از: بنت اکرم
عطاریہ ایم اے اردو، گلشن معمار ،کراچی
آج
جو کچھ زبیدہ بیگم نے اپنی بہن کے منہ سے سنا تھا، اس کی انہیں قطعی امید نہ تھی۔ اپنے تئیں وہ پر یقین تھیں کہ ان کی
بہن ان کی امید نہ توڑے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ رہ رہ کر دماغ میں وہ الفاظ
گردش کر رہے تھے جو ان کی بہن نے کہے تھے کہ میں کیسے زہرا کو اپنے بیٹے کے ساتھ
بیاہ لاؤں! وہ اب یتیم ہو چکی ہے، جہیز میں کیا لائے گی؟ میں چار لوگوں کو کیا دکھاؤں
گی؟ میرے بیٹے کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، گھر اور سسرال میں بس پس کر رہ جائے گا۔
یہ
الفاظ زبیدہ بیگم کے لئے گویا زہریلے نشتر تھے، کیونکہ ان الفاظ نے انہیں سرتاپا
جھنجوڑا ہی نہیں بلکہ ماضی کی کئی تلخ باتیں بھی انہیں یاد کروا دیں، تقریباً یہی
الفاظ انہوں نے چند سال قبل اپنے شوہر کی بھتیجی کے لئے استعمال کئے تھے، جب ان کے
شوہر نے اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کے بارے میں بات کی تھی۔
آہ!
وقت نے کس قدر جلد پلٹا کھایا تھا، آج وہ خود بیوہ ہو چکی تھیں اور ان کی بیٹی کے
سر پر بھی والد کا سایہ نہ رہا تھا، زبیدہ بیگم آج خود احتسابی کی کیفیت کا شکار
تھیں اور خود اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بنے کھڑی تھیں، جو کچھ انہوں نے دوسروں
کی بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا سب کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا کہ کیسے وہ
آئے دن بڑی شان سے اپنے بیٹے کے لئے رشتے دیکھنے جایا کرتیں اور کبھی کسی لڑکی کو
قد کے چھوٹی ہونے کی وجہ سے تو کسی کو جسامت میں موٹی ہونے کی وجہ سے خاطر میں نہ
لاتیں، کبھی کسی کی ناک اور دانت انہیں پسند نہ آتے تو کبھی کسی کی چال اور رنگت اچھی
نہ لگتی، کبھی کسی کی فیملی کے بڑا ہونے پر اعتراض کرتیں تو کبھی کسی کے کم پڑھا
لکھا ہونے کی وجہ سے انکار کر دیتیں۔ غریب
لڑکیوں بالخصوص جن کے سر پر والد کا سایہ نہ ہوتا انہیں محض اس وجہ سے دیکھنا بھی
پسند نہ کرتیں کہ وہ جہیز کم لائیں گی۔ ایسی نجانے کتنی ہی باتیں انہیں آہستہ
آہستہ یاد آ رہی تھی جن کی وجہ سے وہ اب تک من پسند بہو ڈھونڈ نہ پائی تھیں۔
آج
زبیدہ بیگم کو ان سب ماؤں کے دکھ کا اندازہ ہو رہا تھا، جب چوٹ ان کے دل پر لگی
اور ان کی بیٹی کا رشتہ لینے سے انکار کیا گیا ، جو کچھ انہوں نے دوسروں کی بچیوں
کے ساتھ کیا آج خود ویسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہوا تو غلطی کا احساس پیدا ہوا،
فوراً اپنے رب کے حضور معافی کی خواستگار ہوئیں اور اپنی غلطی کو سدھارنے کے لئے
ایک عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کیونکہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ جیسی کرنی ویسی
بھرنی کے مصداق وہ دوسروں کے ساتھ اچھا کریں گی تو یقیناً انہیں بھی اس کا اچھا
صلہ ملے گا۔
زہرہ
نے اپنی ماں کو یوں کہیں جانے کے لئے چادر اوڑھتے دیکھا تو حیرانی سے پوچھا: امی!
خیریت ہے! کہاں جا رہی ہیں؟ بولیں: تمہاری چچی کے گھر تمہارے بھائی کے لئے سعدیہ
کا رشتہ لینے جا رہی ہوں۔ انہوں نے جب یہ بتایا تو زہرہ پہلے تو اپنی والدہ کی اس
کایا پلٹ پر بڑی حیران ہوئی پھر بولی: کیا چچی جان مان جائیں گی۔ تو زبیدہ خاتون
بولیں: ہاں مجھے یقین ہے وہ مان ہی جائیں گی۔ اِن شاءَ اللہ ۔
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین
ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)