلمانوں کے پہلے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت
سیِّدُناابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: مَنْ دَخَلَ الْقَبْرَ
بِلَازَادٍ فَکَاَنَّمَا رَکِبَ الْبَحْرَ بِلَاسَفِیْنَۃٍ یعنی جو شخص قبر میں توشہ(یعنی نیک اعمال)کے بغیر داخل ہوا اس کی مثال اس شخص کی
طرح ہے جو سمندر میں کشتی کے بغیر داخل ہو جائے۔(المنبھات لابن حجر،
ص:3)
کوئی راحت میں تو کوئی تکلیف میں
دنیاکی طرح برزخ میں بھی لوگوں کی مختلف
حالتیں ہوتی ہیں۔ بعض عیش وعشرت میں ہوتے ہیں اور بعض تکلیف میں، جس نے دنیا میں اللہ
پاک اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی گزاری اور رحمتِ الٰہی شاملِ حال رہی تو وہ برزخ
وقبر میں بھی راحت و سکون میں ہوگا خواہ مال دار ہو یا فقیر اور جس نے نافرمانی میں
زندگی بسر کی اور رحمت الٰہی اس کے شامل حال نہ رہی تو وہ برزخ میں سخت تکالیف میں
مبتلا ہوگا۔ چنانچہ
باغ یا گڑھا
حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، اَوْ
حُفْرَةٌ مِّنْ حُفَرِ النَّارِ یعنی
قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔(ترمذی، کتاب صفة القیامة، باب حدیث: اکثروا من ذکر ھاذم
اللذات، باب : 91،ج: 4/ 209، حدیث:2468) شرح حدیث :مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد
یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:مؤمن کی قَبر میں جَنّت کی
خوشبوئیں، وہاں کی تَروتازگی آتی رہتی ہیں۔کافر کی قبر میں دوزخ کی گرمی وہاں کی بَدبُو
پہنچتی رہتی ہے۔بُزرگوں کی قَبروں کو اُردو میں رَوضہ کہتے ہیں۔ فُلاں بُزرگ کا رَوضہ۔یہ
لفظ اِسی حَدیث سے مَاخوذ ہے یعنی جنّت کا باغ۔(مراٰۃ المناجیح،7/
160)
قبر کی پکار
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عُبَیْدرَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ سے
مروی ہے کہ مردے کوجب قبرمیں رکھاجاتاہے تووہ بیٹھ جاتاہے اورجنازے کے ساتھ آنے والوں
کے قدموں کی آواز سنتاہے، سب سے پہلے اس کی قبراس سے کلام کرتے ہوئے کہتی ہے: اے اِبْنِ
آدم! تیرابُراہوکیاتجھے مجھ سے ڈرایانہیں گیا؟کیاتجھے میری تنگی، بدبو، وحشت، ہولناکی
اور کیڑے مکوڑوں کاخوف نہ دلایاگیاتھا؟یہ میں نے آج کے دن کے لئے تیارکئے ہیں تُو
بتا تُونے میرے لئے کیاتیاری کی ہے؟ (مارواہ نعیم بن حماد ملحق الزھدلابن مبارک، باب مایبشربہ المیت عندالموت …الخ ، ص41، حدیث : 163 ،ملخصًا)
قبر کا محبوب اورمبغوض بندہ
حضرت سیِّدُنا بِلال بن سَعدرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ قبر روزانہ پکار کر کہتی
ہے:مىں تنہائی، وَحْشَت اورکیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، مىں جہنم کے گڑھوں مىں سےایک گڑھا
ہوں ىا جنت کے باغوں مىں سے ایک باغ۔ جب مومن کو قبر مىں اُتارا جاتا ہےتوقبر کہتى
ہے:جب تو مىرى پُشت پر چلتا تھا تو مجھے بہت عزىز تھا اور اب جبکہ تو میرے پیٹ میں
آگیا ہے تو مىرا حُسنِ سلوک دىکھ لےگا۔ چنانچہ
قبر حد نگاہ تک وسیع ہوجاتی ہے اور جب کافر کو قبر مىں رکھاجاتا ہے تو قبر کہتی ہے:
جب تو میری پشت پر چلتا تھا تب بھی مجھے انتہائی ناپسند تھا اور اب تو تجھے میرے حوالے
کر دیا گیا ہے اب دیکھ میں تیرا کیا حال کرتی ہوں۔ پس قبر اسے ایسا دباتی ہے کہ اس
کى پسلىاں ٹوٹ پھوٹ جاتى ہىں۔(شعب الایمان ، باب فی ان دار المؤمنين ، 1 / 360، حدیث : 401)
حکایت: تین دوست
حضرت سیِّدُناعاصم ر َحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سےمروی ہے کہ حضرت سیِّدُنا عُبَیْد بن
عُمَیْررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک شخص کے تین خاص دوست تھے،ہرایک
دوسرےسےبڑھ کرتھا۔ایک مرتبہ اس پر مصیبت آپڑی توو ہ سب سے خاص دوست کے پاس گیا اور
کہا:اے فلاں ! مجھ پر فلاں مصیبت آپڑی ہےاورمیں چاہتا ہوں کہ آپ میری مدد کریں۔ اس
دوست نے جواب دیا:میں کچھ نہیں کرسکتا۔ وہ دوسرے کےپاس گیااوربتایاکہ مجھ پرفلاں مصیبت آپڑی ہےاورمیں چاہتاہوں کہ آپ میری مدد کریں۔
اس نے کہا:جہاں آپ جانا چاہتے ہیں وہاں تک میں آپ کے ساتھ چلوں گا جب وہاں پہنچو گے
تو میں تمہیں چھوڑ کر واپس پلٹ آؤں گا۔ وہ تیسرے کے پاس گیا اور کہا: اے فلاں!مجھے
فلاں فلاں مصیبت کا سامنا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ میری مددکریں۔اس نےکہا:آپ جہاں جائیں
گے میں ساتھ جاؤں گااورجہاں داخل ہوں گے میں بھی آپ کے ساتھ رہوں گا۔حضرت سیِّدُنا
عُبَیْد بن عُمَیْر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:پہلا دوست اس کا مال ہے جو
اس کے پیچھے گھر والوں کے پاس رہ گیا اس میں سے کچھ بھی اُس کے ساتھ نہیں گیا۔ دوسرادوست اس کےگھر والےاوررشتہ
دار ہیں جو قبر تک اس کے ساتھ گئے پھر اسے چھوڑ کر لوٹ آئے اور تیسرا دو ست اس کا عمل
ہے جو اس کے ساتھ ہوگااور جہاں وہ جائے گا اور جس جگہ داخل ہوگا وہ اس کے ساتھ رہے
گا۔(حلیة
الاولیاء وطبقات الاصفیاء، 3 / 308، حدیث: 4046)
خلاصہ
مذکورہ روایات سے معلوم ہوا کہ قبر وبرزخ
میں لوگوں کی مختلف حالتیں ہوں گی، بعض خوش نصیب نعمتوں میں ہوتے ہیں حتی کہ بعض کے
جسم اور کفن تک سلامت رہتے ہیں جبکہ بعض بدنصیب عذاب میں گرفتار ہوتے ہیں یہاں تک کہ
ان کے جسم بھی گل سڑ جاتے ہیں۔ نیز مال ودولت اور رشتے دار واحباب قبرستان تک ہی مرنے
والے کے ساتھ جاتے ہیں جبکہ اعمال اچھے ہوں یا برے قبر میں بھی اس کے ساتھ رہتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ خود بھی نیکی کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دیں کہ نیکی
کرنے اور نیکی کی دعوت دینے والوں کی قبریں روشن ہوں گی۔ چنانچہ
قبریں روشن ہوں گی
اللہ پاک نے حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ
اللہ عَلَیْہِ السَّلام کی طرف وحی فرمائی:’’بھلائی کی باتیں خود
بھی سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کہ میں بھلائی سیکھنے اور سکھانے والوں کی قبروں
کو روشن فرماؤں گا تاکہ انہیں کسی قسم کی وَحشت نہ ہو۔‘‘ ( حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، 6/ 5، حدیث: 7622)
مرنے کے بعد کام آنے اور نقصان دینے والےچند اعمال
کام آنے والے اعمال: نماز پڑھناکہ نماز اندھیری قبر کا چراغ
ہے، صدقہ کرنا، تلاوت قرآن کرنا بالخصوص سورۂ ملک کی تلاوت، ذکر اللہ کرنا، باوضو
رہنا، راہِ خدا میں شہادت، لمبے لمبے سجدے کرنا، نیکوں سے محبت کہ حدیث پاک کا مفہوم
ہے: ’’بندہ اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اُسے محبت ہوگی۔‘‘(بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب عمر بن خطاب…الخ،
2/ 527، حدیث:
3688)، اطاعت
و فرمانبرداری میں زندگی گزارنا وغیرہ۔نقصان دینے والے اعمال: گناہ ونافرمانی،جھوٹ،
خیانت، چغلی، پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کہ عذاب قبر عموماً پیشاب کے چھینٹوں سے
نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
ماقبل میں ہم نے پڑھا کہ عالَمِ برزخ میں
بعض عیش وعشرت میں ہوتے ہیں حتی کہ ان جسم اور کفن بھی سلامت رہتے ہیں، مٹی انہیں کچھ
بھی نقصان نہیں پہنچاتی، ان میں شامل خوش نصیب افراد میں سے چند یہ ہیں۔
شہدا کو مردہ نہ کہو
قرآن مجید میں شہدا کی فضیلت میں ارشاد ہوا: #"ò¯ ñ ð " A E6 ÂSuöÉõwô'&"Æ'ترجمۂ کنزالایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ
وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔(پ۲،البقرة:۱۵۴) تفسیرخزائن العرفان: مشہور مفسر،
خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس آیتِ مبارکہ کے
تحت فرماتے ہیں: ’’موت کے بعد ہی اللہ تعالیٰ شُہدا کو حیات عطا فرماتا ہے، ان کی ا
رواح پر رزق پیش کئے جاتے ہیں، انہیں راحتیں دی جاتی ہیں، ان کے عمل جاری رہتے ہیں،
اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں
جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔
مسئلہ: اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار
بندوں کو قبر میں جنتی نعمتیں ملتی ہیں۔ شہید وہ مسلمان مکلف ظاہر ہے جو تیز ہتھیار
سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو، یا معرکَۂ جنگ میں
مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں:
کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن ، اپنے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اس پر نماز پڑھی جائے،
اسی حالت میں دفن کیا جائے۔ آخرت میں شہید کا بڑا رتبہ ہے۔ بعض شہداء وہ ہیں کہ ان
پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لئے شہادت کا درجہ ہے جیسے
ڈوب کر یا جل کر، یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلبِ علم، سفرِحج، غرض راہِ خدا
میں مرنے والا اور نفاس میں مرنے والی عورت اور پیٹ کے مرض اور طاعون اور ذات الجنب
اور سِل( یعنی پسلی کے درد اور پھیپھڑوں کی بیماری وپرانے بخار) میں اور جمعہ کے
روز مرنے والے وغیرہ۔
شہیدوں کو مردہ گمان بھی نہ کرو
مذکورہ بالاآیت میں شہدا کو
مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں
انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے، جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ لا(۱۶۹) ترجمۂ کنز الایمان:
اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب
کے پاس زندہ ہیں، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۶۹) تفسیر خزائن العرفان: مشہور مفسر، خلیفَۂ
اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ’’(روزی پاتے ہیں) اور
زندوں کی طرح کھاتے پیتے عیش کرتے ہیں۔ سیاقِ آیت اس پر دلالت کرتا ہے کہ حیات روح
و جسم دونوں کے لئے ہے علماء نے فرمایا کہ شہدا کے
جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور زمانۂ صحابہ میں اور اس کے بعد بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ
اگر کبھی شہدا کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تر و تازہ پائے گئے(خازن وغیرہ)۔ (خازن، پ:4، اٰل عمرٰن، تحت الاٰیۃ:169، 1/ 323)
انبیا اپنی قبروں میں زندہ ہیں
حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہارے دنوں میں سب سے
افضل دن جمعہ کا دن ہے، لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود
مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔ صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان نے
عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اس وقت ہمارا درود آپ کی بارگاہ میں کیسے پیش ہوگا
جب کہ قبر انور میں آپ کا جسم مبارک بکھر کر پرانی ہڈیوں کی صورت میں ہوجائے گا؟ تو
اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ
عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ
یُّرْزَقُ یعنی
اللہ پاک نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے، پس اللہ کا نبی
زندہ ہےرزق دیا جاتا ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، 2/ 291، حدیث:1637)
ایک روایت میں ہے: اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیَاءٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ یعنی انبیا زندہ ہیں اپنی قبروں میں نمازیں
پڑھتے ہیں۔( مسند ابی یعلی،
3/216،حدیث:3412)
وہ اجسام جن کو مٹی نقصان نہیں پہنچاتی
انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلام
، اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ، علمائے دِین و شہدائے عظام، باعمل حفاظِ
قرآن، وہ جو منصبِ محبت پر فائز ہیں، وہ جس
نے کبھی اللہ پاک کی نافرمانی نہ کی اور وہ جو کثرت سے دُرُودْ شریف پڑھتا رہے، ان
کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی۔(ہمارا
اسلام، عالم برزخ، حصہ5، ص250 ملخصًا، بہار شریعت، حصہ1، 1/ 114)ثواب کی خاطِر اذان دینے والا اُس شہید
کی مانند ہے جوخون میں لِتھڑا ہوا ہے اورجب مرے گا، قبر میں اس کے جسم میں کیڑے نہیں پڑیں گے۔(الترغیب والترھیب،کتاب الصلاة،باب الترغیب فی الاذان وما
جاء فی فضلہ، 1/ 139، حدیث: 384)
ابنِ ابی الدنیا نے مالک سے روایت کی ہے
کہ مومنین کی ارواح جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں۔ مؤمنین سے مراد کاملین ہیں ، حق تعالیٰ ان کے جسموں کو روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے تو وہ قبروں میں نماز ادا کرتے اور ذکر کرتے ہیں اور قرآنِ کریم پڑھتے ہیں۔ (صراط الجنان،9/8
45)
بارگاہِ رِسالت میں اُمَّت کے اعمال
نیز حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرت سیِّدُنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی روایت سے نقل فرمایا کہ کوئی دن ایسا
نہیں کہ صبح وشام امت کے اعمال بارگاہِ رسالت میں پیش نہ کئے جاتے ہو۔ اچھے اعمال دیکھ
کر آپ شکر بجا لاتے اور بُرے اعمال دیکھ کر
مغفر ت کی دعا کر تے ہیں۔( مسند
البزار، مسند عبداللہ بن مسعود، ۵/ ۳۰۸، حدیث: ۱۹۲۵۔ شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد العاشر، 12/ 195)
ایک روایت میں حضرت سیِّدُنا اَنَس بن مالک
رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے مروی
ہے کہ حُضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا: اِنَّ اَعْمَالَ
اُمَّتِيْ تُعْرَضُ عَلَيَّ فِيْ كُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ یعنی میری اُمَّت کے اعمال ہر جمعہ کے
دن مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں۔(تفسیر الثعلبی،
پ:18، النور، تحت الاٰیۃ:۲، ۷/ 65)
اسی طرح والدین کی قبر میں بھی اولاد کے
اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ منقول ہے کہ’’ہر جمعہ فوت شدہ والدین کو قبر میں ان
کی اولاد کے اچّھے بُرے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، نیکیاں دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں اور
ان کا چہرہ خوشی سے کِھل اٹھتا ہے (یعنی
ان کے چہرے پر خوشی کے آثار ہوتے ہیں)
جبکہ گناہ دیکھ کر رنجیدہ (یعنی
غمگین)ہوتے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ، 24/392، 401 ماخوذاً)
خلاصہ
مذکورہ آیات، روایات
اور اقوال سے جہاں یہ پتا چلا کہ خوش نصیب عالَم برزخ میں راحت اور عیش عشرت میں رہتے
ہیں، اسی طرح یہ بھی علم ہوا کہ حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضَۂ انور میں
امتیوں کے اور مرحوم والدین کی قبروں میں اولاد کے اعمال پیش ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے
کام کرنے چاہئیں جن سے انہیں راحت پہنچے اور ان کاموں سے بچنا چاہئے جو انہیں رنجیدہ
کریں۔ نیز ہر مسلمان کو چاہئے کہ عالَمِ برزخ میں راحت وسکون پانے اور خوش نصیب لوگوں
کے گروہ میں شامل ہونے کے لئے قرآن و سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارے، گناہ
ونافرمانی سے باز رہے تاکہ قبر جنت کا باغ بنے۔
عالَمِ آخرت
اُخروی زندگی نہ ختم ہونے والی اور ہمیشہ
باقی رہنے والی ہے۔ اس کی ابتدا قیامت کے دن حشر کے لئے اٹھنا ہے، اس کی کوئی انتہا
نہیں، خواہ من مانتی نعمتوں(جنت) میں ہو یا درد ناک عذاب(جہنم)میں۔سیِّدی اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام
احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ علما فرماتے ہیں: دنیا
کو برزخ سے وہی نسبت ہے جو رحم مادر(ماں
کے رحم) کو دنیا سے، پھر
برزخ کو آخرت سے یہی نسبت ہے جو دنیا کو برزخ سے۔(فتاوی رضویہ، 9/ 707) دنیا اور برزخ کی طرح عالَمِ آخرت میں بھی لوگ دو گروہ ہوں گے ایک گروہ رحمت
الٰہی سےجنتی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والا اور دوسرا جہنم کے درد ناک عذاب میں گرفتار
ہوگا،پہلا گروہ مؤمنین کا اور دوسرا کفار ومشرکین کا۔ پھر روایات سے یہ بھی ثابت ہے
کہ بعض مؤمنین بھی اپنے بُرے اعمال کے عوض کچھ وقت کے لئے گرفتار عذاب ہوں گے اور بہت
سے خوش نصیب وہ ہوں گے جو بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔ لہٰذا ایسے اعمال اختیار کئے
جائیں کہ دنیا میں ایمان ونیک اعمال پر ثابت قدمی اور موت کے وقت کلمہ طیبہ نصیب ہو
کہ حدیث پاک میں ہے: ’’جس کا آخری کلام ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘(کلمہ طیبہ) ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘(ابو داود، کتاب الجنائز، باب فی التلقین، ۳/ ۲۵۵، حدیث:۳۱۱۶) پس خوش نصیب ہیں وہ جو دنیا میں رہتے ہوئے
اپنی قبر وآخرت کی تیار ی میں مشغول رہتے ہیں۔وہ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دیتے
بلکہ دنیا ان کے نزدیک ٹھیکری اور آخرت سونا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک دنیاوی زندگی کو
آخرت کی زندگی پر ترجیح دینے والوں کی مذمت اور اُخروی زندگی کی بقا وبھلائی کو بیان
کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ(۱۶) وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ
اَبْقٰىؕ(۱۷)ترجمۂ
کنز الایمان: بلکہ تم جیتی دنیا کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی۔(پ۳۰،الاعلی:17،16)
تفسیر نور العرفان: مشہور مفسر،
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ ان
آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’خیال رہے کہ دنیاوی زندگی چار قسم کی ہے۔ طغیانی، شیطانی،
نفسانی، ایمانی۔طغیانی زندگی :وہ ہے جو اللہ ورسول کی مخالفت میں گزرے
جیسے فرعون یا ابو جہل کی زندگی۔ نفسانی وشیطانی زندگی :وہ جو نفس امارہ
کی پرورش اور ربّ سے غفلت میں گزرے جیسے عام غافلوں کی زندگی۔
ایمانی
زندگی: جو آخرت کی تیاری میں گزرے جیسے صحابَۂ کرام
عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کی زندگی، یہاں پہلی دو زندگیاں مراد ہیں، دنیاوی زندگی صِفَرْ
کی مثل ہے اگر اکیلی رہے تو خالی، اور اگر کسی عدد سے مل جائے تو اس کو دس گنا بنا
دے، اگر یہ آخرت سے مل جائے تو دس گنا بلکہ سات سو گنا کردے اللہ نصیب کرے آمین۔
آخرت سے مراد آخری زندگی ہے جس کی ابتداء قبروں سے اٹھنے پر ہے، انتہاء کوئی نہیں،
وہ پچھلی تین زندگیوں سے اعلیٰ ہے۔ یعنی دنیا میں آنے سے پہلے کی زندگی، دنیاوی زندگی،
برزخی زندگی، یہاں آخرت کی زندگی دو وجہوں سےاعلیٰ فرمائی گئی تواس لئے کہ وہاں کی راحتیں تکلیف سے مخلوط(یعنی ملی ہوئی) نہیں۔ کسی نعمت میں
حاکم، حکیم، عالِم کی روک ٹوک نہیں، ربّ کی ناراضگی کا اندیشہ نہیں، اس لئے ہے کہ اسے فنا نہیں وہاں فنا کرنے والی چیز یعنی
موت بھی فنا ہو جائے گی، جس نیکی کا تعلق آخرت سے ہو جائے وہ باقی بن جاتی ہے۔ ‘‘
(نور العرفان، پ: 30،سورۂ اعلیٰ، تحت الآیۃ:17) پس بڑا نادان اور
بیوقوف ہے وہ جو ہمیشہ رہنے والی آخرت کو چھوڑ کر فانی اور دھوکے باز دنیا کو اہمیت
دے اور اسی کے لئے بھاگ دوڑ کرے اور اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے۔
باقی کو فانی پر ترجیح دو
حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنی دنیا سے محبت
کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت سے محبت کرتا ہے وہ اپنی دنیا
کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس تم باقی رہنے والی (آخرت) کو فنا ہونے والی (دنیا)پر ترجیح دو۔ (مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی
موسیٰ الاشعری، ۷/ ۱۶۵، حدیث:۱۹۷۱۷)
دنیا ٹھیکری اور آخرت سونا ہے
حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: اگر دنیا سونے کی ہوتی پھر
بھی فنا ہو جاتی اور اگر آخرت ٹھیکری (مٹی) کی ہوتی تو بھی باقی رہتی۔ اس لئے ہمیں
چاہئے کہ ہم باقی رہنے والی ٹھیکری کو ختم ہو جانے والے سونے پر ترجیح دیں، تو اس کا
کیا بنے گا جس نے باقی رہنے والے سونے(یعنی
آخرت) کے مقابلے میں
فنا ہونے والی ٹھیکری(یعنی
دنیا) کو اختیار کر
رکھا ہے۔(احیاء علوم الدین،
کتاب ذم الدنیا، باب بیان ذم الدنیا،۳/ ۲۵۶)
یاد رکھئے! دنیا سے جو حصہ نصیب میں لکھا
ہے وہ پہنچ کر رہے گاساری دنیا مل کر بھی اسے روک نہیں سکتی اور جو نصیب میں نہیں وہ
پوری دنیا مل کر بھی نہیں دے سکتی، لہٰذا دنیا کے نہیں بلکہ آخرت کے طلب گار بنو اور
اس کے لئے کوشش کرو کہ جو آخرت کی طلب میں رہتا ہے دنیا اس کے پیچھے آتی ہے۔ چنانچہ
دنیا وآخرت کے طلب گار
اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: دنیا اور آخرت دونوں
کےطالب بھی ہیں اور مطلوب بھی۔ پس جو آخرت کو طلب کرتا ہے دنیا اسے تلاش کرتی ہے یہاں
تک کہ وہ اس میں سے اپنا پورا پورا حصہ لے لیتا ہے اور جو دنیا کا طلب گار ہوتا ہے
آخرت اسے ڈھونڈتی رہتی ہے یہاں تک کہ موت اسے گردن سے آدبوچتی ہے۔ (الفتوحات المکیۃ،
باب الموفی ستین وخمسمائة…الخ، ۸/ ۴۵۷)
اسلاف کرام رَحِمَہُمُ اللہ
کی یہی سوچ ہوا کرتی تھی وہ دنیا وی مصائب و آلام تو برداشت کر لیتے تھے لیکن اُخروی
خسارا کسی صورت برداشت نہیں کرتے تھے کیونکہ دنیا کا نقصان وقتی اور قابلِ تلافی ہے
جب کہ مرنے کے بعد آخرت میں پہنچنے والے نقصان کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔ چنانچہ
دنیا کی نہیں آخرت کی سوچ!
حضرت سیِّدُنا ابو حازم مدنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی زوجہ محترمہ نے ان سے عرض کی: اچانک
سردی ہو گئی ہے اور کھانا، لباس اور لکڑیوں کے بغیر ہمارا کوئی چارہ نہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: ان کے بغیر تو چارہ ہے لیکن
موت، پھر مرنے کے بعد اٹھائے جانے، اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور اس کے بعد
جنت ٹھکانا ہے یا جہنم اس کے بغیر چارہ نہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزھد، بیان فضیلة الزھد، ۴/ ۲۷۷، مفھومًا)
دونوں میں فائدہ یا دونوں میں خسارہ
حضرت سیِّدُنالقمان حکیم نے رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
اے بیٹے! اپنی دنیا کو آخرت کے عوض بیچ دے دونوں میں فائدہ اٹھاؤ گے لیکن اپنی آخرت
کو دنیا کے بدلے نہ بیچنا ورنہ دنیا وآخرت دونوں میں نقصان اٹھاؤ گے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الدنیا، باب بیان ذم الدنیا،۳/ ۲۵۶)
دنیا وآخرت کس کے لئے ہے؟
ایک دانا (عقل مند) شخص سے پوچھا گیا: دنیا کس کے لئے ہے؟
جو اب دیا: جو اسے چھوڑ دے۔ پوچھا گیا: آخرت کس کے لئے ہے؟ فرمایا: جو اسے طلب کرے۔(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الدنیا، باب
بیان ذم الدنیا،۳/ ۲۵۹)
آخرت میں کام آنے والے چند اعمال
نماز کا سوال:حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: بندے کا قیامت کے دن
سب سے پہلے جس چیز کا حساب ہوگا وہ نماز ہے۔ اگر نماز مکمل ہوئی تو اس کے لئے کامل
ہونا لکھ دیاجائے گا اور اگر وہ نامکمل ہوئی تو اللہ پاک فرشتوں سے ارشاد فرمائے گا:
کیا میرے بندے کے پاس تم نوافل پاتے ہو؟ لہٰذا فرائض کی کمی نوافل سے پوری کی جائے
گی۔ پھر بقیہ اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہوگا۔ (نسائی،کتاب الصلاة، باب المحاسبة علی الصلاة، ص۸۴، حدیث:۴۶۳ بتغیر قلیل)
عرش کا سایہ:حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تین قسم کے لوگ اس دن
عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے جس دن عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ عرض کی گئی: وہ
کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: جس نے میرے کسی امتی کی پریشانی دور کی، جس نے میری
سنت کو زندہ کیا اور جس نے مجھ پر کثرت سے درود پڑھا۔) شرح الزرقانی علی موطا الامام مالک، کتاب
الشعر، باب ماجاء فی المتحابین فی اللّٰہ، ۴/ ۴۶۹، تحت الحدیث:۱۸۴۱(
صدقہ کا سایہ:ایک روایت میں ہے: اِنَّمَا یَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
فِیْ ظِلِّ صَدَقَتِہٖ یعنی بلاشبہ مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے میں ہوگا۔(شعب الایمان، باب الزکاة، التحریض علی صدقة التطوع، ۳/ ۲۱۲، حدیث:۳۳۴۷)
پل صراط پر ثابت قدمی: حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے گزشتہ رات عجیب
معاملات دیکھے (ان
میں سے ایک یہ بھی تھا کہ) میں
نے اپنے ایک اُمتی کو دیکھاجوپُل صراط پر کبھی گھسٹ کر اور کبھی گھٹنوں کے بل چل رہا
تھا، اتنے میں وہ دُرُود شریف آیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صراط
پر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اُس نے پل صراط پار کر لیا۔ (معجم کبیر، ۲۵/ ۲۸۲، حدیث:۳۹)
حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ جس نے جمعہ کے دن مغرب
کے بعد دو رکعت نماز پڑھی اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ’’اِذَا زُلْزِلَت‘‘(یعنی سورۂ زِلْزَال مکمل)پندرہ مرتبہ پڑھی تو اللہ پاک اس پر سکراتِ
موت(یعنی موت کی سختیاں)
آسان کر دے گا،
اسے عذابِ قبرسے محفوظ فرمائے گا اور پل صراط پر ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔(شرح الصدور، باب ما ینجی من عذاب القبر، ص۱۸۶)
سورۂ اخلاص کی فضیلت: سورۂ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے جو
بیمار اپنی بیماری کے زمانے میں اسے پڑھتا
رہے اگر اس بیماری میں مرگیا تو حدیث کا بیان ہے کہ وہ قبر کے دبوچنے اور قبر کی تنگی
کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور قیامت کے دن فرشتے اسے چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر اور
اپنے بازوؤں پر بٹھا کر پل صراط پار کرا کر جنت میں پہنچادیں گے۔ (جنتی زیور، ص604)
پانچ کے ذریعے پانچ سے حفاظت
حضرت سیِّدُنا شقیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ
ہم نے پانچ چیزوں کو تلاش کیا تو انہیں پانچ چیزوں میں پایا:(1)……گناہوں کے چھوڑنے
کو چاشت کی نماز میں، (2)……قبر کی روشنی کو نمازِ تہجد میں، (3)……منکر نکیر کے جوابات
کو تلاوتِ قرآن میں، (4)……پل صراط پار کرنے کو روزے اور صدقے میں اور (5)……عرش کے
سائے کو خلوت (گوشہ نشینی) میں۔ (روض الریاحین، الحکایة السابعة
والثلاثون بعد الثلاث مئة، ص۲۸۱)
مسکراتے ہوئے جنت میں داخل
حضرت سیِّدُنا ابو
درداء رَضِیَ اللہُ
عَنْہ فرماتے ہیں: جو ہنستے ہوئے جنت میں جانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اپنی زبان ہمیشہ ذِکْرُ
اللہ سے تر رکھے۔(الکواکب
الدریة فی ترجم السادة الصوفیة، ۱/ ۱۱۷)
اسماء الحسنیٰ کی فضیلت
حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ
اللہُ عَنْہ سے
روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے 99 نام ہیں جو ان مبارک ناموں کو گن گن کر اخلاص کے ساتھ
پڑھتا رہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(بخاری،کتاب الشروط، باب مایجوز من الاشتراط والثنیا فی
الاقرار…الخ، ۲/ ۲۲۹، حدیث:۲۷۳۶)
میزانِ عمل میں سب سے وزنی عمل
اللہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن مومن کے
میزان میں سب سے بھاری عمل ’’اچھے اخلاق‘‘ ہوں گے اور اللہ پاک فحش کلامی(بُری بات) کرنے والے بےحیا آدمی کو بہت ناپسند فرماتا
ہے۔ (ترمذی، کتاب
البر والصلة، باب ماجاء فی حسن الخلق،
۳/ ۴۰۳، حدیث:۲۰۰۹)
ایک روایت میں ہے حضورنبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو
زبان پر ہلکے، میزانِ عمل میں بھاری اور اللہ پاک کو بہت پسند ہیں: سُبْحَانَ اللہ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللہ الْعَظِيمِ۔(بخاری،کتاب الایمان والنذور، باب اذا قال:واللّٰہ لا اتکلم الیوم… الخ، ۴/ ۲۹۷، حدیث:۶۶۸۲)
حساب میں آسانی
اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا اَوْ تَرَکَ لَہٗ حَاسَبَہُ اللہُ
حِسَابًا یَّسِیْرًا یعنی جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی یا اس
کا قرض معاف کر دیا تو اللہ پاک اس کے حساب
میں آسانی فرمائے گا۔ (قوت
القلوب لابی طالب المکی،۲ / ۴۴۳، ابن ماجہ،
کتاب الصدقات، باب انظار المعسر، ۳/ ۱۴۶،حدیث:۲۴۱۷، بتغیر)
ایک روایت میں ہے حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تین باتیں جس شخص میں
ہوں گی اللہ پاک (قیامت
کے دن) اُس کا حساب بہت
آسان طریقے سے لے گا اور اُسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابَۂ کرام
عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے
عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!
وہ باتیں کون سی ہیں؟ ارشاد فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جو تم سے تعلق
توڑے تم اس سے تعلق جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کر دو۔ )معجم اوسط، ۴/ ۱۸، حدیث:۵۰۶۴(
مرتے ہی جنت میں داخلہ
اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہر فرض نماز کے
بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے موت کے علاوہ جنت میں داخلے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔(معجم
کبیر، ۸/ ۱۱۴، حدیث:
۷۵۳۲)
مخصوص آفات سے نجات دلانے والے اعمال
حضرت سیِّدُناعبْدُالرحمٰن بن سَمُرہ رَضِیَ
اللہُ عَنْہ رواىت کرتے ہیں کہ اىک دن حضورنبی رحمت
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے پاس تشرىف لائےاورارشادفرماىا :
آج رات مىں نےاىک عجىب خواب دىکھا کہ میرے اىک امتی کى رُوح قبض کرنے کےلئےحضرت ملَکُ
الموت عَلَیْہِ السَّلَام تشرىف
لائے لىکن اس کا اپنے والدىن سے حُسْنِ سلوک کرنا سامنے آگىا اور اس نے موت کے فرشتے
کو واپس کر دیا۔ اىک امتی پر عذابِ قبر چھا گىا لىکن اس کے وُضو نے اسے بچالىا ، اىک
امتی کو شىطانوں نے گھىر لىا لىکن ذِکْرُاللہ نے اسے خلاصی دلا دی۔ اىک امتی کو عذاب
کے فرشتوں نے گھیر لیا مگر اس کی نماز نے اس کی جان بخشی کروا دی۔ اىک امتی کو دىکھا
کہ پىاس کى شدت سے زبان نکالے اىک حوض پر پانى پىنے جاتاہےمگر لوٹا دىا جاتا ہے ، اتنےمىں
اس کے روزے آگئے اور اسے پانی پلا کر سىراب کردىا۔ دیکھاکہ حضرات انبیائے کرام عَلَیْہِمُ
السَّلَام حلقہ
بنائے بیٹھے ہیں اور میرا ایک امتی ان کے پاس جانا چاہتا ہےمگردور کر دىا جاتا ہے، اتنے مىں اس کاجنابت سے غسل کرنا آتا ہے اور
اس کا ہاتھ پکڑ کراسےان کےقریب بٹھادیتاہے۔ ایک اُمَّتی کو دیکھا کہ اس کے دائیں بائیں
، اوپر نیچے اور آگے پیچھے اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور وہ حیران وپریشان کھڑا ہے اتنے
میں اس کے حج وعمرہ آتے ہیں اور اسے اندھیرے سے نکال کر اُجالے میں لے جاتے ہیں۔ اىک
امتی کو دىکھا کہ وہ مسلمانوں سے گفتگو کرنا چاہتا ہے لىکن کوئى اُس سے بات نہیں کرتا
اتنے میں اس کا صلہ رحمی کرنا آکر مؤمنىن سے کہتا ہے: اے ایمان والو! اس سے کلام کرو۔
تو لوگ اس سےگفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اىک امتی کے جسم اور چہرے کى طرف آگ بڑھ رہى ہے اور
وہ اپنے ہاتھ سے خود کو بچارہا ہےاتنے میں
اس کا صدقہ آکر اس کے چہرےکے سامنے رکاوٹ اور سر کا سایہ بن گیا۔ اىک امتی کو عذاب
کے فرشتوں نے چاروں طرف سے گھىرلىا لىکن اس کا نىکى کى دعوت دىنا اور بُرائى سے منع
کرناآیا اور ان سے چُھڑا کر رحمت کے فرشتوں کے حوالے کر دیا۔ اىک شخص کو دىکھا جوگھٹنوں
کے بل بىٹھا ہے اور اس کے اور اللہ پاک کے درمیان حِجاب ہے اتنے میں اس کا حُسنِ اخلاق
آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر دربارِ الٰہی میں پہنچادیا۔ اىک امتی کو اس کااعمال نامہ بائىں ہاتھ میں دیا جارہا ہے تو اس کاخوفِ خدا آیا
اور اعمال نامہ پکڑ کر اس کے سیدھے ہاتھ میں دے دیا ۔ اىک امتی کا نىکىوں کا پلڑاہلکا
ہوا مگر اس کی چھوٹی (نابالغ) اولاد نے آکر اسے بھاری کر دیا۔ اىک شخص
جہنم کے کنارے پر کھڑا تھا لىکن اس کا خوفِ
خدا سے کانپناآیا اور اسے بچا لیا۔ اىک امتی کو جہنم میں پھینکا جارہا ہےمگر اس کے
خوفِ خدا سے بہائے گئے آنسو آئے اور اسے جہنم
سےبچا لیا۔ اىک امتی پل صراط پر کھڑا سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا لىکن اس کا اللہ
پاک سے حُسنِ ظن(اچھا گمان) رکھنا آیا تو وہ
پُرسکون ہو کر پل صراط پار کر گیا۔ اىک امتی
کو دیکھا کہ پل صراط پر کبھی سرین کے بل گھسٹتا ہے کبھی گھٹنوں کے بل چلتا ہےتواس کا
مجھ پر درود پڑھنا آیااور اس کا ہاتھ پکڑکر سیدھاکھڑا کر دیا تو وہ پل صراط پارکرگیا۔
ایک امتی کو دیکھا کہ جنت کےدروازوں پر آتا ہے مگر اس کےلیےبندکردیئےجاتےہیں اتنےمیں
اس کی ’’لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ‘‘ کی گواہی دیناآیااوراس کے لئےدروازے
کھلوا کر اسے داخِلِ جنت کر دیا۔ پھر مجھے ایسے لوگ نظر آئے جن کے ہونٹ قىنچىوں سے
کاٹے جا رہے تھے مىں نےحضرت جبرائىل عَلَیْہِ
السَّلَام سے
پوچھا: ىہ کون لوگ ہىں؟ انہوں کہا: یہ لوگوں کے درمىان چغل خورى کرنے والے ہىں۔ کچھ
لوگوں کو زبانوں سے لٹکے ہوئے دیکھا توحضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام
سے پوچھا: یہ کون ہیں؟انہوں نے کہا: یہ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو بلاوجہ عیب
لگانے والے ہیں۔( التذکرة للقرطبی، باب ما ینجی من احوال یوم القیامة ومن
کربھا، ص:۲۳۲)
خلاصہ
ماقبل میں ذکر کردہ آیات، احادیث، روایات
واقوال سے واضح ہوا کہ قبر وآخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا ، اُخروی بھلائی اور بہتری کے مقابلے میں
دنیا کو ترجیح دینا انتہائی خسارے کا باعث ہے۔ نیز دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ
ہے۔ پھر یہ قبر وآخر ت کے مقابلے میں ہے بھی بہت مختصر۔ جب دنیا کی بےثباتی کا علم
ہو چکا تو ہونا تو یہ چاہئے کہ جتنا عرصہ دنیا میں رہنا ہے اتنی دنیا کے لئے اور جتنا
عرصہ قبر وآخرت کا ہے اتنی قبر وآخرت کے لئے تیاری کی جائے لیکن بھاری اکثریت ایسی
ہے جس نے صرف دنیا ہی کو مطمح نظر بنارکھا ہے اور اس کی فانی اور جلد ختم ہوجانے والی
نعمتوں میں اس قدر منہمک ہیں کہ قبر وآخرت کو بھولے بیٹھے ہیں، ان کا رہن سہن اس بات
کی عکاسی کرتا ہے کہ شاید انہوں نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے، کبھی کوچ نہیں کرنا۔ لہٰذا
ہمیں چاہئے کہ اپنی سوچ کو بدلیں اور عقل مندی کا ثبوت دیں کیونکہ عقل مند نقصان دہ
چیزوں سے بچتا، فائدہ مند اورپائیدار چیزوں کو اپناتا ہے۔پس ہر عالَم کی اہمیت کو سمجھیں
اور اس کے لئے اتنی ہی کوشش ومحنت کریں۔
بارگاہِ الٰہی میں دعا ہے کہ ہمیں اپنی
اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی اصلاح کے لئے مستند علمائے
اہل سنت کی دینی کتب اور تحریرات کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ’’72 نیک اعمال‘‘ نامی رسالے
پر عمل اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کے لئے مدنی قافلوں میں سنتوں بھرے سفر کی
سعادت نصیب ہو۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اَلْتَّعْلِیْقَاتُ الرَّضَوِیَّۃِ
عَلَی الْہِدَایَۃِ وَشُرُوْحِہَا (سوچ سے عالمی اشاعت تک کا سفر)
گم شدہ خزانے کی دریافت
اور اُس کی تمام تقاضوں کے ساتھ بازیافت کتنی مشکل اور دشوار گزار ہے یہ وہی شخص جان سکتا ہے جو اِن جاں گسل مراحل
سے گزرا ہو ،امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کےمخطوطات کا حال بھی گم شدہ خزانے کی طرح ہے جن میں کئی مخطوط عصری تقاضوں کے
مطابق منظرِ عام پر لائے جاچکے چکے
ہیں ، لائے جارہے ہیں اورلائے جاتے رہیں
گے ۔ ان شاء اللہ الکریم
امام احمدرضاخان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی ہدایہ اور اس کی شروحات
پر تعلیقات بھی اُن گم شدہ خزانوں میں سےایک تھی جو مضبوط لائحہ عمل کے ساتھ ہماری مقدور بھر کی جانے والی کوشش سے منظرِ عام پر آچکی ہے۔ اس کو منظر عام پر لانے میں ہمیں کن دشواریوں
کا سامنا رہا؟کتنی مشکلیں ہم پر ٹوٹ ٹوٹ کرآسان ہوتی چلی گئیں ؟محقق اور شرکائے تحقیق نے باہمی مشوروں سےاور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کا لا کر کیسےیہ سنگ ِ
میل عبور کیا؟اِن
تمام احوالِ واقعی کواِس مضمون میں سمیٹ کر پیش کرنے کا مقصد میدانِ تحقیق میں اتر کر اِن گم شدہ خزانے دریافت کرنے کاشوق رکھنے والوں کو رہنمائی فراہم کرنا ہے اوریہ بات ذہن نشین کروانی ہے کہ سرمایَۂ اسلاف کو منظر ِ عام پر لانے کے لیےکوشش کی سمت کا درست تعین ،منظم لائحۂ
عمل اورمسلسل کوشش بہت اہم اور حددرجہ
ضروری ہے ۔آئیے!اِس داستانِ تحقیق میں
پیش آنے والے احوال ِ واقعی ملاحظہ کرتے
ہیں :
کچھ صاحب ِہدایہ کے بارے میں:
صاحب ِ ہدایہ شیخ الاسلام،
بُرہانُ الدّین حضرت امام ابو الحسن علی بن ابوبکر صدیقی مَرغِینَانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 511ھ مَرغِینان
(نزد فرغانہ) ازبکستان میں ہوئی،آپ کا سلسلۂ نسب مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے ملتا ہےیوں آپ نسباً
صدیقی ہیں۔آپ عظیم حَنَفی فقیہ اورصاحبِ تَخْریج و تَرْجیح ہیں۔فِقہِ حنفی کی بے مثال کتاب ہِدایہ شریف آپ ہی نے تصنیف فرمائی
۔ آپ کا وِصال 15 ذوالحجہ 593ھ کوہوا۔
مزارمبارک قبرستان تشوكا ردِيزا سَمر قَند ازبکستان میں ہے۔(تاریخِ اسلام للذہبی،42/137، ہدایہ،1/11)
ہدایہ کی بین الاقوامی شہرت اور اِس کی بنیادی وجہ:
اللہ کریم نے امام علی بن ابوبکر صدیقی مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ کو کثیر علم کے ساتھ علم کوخوب صورت انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت سے نوازا تھا جس کا اظہار پہلے”بدایۃ المبتدی“ پھر
”کفایۃ المنتھی“ کی صورت میں ہوا اور جب آپ نے محسوس کیا کہ کفایۃ المنتہی کی طوالت استفادے میں بڑی رکاوٹ بنی گی تو اُن مندرجات کااحاطہ کرنے والی اس کے مقابلے میں ایک مختصر کتاب تحریر فرمائی اور
اُسے ہدایہ کا نام دیا،یہ کتاب آپ نے 13
سال کے عرصے میں مسلسل روزے رکھ کر لکھی
اور اپنے روزے کو دِکھاوے سے بچانےکےلیے آپ
نے یہ تدبیراختیار کی کہ جب خادم کھانا
لاتا تو آپ اُسے کھانا رکھ کر چلے جانے
کا فرمادیتے اور پھر وہ کھاناکسی طالبِ
علم یا ضرورت مند کو کھلادیتے،جب خادم برتن لینےآتاتو اُسے خالی پاکر یہ
سمجھتا کہ کھا نا آپ ہی نے کھایا ہے ۔ آپ
کےاخلاص کانتیجہ ہے کہ اُس زمانے سے لے کر آج تک ہدایہ کو عیونِ روایت و متون ِ درایت کا حسین سنگم شمار قرار دیا جاتا ہے(ہدایہ،1/23تا24) اورملکی و بین الاقوامی درس گاہوں میں اسلامی قانون کی اعلیٰ کتاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے نیز
آج بھی وکلاو ججز کے لیے یہ کتابِ ہدایت
فراہم کرنے والی کامل رہنما کاکام دیتی ہے ۔
ہدایہ کی
شروحات، حواشی اور تعلیقات:
ہدایہ کی بین الاقوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مبارک کتاب ہردور کےمحققین کی توجہ کامرکز
رہی ہے اور اِن حضرات نے اس کتاب سے استفادے کو آسان تر بنانے کے لیے گراں قدر شروحات اور قیمتی حواشی و تعلیقات رقم فرمائے۔
شرح،حاشیہ
اور تعلیق کی وضاحت:
کتاب کےمتن کو بذریعہ تحریر سمجھانے کے
تین طریقے رائج ہیں :
(1)جو تحریر متن کی ہر سطر کی وضاحت کرے وہ
شرح کہلاتی ہے۔
(2)جوتحریر ماتن کے کسی ترک شدہ نکتے کی
وضاحت یا متن سے کسی مسئلے کے استخراج یا مزید دلائل و براہین کے اندراج،متن پروارد اعتراض کو دور کرنےیاماتن کا تعقب وغیرہ
جیسے امُور کے لیے لکھی جائے اُسےتعلیق
کہتے ہیں۔شرح کی طرح تعلیق نگاری میں پورے
متن کی وضاحت کرنا ضروری نہیں ہوتا ،تعلیق نگار متن کے جتنے حصے پر چاہتا ہے تعلیق رقم کردیتا ہے۔
(3)جوتحریر متن کے کسی منتخب لفظ اورجملے کی وضاحت کےلیے لکھی
جائے اُسے حاشیہ کہتے ہیں۔
متن سمجھانے کے لیے رائج ان تینوں میں سے ہرطریقے کو اختیار
کرنے کے لیے علم میں حیرت انگیز وسعت و پختگی ،کمال دقتِ نظری ،قابلِ رشک قوت ِ حافظہ اور حددرجہ ذہانت درکا
ر ہے۔
امام اہلِ سنّت کے
حواشی و تعلیقات
امامِ اہلِ سنت اعلیٰ
حضرت مولانا احمد رضا خان قادری برکاتی کی تحریری خدمات میں شہرۂ آفاق کتب
پرگراں قدر تعلیقات وحواشی بھی شامل ہیں ۔
اِ ن تعلیقات و حواشی میں متن میں ذکرکردہ مسائل کے جامع دلائل، مشکل الفاظ کے معانی، ضر وری مسائل ،متن
کی عبارات کے باہمی ربط،متن میں درج رائے
کی تصویب وغیرہ جیسے کئی اہم امور شامل ہیں ۔
امام اہل سنّت
کے حواشی لکھنے کا انداز
بلا شبہ اما م اہل سنت روز مرہ زندگی میں فراغت نام کو بھی نہیں تھی، لہٰذا آپ کا حواشی
وتعلیقات لکھنے کا انداز بھی عمومی نہیں تھا کہ خاص اسی ارادے سے کثیر کتب کو
سامنے رکھ کر حواشی لکھتے بلکہ کسی بھی
کتاب کے مطالعہ کے دوران اس وقت آپ کے دل
ودماغ میں جو بات آتی وہ آپ اپنے اس ذاتی نسخہ کے اطراف میں لکھ دیتے تھے جسے
بعد میں قاضی عبد الرحیم بستوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر نے نقل
اور تبییض کیا ۔
ہدایہ کے ساتھ ساتھ اس کی
شروحات فتح القدیر، کفایہ، عنایہ ، حاشیہ چلپی علی العنایہ اور علامہ عبد الحی
لکھنوی رحمۃُ اللہِ علیہ کے حواشی پر بھی آپ نے تعلیقات اورحواشی رقم فرمائے ہیں۔
اس کام کے
اولین محرّک
جد الممتار کے کام سے فراغت کے بعد رکن شوریٰ ابو ماجد مولانا شاہد عطاری مدنی دام
ظلہ نے راقم اور مولاناڈاکٹر یونس علی عطاری صاحب کے ساتھ مشورہ کیا جس میں آپ نے
امام کے دیگر تحقیقی حواشی کو منظر عام پر لانے کے حوالے سے اپنی خواہش کا اظہار
فرمایا چونکہ ہدایہ درسیات میں پڑھائی
جانے والی اہم کتاب بھی ہے تو اس پر کام
کا طے ہوا اور راقم کو اس کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔
50 فیصد سے زياده کام ادارے کے اوقات کے علاوہ گھریا آفس میں ہوا لیکن چونکہ یہ کام اضافی وقت میں ہورہا تھا
نیز کام کے اگلے کئی مراحل ایسے تھے جو
تنہا مکمل نہیں کئے جاسکتے تھے لہٰذا اس کام کو آفیشل ٹائم میں آگے بڑھانے کا
فیصلہ کیا گیا ۔
مخطوط کی
تفصیل
یہ دراصل دو مخطوط تھے ایک
میں صرف ہدایہ آخرین اور حواشئی عبد الحی لکھنوی پر امام اہل سنّت کی تعلیقات تھیں اور دوسرا مخطوط وہ تھا جس میں ہدایہ کی
شروحات :فتح القدیر، کفایہ، عنایہ اور
حاشیہ چلپی کی عبارتوں پر حواشی تھے۔
مخطوط کی
حالت
اگر مخطوط کی حالت پر بات کی جائے توثانی الذکر مخطوط جو
تقریباً 70صفحات پر مشتمل ہے اس کا پہلا صفحہ ہی اسے بوسہ دیکر دوبارہ بند کرنے کی طرف
داعی تھااور بقیہ کئی صفحات کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی اور دوسرے مخطوط
کی حالت قدرے بہتر تھی لیکن اس میں کئی مقامات پر ہدایہ کی وہ عبارتیں جن پر امام
نے حاشیہ رقم فرمایا تھا وہ سرے سے موجودہی نہیں تھی، میں نے اپنی معلومات اور رسائی کی حد تک کوشش کی کہ کوئی صاف نسخہ
مل جائے اس ضمن میں جمعیت اشاعت اہلسنّت، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا اور ہند میں
بھی رابطے کئے لیکن کامیابی نہ ملی ، کچھ ہمت ٹوٹی کہ کام کس طرح آگے بڑھایا
جائے لیکن جن کا کام تھا انہوں نے ہی ہمت بندھائی اور رکن شوریٰ کی وقتاًفوقتاً پوچھ گچھ نے بھی اس کام پر
کمر بستہ رکھا ۔
کام شروع کرنے سے پہلے رضویات پر کام کرنے والے اداروں اورافراد سے رابطہ کیا تاکہ اگر کوئی پہلے ہی سے اس پر کام کررہا ہے تو وسائل اور وقت کو کسی دوسرے کام میں لگایا جائے اور نہیں کررہا تو انہیں بھی اس کام کی اطلاع پہنچ جائے، اس ضمن میں مفتی عطاء اللہ نعیمی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ،مفتی حنیف خان رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اور ا دارہ اہل سنت میں کام کرنے والوں سے رابطہ کیا، سبھی کی طرف سے نفی میں جواب آیا اور مفتی عطاء اللہ نعیمی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے تو حسبِ عادت اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا جس کیلئے ان کا مشکور ہوں۔
کام کی ابتداء ومراحل
کمپوزنگ
سب سے پہلے اس کی کمپوزنگ شروع کی۔ جگہ جگہ مشکل ومغلق الفاظ اور بیاضات کی وجہ سے
ڈاٹس لگاکر آگے جانا پڑتا ، ہر مرتبہ پچھلی کمپوزنگ پر نظر ثانی و غور کرتا تو
کبھی کبھار کچھ مقامات حل ہوجاتے۔
کتاب کا
تعین
کمپوزنگ کے بعد دوسرا اہم
مرحلہ یہ تھا کہ جن عبارتوں پر امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ نے کلام فرمایا ہے وہ کس
کتاب کی عبارت ہے چونکہ مخطوط میں اس کا
کوئی تعین نہیں تھا ، ہدایہ، فتح القدیر اور عنایہ کی عبارتوں کی تلاش تو شاملہ میں ہونے کی وجہ سے
آسان تھیں لیکن کفایہ اور حاشیہ چلپی علی العنایۃ کی عبارتوں کے تعین میں بسا
اوقات کافی وقت اور محنت لگی۔
قولہ کا
تعین
کتاب کے تعین کے بعد اہم کام اس کے مقام کا تعین تھا، بسا اوقات ایک ہی طرح کے الفاظ
ہدایہ میں بھی ہوتے اور فتح القدیر، عنایہ وغیرہ میں بھی تو اس بات کا تعین کہ
امام کا مرادی مقام ہدایہ کی عبارت ہے یا فتح القدیر وغیرہ کی اس کیلئے بعض اوقات
سیاق و سباق سے کلام پڑھنے کے ساتھ غور
وخوض بھی کرنا پڑتا ۔
قولہ کے
مقام کا تعین
کتاب اور قولہ کے تعین کے
بعد اس کی تخریج کا مرحلہ تھا چونکہ مخطوط میں قولہ کی کوئی ترتیب نہیں تھی ایک
قولہ کتابُ الطہارۃ کا تھا تو اس سے اگلا کتاب الصلاۃ کا پھر کچھ صفحات کے بعد
دوبارہ کتاب الطہارۃ کے قولہ آجاتے تھے تو کتاب باب کے تعین کے ساتھ ساتھ ان کی
ترتیب کا کام بھی کیا گیا۔
مقولہ
نمبرنگ اورلاحقہ اور سابقہ سے کلام
۞قاری
کو نفس ِمسئلہ اور تعلیق کی تفہیم
کیلئے حاشیہ میں لاحقہ اور سے کافی غور
وخوض کے بعد کلام کی ترکیب بنائی گئی، بعض اوقات حاشیہ چلپی کی عبارت سمجھانے
کیلئے پہلے ہدایہ پھر عنایہ اور حاشیہ چلپی کی عبارت خلاصتاً ذکر کی گئی تاکہ
طوالت سے بھی بچا جاسکے۔ اسی طرح ہر قولہ کو علیحدہ نمبر بھی دیا گیا ہےتاکہ احالہ
میں آسانی ہو۔
۞ابتداء
میں مقدمہ وغیرہ کے بعد صاحب ہدایہ،
عنایہ، کفایہ ، حاشیہ چلپی اور امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہم کے حالات ذکر کئے ہیں۔
نام کا
انتخاب
اس حاشیہ کا باقاعدہ کوئی
نام نہیں تھا تو ذہن یہ بنا کہ ایسے نام
کا انتخاب کیا جائے جو عمومی نوعیت کا ہو اور امام اہل ِ سنّت کے دیگر حواشی
وتعلیقات میں بھی چل سکے لہٰذا ’’التعلیقات الرضویۃ علی الہدایۃ وشروحہا‘‘ نام تجویز کیا ۔
تحقیق وتخریج
فتاوی رضویہ
ودیگر حواشی سے کلام
امام اہل سنّترحمۃُ اللہِ علیہ نے فتاوی رضویہ شریف میں
ہدایہ، فتح القدیر، عنایہ ، کفایہ اور حاشیہ چلپی کی عبارتوں پر جہاں اپنا کلام فرمایا ہے تو 33 جلدوں میں ایسے
مقامات کو تلاش کیا گیا پھر ان پر غور وخوض کرکے اسے اس کے مناسب مقام پر ذکر کیا
گیا ہے۔
دورانِ تحقیق امام نے اگر اپنے کسی اور حاشیہ
کی طرف مراجعت کا فرمایا تو تخریج کے ساتھ
وہاں بیان کردہ امام اہل سنّت رحمۃُ
اللہِ علیہ کی تحقیق کو بھی حاشیہ میں ذکر کردیاگیا ہے۔
بیاض اور
مغلق مقامات
مخطوطوں میں جن مقامات
پربیاض تھا یاعبارت ناقابل قرأت تھی تو ان کے حل میں درج ذیل کوششیں کی گئی:
۞ جہاں
قولہ میں بیاض تھا، غور وخوض کے بعد اگر اس مقام کے تعین میں کامیابی ہوئی تو قولہ
کی عبارت کو بڑی بریکٹ [ ] میں
ذکر کیا گیا ہے۔
۞اگر
وہ بیاض یا مغلق عبارت فقہی مقام تھا تو فقہی کتب میں اس مسئلہ کو دیکھ کر الفاظ
کا اندازہ لگایا گیا۔
۞فتاوی
رضویہ میں تلاش کیا گیا اور اس ضمن میں کچھ جگہ کامیابی ہوئی الحمد للہ الکریم۔
۞امام
اہلِ سنّت کی دیگر فقہی تعلیقات وحواشی میں اس طرح کے مسائل میں تلاش کیا گیا اور
حل کی کوشش کی گئی ۔
۞اس
مقام کو حل کرنے کیلئے ٹیکنیکل امور اختیار کئے گئے: مثلاً اس صفحہ کا امیج بنا کر
پینٹ میں کھول کر پینسل سے الفاظ ملانا ، اس خاص ٹکڑے کو کٹ کرکے زائد نقطے ختم
کرنا، بیک گراؤنڈ کا کلر تبدیل کرنا، امیج کی برائیٹنس اور کنٹراس کم زیادہ کرنا۔
۞فقہی،
لفظی اورمعنوی اعتبار سے غور وخوض اور حل
کی کوشش، اس حوالے سے میں استاذ الاساتذہ قبلہ مولانا عبد الواحد صاحب کا بہت
مشکور ہوں کہ انہوں نے ایسے کئی مقامات پر اپنی آراء اور مشورے دئیے جو کئی
مقامات کے حل میں بہت معاون ثابت ہوئے اسی طرح جب مجھے دورانِ حل صرفی ونحوی وغیرہ
کے اعتبار سے تشفی کرنی ہوتی تو استاد صاحب کو ہی اپنا مرجع بناتا اور اپنے حل کی
تصدیق یا تصحیح کرتا۔
۞جہاں
کہیں یہ تمام طریقے اختیار کرنے کے بعد بھی مقام حل نہ ہوا یا اپنے ذہن میں موجود
رائے پر خود کو بھی متذبذب پایا تو ایسی جگہ حاشیہ میں مخطوط کے اس مقام کے ٹکڑے
کا عکس اور اپنی رائے الفاظ تشکیک کےساتھ
لکھ دی تاکہ حقِ تحقیق کے ساتھ ساتھ اپنے قصور ِ فہم سے محشی رحمۃ اللہ علیہ کے دامن کوبھی بچایا جاسکے۔
تخاریج
۞قرآنی
آیات، احادیث کریمہ اور نصوص کی تخاریج کی گئیں، کئی کتابیں ایسی بھی تھیں جو مخطوط تھی اور طبع نہیں ہوئیں ، تلاش
کرکے ان سے بھی تخاریج کی گئی ہیں۔
۞ہدایہ
فتح القدیر وغیرہ کی تخریجوں میں کوئٹہ سے شائع شدہ نسخے کو معیار بنایا جو کہ
دراصل مصری نسخہ کا عکس ہے ، کام کے دوران ماہر مسائل تجارت ومعاشیات مفتی علی اصغرعطاری صاحب دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے اس حوالے سے بات ہوئی تو آپ نے فرمایا:ہدایہ کی تخریجوں
میں جہازی سائز والے نسخوں سے بھی حوالہ دے دیا جائے تو طلبا کو بھی فائدہ ہوگا۔
چنانچہ آپ کے حکم پر ہدایہ کی تخریجوں کے آخر میں بریکٹ میں اولین اور آخرین کے
نسخوں کا بھی صفحہ نمبر لکھ دیا ہے۔
۞اسی
طرح امام اہلِ سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اختصار کے پیش نظر صرف کتابوں کے نام ذکر
فرمائے ہیں تو ان تمام کی بھی تخاریج کی گئی ہیں۔
۞اسی
طرح امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ہدایہ، فتح وغیرہ کے
کسی مسئلہ کی طرف اشارہ دیا تو تلاش کرکے ان کے بھی حوالے دئیے گئے،یہ تخریج میں
ایک مشکل اور محنت طلب مرحلہ تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ کے زیرِ استعمال نسخے نہیں
تھے جو یہ کام مکمل ہوجانے کے بعد الحمد
اللہ مل گئے تھے اس کی صورت یوں بنی کہ یہ بات تو
علم میں تھی کہ امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ عمومی طور پر مصری نسخوں
پر اعتماد فرماتے ہیں تو شروع دن سے ہی فتح القدیر اور ہدایہ کے مصری نسخوں کی
تلاش میں تھا اس دوران نیٹ سے فتح القدیر
کا 1315ھ میں چھپا ہوا مطبع کبری امیریہ مصر کا نسخہ ملا جس
کے صفحات نمبر کو امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ کی نمبرنگ کے موافق
پایا اسی طرح دوسرا نسخہ مطبع نولکشور
لکھنؤ سے 1292ھ میں 4جلدوں پر شائع ہوا تھا تو ہم نے ان نسخوں سے دوبارہ ان مقامات کی تصدیق کی۔
تراجم
جہاں
کہیں امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے کسی
شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے تو ان کا مختصر تعارف بھی کیاگیا ہے اسی طرح کتاب
کے مصنف کا نام اور کتاب کا موضوع وغیرہ بھی بیان کردیا گیا ہے۔
تقابل
اس
کتاب کا مخطوط سے تقابل کرنا بھی اہم اور
مشکل مرحلہ تھا کیونکہ قولہ آگے پیچھے بے ترتیب تھے تو مخطوط میں قلم سے نمبر
لگاکرترتیب قائم کی گئی پھر تقابل کیا گیا ، امام کے موافق نسخے
ملنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ دراصل امام کے پاس ہندی اور مصری دو نسخے تھے اور دونوں پر ہی امام نے تعلیقات رقم فرمائی
تھیں لہذا قولہ کی عبارتوں کاان نسخوں سے دوبارہ تقابل کیا گیا۔
پروف ریڈنگ
ونظر ثانی
کتاب کو لفظی اغلاط سے محفوظ بنانے کیلئے ایک
سے زیادہ مرتبہ اس کی پروف ریڈنگ کی گئی
اور نظر ثانی میں صحت لفظی کے ساتھ ساتھ صحت معنوی اور فقہی کا بھی اہتمام کیا
گیا۔
فہارس
8 کتاب میں آٹھ طرح کی فہرستیں بنائی گئی ہیں جن میں آیات واحادیث،تراجم اعلام و کتب، موضوعات ، اشاریات نیز مصادر التحقیق کی
فہارس شامل ہیں۔
(7)کام کرنے
والے افراد:
ابتداء سے تکمیل تک جن افراد کا تعاون رہا ان کے اسمائے گرامی
یہ ہیں: (1)رکن شوری ابو
ماجد محمد شاہد عطاری مدنی (2)استاذ الاساتذہ مولانا عبد الواحد عطاری مدنی (3)محمد شہزاد سلیم عطاری مدنی (4)محمد رضوان عطاری مدنی (5)محمد مدثر عطاری مدنی اور طباعت
کے معاملات میں دار التراث العلمی کے ذمہ
دارمولانا احمد رضا گھانچی صاحب کا تعاون
رہا، اللہ کریم ان تمام کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے۔
یہ کتاب ٹوکلرزمیں دار الکتب العلمیہ بیروت سے شائع کروائی گئی
یوں دنیائے عرب وعجم میں خزانۂ رضویات سے
ایک چھپا ہوا خزانہ چھپ کر منظر عام پر آیا،یہ در حقیقت شیخ طریقت امیر دعوتِ اسلامی مولانا ابوبلال
محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے لگائے ہوئے اس پودے کا ثمرہ ہے جو
انہوں نے دعوتِ اسلامی اور اس کے علمی
وتحقیقی شعبہ المدینۃ العلمیہ کے ذریعے لگایا اور دعاؤں، شفقتوں اور حوصلہ افزائیوں
سے اس کی آبیاری کی، یوں ہمیں علمی وتحقیقی کاموں کیلئے ایک مضبوط پلیٹ فارم حاصل
ہوا ، اللہ کریم اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے علما ومحققین کیلئے نافع بنائے اور کام میں کمی کمزوری رہ گئی ہو تو اسے
معاف فرمائے اور جس نے جس طرح بھی تعاون
کیا اسے قبول فرمائے اور انہیں دنیا وآخرت میں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے ، امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کے مزید چھپے ہوئے علمی
خزانوں کو منظر عام پر لانے کا ذریعہ بنائے اور جو افراد اور ادارے بھی ایسے کام کررہے ہیں اللہ پاک
انہیں مزید برکتیں عطا فرمائے بالخصوص دعوتِ اسلامی اور المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کو مزید ترقی
وعروج عطافرمائے اور ہمیں اخلاص کے ساتھ دینِ اسلام ومسلکِ اہلسنّت کی خوب خدمت
کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بجاہ محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔
(راقم مولانا آصف اقبال
عطاری مدنی اور مولانا ناصر جمال عطاری مدنی کا مشکور ہے جنہوں نے اس مضمون پرنظر ثانی وتصحیح فرمائی)
محمد کاشف سلیم عطاری مدنی
14 ذیقعدہ 1443ھ/14.06.2022
امام ضیاء الدین مقدسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی
ولادت 16 جمادی الاخریٰ 569ھ بمطابق 11جنوری 1174ءکو دیر مبارک ، جبل قاسیون(دمشق،شام) میں ہوئی۔
نام ونسب:
ضیاء الدین محمد بن عبد الواحد بن احمد بن
عبدالرحمن بن اسماعیل بن منصور سعدی مقدسی حنبلی۔
کنیت ولقب:
کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ضیاءالدین ہے ۔ (سیرا علام النبلاء،23/126،مؤسسہ رسالہ بیروت،اعلام
زرکلی،6/255دار العلم للملایین بیروت)
آپ کا تعلق خاندان مقادسہ سےتھا جو ایک عرصہ سے
علم وکمال، زہد و تقوی اور عبادت وریاضت میں مشہور و معروف تھا۔ اس خاندان میں بڑے
بڑے علما اور حدیث کے بڑے حفاظ گزرے ہیں۔
تحصیل علم:
آپ نے اپنے دین دار گھرانے کے علمی ماحول میں پرورش پائی،
بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کر لیا اور علم حدیث کی مجلسوں
میں شرکت کرنے لگے۔ سات سال کی چھوٹی عمرمیں شیخ ابن سیدہ ابوالمعالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ
وغیرہ اکابر محدثین سے حدیث کا علم حاصل کیا۔امام حافظ عبد الغنی مقدسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی صحبت میں بڑا عرصہ رہے اور انہی سے علم حدیث وغیرہ کی تکمیل کی اور
اپنے ماموں امام ابو عمر محمد مقدسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے بھی خوب استفادہ کیا۔ (گستاخان صحابہ کا انجام،حالات مصنف،ص10جمعیت اشاعت
اہلسنت کراچی)
آپ نےعلم
کے حصول کے لیے بہت سے سفر کیے، بڑے بڑے علما
اور محدثین سے اکتساب فیض کیا۔ آپ نےحصول علم کے لیے مصر، بغداد (عراق)،ہمدان
(ایران)،نابلس (فلسطین)،اصفہان
(ایران)، نیشاپور (ایران)، ہرات
(افغانستان)، مرو (ترکمانستان) ، حلب،
حران، موصل (عراق) ،مکہ معظمہ اور مدینہ
منورہ و غیرہ کا سفر کیا۔ (تاریخ الاسلام للذہبی،47/209 دار الکتاب العربی بیروت)
اساتذہ:
آپ نے جن اہل علم حضرات
سےعلم حاصل کیا ہے ان کی تعداد ایک قول کے مطابق پانچ سو سے زائد ہے۔(ذیل طبقات الحنابلہ لابن
رجب،3/516 مکتبۃ العبیکان ریاض)
ان میں سے کچھ نامور
شخصیات کے نام یہ ہیں:امام عبد الغنی مقدسی ،امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی ، عظیم محدث امام ابو طاہر
سِلفی، شیخ ابراہیم بن عبد الواحد مقدسی، شیخ ابو عمر محمد بن احمد بن محمد بن قدامہ مقدسی، محدث ابوالقاسم
ہبۃ اللہ بن علی بوصیری، فقیہ ابن نجیہ، شیخ
عمر بن علی جوینی،ابو جعفر صیدلانی، شیخ عبد الباقی بن عثمان، شیخ شافیہ ابو
المظفر ابن سمعانی، مسند خراسان امام مؤیدطوسی ، امام عبد الرحمن ابن جوزی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہم۔ (تذکرۃ الحفاظ،4/133 دار
الکتب العلمیہ بیروت،محدثین عظام حیات وخدمات،ص545)
سیرت وکردار:
حضرت امام ذہبی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے
ہیں: آپ لوگوں کے ساتھ بہت بھلائی کرنے والے اور ان کے ہمدردتھے، تہجد گزار تھے، لوگوں
کو بھلائی کا حکم دینے والےتھے، خوش شکل اور پُروقار بزرگی والے تھے، اپنے پرائے
سب آپ کو پسند کرتے تھے۔(سیراعلام
النبلاء،23/128) حضرت امام ابن حاجب رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:آپ علمائے ربانین میں سے تھے۔عبادت کے لئے
خوب کوشش کرنے والے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے والے تھے۔ حضرت امام ابن نجار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:آپ زاہد ،متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ حلال
کھانے کے معاملے میں محتاط اور راہِ خدا میں جہاد کرنے والے تھے۔میں نے آپ جیسا باکردار
اور تحصیل علم میں اچھے طریقے والا کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ الاسلام،47/211) امام
ابن کثیر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: آپ بڑے عبادت گزار ،زہد وتقویٰ میں بڑھ
کر اور بھلائی کے کاموں میں ممتاز تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ،9/52 دار الفکر بیروت)
دار الحدیث کا قیام:
آپ نے علم حدیث کی اشاعت کےلئے جامع مظفری میں
ایک مدرسے کی بنیاد رکھی اور بعض اہل خیر
حضرات نے اس میں آپ کے ساتھ تعاون بھی کیا۔ آپ نے اسے دار الحدیث بنایااور اپنی
کتابیں اس مدر سےکے لئے وقف فرمادیں۔ آپ کے وقف فرمانے کے بعد دیگر جلیل القدر
علما نے بھی اس مدرسے کے لئے اپنی کتابیں وقف فرمائیں جن میں امام شیخ موفق، حضرت
بہا عبد الرحمن، حضرت امام حافظ عبد الغنی ،حضرت امام ابن حاجب، حضرت امام ابن
سلام، حضرت ابن ہامل اور حضرت شیخ علی موصلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے نام
قابل ذکر ہیں۔ (تاریخ الاسلام
للذہبی، 47/212)
تلامذہ:
آپ سے علم حاصل کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ
ہے۔ان میں سےچند کے نام یہ ہیں:امام ابنِ نقطہ،محدث عراق امام ابنِ نجار، امام شرف
الدین ابن نابلسی ،امام سیف الدین ابن مجد،امام زکی الدین برزالی، امام ابن بقاء
ملقن ، شیخ عبداللہ بن ابو طاہر مقدسی ،امام ابنِ ازہر صریفینی
،حافظ ابو العباس ابِن ظاہری، امام ابن حاجب ،امام ابن سلام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہم ۔ (سیر
اعلام النبلاء،23/129)
جہادمیں شرکت :
علمی ودینی مصروفیات کے باوجود آپ جہاد میں بھی
شریک ہوئے اور سلطان صلاح الدین ایوبی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی قیادت میں
صلیبیوں کے خلاف جہادفرمایا۔ (گستاخان
صحابہ کا انجام،حالات مصنف،ص10)
تعریفی کلمات:
(1)حضرت
امام زکی الدین برزالی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:آپ حدیث کے حافظ، ثقہ،علم کے پہاڑ
،دین دار اور بھلائی کے پیکر تھے۔ (سیراعلام
النبلاء،23/128)
(2)امام
شیخ عزالدین ابنِ عز رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:امام دارقطنی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بعد
ہمارے شیخ ضیاء الدین مقدسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جیسا کوئی نہیں آیا۔(سیر اعلام النبلاء،23/128)
(3)امام
حافظ ابوالحجاج مزی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں
نے آپ جیسا نہیں دیکھا ،آپ علم حدیث اور علم اسماء الرجال میں محدث کبیر حافظ عبد
الغنی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ سے بھی بڑھ کر تھےاور آپ کے وقت میں آپ جیسا
کوئی نہیں تھا۔ (تاریخ
الاسلام للذہبی،47/211)
(4)حافظ
حدیث امام یوسف بن بدر رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:اللہپاک
شیخ ضیاء الدین مقدسی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ پر رحم فرمائے آپ حفظ حدیث اور رجال حدیث کی
معرفت میں عظیم شان کے حامل تھے۔حدیث کی صحیح اور ضعیف ہونے میں آپ کی جانب اشارہ
کیا جاتا تھا،میری آنکھ نے آپ جیسا نہیں دیکھا۔ (سیر اعلام النبلاء،23/128)
(5)امام
ذہبی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ نے ان الفاظ کے ساتھ آپ کا تعارف فرمایا: شیخ ،
امام،حافظ ،محقق ،حجت ،بقیۃ السلف۔ (سیر
اعلام النبلاء، 23/126)
(6)امام
شیخ عمر بن حاجب رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ہمارے شیخ ضیاء الدین مقدسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ علم،حفظ حدیث،ثقاہت اور دین داری میں یگانہ روزگار
شخصیت تھے ۔ (سیر
اعلام النبلاء،23/129)
(7)امام
ابن رجب رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:حافظ
کبیرابو
عبداللہ ضیاء الدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ محدثِ عصر اور یکتا زمانہ تھے۔ آپ کی شہرت محتاج بیان
نہیں۔ (ذیل
طبقات الحنابلہ ،3/ 515)
تصانیف:
آپ نے گراں قدر تصانیف یاد گار چھوڑیں۔چند
کتابوں کے نام یہ ہیں:
(1)فضائل
الاعمال (2)الاحاديث
المختارہ (3)فضائل
الشام (4)
فضائل القرآن (5)سیر
المقادسہ (6)
مناقب اصحاب الحديث (7)النھی عن سب الاصحاب (8) الحجہ (9)صفۃ
الجنۃ (10)صفۃ
النار (11)ذکر
الحوض (12)قتال
الترک (13)فضل العلم (14)الحجہ (15)ذم المسکر (16)کلام
الاموات (17)الموبقات (18)الرواۃ عن البخاری (19)دلائل النبوۃ (20)الامر باتباع السنن واجتناب
البدع (21) مسند فضالہ بن عبید (22) شفاء العلیل (23)تحریم الغیبہ (24)
اطراف الموضوعات (25)
الموافقات
(26)
الارشاد
الی بیان ما اشکل من المرسل فی الاسناد۔ (تاریخ الاسلام للذہبی،۴۷/۲۱۲، سیر اعلام النبلاء،۲۳/۱۲۶،ذیل طبقات الحنابلہ،۳/۵۲۰)
وفات:
آپ کی وفات بروز پیر 28جمادی الاخری643ھ بمطابق 1245ءمیں ہوئی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 74سال
اور چند دن تھی۔آپ کا مزار دمشق میں جبل قاسیون پر ہے۔ (تاریخ الاسلام
للذہبی،۴۷/۲۱۴،اعلام
زرکلی،6/255)
از:محمد گل فراز مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
اہلِ
اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ جنّت کا خالق ومالکِ حقیقی اللہ عزوجل ہے،
لیکن اُس نے اپنے محبوبِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ملکیت میں جنّت کو دے دیا ہے، لہذا خُدا کے دیئے سے سرکارِ اقدس صلی
اللہ علیہ و الہ وسلم مالکِ جنّت ہیں۔ یہ عین
اسلامی عقیدہ ہے،معاذاللہ! شرک یا اِیمان
کے منافی نہیں ہے اور نہ ہی اِس بات سے ربّ تعالیٰ کی ملکیتِ حقیقی میں کوئی نَقص
اورکمی واقع ہوتی ہے،بلکہ اِس عقیدے میں
تو اللہ جَلَّ شَانُہ کی
شان کااظہار ہےکہ وہ ایسا مالکِ مطلق و حقیقی ہے کہ اپنے محبوبوں کو بھی اپنی
بنائی ہوئی چیزوں کا مالک بنادیتاہے۔
چنانچہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ
الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ۔([1])
ترجمۂ
کنزالایمان:یوں
عرض کر اے اللہ ! ملک کے مالک! تو جسے چاہے سلطنت دے اور جس سے
چاہے سلطنت چھین لے۔
مفسِّرِ شہیر، حکیم الاُمت مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ
اِس آیتِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مُلک عطا فرمانے
سے بھی وہ ربّ مالک رہتا ہے۔ اس کی مِلکیت
میں کوئی فرق نہیں آتا جیسے مولیٰ اپنے
غلام کو کچھ دے تو مولیٰ مالک رہتا ہے۔ جیساکہ تَنْزِعُ
الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ سے معلوم ہوا۔ لہذا بندوں کی عارضی مِلک سے ربّ
تعالیٰ کی حقیقی مِلکیت پر کوئی أثر نہیں پڑتا۔‘‘([2])
جو
لوگ اِس بات کا انکار کرتے ہیں ان سے امامِ اہل سنت،اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں: ؎
اُن کو تَمْلِیکِ مَلِیْکُ الْمُلْک
سے مالکِ عالَم کہا پھر
تجھ کوکیا([3])
یعنی، مُلک کے مالکِ حقیقی اللہ ربُّ العزت کے جانِ کائنات صلی
اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مالک
بنادینے کی وجہ سے ہی میں نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مالکِ عالَم( جہان کا مالک) کہا
ہے۔ لہذا اے انکار کرنے والے! تجھے کیا
مسئلہ ہے ؟ اِس اسلامی عقیدے کے مقابل تیرے اعتراض کی کیا حیثیت ہے!
جنّت سرکارﷺ کی
جاگیر:
پروردگار عزوجل کے
فضل و کرم سے جنّت حضورِاَنورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ملکیت اورجاگیرہے۔اس بات کاثبوت ہمیں کئی آیات اور اَحادیث سے ملتاہے۔ چنانچہ سورۂ مریم میں ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
تِلْكَ
الْجَــــنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا ۔([4])
ترجمۂ
کنزالایمان:یہ
وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔
اس
آیتِ مبارَکہ کے تحت ’’اخبارالاَخیار‘‘ میں ہے:"یعنی ہم اس جنّت
کاوارث محمدصلی
اللہ علیہ واٰلہ وسلم کوبناتے ہیں پس ان کی مرضی جسے چاہیں عطافرمائیں
اورجس کوچاہیں منع کریں، دنیا وآخرت میں وہی سلطان ہیں، اِنہیں کے لیے دنیاہے اور
اِنہیں کے لیے جنّت۔‘‘ ([5])
جنّت عطا فرماتے
یہ ہیں:
مفخرِ
موجودات، جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خالق و مالکِ جنّت ربّ عزوجل کی عطا سے
ایسے مالکِ جنّت ہیں کہ اپنے غلاموں کو
بھی جنّت عطا فرماتے ہیں۔چنانچہ صحیح مسلم میں ہے
کہ جنّتی صحابی حضرت سیِّدُنا ربیعہ بن کعب اَسلمی رضی اللہ عنہ
رسولِ اَنورصلی
اللہ علیہ و الہ وسلم کیلئے رات کو وُضو کاپانی اور دیگر اشیائے ضرورت
حاضرِ بارگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے اس غلام سےشفیعِ اُمّت،نبی رحمت،مالکِ
جنّت صلی
اللہ علیہ و الہ وسلم نےارشاد
فرمایا:’’سَلْ‘‘مانگو
، تو حضرت سیِّدُنا ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’أَسْألُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ‘‘
میں آپ سے جنّت میں آپ کاساتھ مانگتاہوں۔آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’أَوَغَيْرَ ذَلِكَ؟‘‘اس کے سِوا کچھ اوربھی۔ ([6])
محقّقِ اہل سنت شیخ علی بن سلطان المعروف ملّا
علی قاری رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ
’’مِرقاۃالمفاتیح‘‘میں اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:
’’وَيُؤْخَذُ مِنْ
إِطْلَاقِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ الْأَمْرَ بِالسُّؤَالِ أَنَّ اللّٰهَ تَعَالی
مَكَّنَهُ مِنْ إِعْطَاءِ كُلِّ مَا أَرَادَ مِنْ خَزَائِنِ الْحَقِّ۔‘‘یعنی ،نبیِ مکرَّم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے
سُوال کو مطلق رکھنے سے یہ ثابت ہواکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبِ ذیشان صلی
اللہ علیہ و الہ وسلم کواس بات پر قادر فرمادیا ہے کہ
حق عزوجل کے
خزانوں میں سے جو کچھ چاہیں عطافرمادیں۔
مزید
نقل فرماتے ہیں کہ:’’وَذَكَرَ ابْنُ سَبْعٍ فِي خَصَائِصِهِ وَغَيْرُهُ أَنَّ اللّٰهَ
تَعَالی أَقْطَعَهُ أَرْضَ الْجَنَّةِ يُعْطِي مِنْهَا مَا شَاءَ لِمَنْ يَشَاءُ۔‘‘([7])
یعنی
، ابنِ سبع اور دیگر علمائےاُمت نے
رسولِ اَنورصلی
اللہ علیہ و الہ وسلم کے خصائصِ شریفہ میں سے اِس بات کوبھی ذکر فرمایا
ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے جنّت کی زمین آپ صلی اللہ علیہ
و الہ وسلم
کی جاگیر کردی ہے، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اس میں سے جوچاہیں جسےچاہیں عطافرمادیں۔
لہذا
یہ اور ان جیسی دیگرنصوصِ جلیلہ کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے امامِ اہل سنت ،اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ
نے ارشاد فرمایا کہ: ’’رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے
ربّ کی عطا سےمالکِ جنّت ہیں،مُعْطِیِ جنّت(جنّت دینے
والے) ہیں،جسے چاہیں عطافرمائیں۔‘‘ ([8])
تجھ سے اور جنّت سے کیا مطلب اے منکر دُور
ہو
ہم رسول اللہ کے جنّت رسول اللہ کی
جنّت کی سیر کروانے کی حکمت:
اللہ
ربّ العزت عزوجل نے
معراج کی رات اپنے محبوبِ اکبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو اپنی قُدرت کی دیگر نشانیوں کے ساتھ
ساتھ جنّت کے مشاہدات بھی کروائے۔ فضلِ
خداوندی سےآپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے شبِ معراج جنّت کی بھی سیر
فرمائی۔ یہاں کوئی سوچ سکتا ہے کہ معراج کی رات رسولِ اعظم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو جنّت
کی سیر کروانے میں ربِّ قدیر عزوجل کی کیا
کیا حکمتیں تھیں۔ مشہور محاورہ ہے کہ "فِعْلُ الْحَکِیْمِ
لَایَخْلُوْ عَنِ الْحِکْمَۃ" یعنی، حکیم کا کوئی بھی کام
حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔
علمائے
اسلام نے اِس کی کئی حکمتیں ذکر فرمائی ہیں۔ ان میں سے دوحکمتوں کا بیان حکیمُ الاُمّت مفتی
اَحمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کےقلم سے
ملاحظہ ہو۔چنانچہ مفتی صاحب تحریر فرماتے
ہیں:’’ربّ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ
وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ([9])
یعنی
اللہ نے مسلمانوں کی جان و مال خرید لئے ہیں جنّت کے بدلے میں۔ اللہ تعالیٰ
مسلمانوں کی جان و مال کاخریدار، مسلمان فروخت کرنے والے اور یہ سودا ہوا حضور علیہ
السلام
کی معرفت سے اور جس کی معرفت سے سودا ہو،وہ مال کوبھی دیکھے اور قیمت کوبھی،فرمایا
گیا! اے محبوب تم نے مسلمانوں کی جان و مال کوتو دیکھا،آؤ جنّت کوبھی دیکھ
جاؤ،اورغلاموں کی عمارتیں اورباغات وغیرہ بھی ملاحظہ کرلو۔ بلکہ خریدار کو بھی
دیکھ لویعنی خود پروردگارِ عالَم کی ذات کوبھی۔‘‘([10])
ایک
اور حکمت یوں بیان فرماتے ہیں کہ :"حضورعلیہ السلام تمام مملکتِ الہٰیہ کےبہ عطاء الہٰی مالک
ہیں۔اسی لئے جنّت کے پتے پتے پر حوروں کی آنکھوں میں غرضکہ ہر جگہ لکھا ہوا ہے ۔لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یعنی یہ چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں
اور محمد رسول اللہ کودی ہوئیں:
میں تومالک ہی کہوں گا کہ ہومالک کے
حبیب
یعنی محبوب و محبّ میں نہیں میرا تیرا
مرضی
الہٰی یہ تھی کہ مالک کواُس کی ملکیت دکھائی جاوے صلی اللہ علیہ و سلم۔"
خالقِ
جنّت عزوجل ہمیں
جنّت میں لے جانے والے کام کرنے ، شفاعتِ
مالکِ جنّت صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے
صدقے جنّت میں جانے اور وہاں کی اَبدی
نعمتوں کو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہ ویٰس
از :
ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی
6-06-2022
[1]۔سورۃ آل عمران: 26۔
[2]۔ تفسیرنعیمی،3/355،نعیمی کتب خانہ۔
[3]۔ حدائقِ بخشش،ص361۔
[4]۔سورۃ مریم: 63۔
[5]۔ اخبارالاخیار،ص216،فاروق اکیڈمی ضلع خیرپور۔
[6]۔ صحیح مسلم،کتاب
الصلوۃ،1/193،قدیمی کتب خانہ۔
[7]۔ مرقاۃالمفاتیح،کتاب
الصلوۃ،2/567،مکتبہ رشیدیہ۔
[8]۔ فتاویٰ
رضویہ،14/667،رضافاؤنڈیشن لاہور۔
[9]۔ سورۃ التوبۃ: 111۔
[10]۔ شانِ حبیب الرحمن ،107نعیمی
کتب خانہ۔
مادہ پرستی اور نفسانفسی کے اس دور میں ہر انسان
کسی نہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ویسے تو زندگی میں
سکون قائم رہنے اور کوئی پریشانی نہ آنے کی
انسانی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے لیکن افراتفری کے اس دور میں سکون کے کچھ لمحے میسر
آنے کی تمنا کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔اگر آپ زندگی میں سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں
تو آپ کو ایسے اصول اپنانے ہوں گے جو آپ کو پرسکون اور خوشگوار زندگی فراہم کرسکیں۔قرآن
پاک جو اللہ کی پاکیزہ کتاب ہے اور ہماری ہدایت اور کامیابی کے لئے اتاری گئی ہے
اس میں اللہ پاک نے جہاں اپنی وحدانیت،نبوت و رسالت بیان کی ہے اور دینی اور دنیوی
کامیابی کے لئے سماجی اور معاشرتی آداب کو بیان کیا یہ وہیں زندگی کو خوشگوار
بنانے کے حوالے سے بھی رہنما اصول بیان کئیے ہیں۔ان اصولوں کو جان کر اگر ان پر
عمل کیا جائیے تو زندگی کی بہت سی پریشانیوں اور مشکلات کو ختم کرکے اسے خوشگوار
بنایا جاسکتا ہے۔پارہ 26 سورہ حجرات میں اللہ رب العزت ان الفاظ کے ساتھ یہ اصول
ارشاد فرماتا ہے"اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔بے شک کوئی گمان
گناہ ہوجاتا ہے اور پوشیدہ باتوں کی جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔کیا
تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں
ناپسند ہوگا۔" مذکورہ آیت میں خوشگوار زندگی کے تین اصول بیان کئے گئے۔
1 بہت زیادہ گمان سے بچو
2 کسی کی
ٹوہ میں نہ پڑو 3
کسی کی
غیبت نہ کرو۔
ان ہی چیزوں کو جدید اصطلاحات میں مختلف ناموں
سے یاد کیا جاتا ہے اور خوشگوار اور پرسکون زندگی کے لئے ان سے بچنے کا کہا جاتا
ہے۔جیسے اوور تھنکنگ ،ڈپریشن وغیرہ۔ ترقی یافتہ دنیا نے جن علوم کو برسوں بعد دریافت
کرکے دنیا کو بتایا قرآن کریم نے صدیوں پہلے اس وقت جب سائنس اور نفسیات کا نام بھی
نہیں تھا تب خوشگوار زندگی کے یہ اصول بیان کردیئے تھے۔اب ذرا ان کی تفصیل جانتے ہیں۔
پہلا اصول یہ بیان کیا گیا کہ بہت گمانوں سے
بچو۔کہ اگر کسی شخص کے حوالےسے تمہارے علم میں کوئی قابل اعتراض بات آئے یا اس کی
کوئی غلط حرکت معلوم ہو تو اس پر فورا بدگمانی کرنے کی بجائے معاملے کی تحقیق کرلو
کہ آیا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا آپ نے دیکھا یا حقیقت کچھ اور ہے۔اسی طرح اگر دو
شخص آپس میں گفتگو کررہے ہیں تو ان کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ تمہاری برائی
کررہے ہیں۔الغرض اس آیت میں بالخصوص بدگمانی اور بالعموم ہر برے خیال سے بچنے کا
حکم دیا گیا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ انسان کی پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیالات
سے ہوتی ہے لہذا خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے ہر قسم کے فضول خیالات سے بچنا ضروری
ہے۔
فرمان نبوی ہے"بدگمانی سے بچو اس لئے کہ
بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی
ٹوہ میں لگے رہو۔" (بخاری)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں
کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"جس نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی
کی بے شک اس نے اپنے رب سے بدگمانی کی۔اگر آپ خوشگوار زندگی کے طلبگار ہیں تو اس
قرآنی اصول کو پلے باندھ لیجیئے اور کسی بھی مسلمان کے بارے میں دل میں برا خیال
لاکر اس پر یقین نہ کیجئے۔"
بدگمانی سےبچنے کے لئے کچھ طریقے۔
1 مسلمان کی خوبیوں پر نظر رکھیے۔
2 بدگمانی پیدا ہو تو اس سے توجہ ہٹالیں۔
3 بری صحبت سے برے گمان پیدا ہوتے ہیں لہذا اس
سے بچئے۔
4 اللہ کی بارگاہ میں اس سے بچنے کی دعا کیجئے۔
5 اس کے نقصانات کو یاد رکھئیے۔
بدگمانی سے بچنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ اس کے
نقصانات کو پیش نظر رکھنا بھی ہے۔جیسے اس کے چار دینی نقصانات یہ ہیں۔
1 جس کے بارے میں بدگمانی کی اگر اس کے سامنے اس
کا اظہار کردیا تو اس کی دل آزاری ہوسکتی ہے اور بلا اجازت شرعی مسلمان کی دل آزاری
حرام ہے۔
2 اس کی غیر موجودگی میں دوسرے کے سامنے اپنا
برا گمان ظاہر کیا تو یہ غیبت ہوجائے گی حالانکہ مسلمان کی غیبت حرام ہے۔
3 بدگمانی کرنے والا محض اس پر بس نہیں کرتا
بلکہ اس کے عیوب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے۔اور کسی مسلمان کے عیبوں کو تلاش کرنا
ناجائز و گناہ ہے۔
4 بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک
امراض پیدا ہوتے ہیں۔
مزید 2 دنیوی نقصانات یہ ہیں۔
1 بدگمانی کرنے سے رشتوں میں دراڑ پڑجاتی
ہے۔بھائیوں میں دشمنی ہوجاتی ہے،ساس بہو کی نہیں بنتی،میاں بیوی اور بھائی بہن ایک
دوسرے کے خلاف ہوجاتے ہیں اور بات طلاق اور قطع تعلق تک پہنچ جاتی ہے۔یوں ہنستا
بستا گھر اجڑ جاتا ہے۔
2 دوسروں کے لئے برے خیالات رکھنے والے افراد پر
فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے جیسا کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن
کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جو افراد دوسروں کے لئے مخالفانہ
سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ اور غصے کا شکار رہتے ہیں ان میں دل کی
بیماریوں اور فالج کا خطرہ 86 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
دوسرا اصول قرآن نے یہ بتایا کہ تجسس نہ کرو۔کسی
کی ٹوہ میں نہ پڑو،لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش نہ کرو۔
حدیث مبارک میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ
وسلم نےارشاد فرمایا:"گمان سے بچو،گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور مسلمانوں کی عیب
جوئی نہ کرو۔" دوسری روایت میں ہے:جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی کرتا
ہے اللہ تعالی روز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:"اے وہ لوگوں جو
زبان سے ایمان لےآئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا۔مسلمانوں
کو ایذاء مت دو اور نہ ان کے عیوب تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب
تلاش کرے گا اللہ تعالی اس کا عیب ظاہر فرمادے گا اور اللہ جس کا عیب ظاہر فرمادے
تو اسے رسوا کردیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔"
دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا:"غیبت کرنے
والوں،چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش
کرنے والوں کو اللہ جل جلالہ قیامت کے دن کتے کی شکل میں اٹھائے گا۔"
بیان کردہ آیت و احادیث کی روشنی میں ہر ذی شعور
پر یہ عیاں ہوگیا ہوگا کہ لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کی کوشش کتنی ممنوع اور ناپسندیدہ
ہے۔اس میں مبتلا ہونے کی وجوہات اور اس سے بچنے کے طریقے درج ذیل ہیں۔
1 تجسس کا پہلا سبب بغض، کینہ اور ذاتی دشمنی
ہے۔لہذا اس سے بچنے کے لئے اپنے دل کو بغض و کینہ سے صاف کرکے اس میں مسلمانوں کے
لئے محبت پیدا کریں اور یہ فرمان نبوی ذہن نشین کرلیں"جو کوئی اپنے مسلمان
بھائی کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھے اور اس کے دل یا سینے میں عداوت نہ ہو تو
نگاہ لوٹنے سے پہلے دونوں کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔"
2 اس کا دوسرا سبب حسد ہے کیونکہ حاسد اپنے
محسود (جس سے حسد ہے) کو کبھی خوش نہیں دیکھ سکتا لہذا وہ اسے بدنام کرنے کے لئے
اس کے عیب تلاش کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے لہذا تجسس سے بچنے کے لئے حسد سے
بچنا ضروری ہے۔حسد سے بچنے کی صورت اس کی تباہ کاری پر غور کرنا بھی ہے۔اور اس کی
تباہ کاری یہ ہے کہ "نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا جیسے آگ لکڑی کو"۔
3 اس کا ایک سبب چغل خوری بھی ہے کہ چغل خور کو
اپنی اس عادت کے لئے عیوب تلاش کرکے انہیں ادھر ادھر بیان کرنا اور چغل خوری کو پایہ
تکمیل تک پہنچانا ہوتا ہے۔لہذا تجسس سے بچنے کے لئے چغل خوری کو ترک کرنا ضروری
ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ اس کی وعیدوں کو پیش نظر رکھے اور اس سے بچنے کی کوشش
کرے۔خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"چغل خور ہرگز جنت میں داخل
نہ ہوگا۔" چغل خور کو آخرت سے پہلے دنیا میں عذاب دیا جائےگا۔"
4 اس کا سبب منفی سوچ بھی ہے کہ جب کوئی شخص منفی
سوچ کا حامل بن جاتا ہے تو پھر وہ تجسس جیسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ہر وقت
لوگوں کے عیب تلاش کرنا اس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔اس کا حل یہی ہے کہ بندہ اپنی سوچ
کو مثبت بنائے۔بلا ضرورت تجسس اور لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کی بجائے ان کی خوبیوں
پر نظر رکھے۔اور یہ سوچے کہ جب خالق نے ان کےعیوب کو چھپاکر رکھا ہے تو مجھ حقیر
کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کے عیبوں کو تلاش کرتا پھرے اور اسے بدنام کرے۔
تیسرا اصول جو خالق کائنات نے بیان کیا وہ یہ ہے
کہ کسی کی غیبت نہ کرو کیونکہ ایسا کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف
ہے اور تم میں سے ہر ایک اسے ناپسند کرتا ہے۔قرآن پاک میں جس طرح اس کی مذمت کی گئی
ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ کتنا بڑا اور کتنا سخت گناہ ہے۔لیکن
افسوس اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس میں مبتلا ہے اور بہت لوگ تو اسے گناہ
سمجھتے ہی نہیں ہیں اور دن رات غیبت میں مبتلا رہتے ہیں۔
اکثریت کی غیبت میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ اس
کے متعلق معلومات نہ ہونا ہے لہذا اس کے متعلق کچھ معلومات ملاحظہ کیجئے۔
غیبت کی تعریف۔کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو اس کی
برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔البتہ اگر وہ عیب اس میں موجود نہ ہو تو اب یہ
بہتان ہوگا جو غیبت کے مقابل دوہرا گناہ ہے۔جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے استفسار فرمایا"کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟عرض کی گئی اللہ اور اس کا رسول
بہتر جانتے ہیں۔فرمایا:(غیبت یہ ہے کہ)تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو جسے وہ
ناپسند کرتا ہے۔عرض کی گئی:اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو؟فرمایا: جو بات تم کہہ
رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں نہ ہو تو تم
نے اس پر بہتان باندھا۔"(صحیح مسلم)
غیبت کے حرام ہونے کی حکمت:
کسی شخص میں واقعی برائی موجود ہے لیکن پھر بھی
بلاوجہ اس کے بیان کرنے کو حرام قرار دینا دین اسلام کی خوبصورتی ہے۔اور یہ ایسی
خوبی ہے جو اسے دیگر ادیان سے ممتاز کرتی ہے کیونکہ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے برائی
بیان کرنا اس کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے کی طرح ہے لہذا مومن کی عزت و حرمت کی
حفاظت کے لئے اسے حرام قرار دیا گیا۔اور اس میں یہ اشارہ بھی پنہاں ہے کہ انسان کی
عزت و حرمت اور اس کے حقوق کی بہت زیادہ تاکید ہے۔کیونکہ اللہ رب العزت نے اس کی
عزت کو گوشت اور خون کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے اور اس میں مبالغہ کرتے ہوئے اسے
مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا کہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اسے
تکلیف ہوتی ہے اسی طرح اس کی بدگوئی کرنے سے اسے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت
عزت و آبرو گوشت سے زیادہ پیاری ہے۔
اس کا ایک سبب اس کے نقصانات اور عذابات سے آگہی
نہ ہونا بھی ہے۔لہذا اس سے بچنے کے لئے اس کے بارے میں بیان کردہ وعیدوں اور
نقصانات کا علم ہونا ضروری ہے۔
1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"معراج کی رات میں ایسے مردوں کے پاس سے گزرا جو اپنی چھاتیوں کے ساتھ لٹک
رہے تھے تو میں نے پوچھا اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی یہ منہ پر عیب لگانے
والے اور پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے ہیں۔"
2 دوسری حدیث میں ہے: شب معراج میرا گزر ایسی
قوم کے پاس سے ہوا جو اپنے چہروں اور سینوں کو تانبے کے ناخنوں سے نوچ رہے تھے۔میں
نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟کہا یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے)
اور ان کی عزت خراب کرتے تھے۔(سنن ابو داود)
3 ایک مقام پر ارشاد ہوا: جس رات مجھے آسمانوں کی
سیرکرائی گئی تو میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جس کے پہلووں سے گوشت کاٹ کر ان ہی کو
کھلایا جارہا تھا۔انہیں کہا جاتا،کھاٶ! تم اپنے بھائیوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔میں نے پوچھا: اے جبرئیل! یہ
کون ہیں؟جوابا عرض گزار ہوئے۔یہ لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔(دلائل النبوة)
4 اور دل دہلا دینے والی اس روایت کو بھی پڑھئے
کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دنیا میں اپنے جس بھائی کا
گوشت کھائے گا (یعنی غیبت کرے گا)وہ (جس کی غیبت کی تھی) قیامت کے دن اس کے قریب
لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا"اسے مردہ حالت میں بھی کھا جس طرح اسے
زندہ کھاتا تھا۔پس وہ اسے کھائے گا اور تیوری چڑھالے گا اور شور و غل کرے گا۔
(معجم اوسط)
علمائے
اسلام اور مسلمانانِ عالَم کا قدیم زمانے سے یہ قابلِ
تحسین اور لائقِ تقلید طریقہ چلا آرہا ہے کہ جب بھی سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر دُرود شریف پڑھتے ہیں تو اِس
کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی مبارَک آل اور پیارے اَصحاب رضوانُ اللہ علیھم اَجمعین
پر بھی دُرود و سلام بھیجتے ہیں۔یقیناً یہ
خوبصورت انداز عقیدے کی درستی اور پختگی
کی علامت ہے ؛کہ اِس طرز پر درود و سلام پڑھنے والے کو سرورِ
دوعالَم، حُسنِ مجسَّم ،شفیعِ معظَّم صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کے تمام صحابہ اور جمیع اہلِ بیت سے عقیدت و
محبت ہے،جو کہ ایمان کےلئے انتہائی ضروری ہے۔
علمائے
اسلام نے تعظیمِ رسول کی
علامات میں اِس بات کو بھی ذکر فرمایا ہے
کہ آپ صلی
اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے صحابہ اور اہلِ بیت سے محبت و عقیدت رکھی جائے اور ان حضرات کا ادب و احترام کیا جائے۔چنانچہ امام قاضی عیاض
مالکی رحمۃ
اللہ علیہ اپنی تصنیفِ
لطیف "شفاء شریف " میں اہلِ بیت اَطہار کے بارے میں ارشاد فرماتے
ہیں:
" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِرِّہِ بِرُّ آلِہِ ذُرِّیَّتِہِ
وَاُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَزْوَاجِہِ۔"یعنی،سرکارِ
اعظم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی
آل، اَولاد اور اَزواج ( یعنی اُمہاتُ المؤمنین) کی تعظیم و توقیر کی جائے۔([1])
اور اِسی "شفاء شریف" میں آپ رحمۃ اللہ علیہ صحابۂ
کرام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ وَبِرِّہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوْقِیْرِ اَصْحَابِہِ وَبِرُّھُمْ وَ مَعْرِفَۃُ حَقِّھِمْ
وَ الْاِقْتِدَاءُ بِھِمْ وَحُسْنُ الثَّنَاءِ عَلَیْھِمْ۔" یعنی،سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی تعظیم و
توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابۂ کرام کی تعظیم و توقیر کی جائے،ان کے حق کو
پہچانا جائے، ان کی اقتدا اور پیروی
کی جائے اور ان کی مدح و ثنا کی جائے۔([2])
ان کے مَولیٰ کی اُن پر کروڑوں درود اُن کے اَصحاب وعِترَت پہ لاکھوں سلام([3])
محبتِ صحابہ و اہلِ بیت کا دُرست معنی:
یہاں
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ نبیِ کریم ،رسولِ
عظیم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے مقدَّس صحابہ اور پیارے اہلِ بیت کی محبت سے مراد یہ ہے کہ ان حضرات
میں سے ہر ایک سے محبت رکھی جائے ۔معاذاللہ! صحابہ یا اہلِ بیت میں سے کسی ایک فرد
سے بھی بغض ونفرت رکھنا انتہائی ہلاکت خیز
اور دُنیاو آخرت میں نقصان و خُسران کا باعث ہے اور یہ اِس بات کی بھی دلیل
ہے کہ ایسے شخص کو دیگرصحابہ واہلِ بیت سے بھی سچی اور ایمانی محبت نہیں ہے؛کیونکہ
اِن تمام تر نفوسِ قُدسیہ سے محبت اِ ن کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے ،بلکہ ذاتِ مصطفٰے
صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے۔
لفظِ
"صحابہ" صحابی کی جمع ہے،جس کا لفظی معنیٰ ہی "صحبت میں
رہنے والا " اور " رفیق وساتھی "ہےاورمسلمانوں کا ہر
سمجھدار بچہ بھی جانتاہے ہے کہ جماعتِ صحابہ پر لفظِ"صحابہ" کا اطلاق صحبتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی وجہ
سے ہی کیا جاتاہے۔بالفاظِ دیگر صحابی کو صحابی ،صحبت و نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی وجہ سے ہی کہتے ہیں۔اِسی طرح "اہلِ
بیت" کا لفظی معنیٰ ہی "گھر
والے" ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اہلِ بیت کو رسولِ کریم ،نبیِ عظیم صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کےمقدّس گھرانے اور خاندان سے ہونے کی وجہ سے ہی "اہلِ بیت" کہا جاتاہے۔ "اہلِ بیت"
یعنی گھر والے، کس کے گھر والے ؟ جانِ کائنات ، مفخرِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ
و اٰلہ و صحبہ وسلم کے گھر والے۔
چونکہ ذاتِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و
صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت ہر صحابی اور اہلِ بیت کے ہر
فرد ہی کو حاصل ہے، لہذا ان میں
سے ہر ایک سے عقیدت و محبت رکھنا اور ہر ہر موقع پر اس محبت کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔
چنانچہ
اعلیٰ حضرت، مجدِّدِ اعظم امام اَحمد رضا
خان رحمۃ
اللہ علیہ اِسی
حقیقت کا بیا ن یوں فرماتے ہیں:وَلَیْسَ حُبُّ الصَّحَابَۃِ
لِذَوَاتِھِمْ، وَلَا حُبُّ اَھْلِ الْبَیْتِ لِاَنْفُسِھِمْ، بَلْ حُبُّھُمْ
جَمِیْعاً لِوُصْلَتِھِمْ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، فَمَنْ اَحَبَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ
ﷺ وَجَبَ اَنْ یُحِبَّھُمْ جَمِیْعاً ، وَمَنْ اَبْغَضَ بَعْضَھُمْ ثَبَتَ اَنَّہُ
لَایُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ۔ یعنی، صحابۂ کرام سے محبت اُن
کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے، اور اہلِ بیت کی محبت اُن کی اپنی جانوں کی وجہ سے نہیں
ہے ، بلکہ ا ن تمام افراد سے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و
صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے ۔لہذا جو
شخص نبی پاک
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے محبت کرتاہے تو اُس پر واجب ہے کہ اِ ن تمام
حضرات (سارے
ہی صحابہ و اہلِ بیت)سے
محبت رکھے۔اور جو شخص اِن حضرات(صحابہ
و اہل ِبیت )
میں کسی سے ایک سے بھی بُغض رکھے تو ثابت ہوجائے گا کہ ایسا شخص رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
و اٰلہ و صحبہ وسلم سے بھی
محبت نہیں رکھتا۔ ([4])
اہلِ سُنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِتْرت رسول اللہ کی([5])
ربِّ
کریم عزوجل
اپنے رسولِ ذیشانصلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے تمام ہی صحابہ و اہلِ بیت کی سچی ،شرعی اور ایمانی محبت پر ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہر ہر موقع پر اپنے قول و فعل سے اِس محبت کا اظہار کرتے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بِجاہ ِطٰہٰ
ویٰس
ازقلم: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی