از: ام میلاد باجی نگران
عالمی مجلس مشاورت دعوت اسلامی
یقیناً نکاح
اسلامی شعار اور بہت ہی بابرکت عمل ہے، اس سے نہ صرف دو افراد میں محبت اور امن و
سکون کی فضا قائم ہوتی ہے بلکہ دو خاندانوں کا بھی آپس میں ایک محبت بھرا تعلق
قائم ہو جاتا ہے، نیز اسی نکاح کی بدولت معاشرے میں ایک اچھی فضا پیدا ہوتی ہے اور
برائیوں کا قلع قمع ہوتا ہے، اس کی عظمت و افادیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب قرآن
و سنت اور اسلامی اصول و قوانین کے مطابق اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
لیکن افسوس! صد افسوس! ہمارے یہاں عام طور پر دینی تعلیمات کے مطابق نکاح کی
تقریب کے تمام مراحل طے نہیں ہوتے بلکہ ہماری اس مذہبی رسم میں بھی بہت سی ہندوانہ
اور غیر اسلامی حرکات و خرافات شامل ہو چکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب اکثر شادیاں
کامیاب نہیں ہو پا رہیں اور شیطان اپنی کوششوں میں یعنی فساد برپا کرنے اور نفرتیں
پھیلانے میں مکمل کامیابی حاصل کر رہا ہے،
یاد رہے شیطان کبھی نہ چاہے گا کہ مسلمان اللہ پاک کے حکم کی اطاعت کریں اس کو
راضی کرنے والے کام کریں اور اس کی منشا کے مطابق عمل کریں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ
مسلمانوں کے اسلامی معاملات میں دخل اندازی کر کے اس میں خرابی پیدا کرے لیکن اللہ
پاک کے محبوب بندے شیطان کو ناکام و نامراد کرتے ہیں اور دونوں جہانوں میں سرخرو
ہو جاتے ہیں۔ یہاں شادیوں میں پائی جانے والی کچھ ایسی خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے
جن میں ہماری کئی خواتین مبتلا نظر آتی ہیں تاکہ ہماری مسلمان خواتین ان کو جان کر ان سے بچنے کی کوشش کریں اور اپنی
اصلاح کر سکیں۔
مسلمان
عورت کو شادی میں کیا نہیں کرنا چاہیے؟
مسلمان عورت
کو مردوں سے اختلاط نہیں کرنا چاہیے۔مسلمان عورت کو بے
پردگی، بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔مسلمان عورت کو شادی کے
معاملات کی وجہ سے نمازوں سے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔مسلمان عورت کو دوسرے مہمانوں
کے ساتھ مل کر کسی اور خاتون کی غیبت اور برائی نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان عورت کو
دوسری عورتوں کے کپڑوں، ان کے زیورات یا ان کی کسی اور بات پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔مسلمان عورت کو شادی
کے کھانے وغیرہ میں بھی عیب نہیں نکالنا چاہیے۔مسلمان عورت کو دلہن یا دولہا یا ان
میں سے کسی کے گھر والوں کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کرنی چاہیے اور کسی سے
بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔مسلمان عورت کو وہاں پر بھی حقوق العباد میں کوتاہی نہیں
کرنی چاہیے۔ مسلمان عورت کو شادی کے موقع پر بھی گانے باجے اور ڈانس وغیرہ کرنے
اور دیکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مسلمان عورت کو مووی اور تصویریں بنوانے سے بچنا
چاہیے۔
اللہ پاک ہماری مسلمان خواتین کو
زندگی کے تمام معاملات
شریعت کی روشنی میں گزارنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
از: بنت اللہ
بخش عطاریہ ہند
مشترکہ
خاندانی نظام(Joint family system)ایک عمارت کی طرح ہوتا ہے اور عمارت
کی مضبوطی، پائیداری، بقا اور خوبصورتی میں اس کے ستونوں کی مضبوطی اور باہمی ربط
و تعلق کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے، اگر ان میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو جائے یا
ان کی مناسب دیکھ بھال کا خیال نہ کیا جائے تو ان پر قائم عمارت میں بھی
جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ ہونے اور دراڑیں پڑنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یوں وہ عمارت زیادہ عرصے تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ
پاتی اور بالآخر گر کر ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ اسی
طرح مشترکہ خاندانی نظام کی عمارت کی مضبوطی و خوبصورتی بھی اس کے ستونوں
یعنی ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل، قوتِ برداشت اور
معاشرتی اخلاق و آداب کی رعایت پر موقوف
ہوتی ہے، جہاں ان کی رعایت نہیں کی جاتی وہاں اس پاکیزہ عمارت میں کمزوری اور دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یوں اس پاکیزہ عمارت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔بلاشبہ جٹھانی یعنی بڑے بھائی کی بیوی اور دیورانی یعنی چھوٹے بھائی کی بیوی بھی خاندان کے دو اہم ترین ستون ہیں، چونکہ
یہ دونوں خواتین شادی کے بعد ایک نئے خاندان کا حصہ بنتی ہیں۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ دونوں خواتین مل جل کر
خاندان کی عمارت کو مضبوط بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، مگر افسوس! اکثر
گھر ان کے درمیان بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے کے سبب میدانِ جنگ بنے رہتے ہیں۔ یہاں
ذیل میں چند ایسی باتیں ذکر کی جا رہی ہیں جنہیں اگر یہ دونوں مدِّ نظر رکھیں تو
ان کے گھر امن کا گہوارا بن سکتے ہیں:
v جٹھانی یا دیورانی میں سے اگر کوئی گھر کے اہم افراد کا
دل جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو دوسری کو
چاہئے کہ وہ حسد کی آگ میں نہ جلے بلکہ وہ بھی اپنے کام میں
نکھار لا کر ان افراد کا دل خوش کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔
v دونوں کو چاہئے
کہ وہ ایک دوسرے کی خوبیوں کی جائز تعریف ضرور کریں کہ اس سے آپس میں محبت بڑھتی
ہے، مثلاً ان میں سے جس کو اچھا کھانا پکانا آتا ہو یا اچھے کپڑے سیتی ہو یا فرائض
کے ساتھ ساتھ نفل عبادات بھی بجا لاتی ہو یا دینی کاموں کی شیدائی ہو وغیرہ تو اس
کی تعریف کرنے میں دوسری کو ذرا بھی ہچکچاہٹ و کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔
v اگر جٹھانی کو
دیورانی کی کوئی بات و حرکت اچھی نہ لگے تو وہ اس کے خلاف محاذ کھڑا کرے نہ کسی کے
سامنے اظہار کرے اور نہ اسے جلی کٹی سنائے بلکہ اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھ کر معاف
کر کے ثوابِ آخرت کی حصہ دار بن کر نفس و
شیطان کو ناکام و نامراد کر دے۔
v اسی طرح دیورانی
کو جٹھانی کی کوئی بات و حرکت بری لگے تو وہ اسے ضد و انانیت کا مسئلہ بنائے نہ اسے اپنا
دشمن سمجھ کر غیبت کے گناہ میں مبتلا ہو، بلکہ اسے اپنی بڑی بہن
سمجھ کر غصہ پی لے اور درگزر سے کام لے۔
v ضد ی انسان
ہمیشہ تنہا رہ جاتا ہے، لہٰذا جٹھانی دیورانی میں سے جس کو جو اور جتنا ملے وہ اس
پر راضی رہے اور خواہ مخواہ اپنی شخصیت کو داغ دار کرے نہ بد گمانی کا شکار ہو۔ مثلاً
یہ نہ سوچے کہ دوسری کو شادی پر اتنی
مالیت کے زیورات پہنائے گئے، مجھے کیوں نہیں؟ اس کو گھر میں مجھ سے زیادہ جگہ کیوں
دی گئی؟اس کے بچوں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن میرے بچوں کو اِگنور کیا جاتا ہے! وغیرہ وغیرہ۔
v دونوں کو
چاہئے کہ اگر کبھی آپس میں ” تُو تُو میں میں“ ہو جائے تو اسے بڑھاوا نہ دیں، بلکہ”رات
گئی بات گئی“ کے مصداق رب کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کو معاف کر کے معاملے کو رفع
دفع کر دیں اور کوئی بھی اپنے شوہر کے سامنے دوسری کے خلاف باتیں کر کے اس کے دل
میں نفرت پیدا نہ کرے، عین ممکن ہے ایسا کرنے سے بھائی بھائی کا دشمن بن جائے اور معاملہ مزید بھیانک روپ اختیار کر لے۔
v بعض خواتین
میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا سمجھتیں اور دوسروں کی اولاد
میں نقص ڈھونڈتی رہتی ہیں بلکہ بسا اوقات منہ
پر ہی اظہار بھی کر دیتی ہیں کہ تمہارا بچہ تو ایسا ہے۔ لہٰذا ان دونوں کو ایک ہی خاندان کی بہو ہونے کے ناطے ایک
دوسرے کے بچوں کو اپنا ہی سمجھنا چاہئے اور خواہ مخواہ ایک دوسری کے بچوں میں عیب
نہیں ڈھونڈنا چاہئے، کہ اس سے بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ اپنی
ماؤں کی باہمی ناراضی کی وجہ سے زندگی بھر
کیلئے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔
v بچے بچے ہوتے
ہیں، جو لڑتے جھگڑتے ہیں پھر دوبارہ سب بھول بھال کر کھیلنے میں مشغول ہو جاتے
ہیں، لہٰذا بچوں کی لڑائی کے سبب جٹھانی دیورانی کا آپس میں جھگڑنا، گالی گلوچ
کرنا، رشتے ناطے توڑ لینا، خوشی غمی کے معاملات کا بائیکاٹ کر دینا، اپنے بچے کو
بے قصور اور دوسری کے بچے کو قصور وار ٹھہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا
انتہائی درجے کی کم عقلی ہے۔ لہٰذا بچے لڑیں تو ہاتھوں ہاتھ صلح کروا دیں اور بچوں
کو آئندہ ایسا نہ کرنے کی تنبیہ کر دیں، ان شاء اللہ شیطان مردود منہ کی کھائےگا۔
v جٹھانی رشتے میں
دیورانی سے فائق ہوتی ہے، لیکن اس کا ہرگز
یہ مطلب نہیں کہ وہ اس پر اپنی بڑائی کی
دھاک بٹھائے یا اپنے احسانات جتلائے یا دھونس دھمکی کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے یا اس کی کردار کشی کرے یا اسے نیچا دکھانے کے مواقع ڈھونڈتی رہے کہ اس طرح تو
غیبتوں، چغلیوں، بہتان تراشیوں، بد گمانیوں، عیب دریوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ
چل پڑتا ہے، لہٰذا جٹھانی کو چاہئے کہ وہ اپنی دیورانی کی عزتِ نفس کا خیال رکھے
اور اس کی اس قدر خیر خواہی کرے کہ وہ خود کہہ اُٹھیں کہ اللہ پاک ایسی جیٹھانی ہر دیورانی کو دے۔
v دونوں کو
چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر دکھ سکھ کی گھڑی میں سہیلیوں کی طرح رہیں
اور بوقتِ ضرورت ایک دوسری کا سہارا بنیں، مثلاً ایک بیمار ہو تو دوسری اس کے کام
بھی خوش اسلوبی سے کر دے اور کبھی بھی اپنے
دل میں یہ خیال نہ آنے دے کہ جب مجھ پر آزمائش آئی تھی تو اس نے
میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا تھا، لہٰذا میری بلا سے وہ جئے یا مرے میں اس کے ساتھ
ہرگز کوئی تعاون نہ کروں گی۔کیونکہ اگر وہ بھی اسی جیسا سلوک کرے گی تو دونوں میں
فرق کیا رہے گا۔ لہٰذا گھر کو
امن کا گہوارا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایک کے ساتھ کبھی کچھ برا ہوا ہو تو
وہ درگزر سے کام لے اور اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف فرما دے۔اللہ پاک ہمیں اتفاق
سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
از: بنت محمد شیر
اعوان عطاریہ بی ایڈ، ایم ایس سی اکنامکس گولڈ میڈلسٹ (میانوالی)
اخلاقی
اقدار میں کچھ صفات کا تعلق چونکہ ہماری ذات سے اور کچھ صفات کا تعلق ہم سے جڑے
لوگوں سے ہوتا ہے۔ لہذا گزشتہ قسط میں ذاتی صفات کا تذکرہ ہوا، اب دوسری قسم کی
صفات پیشِ خدمت ہیں کہ جن سے دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے اور جو دینے کی صفات بھی کہلاتی ہیں:
1-قابل بھروسا:
کسی کے اعتماد اور بھروسے پر پورا اترنا بلاشبہ
ایک انتہائی اعلیٰ صفت ہے، بچوں میں یہ صفت دیگر صفات کی طرح والدین کے رویئے اور
اعتماد سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ والدین کا فرض ہے کہ وہ خود کو مثالی بنائیں تا
کہ بچے انہیں دیکھ کر اس عمل کو اپنائیں کہ عمل قول سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں چاہئے کہ بچے کے ہر اس عمل کی تعریف
کریں کہ جس میں اس کا قابلِ بھروسا ہونا ظاہر ہو، نیز بچوں کو یہ یقین
دلائیں کہ جس طرح وہ ان پر یعنی اپنے ماں باپ پر بھروسا کرتے ہیں، اسی طرح انہیں
بھی ایسا بننا چاہئے کہ لوگ ان پر بھروسا کریں اور ان کی کسی بات کو نہ جھٹلائیں۔
2-رحم دلی:
رحم دل لوگ شفقت، مہربانی اور درگزر کی صلاحیت کے
حامل ہوتے ہیں جو کہ نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ عملی زندگی میں بھی بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ اللہ پاک بھی اس بندے کو پسند فرماتا
ہے جو اس کی مخلوق پر رحم کرے اور درگزر سے کام لے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: رحم
کرو تم پر رحم کیا جائے گا، معاف کرو تمہیں معاف کیا جائے گا۔([i])
یاد
رہے! رحم دلی اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کو بھی بڑی پسند ہے۔ چنانچہ والدین کو چاہئے کہ
بچوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھیں اور انہیں بھی نرمی اختیار کرنے کی تربیت دیں
تا کہ وہ انسانوں بلکہ جانوروں اور چرند پرند وغیرہ ہر ایک کے ساتھ نرمی سے پیش
آئیں۔ بلکہ بچوں کو جب بھی کچھ سمجھائیں
تو مثال دے کر سکھائیں۔ مثلاً روزمرہ کے کاموں میں ہمیں بہت سے ایسے مراحل سے
گزرنا پڑتا ہے جہاں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے جیسے گھر میں ملازم سے کسی
کام میں کوتاہی ہو جانے پر رحم دلی و درگزر سے کام لینا وغیرہ۔۔ اگر اس طرح کے مواقع
پر بچے کے سامنے رحم دلی کا عملی مظاہرہ کیا جائے تو خود بخود آہستہ آہستہ یہ صفت ان
میں منتقل ہو جائے گی۔
3-عدل و انصاف:
اخلاقی
اقدار میں جتنی بھی صفات شامل ہیں ان کا ماخذ اگرچہ قرآن و سنت ہے اور اگر عملی
نمونہ دیکھنا چاہیں تو ہمارے سامنے حضور نبی پاک صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
ذات مبارکہ بھی ہے۔ چنانچہ والدین کو چاہئے کہ پہلے خود سیرتِ نبوی کا پیکر بنیں
اور دیگر اوصاف کی طرح بچوں کو عدل و انصاف کا عادی بنانے کے لئے خود بھی عدل و
انصاف سے کام لیں، نیز بچوں، بچیوں میں امتیازی سلوک کر کے کسی قسم کا فرق نہ کیا کریں۔
4-حساسیت: یہ صفت صرف اس میں پائی جاتی ہے جو دوسروں کیلئے
احساس کا جذبہ رکھتا ہو اور دوسروں کے دکھ، درد اور غم میں ان کے ساتھ شریک ہو۔
از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ
حضرت
زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا وہ
خوش نصیب خاتون ہیں جنہیں اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت یوسف علیہ السّلام کی زوجہ
ہونے کا شرف حاصل ہوا آپ کا نام راعیل ہے مگر عوام میں آپ اپنے لقب زُلیخا سے زیادہ
مشہور ہیں۔ ([1])
حضرت
زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا ایک
مغربی بادشاہ طیموس کی انتہائی خوبصورت شہزادی تھیں۔ نو برس کی عمر میں آپ نے خواب میں پہلی بار حضرت
یوسف علیہ السّلام کا
دیدار کیا تو اسی وقت ان کی دیوانی ہو گئیں، پھر دوسرے سال خواب دیکھا تو حالت مزید
خراب ہو گئی یہاں تک کہ تیسرے سال خواب میں جب یہ معلوم ہوا کہ آپ علیہ السّلام شاہِ
مصر ہیں تو انہوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ
چونکہ شاہِ مصر حضرت یوسف علیہ السّلام ہیں،
لہٰذا شاہِ
مصر سے شادی کر لی، لہٰذا حقیقت
معلوم ہونے پر بے ہوش ہو گئیں، پھر آپ کو ہاتِفِ غیبی سے آواز آئی کہ جس ہستی کی آپ
تمنا رکھتی ہیں اس کے شاہِ مصر بننے تک
صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھیں۔(2)مگر آپ چونکہ حضرت یوسف علیہ
السّلام کی حقیقت سے بخوبی آگاہ تھیں نہ
ابھی تک ایمان لائی تھیں، اس لئے جب حضرت یوسف کو دیکھا تو صبر نہ کر سکیں، جس کی وجہ سے آپ
کو کئی تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا، یہاں تک کہ امام غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ کے بقول انہوں نے حضرت یوسف علیہ السّلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کر دیا، 70
اونٹوں کے بوجھ کے برابر جواہر اور موتی نثار کر دئیے، جب بھی کوئی یہ کہتا کہ میں
نے یوسف کو دیکھا ہے تو وہ اسے بیش قیمت ہار دے دیتیں یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ
رہا۔(3)
مگر بعد میں جب ایمان لے آئیں
اور حضرت یوسف علیہ السّلام کی زوجیت میں داخل ہوئیں تو سوائے عبادت و ریاضت اور
توجہ الی اللہ کے کوئی کام نہ رہا، اگر حضرت یوسف علیہ
السّلام دن کو اپنے پاس بلاتے تو کہتیں
رات کو آؤں گی اور رات کو بلاتے تو دن کا وعدہ کرتیں۔ آخر حضرت یوسف علیہ السّلام نے جب پوچھا کہ آپ تو میری محبت میں دیوانی تھیں! تو
عرض کرنے لگیں: یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب میں محبت کی حقیقت سے واقف نہ تھی، اب چونکہ
مجھے حقیقت معلوم ہو چکی ہے اس لئے اب میری محبت میں آپ کی شرکت بھی گوارا نہیں۔ اس
پر جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ پاک نے اس بات کا حکم فرمایا ہے
اور یہ بھی بتایا ہے کہ آپ کے بطن سے اللہ پاک دو بیٹے پیدا کرے گا جو دونوں نبی
ہوں گے تو حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا نے اللہ پاک کے حکم و حکمت کی
بنا پر سر جھکا دیا۔ (4)
یاد رہے ! حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کی توبہ کا اعلان قرآنِ کریم میں کیا گیا ہے، کیونکہ
انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا تھا اور قصور کا اقرار توبہ ہی ہے۔ لہٰذا
حضرت زلیخا کو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حضرت یوسف کی صحابیہ اور
ان کی مقدس بیوی تھیں۔ اللہ پاک نے بھی ان کے قصوروں کا ذکر فرما کر ان پر غضب
ظاہر نہ فرمایا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھیں اور توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے
گناہ کی طرح ہوتا ہے۔(5)نیز اپنے
مجازی عشق کے لئے معاذ اللہ حضرت یوسف علیہ السّلام اور زُلیخا کے قصّے کو دلیل بنانا سخت
جہالت و حرام ہے، کیونکہ عشق صرف زلیخا ہی کی طرف سے تھا، حضرت یوسف کا دامن اس سے
پاک تھا۔ (6)لہٰذا حضرت
زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کا
ذکر ہرگز ہرگز بے ادبی سے نہ کیا جائے بلکہ ہر حال میں احترام کا خیال رکھا جائے، بہت
سے بے باک لوگ حضرت یوسف علیہ
السّلام اور زلیخا کے
واقعے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور معاذ اللہ ان کی شان میں بہت سی بے
ادبیاں کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو فوراً سچی توبہ کر لینی چاہیے ورنہ بربادی یقینی
ہے۔
حضرت یوسف و زلیخا کا
نکاح
حضرت یوسف علیہ السّلام سے حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کی شادی کا
واقعہ بھی بڑا عجیب ہے، جیسا کہ دین و دنیا کی انوکھی باتیں نامی کتاب میں ہے کہ
عزیزِ مصر کی موت کے بعد چونکہ حضرت زلیخا تنگ دست و محتاج ہو چکی تھیں اور آنکھوں کی بینائی
بھی چلی گئی تھی تو کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر آپ حضرت یوسف جو کہ اب شاہِ مصر
بھی ہیں، سے اپنا معاملہ ذکر کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ پر رحم کریں اور آپ کی
مدد فرما کر آپ کو غنی کر دیں کیونکہ آپ نے بھی ان کا خیال رکھا تھا اور ان کو عزت
دی تھی۔ اس پر جب کسی نے انہیں یہ کہا: ایسا نہ کیجئے گا! ہو سکتا ہے کہ ان کو آپ کا وہ سلوک یاد آ جائے جب آپ نے
ان پر الزام لگایا تو انہیں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ بھی آپ کے ساتھ
ویسا ہی کریں جیسا آپ کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوا۔ تو فرمانے لگیں: میں ان کی
بردباری اور کرم نوازی کو جانتی ہوں۔ چنانچہ آپ حضرت یوسف کی گزرگاہ میں ایک ٹیلے پر بیٹھ کر ان کا انتظار
کرنے لگیں۔ جب آپ قوم کے تقریباً ایک لاکھ معزز لوگوں اور وزیروں مشیروں کے ساتھ
نکلے اور بی بی زلیخا نے حضرت یوسف کی خوشبو
محسوس کی تو آپ کھڑی ہوئیں اور آواز دی: پاکی ہے اس کے لئے جس نے معصیت کے سبب
بادشاہ کو غلام اور اطاعت کے سبب غلام کو بادشاہ بنا دیا۔ آپ نے پوچھا: تم کون ہو؟ عرض کی: میں وہی ہوں جو آپ کی خدمت
خود کرتی تھی، آپ کے بالوں میں اپنے ہاتھ
سے کنگھی کرتی تھی، آپ کے رہنے کی جگہ کی
خود صفائی کرتی تھی۔ مجھے میرے کئے کی سزا مل چکی، میری قوت ختم ہو گئی، میرا مال ضائع ہو گیا، میری آنکھوں کی روشنی ختم ہو گئی اور میں لوگوں سے سوال کرنے پر مجبور ہو گئی ہوں ۔
پہلے مصر کے لوگ میری نعمت کو دیکھ کر رشک کرتے تھے اور اب میں اس سے محروم ہو چکی
ہوں کیونکہ فساد کرنے والوں کی یہی سزا ہے ۔ یہ سن کر حضرت یوسف بہت زیادہ روئے اور حضرت زلیخا سے
فرمایا: کیا تیرے دل میں میری محبت میں سے
کچھ باقی ہے؟ آپ نے عرض کی: جی ہاں! اس کی قسم جس نے حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا! مجھے آپ کی طرف دیکھنا
زمین بھر سونا چاندی ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ آپ وہاں سے چلے گئے اور حضرت زلیخا کی طرف پیغام بھیجا: اگر تمہاری رضامندی ہو تو ہم تم سے نکاح کر لیں
اور اگر تم شادی شدہ ہو تو تمہیں غنی کر دیں؟ آپ نے حضرت یوسف کے پیغام لانے
والے سے کہا: میں جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے
مذاق کر رہے ہیں کیونکہ میری جوانی اور حسن و جمال کے وقت تو انہوں نے میری طرف
توجہ نہیں دی اور اب جب کہ میں
بوڑھی، اندھی اور فقیر ہوں تو وہ مجھے
کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ بہرحال حضرت یوسف علیہ السّلام نے ان سے نکاح کر لیا اور ان کے پاس آئے، پھر نماز
پڑھی اور اللہ پاک سے اس کے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا کی تو اللہ پاک نے حضرت زلیخا
رحمۃُ
اللہِ علیہا کا حسن و جمال، بصارت اور جوانی لوٹا دی۔ نکاح کے وقت آپ باکرہ
تھیں اور آپ سےاَفراثیم بن یوسف اور منشا بن یوسف پیدا ہوئے۔ حضرت یوسف اور حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا نے اسلام میں بڑی خوشگوار زندگی
گزاری حتّٰی کہ موت نے آپ دونوں کے درمیان جدائی ڈالی۔(7)
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1] روح
البیان، 4/231 2 پردے کے بارے میں سوال جواب،
ص337 3 مکاشفۃ
القلوب،ص 72 4 مکاشفۃ
القلوب،ص 72 5 تفسیر
صراط الجنان، 4/ 575 6 پردے
کے بارے میں سوال جواب، ص 321 7 دین و
دنیا کی انوکھی باتیں، 1/249
از: ام سلمہ عطاریہ
مدنیہ ملیر کراچی
جب
یومُ الحرّہ کے موقع پر اہلِ مدینہ شہید کئے جا رہے تھے تو شہیدوں میں سیدہ زینب
بنتِ ابو سلمہ رضی اللہُ عنہما کے دو بیٹے
بھی شامل تھے، جب ان کی لاشیں آپ کے سامنے لائی گئیں تو آپ نے صبر و تحمل سے کام
لیا اور بالکل بھی واویلا نہ کیا۔([1])
مصیبت
کے وقت عموماً عورتیں بے صبری سے کام لیتی ہیں۔ حالانکہ ہماری بزرگ خواتین نے سخت
مشکل حالات میں بھی ہمیشہ مثالی صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ ہر حال میں
اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی خوشنودی کو پیشِ نظر رکھتیں اور ان
کی ناراضی کا سبب بننے والے کاموں سے بچتیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ دنیا فانی اور جنت کی نعمتیں ابدی (یعنی ہمیشہ رہنے والی)
ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف اپنے رشتے داروں اور بچوں کے انتقال پر صبر کیا، بلکہ
کوئی حرفِ شکایت بھی زبان پر نہ لائیں۔ مگر افسوس! فی زمانہ اکثر عورتیں قریبی
عزیز کے فوت ہو جانے پر زمانۂ جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرتی اور شکوے شکایات کرتی
دکھائی دیتی ہیں اور بسا اوقات تو یہ سب دکھلاوہ ہوتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ
انہیں کوئی غم نہیں۔ نیز کبھی بےصبری کے سبب کفریہ کلمات تک بَک دئیے جاتے ہیں ۔
الامان والحفیظ۔
بلاشبہ
قریبی رشتہ داروں خصوصاً اپنے بچوں کی موت پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے، مگر یہ ناممکن نہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں صبر کیا
جائے اور خصوصاً زبان کو قابو میں رکھا
جائے کہ بے صبری کرنے سے صبر کا اجر تو ضائع ہو سکتا ہے مگر مرنے والا پلٹ کر نہیں
آسکتا۔(2) یہ بھی خیال رہے! نوحہ یعنی میّت کے اوصاف اور خوبیاں مبالغہ
کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کر کے آواز سے رونا، جس کو بَین بھی کہتے ہیں بالاجماع
حرام ہے۔ یونہی واویلا، گریبان پھاڑنا، منہ نوچنا، بال کھولنا، سر پر خاک ڈالنا،
سینہ کوٹنا، ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور حرام۔ اسی طرح آواز سے
رونا بھی منع ہے البتہ آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں۔(3)
حضور
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:آنکھ کے آنسو اور دل کے غم کے سبب اللہ پاک عذاب نہیں فرماتا۔ بلکہ (زبان
کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ) اس کے سبب عذاب یا رحم فرماتا ہے اور گھر والوں کے
رونے کی وجہ سے میّت پر عذاب ہوتا ہے۔(4) یعنی جبکہ اس
نے وصیّت کی ہو یا وہاں رونے کا رواج ہو اور اس نے منع نہ کیا ہو، واللہ اعلم۔ یا
یہ مراد ہے کہ ان کے رونے سے اسے تکلیف ہوتی ہے کہ ایک روایت میں ہے: اے اﷲ کے بندو! اپنے مردے کو تکلیف نہ دو، جب تم رونے لگتے ہو وہ بھی روتا ہے۔(5) ہمیں چاہئے کہ ایسے مواقع پر خود بھی صبر و ہمت سے
کام لیں، دیگر گھر والوں کو بھی صبر کرنے اور میت کو تکلیف نہ دینے کی ترغیب
دلائیں اور زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرکے میت کو نفع پہنچائیں۔ موت تو یقیناً
برحق ہے اور ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے جانا ہی ہے اس لئے اپنی موت کو بھی ہرگز
فراموش نہ کریں اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کے ذریعے قبر و آخرت کی تیاری
کرتی رہیں۔ نیز ابھی سے اپنا یہ ذہن بنالیں کہ اگر میرے جیتے جی گھر میں کسی کی فوتگی ہوگئی تو ان شاء اللہ میں رضائے الٰہی پر راضی
رہتے ہوئے صبر کروں گی۔(6)اللہ پاک ہمیں صبر کرنے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]الاستیعاب،
4/ 411 2کفریہ
کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص492 3بہار
شریعت حصہ4، ص 203 4بخاری،
1/ 441، حدیث: 1304 5معجم
کبیر، 25/ 10 ، حدیث: 1 6صحابیات
و صالحات اور صبر، ص 37
از: بنت
اسحاق مدنیہ عطاریہ (بی ایڈ، ایم اے اسلامیات)
ریجن ذمہ دار جامعات المدینہ گرلز حاصل پور
فرمانِ
مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: كُلْ
مِمَّا يَلِيكَ یعنی کھانا اس طرف سے کھاؤ جو تمہارے
قریب ہو۔([1]) پر عمل کرتے
ہوئے روٹی اس طرح نہ کھائی جائے کہ درمیانی حصہ کھا کر کنارے چھوڑ دیں،
روٹی ہمیشہ ہاتھ سے توڑیں اور چھری وغیرہ سے نہ کاٹیں کہ حضور نے ایسا کرنے سے منع
فرمایا ہے۔(2) روٹی کے چار ٹکڑے کرنا ضروری نہیں مگر کر لیا تو حرج بھی
نہیں کہ بزرگوں کا طریقہ ہے۔ نیز بائیں ہاتھ میں لے کر دائیں ہاتھ سے نوالہ توڑنا
دفعِ تکبر یعنی تکبر دور کرنے کیلئے ہے۔(3) ایک ہاتھ سے روٹی توڑ کر کھانا مغروروں کا طریقہ ہے، ہاتھ بڑھا کر تھال یا سالن کے برتن کے عین بیچ میں اوپر کر کے
روٹی توڑنے کی عادت بنائیے اس طرح اجزا کھانے ہی میں گریں گے ورنہ دستر خوان پر گر کر ضائع ہو سکتے ہیں۔(4)
روٹی کا احترام:
آج کل رزق کی بے قدری اور بے حرمتی سے کون سا
گھر خالی ہے! بنگلے میں رہنے والے ارب پتی سے لے کر جھونپڑی میں رہنے والا مزدور
تک اس بے احتیاطی کا شکار نظر آتا ہے، بالخصوص خوشی و غمی کی تقریب کے موقع پر
کثیر کھانا ضائع ہوتا ہے، حالانکہ کھانے
کا ادب و احترام ہمارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا
ہے۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: ایک مرتبہ نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لائے تو روٹی کا ٹکڑا پڑا دیکھا تو اسے اٹھا کر پونچھا اور
کھا لیا پھر ارشاد فرمایا: عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ
کر نہیں آئی۔(5)
آج دنیا بھر میں جہاں لاکھوں افراد غذا کی قلت کا شکار ہیں،
وہیں افسوس! گھروں اور بالخصوص شادیوں وغیرہ میں ٹنوں کے حساب سے
کھانا برباد ہو جاتا ہے، لہٰذا ضروری ہے
کہ ہم اپنے پاس موجود خوراک کا صحیح استعمال کریں۔ چنانچہ باسی روٹی غذائیت کے
اعتبار سے تازہ روٹی سے زیادہ صحت بخش تصور کی جاتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یہ
روٹی تناول فرمانا ثابت بھی ہے، جیسا کہ حضرت ام ہانی رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے گھر تشریف لائے تو میں نے آپ کے
طلب فرمانے پر سوکھی ہوئی روٹی اور سرکہ پیش کیا جو آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خوشی
سے تناول فرمایا۔(6) چنانچہ اگر کبھی کسی بھی وجہ سے روٹیاں بچ جائیں
تو انہیں ہرگز نہ پھینکیں کیونکہ روٹی سخت ہوتی ہے، خراب نہیں ہوتی، ہاں پھپھوندی
لگ جائے تو خراب ہے ورنہ یہ قابل استعمال ہی ہے۔ یعنی صبح کی روٹی شام کو اور شام
کی صبح کو استعمال کی جا سکتی ہے اور اسے برا بھی نہیں سمجھنا چاہئے، جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے بخوشی سوکھی روٹی تناول فرمائی۔ چنانچہ آپ باسی روٹی کو
ذیل کے طریقوں سے بھی استعمال کے قابل بنا سکتی ہیں:
طریقہ نمبر 1:
روٹی
رول کر کے چھری سے Pieces کر لیں ہلکے ہاتھ سے ان ٹکڑوں
کو الگ الگ کر لیں یہ نوڈلز سے ملتی جلتی شکل میں آ جائیں گے، اسے ایک Bowl
میں ڈال کر دو چمچ دیسی گھی ڈالیں، تھوڑا سا نمک ڈال کر اچھی طرح مکس کریں، اس طرح
روٹیوں میں بھی مؤوسچر آجائے گا۔ ایک بڑے سائز کا آلو پتلا پتلا لمبائی میں کاٹ
لیں، ایک پیاز باریک کاٹ لیں ایک ٹماٹر اور دو سبز مرچ بھی باریک کاٹ لیجیئے۔
فرائی
پین میں ایک چمچ زیرہ، آدھاچمچ سرسوں کے
دانے (اگر میسر ہوں تو)، پانچ عدد کڑی پتے اور ہری مرچ ڈال کر اچھی طرح بھون لیں۔
اب پیاز ڈالیں اور صرف 15 یا 20 سیکنڈ
بھونیں،پھر آلو ڈال کر بھون لیں، دونوں کا
کلر سنہرا ہو جائے تو چاہیں ٹماٹر کے ساتھ
2 چمچ ٹماٹر کیچپ بھی ڈال کر مکس کر دیں۔ پھر آدھا چمچ سرخ مرچ ،گرم مصالحہ
اور تھوڑی سی ہلدی ڈال کر ڈھک دیں، پھر 2 ، 3 منٹ تک پکائیں، ٹماٹر کا پانی خشک ہو
جائے تو مزید اتنا پانی ڈالیں کہ سوکھی روٹیاں گیلی ہو جائیں، پھر روٹیاں ڈال کر
اچھے سے مکس کریں۔ گیلا پن ختم ہو جائے اور روٹیاں نوڈلز کی شکل میں کرسپی
ہو جائیں تو ہرا پیاز یا ہرا دھنیہ ڈال کر کھائیں، یہ لذیذ کھانا تیار ہو جائے گا۔
طریقہ نمبر 2:
روٹی
چار عدد، تیل دو کھانے کے چمچ، الائچی چند دانے، پسی چینی حسب ضرورت۔
ترکیب:
روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیں یا انہیں کسی گرائنڈر میں موٹا موٹا پیس لیں،
پھر کڑاہی میں تیل ڈال کر اس میں الائچی ڈال دیں، کچھ دیر بعد روٹیاں ڈال کر اچھی
طرح تل لیں، ان کا رنگ براؤن ہو جائےتو چینی شامل کر کے دونوں کے یک جاں ہونے تک
پکائیں ۔ مزیدار میٹھی چوری تیار ہے،
ناشتے میں چائے یا دودھ کے ساتھ کھائیں، پراٹھے کا مزہ دے گی۔
طریقہ نمبر 3:
باسی
روٹی چار عدد، چنے کی دال چار کھانے کے چمچ، مونگ، ماش اور مسور کی دالیں دو دو کھانے کے چمچ، لہسن
ادرک پیسٹ دو چائے کے چمچ، بڑی پیاز ایک عدد، ہلدی ڈیڑھ چائے کا چمچ، لال مرچ ایک
چائے کا چمچ یا نمک کی طرح حسب ذائقہ، گرم مصالحہ اور چکن پاؤڈر ڈیڑھ ڈیڑھ چائے کا چمچ۔
بگھار
کے اجزا:
باریک کٹی پیاز ایک عدد، ثابت لال مرچ چار عدد، زیرہ ایک چائے کا چمچ، تیل دو سو
گرام۔
گارنش
کے اجزا:
کٹا ہرا دھنیا دو کھانے کے چمچ، ادرک ایک چھوٹا ٹکڑا، کٹی ہری مرچ دو عدد، لیموں
دو عدد۔
ترکیب:
سب
سے پہلے ایک برتن میں تمام روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے پانی میں بھگو دیں،
اب تمام دالوں کو دھو کر کچھ دیر کے لیے بھگو دیں، پھر ایک برتن میں تمام دالوں کو
پانی کے ساتھ چولھے پر گلنے کے لیے رکھ دیں۔ اُبال آنے پر اس میں لہسن ادرک کا
پیسٹ اور پیاز کے ساتھ ہی تمام مصالحہ جات شامل کریں اور پکنے دیں۔ جب دالیں گل
جائیں اور پانی خشک ہو جائے تو پانی میں
بھیگی ہوئی روٹیوں کو ہاتھوں سے مل کر دالوں میں شامل کر لیں اور تھوڑا سا پانی
مزید شامل کر کے دس سے بیس منٹ تک پکنے دیں۔ جب یہ تیار ہو جائے تو اس میں ہرا
دھنیا، ہری مرچیں اور چکن پاؤڈر شامل کر کے اسے چولہے سے اتار لیں ۔ اب ایک فرائی
پین میں تیل ڈال کر پیاز، زیرہ اور ثابت لال مرچ ڈال کر بگھار تیار کریں۔ پھر ہرا
دھنیا، ہری مرچ، لیموں اور ادرک سے گارنش کریں۔ باسی روٹیوں سے بنی مزیدار ڈش تیار
ہے۔
طریقہ نمبر 4:
روٹی
کو شوربے میں پکا لیں یا شوربے میں توڑ کر بھگو دیں تاکہ وہ اچھی طرح گل جائے، یہ
طریقہ ثرید کہلاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
محبوب ترین کھانا ثرید تھا۔(7)
بازاری کھانوں کے
نقصانات
خوراک
اور صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے، متوازن اور
صحت مند غذا کے انتخاب اور استعمال سے
ہی تا دیر صحت مند اور بھر پور توانا رہنا ممکن ہے لیکن مشینی دور کی مشینی غذاؤں
کا استعمال بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے باعث مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی
ہے۔ فی زمانہ گھریلو روٹی کی جگہ بازاری چیزوں مثلاً نان، تندوری روٹی و چپاتی، شیر مال، کلچہ،
تافتان، شوارما ، پوری، گھی میں تر بہ تر پراٹھے، برگر اور پیزے وغیرہ کو ترجیح دی
جاتی ہے۔ جہاں اس کی وجہ لذت ہے وہیں ہماری بہو بیٹیوں کی سستی اور کاہلی بھی اس
کا سبب ہے۔ کیونکہ بعض گھرانوں میں کھانا بنانا بہت مشکل اور بازاری کھانوں کو
اچھا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے کھانے حد درجہ نقصان دہ ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ
ہم اپنی بچیوں کی تربیت میں امور خانہ داری ، بالخصوص کچن اور اس سے متعلقہ امور
کو نہ صرف شامل کریں بلکہ ان میں مہارت پیدا کریں تاکہ شادی کے بعد ان کی سستی اور
کاہلی ان کے آڑے نہ آئے بلکہ وہ ایک اچھی بہو ،اچھی بیوی اور اچھی ماں ثابت ہوں،
ان کی وجہ سے گھر امن کا گہوارہ بنے۔ ان کو اچھا بہترین خوش ذائقہ اور صحت سے بھر
پور کھانا پکانا سکھائیں تاکہ گھر کا کوئی
فرد بھی بازاری کھانوں کا رخ ہی نہ کرے۔ کیونکہ جب کھانا گھر میں بنے گا تو یقینی
بات ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی ہر چیز صاف ستھری اور خالص ہو گی اور کوئی بھی
مضرِ صحت شے شامل نہ ہو گی۔ جبکہ فوڈ اسٹریٹ اور ریسٹورنٹ میں تیار شدہ کھانے
بظاہر خوشبودار اور لذت سے بھرپور ہوتے ہیں لیکن انتہائی نقصان دہ بھی ہیں۔ کیونکہ
یہ کھانے اکثر خوب گرم تیل میں تیار کیے جاتے ہیں اور طبّی تحقیق کے مطابق تیل کو
جب خوب گرم کیا جاتا ہے تو اس میں ناخوشگوار اور نقصان دہ مادے پیدا ہو جاتے ہیں،
تلنے کے لیے ڈالی جانے والی چیز بھی نمی چھوڑتی ہے جس کے سبب تیل بھی شور مچاتا ہے
جو کہ کھانے کے کیمیائی اجزا کی توڑ پھوڑ کی علامت ہے جس کی وجہ سے غذائی اجزا اور
وِٹامنز تباہ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ،
تلی
ہوئی چیزوں سے پیدا ہونے والی چند
بیماریاں یہ ہیں:
3
وزن کا بڑھنا 3 آنتوں کی
دیواروں کا متاثر ہونا 3اِجابت
(پیٹ کی صفائی) میں گڑ بڑ ہونا 3پیٹ
کا درد 3متلی 3قے یا 3اسہال (یعنی
پانی جیسے دست) 3چربی
کے مقابلے میں تلی ہوئی چیزوں کا استعمال
زیادہ تیزی کے ساتھ خون میں نقصان دہ کولیسٹرول یعنی LDL
بناتا اور مفید کولیسٹرول یعنی HDLکم
کرتا ہے 3خون
میں جمی ہوئی ٹکڑیاں بنتی ہیں3ہاضمہ
خراب ہوتا ہے تو پیٹ میں ہر وقت گیس کی شکایت بھی رہتی ہے 3زیادہ گرم تیل میں ایک زہریلا مادہ ایکرولین پیدا ہو کر آنتوں میں
خراش پیدا کرتا ہے جبکہ ایک اور خطرناک زہریلا مادہ فری ریڈ یکلز بھی دل کے امراض 3
کینسر 3 جوڑوں میں سوزش 3
دماغ کے امراض اور 3جلد
بڑھاپا لانے کا سبب بنتا ہے۔
ڈبل روٹی کے نقصانات:
عام
طور پر لوگ ناشتے میں یا روز مرہ روٹین میں کم وقت ملنے کے سبب ڈبل روٹی کا
استعمال شروع کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ یہ کھانے کے لیے
بہترین اور نرم غذا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ غذائی ماہرین کے مطابق
اسٹارچ اور کاربو ہائیڈرٹیس کی زیادتی کے سبب
ڈبل روٹی کا مسلسل استعمال معدے اور نظام ہاضمہ کے لئے نقصان دہ ہے، اس لئے
کہ ڈبل روٹی میں فائبر اور گندم میں پائی جانے والی غذائیت نہ ہونے کے برابر ہوتی
ہے جس کے نتیجے میں ہم خود یا ہمارے گھر والے متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے
ہیں۔
اللہ
پاک ہمیں گھر میں روٹی بنانے اور گھر کی ہی بنی ہوئی روٹی کھانے کھلانے کی توفیق
عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]بخاری،
3/ 522، حدیث: 5377 2المجروحین،
2/ 390 3فتاویٰ رضویہ، 21/ 669 4کھانے کا اسلامی طریقہ
ص 7 5ابن
ماجہ ،4/ 49، حدیث: 3353 6شمائل ترمذی، ص 109، حدیث: 164 ماخوذا [1]ابو
داود، 3/ 492، حدیث: 3783
از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ
سالگرہ
کی رسم سے پوری دنیا تقریباً متعارف ہے ، یہ رسم اگرچہ غیر مسلموں کی ایجاد ہے، لیکن
اگر جائز طریقے سے منائی جائے تو شریعت میں منع نہیں یعنی کیک وغیرہ بھی کاٹ سکتی ہیں۔ کیونکہ اس موقع پر عموما ً رشتے
داروں کو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جاتا ہے جو ایک طرح سے صلہ رحمی بھی ہے جس پر
ثواب ملے گا۔ یاد رہے! صلہ رحمی کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے اور اس کی فضیلت بھی
بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم ہے: بیشک اللہ پاک صدقہ اور صلہ رحمی
کے سبب عمر میں اضافہ کرتا، بری موت کو دور کرتا اور مکروہ وناپسندیدہ چیزوں سے
بچاتا ہے۔ ([1]) البتہ! اگر اس موقع پر میوزک، گانے باجے بجائے
جائیں وغیرہ تو یہ عمل اس طرح کے حرام کاموں کی وجہ سے ناجائز ہو جائے گا۔
سالگرہ پر کیک کاٹنے کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟
کیک
کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے، مثلاً مصر میں کیک یہاں پر حکومت کرنے والے فراعنہ،
یونانیوں، رومن اور بازنطینیوں یہاں تک کہ مسلمانوں کے دور میں بھی عید کے موقع پر
ہوتا تھا، مگر سالگرہ کے موقع پر کیک کاٹنے کی ابتدا جرمنی سے ہوئی یعنی سب سے
پہلے سالگرہ کا کیک جرمنی میں بنایا گیا تھا، جرمن لوگ اپنے بچوں کی سالگرہ کو کیک
کے ساتھ مناتے تھے، اس جشن کو کنڈر فیسٹ کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ سالگرہ منانے کے طریقے
میں بھی جدّت آتی گئی اور کیک کاٹنے کی روایت کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اور اضافہ
بھی کیا گیا جس میں سالگرہ کے وقت کیک پر موم بتیاں لگائی جانے لگیں اور کیک کاٹتے
وقت ان موم بتیوں کو پھونک مار کر بجھایا جانے لگا۔ بعض کے نزدیک کیک پر موم بتیاں
لگانے کا آغاز قدیم یونان سے ہوا۔ یونانی گول کیک بناتے اور اس پر موم بتیاں لگاتے
تھے اور ایسا وہ اپنی چاند کی دیوی Artemis کے احترام میں
کیا کرتے تھے۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ کیک پر موم بتیاں لگانے کا آغاز بھی جرمنی
سے ہی ہوا جو کہ زندگی میں روشنی کی عکاسی
کرتی ہیں۔ آج کیک پر موم بتیاں جلانا باقاعدہ رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے جسے تقریباً
دنیا کے ہر ملک میں اپنایا جاتا ہے۔ بہرحال سالگرہ کے موقع پر آج کل جو رسومات
دیکھنے میں آ رہی ہیں، ان کا مختصر جائزہ کچھ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:
جائز و ناجائز وغیرہ رسومات: سالگرہ
پر ایسی تقاریب کا اہتمام کرنا جس میں بے پردگی و نامحرم مرد و زن کا اختلاط ہو
جائز نہیں۔سالگرہ پر تحائف دینے کا سلسلہ ہوتا ہے، اگر جائز تحفہ ہے اور رضا مندی سے دیا جا رہا ہے تو درست ہے۔ البتہ! غیر
محرم یعنی کزن دیور جیٹھ وغیرہ کا تحفہ
دینا یا اس کا تحفہ قبول کرنے کی شریعت میں ممانعت ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ
محرم میں یا صفر کے مہینے میں سالگرہ نہیں کر سکتے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ فی زمانہ
سالگرہ کی مبارک باد دینے کیلئے مخصوص کارڈز وغیرہ دئیے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے کے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جس کی سالگرہ ہو اس پر
بد روحیں حملہ کرتی ہیں، لیکن اگر اس کے دوست اس سے ملنے آئیں اور اُسے
دعائیں دیں تو وہ ان حملوں سے محفوظ رہے گا۔ جبکہ بعض کے نزدیک سالگرہ کی موم بتیوں
میں ایک خاص جادو ہوتا ہے جس سے خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ شرعاً ان نظریات
کی کوئی حیثیت نہیں۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
از: بنت عثمان مدنیہ عطاریہ رکن مشاورت جامعات المدینہ گرلز
آنکھیں اللہ پاک کی بہت ہی عظیم اور پیاری نعمت ہیں
ان کی قدر کا اندازہ انہیں زیادہ ہے جنہیں یہ نعمت میسر نہیں ، ہونا تو یہ چاہئے
کہ اس نعمت پر اللہ پاک کا بے انتہا شکر ادا کیا جائے جیسا کہ ہماری بزرگ خواتین کرتی
رہیں، لیکن افسوس! بدقسمتی سے جس طرح خواتین کے متعلق یہ معروف ہے کہ وہ بولنے میں
بےباک ہوتی ہیں اور اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرتیں، اسی طرح دیکھنے میں بھی بے باک ہیں، انہیں احساس تک نہیں
کہ دیکھنا بھی ایک عمل ہے جو ان کے لئے ثواب یا عذاب کا باعث بن سکتا ہے ۔کیونکہ فی
زمانہ ہم میں سے کثیر خواتین جانے انجانے میں اپنی آنکھوں کے غلط استعمال کی وجہ
سے اللہ پاک کی ناراضی کا سبب بن رہی ہیں، اس لئے کہ وہ ان آنکھوں کا استعمال وہاں
کرتی ہیں جہاں استعمال سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے یا پھر بسا اوقات وہ آنکھوں
کا جائز استعمال بھی کرتی ہیں مگر ارادہ و نیت درست نہیں ہوتی۔ یوں ان کی نگاہیں
اللہ پاک کی نافرمانی والے کاموں میں مصروف ہو کر اس کے غضب کو دعوت دیتی ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ آنکھوں کی زیادہ سے
زیادہ حفاظت کی جائے تا کہ ان کے فوائد و برکات دنیا و آخرت میں ہمیں نصیب ہوں۔
یاد رہے! عورتوں کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ وہ کسی
غیر مرد کو نہ دیکھیں، جیسا کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:
ذرا یہ تو بتاؤ کہ عورت کیلئے سب سے بہتر شے کیا
ہے ؟سب خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔ حضرت علی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں گھر گیا اور سیدہ فاطمہ سے جب یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ایک عورت
کے لئے سب سے بہتر شے یہ ہے کہ وہ کسی مرد کو دیکھے نہ کوئی مرد اسے دیکھے۔([1]) مشہور قاری حضرت ابو عمرو دانی رحمۃُ
اللہِ علیہ کے
استاذ حضرت ابو الحسن بن طاہر رحمۃُ اللہِ علیہ
کی صاحبزادی حضرت عروسہ صحراء رحمۃُ اللہِ
علیہا
کے متعلق منقول ہے کہ شادی کی پہلی رات ہی انتقال فرما
گئیں، جس کا سبب یہ بنا کہ شادی سے پہلے آپ ہر وقت اپنے رب کی عبادت میں
مصروف رہتی تھیں، یہاں تک کہ آپ کی توجہ
کسی اور طرف گئی نہ آپ نے کبھی اپنے والد ماجد کے علاوہ کسی اور مرد کو دیکھا،
چنانچہ شادی کی پہلی رات جب آپ کے شوہر نے آپ کا گھونگھٹ اٹھایا اور آپ نے اپنے
سامنے اپنے والد گرامی کے علاوہ کسی اور مرد کو دیکھا تو شرم و حیا سے آپ کے پسینے
چھوٹ گئے، گھبراہٹ اس قدر زیادہ ہو گئی کہ
آنکھوں سے دکھائی دینا بند ہو گیا۔ فوراً اللہ
پاک سے دعا کی: یااللہ!
مجھے اپنے سوا کسی اور کے دیکھنے سے بچا۔ اللہ
پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ اسی وقت جہانِ فانی سے کوچ فرما گئیں۔(2)
معلوم ہوا! اسلامی تاریخ میں ایسی خواتین بھی ہوئی
ہیں جنہوں نے زندگی بھر کسی غیر مرد کو دیکھا نہ کسی غیر مرد نے انہیں دیکھا۔
چونکہ پردے کا اس قدر اہتمام تقویٰ کی انتہائی اعلیٰ صورت ہے اور اس پر عمل کرنا
ہر ایک کے بس میں نہیں، لہٰذا اسلام نے اعتدال کی راہ بھی بتائی ہے یعنی اگر غیر
مردوں کی طرف دیکھنا پڑے تو نگاہیں جھکا کر رکھیں۔ جیسا کہ پارہ 18 سورۂ نور کی 31ویں آیت میں ہے: وَ
قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ ترجمۂ کنز العرفان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ
نیچی رکھیں۔ اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ عورت غیر مرد کو دیکھ سکتی ہے یا نہیں؟ کے جواب میں
فرماتے ہیں: نہ دیکھنے میں عافیت ہی عافیت ہے۔ البتہ دیکھنے میں جواز کی صورت بھی
ہے مگر دیکھنے سے قبل اپنے دل پر خوب خوب اور
خوب غور کر لے کہیں یہ دیکھنا گناہوں کے غار میں نہ دھکیل دے۔ فقہائے کرام جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: عورت کا مردِ اجنبی کی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے جو مرد کا مرد کی
طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وقت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی
طرف نظر کرنے سے شہوت نہیں پیدا ہو گی اور اگر
اس کا شبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے۔(3)
افسوس! صد افسوس! فی زمانہ خواتین آنکھوں کی حفاظت کے
معاملے میں بالکل بے پروا ہو چکی ہیں، جس کا بنیادی سبب ان کا نیکیوں سے، اسلامی
تعلیمات سے اور نیک صحبتوں سے دور ہو جانا
ہے۔ چنانچہ شیطان بڑی آسانی سے ایسی خواتین کو فلموں، ڈراموں وغیرہ کے ذریعے بے
پردگی و بے حیائی کے نزدیک لے جاتا ہے۔ لہٰذا
نگاہوں کی حفاظت کے حوالے سے ہمیں ہمیشہ یہ باتیں پیشِ نظر رکھنا چاہئیں:
نگاہوں
کی حفاظت کے طریقے
1-نگاہوں کی حفاظت کے فضائل و فوائد پر غور کیا جائے
کہ ان کی حفاظت سے اللہ پاک کی رضا و خوشی حاصل ہوتی ہے۔دل و دماغ کو اطمینان،
سکون، راحت تقویت اور چین نصیب ہوتا ہے۔روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہت سی
پریشانیوں مصیبتوں اور غموں سے حفاظت رہتی ہے۔ شیطان خوب ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ عزت و وجاہت اور
مرتبے میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا و آخرت
اچھی ہوتی ہے۔ جنت سے قربت اور جہنم سے
دوری نصیب ہوتی ہے۔ طبیعت میں اعتدال اور
نیکیوں کی طرف رغبت رہتی ہے۔ گناہوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
2-بدنگاہی کے نقصانات اور عذابات کو پیشِ نظر رکھا
جائے۔ مثلاً ہمارے سامنے کوئی نشہ آور چیز رکھ دی جائے اور ہم اس کی تباہ کاریوں
سے واقف بھی ہوں تو یقیناً اس کے قریب بھی نہ جائیں گی۔ بالکل اسی طرح اگر بد
نگاہی کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھیں گی تو ہمارے لئے اِس سے بچنا بھی ممکن ہو گا۔ نیز کوشش ہو گی کہ خود کسی غیر مرد کو دیکھیں نہ
کوئی ایسی صورت اپنائیں کہ ہر غیر مرد کی نگاہ ہماری جانب اٹھے۔ کیونکہ یہ دونوں
صورتیں منع ہیں۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے: اللہ پاک کی
لعنت ہو دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف دیکھا جائے۔(4) مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت
فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جو مرد اجنبی عورت کوقصداً بلا ضرورت دیکھے اس پر بھی
لعنت ہے اور جو عورت قصداً بلا ضرورت اجنبی مرد کو اپنا آپ دکھائے اس پر بھی لعنت۔(5)
3-ایسے واقعات پڑھے جائیں جن میں عبرت یا نگاہ کی
حفاظت پر انعام مذکور ہو کیونکہ تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جن میں مروی
ہے کہ ہماری بزرگ خواتین نے اپنی نگاہوں کی حفاظت کی تو اس کی برکت نہ صرف انہیں
حاصل رہی بلکہ اللہ پاک نے اس کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچایا۔ جیسا کہ شیخ نظامُ
الدِّین ابو المؤیّد رحمۃُ اللہِ علیہ کی والِدہ ماجِدہ کے پاکیزہ دامَن کے دھاگے کے واسطے سے مانگی گئی دعا کی
برکت سے فوری بارش برسنے لگی۔ (6)
4-اچھی صحبت اختیار کی جائے کہ اس کی برکت سے بری
صفات زائل ہو جاتی ہیں۔اللہ پاک ہمیں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنے کی سعادت عطا
فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]البحر الزخار،2/
159، حدیث : 526 2جامع کرامات
اولیا، 2/249 3پردے کے بارے میں
سوال جواب، ص 24 4شعب الایمان للبیہقی،
6/162 ، حدیث: 7788 5مراۃ المناجیح، 5/24
6اخبار الاخیار ،ص294
از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ
اللہ پاک کے غضب کو دعوت دینے والا ايك کام بد
نگاہی بھی ہے، یہ گناہ کثیر دینی و دنیوی
نقصانات کا سبب ہے، اگرچہ اس میں وقتی لذت ہے لیکن اس سے طلب مزید بڑھتی ہے اور
کبھی بھی سیری حاصل نہیں ہوتی۔ خواہ کتنی ہی بدنگاہی کر لی جائے دل بے چین رہتا ہے اور قیامت کے دن کی ذلت و
رسوائی اس کے علاوہ ہے۔ اسلام میں مردوں اور عورتوں دونوں کو بد نگاہی سے بچنے کا حکم
دیا گیا ہے تاکہ شیطان انہیں کسی قسم کے فتنے میں مبتلا نہ کر سکے۔ جیسا کہ حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے:خود کو بد
نگاہی سے بچاؤ کہ بد نگاہی دل میں شہوت کا بیج بوتی ہے، پھر شہوت بد نگاہی کرنے
والے کو فتنہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔([1])اور اس فتنے کے متعلق امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جو اپنی آنکھ کی حفاظت پر قادر نہ ہو وہ
اپنی شرم گاہ کی حفاظت پر بھی قادر نہیں۔ (2)یاد رہے! ایک
روایت میں ہے کہ اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ یعنی آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں۔(3) جبکہ ایک روایت
میں آنکھوں کے زنا کی وضاحت یہ کی گئی ہے: زِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ یعنی آنکھوں کا زنا بدنگاہی ہے۔(4) چنانچہ مسلمان خواتین کو پارہ 18 سورۂ نور کی 31ویں آیت میں حکم دیا گیا کہ بد
نگاہی کریں نہ بد نگاہی کا ذریعہ بنیں۔
بدنگاہی سے بچنے کا طریقہ:
1-عورتوں کے لئے بہتر تو یہ
ہے کہ ہمیشہ پردے میں رہیں کہ کوئی انہیں دیکھے نہ یہ کسی کو دیکھیں، اس حوالے سے
امہات المومنین کا وہ واقعہ ذہن بنانے کے لئے کافی ہے کہ جس میں حضرت ام سلمہ رضی اللہُ عنہا فرماتی
ہیں: ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہُ عنہا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس تھیں
کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے
تو حضور نے ہمیں پردہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس پر میں نے عرض کی: حضور! وہ
نابینا ہیں ہمیں نہیں دیکھ سکتے۔ تو حضور نے ارشاد فرمایا: کیا تم بھی اندھی ہو
اور دیکھ نہیں سکتیں۔(5)
2-فی زمانہ فتنوں سے بچنا چونکہ انتہائی مشکل ہے، لہٰذا اگر ہر وقت اس طرح اپنی نگاہوں کی حفاظت نہیں کر
سکتیں کہ کوئی نا محرم مرد آپ کو دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں تو کم از کم اتنا ہی کر لیجئے کہ اپنی نگاہیں ہمیشہ
جھکا کر رکھئے اور انہیں آوارگی سے بچائیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے دانستہ و
نادانستہ آپ کی نگاہیں کسی کے جسم کے ان حصوں پر پڑ جائیں جنہیں دیکھنا آپ کے لئے
جائز نہ ہو۔ جیسا کہ امام رازی فرماتے ہیں: عورت ہو یا مرد اس کے جسم کا وہ حصہ جو
کسی بھی عورت کو دیکھنا جائز نہیں، اس سے مراد ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ہے،
جبکہ باقی جسم دیکھ تو سکتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو، اگر
فتنے کا اندیشہ ہو تو یہ بھی ممنوع ہے۔(6)
3-بدنگاہی کا ذریعہ بھی نہ بنیں، یعنی ایسے چمکیلے بھڑکیلے لباس نہ پہنیں
جس سے مردوں کی نظریں ان کی طرف اٹھیں اور یوں وہ
خود بھی گناہوں میں مبتلا ہوں اور اس وجہ سے ہمیں بھی دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ پاک ہمیں بد نگاہی سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]منہاج العابدین، ص 62 2احیاء العلوم، 3/ 125 3مسند امام احمد، 2/84، حدیث: 3912 4بخاری، 4/169، حدیث:6243 5ترمذی،4/ 356، حدیث: 2787 6تفسیر رازی، 8/361
از: بنت اکرم
عطاریہ ایم اے اردو، گلشن معمار ،کراچی
آج
جو کچھ زبیدہ بیگم نے اپنی بہن کے منہ سے سنا تھا، اس کی انہیں قطعی امید نہ تھی۔ اپنے تئیں وہ پر یقین تھیں کہ ان کی
بہن ان کی امید نہ توڑے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ رہ رہ کر دماغ میں وہ الفاظ
گردش کر رہے تھے جو ان کی بہن نے کہے تھے کہ میں کیسے زہرا کو اپنے بیٹے کے ساتھ
بیاہ لاؤں! وہ اب یتیم ہو چکی ہے، جہیز میں کیا لائے گی؟ میں چار لوگوں کو کیا دکھاؤں
گی؟ میرے بیٹے کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، گھر اور سسرال میں بس پس کر رہ جائے گا۔
یہ
الفاظ زبیدہ بیگم کے لئے گویا زہریلے نشتر تھے، کیونکہ ان الفاظ نے انہیں سرتاپا
جھنجوڑا ہی نہیں بلکہ ماضی کی کئی تلخ باتیں بھی انہیں یاد کروا دیں، تقریباً یہی
الفاظ انہوں نے چند سال قبل اپنے شوہر کی بھتیجی کے لئے استعمال کئے تھے، جب ان کے
شوہر نے اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کے بارے میں بات کی تھی۔
آہ!
وقت نے کس قدر جلد پلٹا کھایا تھا، آج وہ خود بیوہ ہو چکی تھیں اور ان کی بیٹی کے
سر پر بھی والد کا سایہ نہ رہا تھا، زبیدہ بیگم آج خود احتسابی کی کیفیت کا شکار
تھیں اور خود اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بنے کھڑی تھیں، جو کچھ انہوں نے دوسروں
کی بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا سب کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا کہ کیسے وہ
آئے دن بڑی شان سے اپنے بیٹے کے لئے رشتے دیکھنے جایا کرتیں اور کبھی کسی لڑکی کو
قد کے چھوٹی ہونے کی وجہ سے تو کسی کو جسامت میں موٹی ہونے کی وجہ سے خاطر میں نہ
لاتیں، کبھی کسی کی ناک اور دانت انہیں پسند نہ آتے تو کبھی کسی کی چال اور رنگت اچھی
نہ لگتی، کبھی کسی کی فیملی کے بڑا ہونے پر اعتراض کرتیں تو کبھی کسی کے کم پڑھا
لکھا ہونے کی وجہ سے انکار کر دیتیں۔ غریب
لڑکیوں بالخصوص جن کے سر پر والد کا سایہ نہ ہوتا انہیں محض اس وجہ سے دیکھنا بھی
پسند نہ کرتیں کہ وہ جہیز کم لائیں گی۔ ایسی نجانے کتنی ہی باتیں انہیں آہستہ
آہستہ یاد آ رہی تھی جن کی وجہ سے وہ اب تک من پسند بہو ڈھونڈ نہ پائی تھیں۔
آج
زبیدہ بیگم کو ان سب ماؤں کے دکھ کا اندازہ ہو رہا تھا، جب چوٹ ان کے دل پر لگی
اور ان کی بیٹی کا رشتہ لینے سے انکار کیا گیا ، جو کچھ انہوں نے دوسروں کی بچیوں
کے ساتھ کیا آج خود ویسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہوا تو غلطی کا احساس پیدا ہوا،
فوراً اپنے رب کے حضور معافی کی خواستگار ہوئیں اور اپنی غلطی کو سدھارنے کے لئے
ایک عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کیونکہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ جیسی کرنی ویسی
بھرنی کے مصداق وہ دوسروں کے ساتھ اچھا کریں گی تو یقیناً انہیں بھی اس کا اچھا
صلہ ملے گا۔
زہرہ
نے اپنی ماں کو یوں کہیں جانے کے لئے چادر اوڑھتے دیکھا تو حیرانی سے پوچھا: امی!
خیریت ہے! کہاں جا رہی ہیں؟ بولیں: تمہاری چچی کے گھر تمہارے بھائی کے لئے سعدیہ
کا رشتہ لینے جا رہی ہوں۔ انہوں نے جب یہ بتایا تو زہرہ پہلے تو اپنی والدہ کی اس
کایا پلٹ پر بڑی حیران ہوئی پھر بولی: کیا چچی جان مان جائیں گی۔ تو زبیدہ خاتون
بولیں: ہاں مجھے یقین ہے وہ مان ہی جائیں گی۔ اِن شاءَ اللہ ۔
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین
ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
از: بنت نظر احمد وانی کشمیر
ماں اللہ
پاک کی ایک ایسی نعمت ہے جسے اس نے انسان کی اولین تربیت و نگہداشت کا بہترین ذریعہ
بنایا ہے، انسانوں میں ماں کا کوئی نعمُ البدل ہے نہ رشتوں میں ماں جیسا کوئی رشتہ
ہے، ہمدردی میں ماں سے بڑھ کر کوئی کردار ہے نہ ماں کے دل اور آنکھ جیسا کوئی دل
اور آنکھ کہ دنیا کے ناگوار ترین شخص کو اگر کوئی گوارا کر سکتا ہے تو وہ
ماں کا دل ہے اور اسی دنیا کی بدترین صورت
کو خوبصورت دیکھ سکتی ہے تو وہ ماں کی آنکھ ہے۔
بلاشبہ
تاریخ کے صفحات اولاد کی خاطر ماں کی دی گئی بے مثل قربانیوں کے تذکرے سے بھرے
ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اور دنیا کے سارے لوگ ماں کو بہت زیادہ احترام کے قابل سمجھتے ہیں۔
بچے
پر ماں کے شفقت کرنے اور تکالیف جھیلنے کا آغاز اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتا
ہے اور پھر پیدائش کے وقت اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رکتا، وہ اس کی دیکھ
بھال کرتے کرتے اگرچہ خود بنجر ہوجائے مگر اسے زرخیز بنا دیتی ہے۔ اپنی خواہشوں
اور خوشیوں کا گلا گھونٹ کر بھی اسے خوش دیکھنا چاہتی ہے، اولاد کے لئے اس کے لہجے
میں مٹھاس، کردار میں شفقت، آغوش میں دنیا بھر کی راحت اور قدموں تلے جنت ہے۔
بعض
رشتے ایسے ہیں جن کی عظمت کو پورے طور پر لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے انہی میں سے
ایک ماں کا رشتہ بھی ہے۔ واقعی ماں بہت سی خوبیوں کی جامع ہے۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
دنیائے
فانی میں انسانی ہمدردی کا حامل، فلاحی و معاشرتی لحاظ سے صفوں میں سب سے آگے
نمائندگی کرنے والامذہب ، دینِ حق”مذہب اسلام“ ہے۔قدرتِ الٰہی نے دینِ اسلام کے دھاگے میں فرائض و عبادات کی
ایسی ایسی موتی کو پرویا ہے جس پر عمل کرکے
بندہ نہ صرف قربِ خدا کو حاصل کرسکتا ہے بلکہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور فلاحی
کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو بھی بہترین بناسکتا ہے۔
جی
ہاں!
اس تمہید سے ہم جس عبادت کی طرف اشارہ کرنا چارہے ہیں اس سے ہماری مراد ماہِ ”ذوالحجۃ
الحرام “ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو ہونے والی جانوروں کی قربانی
کے بارے میں ہےجو ہر مسلمان بالغ مرد و عورت مالک نصاب (مالدار) پر واجب ہے۔ان
تین دنوں میں قربانی کے ذریعے حاصل ہونے والے ثواب کو سال کے کسی بھی دن کسی بھی
وسائل سے کمایا نہیں جاسکتا۔ان دنوں افضل یہی ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں
جانوروں کی قربانی پیش کی جائے۔ اس قربانی کے ذریعے نہ صرف ثواب کا ذخیرہ ہاتھ آتا
ہے بلکہ لوگوں کو معاشی و معاشرتی اعتبار سے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن کا ذکر ہم
اس مضمون میں بیان کریں گےاس کے علاوہ قربانی کے وجوب اور فضیلت پر قرآن و حدیث سے دلیل بھی پیش کی جائے گی۔چنانچہ
قرآن کی روشنی میں قربانی کا
وجوب:
اللہ
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ(۲) ترجمہ کنزالایمان: تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ (سورۃ
الکوثر، آیۃ2)
قربانی کی فضیلت پر احادیث مبارکہ:
فرمان مصطفٰے ﷺ:
(1)جس نے خوش دلی سے طالبِ ثواب ہو کر قربانی کی ،تووہ آتش جہنم سے حِجاب(یعنی روک)ہو جائے گی۔(المعجم الکبیر، ج3، ص84، حدیث 2736)
(2) اے فاطمہ ! اپنی قربانی کے پاس
موجودرہو کیونکہ اِس کے خون کا پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف کر دیئے
جائیں گے۔ (السنن
الکبری للبیہقی، ج9، ص476، حدیث19161)
قربانی کے معاشی فوائد
قربانی
عبادت کے ساتھ ساتھ لاکھوں لاکھ افراد کو کاروبار کا ذریعہ بھی فراہم کرتا ہے اور ملکی معیشت کو بھی اربوں روپے کافائدہ پہنچاتا ہےجس کی چند
مثالیں ملاحظہ کیجئے:
٭ قربانی
کے لئے بہت سے لوگ اپنے گھروں، باڑوں یا کیٹل فارمز Kettle farms
میں جانور پالتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کے لئے ملازمین رکھے جاتے ہیں ٭کسان جانوروں کے چارے کے لئے کھیتی باڑی کرتا
ہے ٭اگر جانور بیمار ہوجائے تو علاج کے لئے ڈاکٹر زسے مدد لی جاتی ہے ٭جانور بیچنے والے اسے بیچنے کے لئے منڈی
لانےتک اور خریدار جانور کو اپنے گھر لے جانے
کے لئے گاڑیوں کو کرایے پر لیتے ہیں ٭جانور
کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانے کے لئے راستے میں حکومت کو ٹول ٹیکس ادا کیا جاتا
ہے ٭منڈی میں جانور رکھنے کے لئے جگہیں
کرائے پر لی جاتی ہیں ٭جانوروں کی
حفاظت کے لئے ٹینٹ اور دیگر لوازمات کا کرایہ ادا کیا جاتا ہے ٭منڈی آنے والے افراد کے لئے منڈی میں مختلف
کھانے پینے کے اسٹال لگائے جاتے ہیں ٭منڈی
میں بچے اور بزرگ گھوم گھوم کر ماسک بیچ رہے ہوتے ہیں
٭جانوروں کو سجانے کے لئے
سجاوٹ کا سامان خریدا جاتا ہے ٭چھری،
چاقو تیز کرنے والوں کے کاموں میں تیزی آجاتی ہے ٭چھری،
چاقو کی خرید و فروخت بڑھ جاتی ہے ٭قصابوں
کو بھی تلاش کیا جارہا ہوتا ہے٭قربانی
کے بعد گوشت کو پکانے کے لئے مصالحہ جات کا استعمال ٭قربانی
کے بعد لیدر انڈسٹری Leather
industry جانوروں کے کھالوں کی منتظرہوتی ہے٭قربانی
کی کھالوں سے دینی مدارس اور فلاحی اداروں کو مالی مدد ملتی ہے۔
اس کے
علاوہ اور بہت سے ایسے کاروبار ہیں جو عین
قربانی کے دنوں میں عروج پر ہوتے ہیں جن
کے ذریعے مالدارو ں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر
غریبوں اور مزدوروں کو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے۔
قربانی کے معاشرتی فوائد
قربانی
سے جہاں ثواب کا ذخیرہ ہاتھ آتاہے اور مالی مسائل حل ہوتے ہیں ، وہیں معاشرتی
ماحول میں بھی درستگی آتی ہے۔قربانی ہمیں بھائی چارگی اور اخوت کا پیغام بھی دیتی
ہےجیسے ٭قربانی کے جانور کی حفاظت میں
دوست احباب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ٭قربانی
کے وقت خاندان کے چندلوگ ، دوست احباب اکٹھے ہوکر جانور کو نحر (ذبح) کرنے
میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ٭جانور
ذبح ہونے کے بعد کلیجی پکتی ہے جو گھر میں آئے مہمان ساتھ مل کر کھاتے ہیں ٭بعض مقامات پر پکی ہوئی کلیجی اپنے پڑوسیوں کو
بھی بھیجواتے ہیں جس سے ان کے دلوں میں خوشی پیدا ہوتی ہے ٭قربانی کے بعد گوشت بانٹنے کا سلسلہ ہوتا ہے جو
ایک رشتہ دار کو دوسرے رشتہ دار سے، ایک امیر کو ایک غریب سے ملانے کا سبب ہے
کیونکہ بعض دفعہ مصروفیات کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے کئی کئی دن بلکہ کئی کئی
مہینوں تک نہیں مل پاتے ٭رشتہ داروں
میں ایک دوسرے کو دعوتیں دی جارہی ہوتی ہیں ٭قربانی
کا گوشت ایسے غریبوں کے گھر بھی پہنچ رہا ہوتا ہے جو بیچارے پورے سال گوشت کھانے
سے محروم رہتے ہیں اور گوشت دینے والا ان کی دعائیں لے رہا ہوتا ہے۔
الغرض
قربانی معاشرے کے افراد میں ایک دوسرے کے لئے الفت و چاہت اور ادب و احترام پیدا
کرنے، معاملات کو مشترکہ طور پر انجام دینے ، ایک دوسرے کے ساتھ تعان کرنے، ایک
دوسرے کو تحائف دینے اور صلہ رحمی کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے معاشرے پر مثبت
اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی الفت اور باہمی تعلقات سے معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔
اللہ
پاک! ہمیں قربانی کرتے وقت تمام حقوق کا خیال رکھنے اور عزیر و اقارب کے ساتھ الفت
و محبت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Dawateislami